سرمایہ دارانہ تہذیب کی اسلام کاری کی ضرورت نہیں

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری
روشن خیال اعتدال پسندی (Enlightenment moderation) :
روشن خیالی مغربی تہذیب میں ایک بڑا مکتب فکر ہے اور تحریک تنویر کے نام سے معروف ہے۔ جب روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے تہذیبی تانے بانے اٹھارویں صدی کی اس تحریک سے جا ملتے ہیں جو بنیادی طور پر کانٹ سے شروع ہوئی۔ ہر چند کہ سترھویں صدی میں سائنٹفک میتھاڈولوجی کی تحریک میں بھی اس کے آثار تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر مغربی تہذیب میں جو الحاد آیا ہے اور مغربی تہذیب بن گئی وہ روشن خیالی یا تحریک تنویر (Enlightenment moderation)کے نتیجے میں ہی بنی۔ گویا کہ جو لوگ آج ہمارے ملک میں روشن خیال پسندی کا پرچار کرتے ہیں تو وہ بنیادی طو رپر ہماری تہذیب کو اسی تحریک کی تعلیمات سے جوڑ دینا چاہتے ہیں اور وہ ہماری تہذیب کو اس تحریک کے ماتحت کردینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ تحریک تنویر سے آگاہ ہوں اور اس کا محاکمہ اسلامی بنیادوں پر کرسکیں۔
تحریک تنویر کے بارے میں یہاں چند بنیادی باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
۱۔ یہ ایک علمی تحریک ہے اور بنیادی طور پر علمیاتی تصورات میں تغیر کی تحریک ہے اور یہی علمیاتی تغیر یورپ وغیرہ میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کا باعث ہوا۔ تحریک تنویر بنیادی طور پر عیسائی علمیت کی رد تھی۔ اس علمیت میں جو بنیادی سوالات حیات سے متعلق، کائنات سے متعلق، علم سے متعلق تھے ان کی تشریح ملتی تھی اور یہ تشریح عیسائیت سے متاثر تھی۔ اب اس کی جگہ ایک نئی علمیت نے غلبہ حاصل کیا۔ تحریک تنویر کے نتیجے میں جنم لینے والی اس نئی علمیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات تھیں:

  • علم صرف وہ ہے جو انسان اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر دریافت کرتا ہے۔
  • علم حاصل کرنے کے صرف دو ذرائع ہیں: (۲) فکر(عقل) (۲) تجربہ
  • جو چیز فکر اور تجربہ کے احاطہ میں نہ آئے علم کے دائرے سے خارج ہے۔
    ان بنیادی مفروضات کو قائم کرکے عیسائیت کی بنیادی تعلیمات کو رد کر دیا گیا۔ عیسائی تصورات خدا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، عالم بالا فرشتے، آخرت ان سب کے متعلق کہا گیا ہے کہ علمیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو فکر ان کا احاطہ کرسکتی ہے یعنی نہ استقرائی منطق (Inductuive Logic) اور نہ استخراجی منطق (Deductive Logic) کے ذریعے الٰہیات اور اس کے تصورات کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ تجربے اور مشاہدے کے دائرے سے بھی یہ ماوراء ہیں کیونکہ نہ خدا اور اس کے متعلق تصورات کو دیکھا جاسکتا ہے، نہ چھوا جاسکتا ہے اور نہ حواس کے کسی اور ذریعہ سے ان کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔
    اس تصور علمیت کے محاکمے کے ضمن سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی (Epistemology) یا تصور علمیت اپنے کچھOntologicalاور Cosmological مفروضات رکھتا ہے یعنی یہ کہ انسان کا اپنی حیثیت اور ماہیت کے بارے میں کیا خیال ہے اور وہ جس کائنات میں رہ رہا ہے اس سے اپنے تعلق کو کیسے پہچانتا ہے۔ گویا کہ ہر تصور علمیت کے پیچھے کچھ مابعدالطبیعاتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ تحریک تنویر نے جو مابعدالطبیعاتی تصورات انسان کے بارے میں قائم کیے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
