جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے اس میں ایک صلاحیت پائی جاتی ہے جس کو ہم شک و شبہ، حیرت یا سوال کرنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ایک بڑے ہجوم میں جس کی تعداد کم و بیش 7 ارب سے بھی زیادہ ہے اور ہر انسان کے پاس اپنا دماغ، اپنی سوچنے کی صلاحیت موجود ہے، یہ کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا انسان عقل و فہم میں بہتر اور خیر والا ہے، اور کون سا انسان عقل و فہم میں برائی والا یا شر والا ہے؟ یہاں پر لازم آئے گا کہ اختلاف جنم لے۔ لیکن یہ اختلاف ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جو عقل و فہم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، اور خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش میں لوگوں کے سامنے ایسے سوالات رکھتا ہے جس کا کوئی سر ہو نہ پاؤں تو آپ کبھی بھی اس شخص کو کسی نتیجہ پر نہیں پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
ملحد آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر ’’اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘؟ تو انسان کو ’’ آنکھیں‘‘ سامنے کی جانب کیوں عطا کیں؟ ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے کیوں نہ عطا کیں؟ تاکہ وہ آ گے اور پیچھے دونوں جانب دیکھ سکتا؟ اب اہل منطق یہ سوال اٹھائیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ انسان کا آگے والا حصہ کون سا ہے اور پیچھے والا حصہ کون سا؟ پھر یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر انسان کی ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے ہوگی تو لازم بات ہے کہ انسان کے ناک کا ایک سوراخ بھی پیچھے ہونا چاہیے تھا؟ تا کہ وہ جس طرف سے بھی کسی بدبو دار چیز کو دیکھتا تو اس کی طرف اسی سمت میں متوجہ ہوتاَ؟ پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ لازم آتا ہے کہ ’’انسان کے آگے اور پیچھے 2 منہ بھی ہونے چاہیے تھے؟‘‘ تاکہ وہ اپنی خوراک کو جس طرف کی آنکھ سے بھی دیکھتا اسی طرف سے اس کے خیر و شر یعنی وہ خوراک اس کے کھانے کے لیے درست ہے یا نہیں سمجھ کر کھانا دونوں جانب سے کھا سکتا؟ پھر یہ سوال بھی تو کیا جا سکتا ہے؟ گردن کیوں دی گئی؟ کیا صرف کھانا نگل لینے کے لیے دی گئی؟ نہیں بلکہ اس کو اردگرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے حرکت کی طاقت عطا کی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک کان کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بھی دو آنکھیں دی جاتیں تا کہ گردن کی حرکت کی حجت و علت ختم ہو جاتی۔ اور انسان کی یہ محتاجی ختم ہو جاتی؟
نوٹ: آپ اندازہ کریں کہ ملحد کے ایک سوال نے کیسے کیسے سوالات کو جنم دیا۔ اور پھر تصوراتی طور پر اگر ان سوالات کو حقیقی تجزیہ سے عمل میں لایا جائے تو سوچیں کہ انسان اگر مندرجہ بالا خصوصیات کا مالک ہوتا تو کتنا بےڈھنگا اور بد صورت تصور ہوتا۔ ملحد اس بات کے قطع نظر کہ انسانی آنکھیں 180 ڈگری میں اپنے سامنے کی طرف سے دیکھ سکتی ہیں اور گردن کے مڑنے سے انسان اپنے اردگرد 180 ڈگری اینگل کے وژن سے دیکھ سکتا ہے۔ انسان کا ’’نظام انہضام، نظام دماغ، نظام پیشاب‘‘ فطری طور پر آنکھوں والی جانب اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکے۔ پیٹ کا درد، گردوں کا درد، دل کا درد سب کچھ سامنے کی طرف ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ ہندؤں کے بگھوان کی مورتی کو دیکھیں جس کے 6 منہ یا 4 ہاتھ ہیں؟ کیا وہ ایک کامل تخلیق ہے؟ یا ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو مورتی خدا ہونے کا دعویٰ کرتی ہو وہ اتنی بد صورت ہواور اس میں اتنی قدرت موجود نہ ہو کہ وہ دو ہاتھوں، ایک منہ، اور دو ٹانگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر کام کو بجا لائے؟ کیا خدا بدصورت بھی ہوتا ہے؟ معاذ اللہ، کیا دنیا میں ایسے انسان نہیں پائے جاتے جن کو ایک دکھائی دینے والی چیز اچھی اور دوسروں کو بری لگتی ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہ بات مانتا ہے کہ انسان ایک حادثاتی کرشمہ ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس قدر پیچیدہ انتظام کسی خالق کے بنائے بغیر تخلیق پا ہی نہیں سکتا۔
