الحاد کو سمجھنے کی غرض سے ہم اسے کئی قسموں میں بانٹ سکتے ہیں، جیسا کہ علمی الحاد ، نفسانی الحاد ، نفسیاتی الحاد، معاشرتی الحاد، وغیرہ۔
علمی الحاد بہت ہی نادر ہے کہ جس میں کسی شخص کو علمی طور پر خدا کے وجود کے بارے میں شکوک وشبہات لاحق ہوجائیں۔ اور یہ لوگ دنیا میں گنے چنے ہیں جیسا کہ فلاسفہ اور نظریاتی سائنسدانوں کی جماعت۔ خدا کے بارے میں علمی وسوسہ پیدا ہونا تو عام ہے ، جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ صحابہؓ کو بھی وسوسہ پیدا ہوجاتاتھا اور اس وسوسے کے پیدا ہونے کو اللہ کے رسولﷺ نے عین ایمان قرار دیا ہے۔ (سنن ابی داؤد،ابواب النوم، باب رد الوسوسۃ، المکتبۃ العصریۃ صیدا، بیروت 4/329)۔ لیکن دل میں شک کا گھر کرجانا تو یہ ایمان کے منافی ہے اور یہ عین الحاد ہے اور یہ بہت کم لوگوں کو ہوتاہے۔ کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس کا سارا شرف اسی کو جاتا ہے کہ جو اس خلجان آمیز شک کی آگ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے سبب پر کچھ روشنی ہم آگے چل کر ڈالیں گے۔
نفسانی sensual الحاد ہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پر موجود ہے کہ جس میں ایک شخص کو خدا کے وجود کے بارے میں شکوک وشبہات علمی طور پر تو لاحق نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنی خواہش نفس کے سبب خدا کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتاہے ۔ اس قسم کا ملحد عموماً اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہا ہوتاہے اور اپنی خواہش کو علم سمجھ رہا ہوتاہے۔ دیسی ملحدوں کی بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ خواہش پرست انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں موجود ہر رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتاہے، لہٰذا جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا ، مذہب او رآخرت کے تصورات اس کی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں کہ اس کا ضمیر اسے کچوکے لگا لگا کر تنگ کرتارہتاہے تو وہ ضمیر کی اس ملامت سے بچنے کے لیے اپنے زبانی لعن طعن سے اپنے شعور کو اس بات پر قائل کرنے کی ناکام کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کوئی خدا، سچا مذہب اور آخرت موجود نہیں ہے۔
نفسیاتی الحاد وہ ہے کہ جس کا سبب انسان کے نفسیاتی مسائل ہوں۔ ہمارے ایک دوست نے الحاد اور دہریت کی طرف مائل ہونے والے لوگوں سے یہ جاننے کی لیے انٹرویوز کیے کہ وہ کس وجہ سے دہریت کی طرف مائل ہوئے۔ اس سروے کے مطابق الحاد کی طرف مائل ہونے کا ایک بڑا سبب مذہبی لوگوں کے غلط رویے بھی ہیں کہ جن کے رد عمل میں بعض لوگ ملحد بن جاتے ہیں ۔
علمی الحاد کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے فلسفہ، چاہے فلسفہ برائے فلسفہ ہو یا “فلاسفی آف سائنس” ہو، قدیم دور اور قرون وسطٰی middle ages میں الحاد کا سب سے بڑا سبب فلسفہ و منطق تھا، لہٰذا اُس دور میں فلسفہ ومنطق کا رد وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔ عصر حاضر میں الحاد کا سب سے بڑا سبب نظریاتی سائنس ہے۔لہٰذا اس دور میں فلسفے کا رد بے معنی اور “فلاسفی آف سائنس” کا رد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اسٹیون ہاکنگ، رچرڈ ڈاکنز اور کارل ساگاں کے دور میں کانٹ اور نطشے کو جواب دینا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ ہم ذرا اس پر غور کرلیں کہ ہمارے اردگرد کتنے ملحد ایسے ہیں جو ہمیں ارسطو کی منطق یا کانٹ کی عقل محض سے دلیل دیتے نظر آتے ہیں؟ دو چار بھی نہیں ۔ آج کے ملحد وہ ہیں جن کی کل دلیل بگ بینگ یا ارتقاء وغیرہ کے نظریات ہیں۔ آج اگر ایک ارب سے زائد کسی کتاب کے نسخے فروخت ہوتے ہیں تو وہ اسٹیون ہاکنگ کی کتاب ہے کہ جو اپنی آخری کتاب The Grand Design کے مقدمے میں یہ اعلانِ عام کرچکا ہے کہ فلسفہ مرچکا ہے اور اب ہم سائنسدانوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔ (The Grand Design: p.10)
الحاد کے رد کے بارے میں ایک بات تو یہ ہے کہ الحاد اصلاً ہماری تہذیب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب سے درآمد شدہ ہے ، لہٰذا الحاد کا رد مسلم تہذیبوں میں کوئی مستقل کام نہیں بلکہ ایک عارضی اور وقتی ضرورت ہے۔ آپ کوکوئی دیسی ملحد ایسا نہیں ملے گا کہ جس پر مغرب کا ٹھپہ نہ ہو۔ یہ لوگ اپنی سوچ سے ملحد نہیں بنے بلکہ الحاد ان میں باہر سے انڈیلا گیاہے، چاہے فلاسفی آف سائنس کے مباحث کے مطالعے کے راستے، چاہے انگریزی ادب کے مطالعے کے راستے، چاہے ہالی وڈ کی فلموں اور موویوں کے راستے، چاہے فلسفہ اور سائنس کی درسی کتابوں کے ذریعے، چاہے معاشرے میں موجود الحاد سے متاثر افراد سے میل جول کے راستے، وغیرہ۔
ہمیں ذہنی اور نفسانی الحاد کا نفسیاتی تجزیہ بھی کرنا چاہیے۔ ذہنی الحاد کا نفسیاتی جائزہ لیں تو اس بات کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کثرت سے فلسفیانہ مباحث کا مطالعہ ہے۔ انسان کی ذہنی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اگر سارا دن مرغیوں کے بارے میں پڑھے گا تو خواب میں بھی اس کو مرغیاں ہی نظرآئیں گی۔ تو اگر ایک شخص تسلسل سے خدا کے وجود کے بارے میں شکوک وشبہات پر مبنی لٹریچر کا مطالعہ کرے گا یا ٹیلی ویژن سیریز دیکھے گا تو اسے بیداری تو کیا، خواب میں بھی اعتراضات ہی سوجھیں گے۔ تو الحاد انسان کا فطری مسئلہ کبھی بھی نہیں رہا ہے، نہ علمی الحاد اور نہ نفسانی ، سب خارجی اسباب کی وجہ سے ہے۔ آپ اس سبب کو تلاش کرکے دور کردیں، الحاد ختم ہوجائے گا۔عموماً یہ کہا جاتاہے ہ وجود اور علم کے بارے میں سوالات کا سبب انسان کا فطری تجسس ہے۔ یہ تجسس بھی بڑا سمجھدار ہے کہ انہی کو پیدا ہوا کہ جو فلسفیانہ مباحث کا مطالعہ کرچکے اور فلسفیانہ مجالس میں زندگی کا ایک حصہ گزار چکے تھے، یہ کسی ڈھورڈنگر چرانے والے دیہاتی کو پیدا نہیں ہوا۔ ایک خاص فلسفیانہ ماحول میں رہنے کے بعد آپ پر جب اس کے اثرات ظاہر ہوں اور آپ کچھ سوالات پر سوچنا شروع کردیں تو آپ اسے فطرت قرار دے دیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
قرآن مجید الحاد کو علم کے مقابلے میں ظن وتخمین سے زیادہ مقام نہیں دیتا اور فلاسفی کل کی کل ظن وتخمین ہی ہے۔ کیا”فلاسفی آف سائنس” ظن وتخمین نہیں ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔” وَقَالُوا مَاھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنیَا نَمُوتُ وَنَحیَا وَمَا یُھلِکُنَاَ اِلَّا الدَّھرُ ، وَمَالَھُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ، اِن ھُم اِلَّا یَظُنُّونَ۔ ترجمہ:”اور ان کا کہنا یہ ہے کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہی ہے، ہم زندہ ہوتے ہیں اور مرتے ہیں اورہمیں تو زمانہ ہی مارتا ہے، حالانکہ انہیں اس بارے کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف ظن وتخمین سے کام لیتے ہیں۔” (24الجاثیہ)