  • انسان قائم بالذات ہے اور اس کا بات کا مکمل مکلف ہے کہ وہ دنیا کو جان سکے اور اس کو جیسا بنانا چاہتا ہے ویسا بنا سکے۔ اس بات کو ہم آسانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ تحریک تنویر کا بنیادی کلمہ ’’لاالہ الاالانسان‘‘ ہے۔
  • تمام انسان اس کلمہ میں برابر کے شریک ہیں اور ان معنوں میں مساوی ہیں۔
  • تعقل اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان کائنات پر اپنی مرضی کو مسلط کرتا چلا جائے اور اپنی ’’خدائی‘‘ سلطنتوں کی وسعتوں میں لامتناہی اضافہ کرتا چلا جائے۔ اس لیے مغربی تہذیب کے نقطۂ نگاہ سے ان مابعدالطبیعاتی تصورات کے انکاری لوگ انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس لیے جب امریکا میں کئی ملین ریڈانڈینز کو تہہ تیغ کیا جاتا رہا تو ان کے مشہور فلسفی نے اس بہیمیت کو جواز فراہم کیا۔ اس نے کہا کہ یہ ریڈانڈینز تو سرے سے انسان ہی نہیں ہیں، ان میں اور جنگلی بھینسے میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح جارج واشنگٹن نے انہیں بھیڑیے کہہ کر ان کے قتل عام کا جواز فراہم کیا۔ انہیں کوئی انسانی حقوق حاصل نہیں۔ کیونکہ یہ اپنی ’’انسان‘‘ ہونے کی حیثیت سے ہی انکاری ہیں۔ اور کلمہ لاالہ الا انسان پر ایمان نہیں لاتے۔ (اس لیے اصلی انسانی حقوق ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے میں پریکٹس کیے جاتے ہیں)
    گویا روشن خیالی یہی ہے کہ انسان قائم بالذات ہے اور اپنی خدائی کو قائم کرنا اس کی عقل کا تقاضا ہے۔ اس لیے تسخیر کائنات کو واحد معقول (Rational) مقصد کے طور پر قبول کرلیا جائے.

روشن خیالی کی تین بنیادی قدریں:
آزادی: انسان جو چاہنا چاہے چاہ سکے۔ اس کی چاہت پر کسی بھی قسم کی بندش اور قدغن نہ ہو اس تصور کا عام ہونا ’’آزادی‘‘ ہے۔
مساوات: ہر ایک کو یہ مساوی حق حاصل ہے کہ وہ چاہنا چاہیے چاہ سکے اس میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔ نمازی اور غازی برابر ہیں، فرد کی چاہتیں جیسی بھی ہوں، صرف اس بنا پر وہ کسی فرد سے افضل یا کمتر نہیں ہوسکتا۔ بہت بڑا مفکر رالز (Rawls) جس کا حال ہی میں انتقال ہوا۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ دلیل دی ہے کہ ایک شخص اگر اپنے لیے خیر یہ سمجھے کہ وہ ایک متعین علاقے کے اندرگھاس کی پتیاں گنے گا اور دوسرا اپنے لیے یہ منتخب کرے کہ وہ مخصوص علاقے میں منشیات کا خاتمہ کرے گا تو کوئی بنیاد نہیں بنتی کہ ہم ایک تصور خیر کو دوسرے کے تصور خیر پر برتری دیں۔
اگر ہم روشن خیالی کے اس مفروضے کو مان لیں کہ تمام تصورات خیر کی یکساں قدر ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ تمام تصورات خیر لایعنی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ مرا کوئی بھی نام ہوسکتا ہے تو پھر میرے مخصوص نام جاوید انصاری کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ مغرب میں خیر کا یہ تصور رہ جاتا ہے کہ آپ وسائل میں ’’اضافہ محض‘‘ کرتے چلے جائیں۔ جس کے نتیجے میں آپ جو چاہنا چاہ سکیں اور اس کو حاصل کرسکیں۔
