جہاد
مولانا تقی عثمانی صاحب نہ صرف دیوبندی مکتبِ فکر کی بلکہ عالمِ اسلام کی بڑی شخصیات میں سے ہیں۔ اللہ
چند دن پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب کے مابین ایک مباحثہ ہوا ۔ اس پر
پچھلے کچھ عرصے سے کچھ احباب کی طرف سے یہ اعتراض دہرایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی
جس طرح اردو کے مایۂ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر “ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے”
مولانا عمار خان ناصر ایک بڑے دینی علمی خانوادے سے تعلق رکھتےہیں، ان کے محترم دادا مولانا سرفراز خان صفدر(مرحوم)
اسلام كے احكامِ جہاد ہمیشہ سے متجددین كے لیے سوہانِ روح بنے رہے ہیں، یہ لوگ اس كی تردید و
سیاست کے باب میں یہاں کاانقلابی منہج دین کا یہ کلاسیکل ڈسکورس رکھتا ہے کہ تاریخی طور پر مسلمانوں کے
حق یہ ہے کہ ہردو بیانیہ(تکفیری اورجوابی بیانیہ)کے رد میں ہم (اسلامی سیکٹر) سے بہت تاخیر اور تقصیر ہوئی ہے۔
۔ جیسا کہ ہم گزشتہ کچھ تحاریر میں تفصیل پیش کرچکے ہیں کہ جو بھی ان مسلم تشدد پسند تکفیری
مسلمان اہلِ علم کااس بات پر اصولاََ اتفاق ہےکہ غیر مقاتلین کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایاجائےگا۔اس بات پر بھی
عموما جنگ میں براہ راست حصہ لینے والوں کو مقاتلین شمار کیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے
شریعت نے مباشراورمتسبب کے حکم میں فرق کیاہے اور یہ کہ شریعت کے قواعد کی رو سے فعل مباشر ہی
اسلامی شریعت كی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنكر انفرادی طور پر ہر مسلمان كا بھی فریضہ ہے
شرعاً یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی غیرمسلم مسلمانوں کا حاکم ہو۔ اس کی قانونی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ اسلامی
پاکستان دارالسلام ہے! پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدارالاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں ۔یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت
کچھ عرصہ پہلے بعض عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے اس مضمون کے بیانات اخبارات میں شائع ہوئے کہ حکومت
کچھ عرصہ پہلے ایک فیس بک مفکر قاری حنیف ڈار صاحب نے اپنی ایک پوسٹ میں یہ دعوی کیا کہ
تکفیری سوچ سے مزاحمت کیسے کی جائے ؟کچھ عرصہ پہلے ایک عالم مولانا طلحہ السیف( جوپاکستان کی ایک مستند و
عصر حاضر میں اس موضوع پر کام کرنے والے اہل علم (الا ما شاء اللہ) بالعموم دو گروہوں میں تقسیم
اگر حالت ِجنگ میں خود کش حملوں میں تین شرائط پوری کی جائیں تو ان کو بین الاقوامی قانون کی
جاوید احمد غامدی صاحب کے نزدیک جہاد کا اعلان ہر حال میں صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے،
جہاد ایک اجتماعی عمل ہے نہ کہ انفرادی فریضہ۔ یہ ’فرد‘ پر واجب ضرور ہے مگر ایک ’اجتماعی صورت‘ میں
یہ بہرحال انصاف نہیں کہ یہاں کے سرکاری کارندوں کو مسلم مفاد اور مسلم خون کی حرمت سے متعلق خبردار
دنیا میں میڈیا کی لائن سے کی گئی ایک بھرپور محنت کے ذریعے یہ ذہن بنایا گیا ہے کہ انتہاء
نوم چومسکی جوکہ ایک یہودی ہے اور امریکہ کا ایک بڑا مصنف دانشور شمار ہوتا ہے، لکھتا ہے : “یہ
اس تصویر کو اچھی طرح دیکھیے۔ کیا آپ اسے پہچان پائے؟لوگوں کی اکثریت نہ اسے پہچانتی ہے اور نہ انہوں
اگر آپ کسی مسئلہ کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اُس کا سرا پکڑنا ہوتا ہے اور اس
دنیا میں تصادم و بدامنی کی ایک اہم وجہ امریکہ کی استعماری پالیسیاں اور عالمی بالا دستی کا خواب ہے۔دوسری
سوال: ترک مذھب کے بعد سیکولر لوگوں کی جنگ و جدل کی علمی بنیاد کیا ھے؟ سیکولر، لبرل، سوشلسٹ و
ملحدین کی ایک مشہور سائیٹ کی ایک تحریر کا اقتباس پیش ہے : جزیہ صرف اہل کتاب سے ہے جبکہ