اہل مذہب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو اعتراض آپ نے اہل مذہب اور خدا کے ماننے والوں پر کیا اسی کا اطلاق ہم آپ پر کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بے شمار تبدیلیاں اپنے اندر دیکھیں. آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی شعور ان تبدیلیوں پر قابو نہ پا سکا؟ یعنی ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا محتاج نہ رہتا؟ اور اپنی مرضی سے اپنے جسم کو ڈھال لیتا؟ اور جو سوال آج کے جدت پسند انسان کے ذہن میں پائے جا رہے ہیں وہی سوالوں کا حل انسانیت کے لیے خود پیش کرتا؟ ملحدین اس کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکتے۔ حتیٰ کے قیامت آ جائے گی لیکن یہ لوگ شکوک و شبہات کی ایسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور موت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔
یعنی سوالات کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جائے جس سے نفس مسئلہ کی خوب اکھاڑ بچھاڑ ہو، اور ہر سوال سے کئی نقطے اور پہلو کھلتے چلے جائیں۔ پیچیدہ در پیچیدہ علم اس شخص کے حصے میں آئے جو دوسری جانب فریق مخالف کے پاس موجود نہ ہو۔ یہ وہ طریق کار ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے، اور اس نے دہریت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قارئین کرام! اگر انسان واقعی میں ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا حامل ہے تو آگ اس ماحول کا حصہ ہے، کیا وجہ ہے کہ ہندو ہزاروں سالوں سے انسان کو جلا رہے ہیں اور انسان جلتا جا رہا ہے؟ اگر واقعی جینیاتی تبدیلیاں انسان کی جسمانی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں، اور ابتدائی طور پر مادہ نے انسان کی پہلی حالت ہونے کا شرف حاصل کیا ہے اور ماحول سے چھپکلی، پھر ڈائینو سارس ، پھر بڑے دیوقامت بن مانس اور پھر بندروں کی شکل اختیار کر کے موجودہ انسانی شکل تک پہنچا ہے؟ تو لازم طور پر ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقت کی رفتار انسان کو ایسا کرنے سے روک رہی ہے ورنہ ان تبدیلیوں پر اربوں سال نہ لگتے۔ ہم ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ انسان کو دوڑنے سے سانس کیوں چڑھ جاتا ہے کیا یہ خامی نہیں؟ یا پھر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انسانی آنکھ بھی تو اسی ماحول کی عطا کردہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے نیچے یا سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے سے قاصر ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوال کر دیا جائے کہ انسان یا مادہ کی میل اور فی میل سیکس کیوں تشکیل پائے؟ کیا وجہ ہے کہ جو ملحدین انسانیت کا نام لے لے کر عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کی بات کرتے ہیں، یہ ماحول انسان کو صرف مرد رہنے دیتا یا پھر صرف عورت یعنی فی میل، آج کی یہ ہل چل جس میں عورت کے حقوق کے نام پر عورت کو جگہ جگہ ذلیل کیا جاتا ہے وہ نہ ہوتی؟ کیا آپ یہ بات سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد پیدا ہوتے اور مرد ہی میں بچہ جننے کی طاقت ہوتی تو جنگوں میں لڑنے والے حاملہ مردوں کو تلواروں، گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے جب قتل کیا جاتا تو کتنے مرد اولاد سے محروم ہو جاتے؟ کیا ملحد بتا سکتے ہیں کہ مردوں کو کیا کہا جاتا؟ ماں یا باپ؟ ملحدین اگر بیس سوال کر سکتے ہیں تو یقین مانیں کہ ان کے خلاف بیس ہزار سوال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے دماغ کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔
ملحد کا کوئی سوال آپ کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جبکہ مذہب آپ کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا دیتا ہے۔ مثلاً: ملحدین آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے نبی محمد ﷺ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں (معاذاللہ )، تاریخ میں کسی محمد ﷺ کا یا عیسی علیہ السلام کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو اہل مذہب جواب دیں گے کہ اللہ کے انبیاء کو دیکھنے والی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ محمد ﷺ کو دیکھنے والے ایک لاکھ سے زائد مسلمان صحابہ رضی اللہ عنھم موجود تھے، جن سے ان کے لاکھوں تابعین اور تبع تابعین نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبی بنایا۔ ان کے خاندانوں اور ان کا سلسلہ نسب موجود ہے۔ آج بھی ان کی اولادیں موجود ہیں۔ جن سے تاریخ کی ضمانت لی جاتی ہے.جبکہ ملحدین کے پاس اپنی تاریخ کا کوئی بھی پہلو محفوظ نہیں۔ وہ نہیں بتا سکتے کہ انسان نے سب سے پہلے کیا الفاظ بولے ؟ وہ نہیں بتا سکتے کہ ان الفاظ کو سننے والے کتنے تھے؟ یا تھے بھی یا نہیں؟ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ان میں کتنے میل اور کتنے فی میل تھے؟ انہوں نے علم کی ترسیل کس طرح کی، کوئی حتمی جواب موجود نہیں؟ سب سے پہلے جس انسان نے لباس پہنا اس کا کیا نام تھا؟ سب سے پہلے جس انسان نے آگ جلائی وہ کون تھا؟ یا کس انسان نے کس انسان کا نام رکھا؟
نوٹ : یہ موازنہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے خیر و شر کو سمجھنے کی ایک مثال ہے۔ یعنی کوئی بھی ملحد جو دین کو نہیں مانتا وہ آپ کو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن مذاہب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور دین اسلام نے مسلمانوں کو جن نتائج سے آگاہ کر دیا ہے اس کی مثال کسی مذہب میں موجود نہیں۔ مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے تقدیر یعنی پلان مرتب کیا۔ پھر کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کی۔ پہلا انسان آدم تھا، وہ ایک مرد تھا، اس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کے ذریعے شیطان اور شیطان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ پھر ان کو جنت میں رکھا گیا۔ جنت میں اللہ نے ان کو ایک ابتلاء یا آزمائش میں مبتلا کیا۔ آدم سب سے پہلے بولے۔ آدم علیہ السلام کو علم دیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو کثیر اولاد حوا علیھا السلام کے ذریعے عطا کی گئی۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو زمین میں موجود تین رنگوں کی مٹی سے پیدا کیا گیا۔ یعنی سرخ، سیاہ اور سفید ۔ آدم علیہ السلام سے اب تک کے لوگ سب اسی ابتلاء میں مبتلا ہیں۔ موت اس لیے دی جاتی ہے کہ انسان کے اعمال کا محاسبہ آخرت میں دیا جا سکے۔ قیامت قائم ہو۔ سب سے پہلی موت آدم کی اولاد کو ہی آئی۔ سب سے پہلے آدم کی اولاد ہی کو دفنایا گیا۔ انسان کو اس امتحان کا نصاب دیا گیا۔ وہ دین اسلام ہے۔ انسان کو اسی پر عمل پیرا ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ ہے وہ نتیجہ جس تک دین رہنمائی کرتا ہے۔
ملحد یہ سوال بھی کرتا ہے کہ انسان کو آگ میں کیوں ڈالا جائے گا، اگر آگ ہی میں ڈالنا تھا تو پیدا کیوں کیا۔ جبکہ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو وہ یہ سوال تب کرتے ہیں جب انہوں نے دین کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ آزمائش کو پس پشت ڈال دیا ہوتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی ملحد کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔ ملحد آپ سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ نے عورت کے حیض کو پلید قرار دیا ہے، وہ عورت کو اس کے بغیر بھی تو پیدا کر سکتا تھا جبکہ یہی سوال ہم ماحول کو خدا ماننے والوں سے کر سکتے ہیں کہ آپ کا نظریہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس مسئلہ پر انسان نے اپنے ارتقاء میں جن بری تبدیلیوں سے اپنے جسم میں اچھی تبدیلیاں پیدا کیں، اس میں عورت بھی حیض سے نجات حاصل کر لیتی۔ آج کا ملحد سائنس کا ڈنکا بجانے میں مگن ہے، میڈیکل سائنس پر فخر کرتا ہے لیکن اربوں سالوں سے موت جیسی بیماری پر آج تک قابو نہ پا سکا؟ آپ جانتے ہیں کہ اگر انسان واقعی ماحول کا بیٹا ہوتا اور اپنے اندر کی تبدیلیوں کا مالک خود ہوتا تو آج یہ دنیا جس کے 7 براعظم ہیں، انسانوں کے جم غفیر کے لیے تھوڑی پڑ جاتی۔ جو انسان آج 5یا 10مرلہ کی زمین کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، وہ کتنا جھگڑالو ہوتا۔ افزائش نسل کے لیے جانوروں کی حد تک اپنی طاقت کا استعمال کرتا۔ ممکن ہے ماں ، باپ ، بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتے وجود میں نہ ہوتے۔ جو توازن موت نے انسان اور اس کی زندگی اور اس کے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار تبدیلیوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے، وہ زندہ انسانوں کا وہ ہجوم جو شاید ایک کے اوپر ایک رہتا۔ اور کائنات کتنی غیر متوازی ہوتی۔