ترقی: تحریک تنویر کی تیسری اساسی قدر ’’ترقی‘‘ ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری میں ترقی۔ کیونکہ اکیلی وہ چیز جس کے نتیجے میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکتا ہوں۔ وہ سرمایہ ہے اس لیے کہ اگر میرے پاس سرمایہ ہوگا تو مسجد بھی بنا سکتا ہوں، شراب خانہ اور جواخانہ بھی۔ نماز پڑھنے بھی جاسکتا ہوں، شراب پینے بھی اور جوا کھیلنے بھی۔ اس لیے خیر کا مطلب ’’سرمایہ کی بڑھوتری محض‘‘ ہے۔ مغربی تہذیب میں بظاہر اس بات کی آزادی ہے کہ انفرادی زندگی میں تو خیر کا کوئی تصور اپنایا جاسکتا ہے اور اسے مسلسل بدلا بھی جاسکتا ہے۔ گویا انفرادی زندگی میں جو بھی خیر ہوگا وہ (Trivial) اور مہمل ہوگا۔ لیکن پبلک آرڈر کی تعمیر وتخلیق ’’سرمایہ کی بڑھوتری‘‘ کے اصول پر ہوگی۔ اس لیے انفرادی زندگی میں تو انسان مساوی القدر ہیں لیکن پبلک لائف میں ’’درجہ بندی‘‘ موجود ہے اور جو سرمایہ کی بڑھوتری میں زیادہ معاون ہوگا، اس کی قدر زیادہ ہوگی جس کے پاس ارتکاز سرمایہ زیادہ ہوگا، مارکیٹ میں وہی برتر تصور ہوگا۔
مغربی تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑھوتری میں ضم کردے۔ وہ سرمائے کی مکمل غلامی اختیار کرے۔ مغرب کا یہ ’’تصور‘‘ دراصل ’’شرعظیم‘‘ ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اللہ سے بغاوت کرے اور اعلان کرے کہ ’’اناربکم الاعلیٰ‘‘ اور یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد اپنی خدائی کی سلطنتوں اور وسعتوں میں مستقل اضافہ کرتے چلے جانا ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ روشن خیال اعتدال پسندی کوئی بے ضرر چیز یا غیرجانبدار (Neutral) چیز نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی اقدار کے لیے زہرقاتل چیز ہے اور اس کا تصور خیرخالصتاً شر ہے۔
ان تصورات کو دنیا پر لاگو کرنے کے لیے اور ان کے نفاذ کے لیے جو ہتھیار اور حکمت عملی استعمال کی گئی ہے وہ سوشل سائنسز کے ذریعے فروغ کی کی ہے۔ سوشل سائنسز تحریک تنویر کے فلسفے سے مربوط ہیں اور ان کا مقصد مغربی تہذیب کی انہی قدروں کا فروغ ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم معاشیات کو بطور ایک علم کے قبول کرلیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم اس تصور انسان، تصور کائنات اور تصور عقلیت کو قبول نہ کریں کہ جو معاشیات کے بنیادی مفروضات فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے اسلامی معیشت دانوں کی بنیادی کمزوری یہی ہے کہ مغربی فلسفے کو جو کہ علم معاشیات کے پیچھے ہے ان کو فطری تصور کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا تصور عقل کے مطابق نہیں ہوسکتا۔اس لیے ہم معاشیات کو اسلامی بناسکتے ہیں۔ اس وقت روشن خیال اعتدال پسندی نے علماء کے اندر درآنے کا جوطریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ سوشل سائنسز کی اسلام کاری (Islamization of Social Science) ہے۔
عیسائیت کے رد سے الحاد کو فروغ حاصل ہو ااور مغربی تہذیب کو فکر اور عقل کے تقاضے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ اس طرح کی کوشش ہمارے یہاں بھی ہے کہ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کے نتیجے میں مغربی فلسفے کو قابل قبول بنایا جائے۔ اس لیے کہ یونانی فلسفے کو اسلامیانے کی جو کوشش معتزلہ نے کی اسے امام غزالی شکست دے چکے تھے اور ۱۸ ویں صدی میں یورپ میں جو تحریک کامیاب ہوگئی اس سے چھ سو سال پہلے امام غزالی مسلم دنیا میں اسے شکست دے چکے تھے۔ تجربیت و تفکر کا چرچا مسلم دنیا میں سات سو سال پہلے ہوا مگر امام غزالی، امام اشعری اور راسخ العقیدہ علماء علوم اسلامی کی بنیاد پر اس تحریک کو شکست دے چکے تھے۔