پھر الحاد کے رد اور اس کے علاج میں بھی فرق ہے۔ الحاد کے رد سے لوگ مسلمان نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ملحدوں کا شر کم ہوجاتاہے۔ الحاد کے علاج سے مراد یہ ہے کہ ہمارا مقصد ملحدوں کے لاجواب کرنے کی بجائے دین کی طرف راغب کرنا ہے اور علاج میں عقلی ومنطقی دلیلیں کم ہی مفید ہوتی ہیں ۔ الحاد کا اصل علاج قلبی اور اخلاقی ہے کہ جو نبیوں اور رسولوں کا طریق کار تھا، یعنی صحبت صالحین یا قرآن مجید کی صحبت اختیار کرنا، وغیرہ۔ قرآن مجید کی صحبت سے مراد قرآن مجید سے تعلق کا وہ درجہ کہ جس کے اہل کو حدیث میں “صاحبِ قرآن ” کہا گیاہے۔ یا ملحدوں کو اعلیٰ اخلاق سے قائل کرنا، وغیرہ۔
الہامی کتابوں اور رسولوں کی دعوت میں الحاد کے علاج کا طریقہ کار عقلی ومنطقی نہیں بلکہ فطری وقلبی ہے۔ ہماری رائے میں اصولی بات یہی ہے کہ دل پہلے اپنے رب کی طرف جھکتاہے، ذہن بعد میں اس سے اطمینان حاصل کرتاہے ۔ دل کے جھکنے کے بعد آپ کا ذہن خدا کے انکار کی دلیل کو اس کے وجود کی دلیل بنا کر دکھادے گا۔ ذہن کا کیا ہے، وہ تو کرائے کا ٹٹو ہے، کسی طرف بھی چل پڑے تو اس کے دلائل سمجھنا تو کجا ان کے انبار لگانا شروع کردیتاہے۔ اگر محض عقل ومنطق سے کسی کو خدا سمجھ میں آتا تو آدھے سے زیادہ فلسفی مسلمان ہوتے، لیکن نصف تو کجا ہمیں تو پچھلی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ فلسفہ میں دو چار بھی نہیں ملتے۔ الہامی کتابوں اور رسولوں کا خدا تک پہنچانے کا طریقہ بہت مختلف ہے، اور وہ یہ ہے کہ خدا باہر سے تمہارے ذہن میں نہیں ڈالا جاسکتا، بلکہ تمہارے اندر سے اُگلوایا جائے گا، اور یہ سب صحبت سے ہی نصیب ہوتاہے۔ اور جو لوگ معاشرے ، مدرسے، مذہبی عناصر کے غلط رویوں کے ردِّعمل میں ملحد بن جاتے ہیں تو ان کا علاج اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان سے دوستی کریں، انہیں دلاسہ دیں، ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں، اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کریں، اور انہیں یہ واضح کریں کہ اسلام اور مسلمان میں بہت فرق ہے۔ اگر کچھ لوگ مذہبی حلیہ اختیار کر کے کسی ناروا حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی فعل ہے اور اس کا سبب ان کا مذہب ہرگز نہیں ہے۔
الحاد کا سبب بعض اوقات آزمائش بھی بتلایا جاتاہے۔ ایک خاتون پر کوئی آزمائش آئی جو کہ چار سال جاری رہی اور وہ اس دوران اللہ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرتی رہیں اور جب وہ آزمائش ختم نہ ہوئی تو انہوں نے بالآخر خدا کا ہی انکار کردیا اور ملحدہ بن گئیں۔ پس جو لوگ کسی آزمائش کے سبب الحاد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تو انہیں یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ خدا کے انکار سے تمہاری آزمائش ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اور اگر اس آزمائش کے ختم کرنے میں ہم سے کوئی تعاون بن پڑے تو لازماً کرنا چاہیے کہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ ملحدین کی دنیاوی مدد کی صورت میں خدا سے ان کا شکوہ وشکایت جاتی رہی اور وہ دوبارہ ایمان لے آئے۔ اس میں یہ بھی اہم ہے کہ عموماً آزمائش میں دعا نہ سننے کا الزام دے کر خدا کا انکار کرکے انسان بظاہر تو ملحد بن جاتاہے لیکن اس کا دل اندر سے خدا کا قائل ہی رہتاہے کہ اس کے انکار کی بنیاد یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ خدا منصف اور عادل نہیں ہے۔ تو وہ خدا کا انکار نہیں بلکہ اس خدا کا انکار کررہا ہوتاہے کہ جو اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اور جو خدا اس کے ذہن میں ہوتاہے، وہ اس کی اپنی شخصیت کا عکس ہوتا ہے کہ جسے وہ خدا سمجھ لیتاہے۔ خدا دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جس کو انسان کو پیدا کیا ہے اور دوسرا وہ کہ جسے انسان نے بنایاہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اور جس خدا کو انسان اپنے تخیل اور تصور میں پیدا کرتاہے، وہ دراصل اس کی اپنی شخصیت کا عکس ہوتاہے۔ (Alif Shafak , The Forty Rules of Love, USA: Penguin Books Ltd, 2010, p.27)
لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس خدا کو مانیں کہ جس کا بیان کتاب وسنت میں موجود ہے، نہ کہ وہ جو کہ ہمارے تخیل اور تصور کی پیداوار ہے۔
راقم کی ایک ایسے ملحد سے بھی بحث ہوئی جو کہ دارالعلوم کے فارغ التحصیل ہیں۔ ہم عموماً ایسے ملحدین کے اعتراضات کو علمی سمجھ کر انہیں علمی جواب دینا شروع کردیتے ہیں جبکہ اس بارے میں سب سے پہلا کام جو ہونا چاہیے وہ یہ کہ اس ملحد سے دوستی کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کے مدرسے کی زندگی میں اس کے ساتھ کوئی جسمانی یا جنسی تشدد تو نہیں ہوا؟ مذہبی لوگ اس قسم کے اسباب پر کوئی بات کرنے سے اس لیے بھی گھبراتے ہیں کہ مذہبیوں کی بدنامی ہوگی۔ نہیں، یہ مذہبیوں کی بدنامی نہیں بلکہ اصلاح ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے کسی نے کہا کہ حضرت داڑھی والوں نے چوریاں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ یوں نہ کہو بلکہ یوں کہو کہ چوروں نے داڑھی رکھ لی ہے۔ لہٰذا اگر کچھ بدفطرت لوگوں نے مذہبی بھیس اوڑھ لیا ہے تو ان کی نشاندہی مذہب پر نقد نہیں بلکہ مذہب کی خیرخواہی ہے۔
کچھ دن پہلے انجینئرنگ کے ایک طالب علم میرے پاس آئے اور بات کا آغاز اس طرح سے کیا کہ سر، میں مذہبی ہوں، میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، میں نے مسجد میں چار سال اذان دی ہے، میں اب بھی مسجد سے ظہر کی نماز پڑھ کر آرہاہوں، لیکن مجھے کائنات کے بارے میں جاننے کا شوق ہوا تو میں نے “کوسموس” کے نام سے ایک ٹی وی سیریز دیکھی کہ جس نے خدا کے بارے میں کچھ تشویش میرے ذہن میں پیدا کردی ہے۔ (کوسموس” ایک ملحد سائنس دان کارل ساگاں کی تیار کردہ ایک ٹی وی سیریز ہے کہ جس میں کائنات کے آغاز سے لے کر آج تک کے بارے میں نظریاتی سائنس اور سائنس کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ )
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض اوقات ایک مخلص مؤمن بھی خدا کے بارے میں کسی شیطانی وسوسے کے سبب یا کسی ملحد کی مغالطہ آمیز گفتگو کے وجہ سے تشویش کا شکار ہوسکتاہے۔ اس بارے میں ہمیں کچھ بہت ہی بنیادی باتیں کرنی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کا خالق ہونا انسان کی فطرت میں خود خدا نے رکھ دیاہے۔( وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُورِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ ، اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ، قَالُوْابَلٰی، شَھِدْنَا، اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّاکُنَّا عَنْ ھٰذَاغٰفِلِیْنَ(173)(الاعراف) لہٰذا خدا کے بارے میں شبہہ پیدا ہونا آسانی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے شیطان اور ملحد کو بہت زیادہ اور مسلسل محنت درکار ہے۔ زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ ایک مخلص مؤمن اپنے مسئلے کا صحیح تجزیہ نہیں کرپاتا کہ جس تشویش کو وہ خدا کے بارے میں شک سمجھ رہاہوتاہے وہی دراصل اس کا ایمان ہوتاہے۔
مثلاً بعض اوقات کائنات اور کوسمولوجی کے بارے میں سائنسدانوں کے نظریات پڑھ سن کر یہ تشویش لاحق ہوسکتی ہے کہ اس بارے میں مذہب اور قرآن مجید جو کچھ بیان کررہا ہے، سائنس کا علم تو اس کی تائید نہیں کررہا ہے۔ اب یہ بے چینی اس وجہ سے پیدا نہیں ہوتی کہ خدا کے وجود کے بارے میں شک ہوگیا ہے بلکہ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ یہ سمجھ نہیں آرہی ہوتی ہے کہ مذہب اور سائنس،کوسمولوجی کے حاضر علم اور قرآن مجید میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے؟ اس کی تشویش کا سبب مذہب اور سائنس میں مطابقت پیدا کرنے کی خواہش رکھنا لیکن اس کی اہلیت نہ ہونا ہے، نہ کہ یہ کہ مؤمن کا دل ملحد کے دلائل سے اطمینان حاصل کررہاہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئی کہ جس شخص کو خدا کے بارے میں کوئی تشویش لاحق ہوتو وہ پہلے اپنی تشویش کی نوعیت کا گہرائی میں تجزیہ کرے اور پھر علاج کی طرف متوجہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ خدا پرایمان انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر موجود ہے۔ (حدیث:انّ اباھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ : مامن مولود الایولد علی الفطرۃ ، فابواہ یھودانہ، وینصرانہ، او یمجّسانہ، کما تنتج البھیمۃ جمعاء، ھل تحسّون فیھامن جدعاء ثم یقول ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ: فطرت اللہ الّتی فطر النّاس علیھا، لاتبدیل لخلق اللہ، ذٰلِک الدّین القیّم (الروم 30) صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب اذ اسلم الصبی فمات 2/95۔)
لہٰذا اس میں شک پیدا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ملحد کی حکمت عملی پر غور کریں کہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو شک میں مبتلا کرنے کے لیے ایک دنیا بناتے ہیں، خیالاتی دنیا(imaginary world)۔ جب آپ ان کی اس تصوراتی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں کہ جس کے بننے، بگڑنے اور قائم رہنے کے تمام اصول وضوابط بھی انہی کے ہوتے ہیں تو یہ دنیا بظاہر خوبصورت لیکن جھوٹی ہوتی ہے۔ آپ اس دنیا سے مسلسل تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کا یقین کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ دنیا صرف آپ کے ذہن میں ہوتی ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یہ کمال سب سے پہلے قدیم دور میں سوفسطائیوں نے دکھایا، پھر قرونِ وسطیٰ میں وجودیوں نے اور اب عصرحاضر میں ملحد دکھا رہے ہیں۔