ملحدین کا طریقہ واردات علوم فلاسفہ کی بنیاد پر ہے۔ ’’فلسفہ‘‘ کا معنی ’’عقل و دانش‘‘ سے محبت ہے، لیکن فلسفہ کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ۔مسائل کی تحقیق کے نام پر دوسرے علوم کے ’’قوانین‘‘ اور ’’اصول و ضوابط‘‘ کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لے کر اپنی مرضی کی تردید کر دینے کا نام ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ فلسفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دلیل‘‘ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ اگر آپ کسی فلسفی کو دلیل کے طور پر قرآن کی آیت یا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو پیش کریں گے تو فوری طور پر دلیل کو ایک مغالطہ کہے گا۔ لیکن جب آپ سائنسی حوالے سے کسی بھی اصول پر دلیل مانگیں گے، وہ تجربہ کو مثال بنا کر دلیل مانے گا۔ فلسفیوں کا یہ انداز فکر ان پر کڑی تنقید کرتا ہے جیسے ’’تجزیاتی فلسفہ‘‘ جس میں اشیاء کے اجزاء کو سمجھ کر کل کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار خامیاں ہیں، اور اس کو مندرجہ ذیل مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے سامنے قرآن کا ایک جز لکھ دیا جائے گا۔ ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین ملحداس آیت پر اعتراض کرے گا کہ اللہ قرآن میں خود کہہ رہا ہے کہ ’’ اور جو مکر کرے گا اللہ اس کے ساتھ مکر کرے گا اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے.‘‘ اس سے تو ثابت ہوا کہ اللہ مکر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے، اس لیے اس قرآن میں جو بھی ہوگا اس کو ہم مکر بھی تسلیم کریں گے۔ اب ایک اہل دین’’اصول ترجمہ اور تفسیر‘‘ کو مدنظر رکھ کر سورۃ آل عمرآن کی اس آیت کا ’’سیاق و سباق‘‘ دیکھے گا۔ اس کے بعد لغوی اعتبار پر ’’مدعی معترض‘‘ کے پیش کردہ لفظ کا اصطلاحی معنی پیش کرے گا کہ عربی زبان میں ’’مکر‘‘ سے مراد تدبیر کرنا بھی ہے۔ پھر وہ اس آیت کے شان نزول کو بیان کرے گا۔ اس کے بعد سمجھائے گا کہ بنی اسرائیل کے مکر کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے قرآن میں اس آیت کو نازل کیا۔ اس کے بعد وہ اس آیت سے قبل اور بعد والی آیات پیش کر کے معاملہ صاف کر دے گا کہ بھائی یہ آیت تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی پر دلالت والی آیت سے قبل اللہ نے نازل فرمائی، اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ ملحدین سے ایسا سوال کر سکتے ہیں کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کے پاس ’’دین‘‘ کے علم میں ’’دین کی تاریخ‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ کیا اس کے پاس ’’اصول حدیث اور اصول تفسیر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ اور کیا اس کے پاس ’’عربی ادب اور گرامر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ جس سے یہ بات ثابت کی جا سکے کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کسی بھی مذہب یا دین جس کو ’’فلسفی‘‘ ایک کل کے طور پر مانتے ہیں اور اجزائے دین سے اپنی عقل کے تحت ’’کل‘‘ پر جو تجزیہ کرے گا وہ بالکل درست کرے گا؟ یہ ایک نہایت احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔ فلسفی یا ملحدین دین کے ماننے والوں کے بد اعمال کو بنیاد بنا کر بطور حجت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بد قسمتی سے ایک عالم دین شراب پیتا ہے تو وہ کسی بھی دیندار کے سامنے یہ اعتراض رکھ سکتے ہیں کہ شراب کے حلال و حرام کا تصور بالکل غلط ہے۔ (معاذ اللہ ) کیونکہ میں نے ایک عالم کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ لیکن جب اس سے سوال کیا جائے گا کہ بھائی یہ بتاؤ؟ کیا اللہ نے دین اسلام میں شراب کو کسی جگہ بھی حلال کہا ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی زنا کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، اور وہ نمازی بھی ہے تو شریعت نے کبھی اس کو نہ زنا کرنے کا حکم دیا ہے نہ ہی ڈاکہ ڈالنے کا۔ وہ اس کے اپنے نفس کی بد اعمالی ہے۔ اس کا تعلق کسی صورت دین سے نہیں ہے۔