جب روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جاتی ہے تو دراصل اس فکر اور سائنٹفک میتھوڈولوجی کو اپنانے کی بات کی جاتی ہے جس کے مابعدالطبیعاتی مفروضات اور فلسفے کی کوئی توجیہہ اسلامی تناظر میں اب بیان نہیں کی جاسکتی۔ کوئی اسلامی دلیل نہیں دی جاسکتی کہ انسان قائم بالذات ہے اور یہ ہمارے علمائے کرام کا کارنامہ ہے۔
سوشل سائنسز کی اسلام کاری کا یہ پروجیکٹ جو امریکا میں شروع ہوا اور شروع سے ہی امریکا کے پیسوں سے چل رہا ہے اس میں بنیادی کردار شاہ فیصل مرحوم نے ادا کیا، اس وقت ہمارے ملک میں کوشش ہو رہی ہے کہ مغرب کے بنیادی مفروضات ہیں کسی طریقے سے ان سے توجہ ہٹا دی جائے اور مغرب نے جو طریقہ مذہب کو ہٹا کے الحادی نظام زندگی کے فروغ کا اپنایا ہے۔ وہی طریقہ یہاں بھی اختیار کیا جائے۔ استعمار کو یہ امید ہے کہ آخر جب عیسائیت نے ’’تبدیلی علمیت‘‘ کا مقابلہ نہیں کیا اور اس کے لیے عیسائیت میں کوئی تحریک مزاحمت نہ چلی تو اسلامی تہذیب بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ ہر جگہ عیسائیت نے استعمار کے جزلاینفک کے طور پر اس کو سپورٹ کیا۔ لاطینی امریکا میں، ریڈانڈینز کے قتل میں، فلپائن، افریقہ سب جگہ وہ استعمار کی شریک جرم رہی ہے۔ بنیادی طور پر یروشلم کی عیسائی فکر کو بالکل تج دیا گیا اور عیسائیت سے بالکل نکال کر پھینک دیا۔ عیسائیت نے اپنا مفاد اس میں تلاش کیا اور استعمار سے سمجھوتہ کرلیا اور صرف اس پر اکتفاء کرلیا کہ کچھ عیسائی علامتیں محفوظ رہیں اور بس۔ ہمارے دشمن اسلام کو کبھی اس طرح بنا دینا چاہتے ہیں کہ وہ محض چند علامتوں تک محدود ہو کر رہ جائے۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام کوئی نظام زندگی نہیں بلکہ محض ایک رویہ اور کیفیت کا نام ہے۔
’’اسلامی جمہوریت‘‘ اور ’’اسلامی بینکاری‘‘ کی باتیں بھی اسی پس منظر میں کی جاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ ٹیکنالوجی کو اسی ضمن میں جوازفراہم کیا جاتا ہے۔ سائنس کے متعلق تو یہ بات بہت عام ہے کہ سائنس اور اسلام کا بہت قریبی تعلق ہے، بلکہ یہ تو اسلام اور اسپین کے مسلمانوں سے ہی لی گئی ہے۔ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کی بات مختلف حلقوں میں زور وشور سے کی جاتی ہے کہ جب عیسائی علماء الحاد کے غلبہ پر راضی ہوگئے۔ انہوں نے سوشل سائنسز کو قبول کرلیا تو مسلمان علماء بھی اس پر راضی ہوجائیں گے۔
مسلمان علماء بھی اس بات کو قبول کرلیں گے کہ اسلام محض علامتی طور پر محفوظ ہو۔ اور دوسری طرف آزادی، مساوات اور ترقی بھی جاری رہے گی، مساجد اور ان کی آرائش بھی برقرار رہے۔ اور دین اسلام عیسائیت کی طرح محض ’نفسیاتی سکون‘‘ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کا یہ پروجیکٹ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے تحت بہت زور وشور سے جاری ہے اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اسلام کو بطور نظام کے نہیں بلکہ ایک رویہ اور کیفیت کے طور پر متعارف کروایا جائے۔
ہائبرماس جو جرمن فلسفی ہے اور آج کی دنیا کا سب سے بڑا (Rationalist) معقولی فلسفی ہے۔ وہ ایران کا مستقل دورہ کرتا رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام ایک Life world ہے، یہ کوئی نظام نہیں ہے اس لیے مسلمان یہ بات کہنا چھوڑ دیں کہ شریعت کا نفاذ ایک لازمی امر اور ضروری چیز ہے اور مغرب سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاد کو چھوڑ دیں وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اندر اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس کے اندر مسلمانوں کی اسلامیت بھی فروغ پاتی رہے۔
تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو ۱۹۲۰ء میں جمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد سے ہم نے دستوریت کے اندر اپنی پناہ دیکھی، ۱۹۲۰ء سے پہلے کی جدوجہد جو حضرت شیخ الہند مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت قطب العالم مہاجر مکی رحمہم اللہ کی وہ جہاد کی جدوجہد تھی۔ وہ اس بات کی جدوجہد تھی کہ ہم انگریز کو بے دخل کردیں گے ہم نے مدرسہ دیوبند قائم کیا کہ وہاں مجاہدین تیار کریں گے۔ ۱۹۲۰ء کے بعد یہ سب چیزیں رد ہوگئیں۔ ہم نے حقوق مانگنا شروع کردیے۔ ہمارے کچھ علماء مسلم لیگ اور کچھ کانگریس میں چلے گئے ؂
یہاں تک ہم گھیر کے لے آئے ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مغربی تہذیب وتمدن کی فکر اور اس کے نظام پر آپ سے صاد کرالیں اور آپ کہہ دیں کہ اسلامی معاشیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی عمرانیات کا ہماری فکر میں ایک مقام ہے اور نفیسات سے بھی اسلام کا ایک خاص تعلق ہے۔ جب آپ نے ایک دفعہ یہ کردیا تو مسلمانوں کو یہ بات آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے کہ ترقی (Progrees) کا تصور اسلام کے عین مطابق ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ہم اپنی انفرادی زندگی میں اسلامیت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ دشمن کی یہ حکمت عملی ان شاء اللہ بالکل کامیاب نہیں ہوگی اور یقیناًہم روشن خیال اور اعتدال پسندی کو شکست فاش دیں گے۔ یہ محض میری رائے نہیں ہے بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس لیے کہ مغرب آج ایک شکست خوردہ، پسماندہ، زوال پذیر اور نظام زندگی کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ اور صرف وہ لوگ جو مغرب کو اچھی طرح سے نہیں جانتے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مغرب طاقتور ہے اور اس کے لیے ہمارا وہی رویہ مناسب ہے جو ہم نے انیسویں صدی میں اختیار کیا تھا۔ مغرب کے زوال کی تین ٹھوس دلیلیں ہیں جو ناقابل رد ہیں:
(۱) سب سے پہلے تو مغربی علمیت نے جو مفروضات قائم کیے تھے خود مغربی تہذیب کے اندر آج غالب رجحان ان کے رد کی طرف ہے۔ پس جدیدیت (Post modernism) کی تحریک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ماڈرنزم نے جو دعوے کیے تھے وہ سب جھوٹے ہیں۔ لہٰذ علمی سطح پر ماڈرنزم کو مغرب نے خود ہی رد کردیا ہے۔ مغرب نے یہ رد کر دیا ہے کہ عقلی بنیادوں پر یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ آزادی، مساوات اور ترقی کسی طرح سے تہذیب کی صف بندی قائم کرنے کے لیے جائز بنیادیں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا جو نظام زندگی مغرب اس وقت ہمارے اوپر مسلط کیے ہوئے ہے محض جبر کی بنیاد پر ہے۔ کسی دوسرے طریقے سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔ جہاں بھی جمہوریت آئی ہے اور آئے گی وہ امریکی شمشیر وسنان تلے ہی آئے گی۔ جہاں بھی جمہوریت کے نتیجہ میں دستوری ریاست قائم ہوگی وہ امریکی فوج کے تسلط کی بنیاد پر ہوگی۔ گویا اب مغربی تہذیب کا دنیا میں پھیلنا خصوصاً اسلامی ممالک میں امریکی قوت اور جبر کی بنیاد پر ہی ہے۔