ہوتایہ ہے کہ جب آپ الحاد اور دہریت پر مسلسل کتابیں پڑھتے ہیں یا ٹیلی ویژن سیریز دیکھتے ہیں تو آپ اس دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہاں سے ہی آپ کی تشویش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس تشویش کا آسان اور ابتدائی علاج یہی ہے کہ سب سے پہلے الحاد اور دہریت کا مسلسل مطالعہ یا شب وروز ان کی ٹیلی ویژن سیریز دیکھنا ترک کریں اور حقیقی دنیا میں واپس آنا شروع کریں۔ آپ چاہے اس دوران مذہب کا مطالعہ نہ بھی کریں، صرف آپ دہریت کا مطالعہ یا اس کی سیریز دیکھنا بند کردیں تو چند دنوں میں آپ بھلے چنگے ہوجائیں گے، کیونکہ آپ ان کی بنائی ہوئی جھوٹی دنیا سے باہر نکل آئیں گے جو انہوں نے صرف اپنی چرب زبانی اور قوتِ فعالیت کے غیر معمولی استعمال سے آپ کے خیالات میں پیدا کررکھی ہے، لہٰذا آپ کی توجہ بٹی نہیں، آپ ان کے سحر سے نکل گئے اور ان کی بنائی ہوئی دنیا بھی غائب ہوگئی۔ انسان کس طرح جانتے بوجھتے جھوٹ کو بھی حقیقت سمجھ کر قبول کرنا شروع کردیتاہے، اس کا تھوڑا سا اندازہ کسی ایسے جھولے میں بیٹھ کر ہوسکتاہے کہ جو آپ کو حرکت کرنے والی کرسی ، سامنے لگے پردہ اسکرین اور ساؤنڈ سسٹم کی مدد سے پانچ منٹ میں دیوار چین اور چاند کی سیر کرالاتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ الحاد اور دہریت کوئی علمی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اس کا علمی جواب تلاش کرنے لگ پڑیں۔ خدا کا اس سے بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے اپنے وجود کی دلیل میرے اندر رکھ کر مجھے دنیا میں بھیجا ہے۔ خدا پر ایمان کوئی تصور تھوڑا ہی ہے کہ جسے ہم اپنے منطقی دلائل یا جامع ومانع تعریفوں سے مکمل کرلیں۔ خدا کو پالینا تو ایک واقعہ ہے جو کسی بھی وقت ہوسکتاہے۔ تو خدا کے بارے میں تشویش کا مؤثر ترین علاج خدا کا کلام ہے۔خدا کے وجود کی دلیل بھی وجودی، حالی اور شعوری ہوتی ہے نہ کہ عقلی ومنطقی اور فکری۔ ہم کسی تشویش کے لاحق ہونے کی صورت میں تفسیریں پڑھنے کا مشورہ نہیں دے رہے بلکہ یہ کہ فراغت کے لمحات میں، تنہائی میں ، اکیلے میں ، مکمل خاموشی میں، کسی مکی سورت کے دو چار رکوعوں کا لفظی ترجمہ اردو میں پڑھیں، اور پھر وہی سورت خوبصورت لب ولہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کسی عربی قاری کی آواز میں اونچی آواز میں سنیں، آپ مخلص ہیں تو خدا کو پالینے کے لیے ایک دفعہ ہی ایسا کرلینا کافی ہے۔ اب آپ کو خدا کے وجود کے لیے کسی عقلی ومنطقی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو خدا کے وجود کی دلیل بن کر گررہے ہیں اور آپ کادل خدا کی محبت میں لپک رہاہے۔( وَاِذَاسَمِعُوا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّاعَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ، یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ(83المائدۃ )
(جاری ہے)
تحریر ڈاکٹر زبیر
محمد شرید (sharid)
December 18, 2019 at 8:08 amانتہاٸی علمی اور عقلی اورعملی تحریر ہے۔اس نے میری ذہنی تربیت کردی ہے۔ جزاك اللهُ
Hafiz Noorkamil
January 12, 2020 at 7:57 amکافی اچھی تحریر ہے۔ اللہ اسے قبول کرے۔
Mirza Osman Baig
April 15, 2020 at 5:08 pmماشاءاللہ ،تجربات کی روشنی میں کافی معقول اسباب کی طرف رہنمائی فرمائ ہے، اللہم زد فزد۔
تصدق حسین شاہ
May 13, 2020 at 2:13 pmاعلی اور عمدہ تحریر ہے۔۔ ایڈمن آپ لا جواب کام کر رہے ہیں اللہ کریم آپکی مدد فرمائے۔۔ کیا مجھے ایڈمن میرے ای میل پر رابطہ کر سکتے ہیں ؟ مجھے کچھ راہنمائی درکار ہے
تصدق حسین شاہ
May 20, 2020 at 11:47 amماشا ءاللہ بہت عمدہ اور مدلل تحریر ہے