آج کے دور میں’’ملحدین‘‘ کے کام میں جتنی جدت موجود ہے، پہلے موجود نہ تھی۔ ملحدین عیسائیوں، قادیانیوں، منکرین حدیث، ہندوؤں، بدھ مت، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے کیے گئے اعتراضات کو جمع کرتے ہیں اور اس کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام زد عام کرتے ہیں۔ ان نظریات کو پھیلانے سے ملحدین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کالج، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جو دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں، وہ ان کے ورغلاوے میں آ جاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ دین سے مکمل دور ہو کر دہریے ہو جاتے ہیں۔
آج کی دہریت کو کیمونزم، سوشلزم، مارکس ازم، بدھ ازم، ہندو ازم جیسے نظریات کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ایسے دہریوں کو ’’سیاسی فلسفی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔ دینی ریاستوں میں رائج نظام کو بنیاد بنا کر اس کو بےجا ’’اسلام‘‘ پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ’’ کرنل قذافی‘‘ نے اپنے ساتھ ’’خواتین گارڈ ز‘‘ رکھی تھیں۔ اب اس کو بنیاد بنا کر اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیموں کو خود پروان چڑھاتے ہیں، اور ان سے مسلمانوں کا ہی قتل عام کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ایک عدم برداشت اور دہشت گردی والا مذہب ہے۔ اسلام قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ میڈیا میں اربوں روپیہ انویسٹ کرتے ہیں، طالبان سے خود کش حملہ کی قبولیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلام نے کبھی کسی مسجد، کسی جلسہ یا جلوس یا کسی دوسری عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے گریز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر آپ ان ملحدین سے پوچھیں تو وہ تاریخ کی من گھڑت روایات بیان کرنے کے علاوہ کچھ جواب نہیں دے پاتے۔
آج کے الحاد کو ’’تعلیمی فلسفہ‘‘ کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں ’’الحاد کیا ہے یا دہریت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے کتب شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ نچلی سطح پر سکولوں میں بھی رائج کی گئی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ان کتب کو صرف روس اور چائنہ کے چند اداروں میں ہی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ایک انداز یہ دیکھنے کو ملا کہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی بورڈ میں اسلام سے پھیلنے والی تعلیمات کو متشدد ثابت کیا گیا ہے۔ اور ایسی شخصیات جن کا تعلق صرف دین سے ہو اور خاص دین کی تعلیم دینا ان سے منسوب ہو ان شخصیات کے نام کتب نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔ جیسے پاکستان کی مثال لی جائے ’’خالدبن ولید‘‘ کا نام کتب نصاب سے نکالا گیا ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کا نام ڈال کر، اور ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا‘‘ کا نام نصاب سے نکالا گیا۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کا نام نصاب میں ڈال دیا گیا۔ سورۃ الانفال، سورۃ الاحزاب جیسی سورتیں نصاب سے نکالی گئیں جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے بچوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ اس نصاب کو پڑھانے والے کیا یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ بچوں کی مثبت تربیت کو بھی مد نظر رکھیں کہ کل کو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق کوئی منفی خیال نہ آئے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایمانیات اور دینیات نفس میں نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ الحاد بندے میں تشکیک، شبہات اور غیرسنجیدگی، جلد بازی اور عدم ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی ملحد اللہ کو نہیں مانتا، یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جب بھی کسی ملحد سے بات کریں گے تو آپ کو اس میں خود پسندی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اللہ مجھے اور آپ کو دین پر زندہ رکھے اور خاتمہ بالایمان فرمائے۔ آمین ۔
عبدالسلام فیصل
Ajmal Iftekhari
January 8, 2022 at 9:57 pmIman Mera taza Ho Gaya Ye Article Padh ke .. Allah Apko Salamat Rakhe … Ilhad Ye Bahut Tezi Se Fail Raha Hai Aur Inke Khilaf Aapka Kam Bahut Behtareen Hain Maine Kai Articls Padh ke Istefaadah Hasil Kiya Hai … Urdu Me Ilhad Ke Khilaf Hain To Uska Link bhi Bana Ke Is App Me Shamil Kare ..
Jazak ALLAHU Khaira ❤️