(۲) مغربی تہذیب کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ مغرب خود اس قابل نہیں رہا کہ اپنے عالمی نظام کو قائم رکھ سکے۔ اس وقت پوری دنیا کے اندر امریکیوں کی تعداد محض تین فیصد ہے۔ پورا مغرب دنیا کی کل آبادی کا محض چودہ فیصد ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یہ آبادی محض نوفیصد رہ جائے گی۔ اس لیے کہ جو نظام زندگی انہوں نے اپنایا ہے اس سے وہ نسلی وقومی خودکشی کر رہے ہیں۔ ابھی بیجنگ ٹائم میں ایک کارٹون چھپا ہے جس کے پنجرے میں چمپینزی تھے اور دوسرے پنجرے میں ایک امریکی کو دکھایا گیا ہے اور ایک چینی اپنے بچوں سے کہہ رہا ہے ’’دیکھو ایک سو سال پہلے یہ پوری دنیا پر حکمرانی کرتا تھا۔‘‘
یہ عددی زوال اس نظام زندگی کی وجہ سے ہے جو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اس عددی زوال کو نہیں روکا جاسکتا جب تک کہ اس نظام کو بدلانہ جائے لہٰذا جو آیندہ صدی ہے لازماً امریکہ کے زوال کی صدی ہے۔
(۳) تیسری کمزوری وہ معاشی تضادات ہیں جس کی بنا پر نظام سرمایہ داری کو آگے بڑھانا ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل کرائسز تھیوری (Crises theory) ہے۔ یہ تضادات ناقابل حل ہیں۔ کیونکہ جن بنیادوں پر فنائنشل مارکیٹ میں قدر متعین ہو رہی ہے ان بنیادوں پر اس کا تعلق پروڈکشن سیکٹر کے معاشی عمل سے مستقل قائم رکھنا ناممکن بات ہے۔ اس لیے جو بھی معاشی پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں وہ ناکام ہیں اور کسی وقت بھی بڑا کریش ہوسکتا ہے۔
گویا کہ عسکری صف بندی ایسی نہیں ہے کہ جوناقابل شکست ہو۔ عراقی اور افغانی مجاہدین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مغرب کی عسکری برتری کے باوجود جہاد ممکن ہے اور اسے بزورِ شمشیر اپنا تسلط قائم رکھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح علمی غلبہ بھی ناقابل تسخیر نہیں ہے اس لیے کہ علمی سطح پر تو خود وہ اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ معاشی سطح پر بھی کوئی ایسی صف بندی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹرنیشنل فنائنس کے تسلط کو برقرار رکھ سکیں اور چین نے تو یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کے مقابلے میں ایک معذرت خواہانہ مرعوبانہ اور مدافعانہ حکمت عملی اختیار کریں مجاہدین افغانستان، عراق اور فلسطین نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ استعمار کو شکست دیناممکن ہے۔ اب استعمار کی بہت بڑی حکمت عملی یہ ہے کہ مجاہدین کو علماء کی سرپرستی سے محروم کردے۔ اور علماء بات کرنے لگیں اعتدال پسندی کی، روشن خیالی کی اور مغربی دنیا سے ڈائیلاگ کی اور یہ کہنے لگیں کہ مجاہدین تو بے عقل اور بے وقوف ہیں، یہ اسلام کو ختم کرنے والے لوگ ہیں، یہ اسلام کے اصل نمایندے نہیں ہیں اصلی نمایندے تو مہاتیر محمد اور شوکت عزیز ہیں۔
یہ محض ان کی امیدیں ہیں اور یہ انیسویں صدی کے حالات نہیں کہ جب تحریکات اسلامی کو شکست ہوگئی۔ آج تو یہ چھوٹے سے ملک چیچنیا تک میں بھی ممکن نہیں جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ عراق اور افغانستان تو بہت مشکل اہداف ہیں ۔ میں حاکم بدہن یہ کہنا چاہوں گا کہ عراق میں ہمیں شکست ہوسکتی ہے لیکن وہ محض امریکی قوت کی وجہ سے نہیں بلکہ شیعہ وسنی جھگڑے کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ افغانستان میں بھی شکست کی وجہ یہی تھی کہ ایران کے ساتھ ہمارا رابطہ موجود نہیں تھا۔ شکست ہم کھاسکتے ہیں۔ لیکن دشمن سے نہیں بلکہ اپنے اندر سے اس لیے استعمار چاہتا ہے کہ ہم آپس کی لڑائی کو جہاد سمجھنے لگیں اور اعتدال پسند روشن خیالوں کو اپنا حلیف سمجھنے لگیں۔ بریلوی اور دیوبندی آپس میں فروعات پر تو نزاع رکھیں لیکن روشن خیال اعتدال پسندوں کے نظام کے اندر رہ کر ان کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔ آج ہم اتحاد اور جہاد سے ہی روشن خیال اعتدال پسندی کا مقابلہ کرسکتے ہیں

سرمایہ داری کا زوال
ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے زوال کا دور(The downfall of Capitalism ) ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی اس انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو کہتے ہیں، جہاں حرص و حسد کے عقلیت کا غلبہ ہو۔ سرمایہ دار ہر وہ شخص ہے جو اپنے عمل کی توجیہ فروغ تصرف فی الارض میں گردانتا ہے۔ سرمایہ دار کے لیے دولت مند ہونا ضروری نہیں، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے، اسی طرح سیٹھ ولی بھائی چھوٹانی (تحریک خلافت کی انتظامی کمیٹی کے صدر ١٩١٩ء ۔ ١٩٢٣ئ) بھی دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے۔ سرمایہ دولت کا ظالمانہ استعمال ہے۔ جب دولت کے استعمال کا مقصد اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ بن جاتا ہے تو دولت سرمایہ بنادی جاتی ہے۔ انہی معنوں میں سرمایہ حرص و حسد کی تجسیم (Concrete Form) ہے۔ اور سرمایہ دار حرص و حسد کا بندہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ دولت کا درست استعمال اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہی ہے۔ ہر وہ مزدور، کسان اور مفلس شخص جو اس سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبول کرتا ہے ایک سرمایہ دار ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنے نفس کو حرص و حسد کے شیطانوں کے سپرد کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت، معاشرہ کی اس تنظیم کو کہتے ہیں جہاں سرمایہ (یعنی حرص و حسد) کی عقلیت کی بنیاد پر اجتماعی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ہر معاشرتی ادارہ سرمایہ دارانہ مارکیٹ (Market) کے تعاقل کے ماتحت ہوتا چلا جاتا ہے۔ خاندان اپنے بچوں کو تعلیم اس لیے دلواتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ تمام اعمال کی قدر کا تعین زر کا بازار (Money Market) اور سرمایہ کار بازار (Capital Market) کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشرت کو سول سوسائٹی (Civil Society) کہتے ہیں۔ یہ مذہبی معاشرت کی ان معنوں میں رَد ہے کہ اعمال کی اقدار کا تعین (Determination) مذہبی نصوص اور احکام کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ بڑھوتری میں کتنا اضافہ کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں قدر (Value) کی غالب کی شکل قیمت (Price) کی ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست (Republic) ہوتی ہے۔ یہاں اس عمومی اصول کو قبول کیا جاتا ہے کہ صرف وہ اجتماعی چیز جائز ہے جو Citizen کے تصرف فی الارض کو فروغ دینے کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کو Rousseau نے General will کہا تھا اور کہا تھا کہ اکثریت کی رائے دہی (General All) اس کی تردید کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج Citizen کی الوہیّت کے فروغ کے اس اصول کو Human Rights سے متعلق وہ دفعات فراہم کرتی ہیں جو ہر ریپبلیکن دستور کی Preambles میں لازماً شامل کی جاتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے غلبہ کی ابتدا پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہوئی جب چند یورپی شہری ریاستوں میں یہ نظام غالب آگیا۔ یورپی اقوام کے استعمار اور ریاستی دہشت گردی (بالخصوص امریکا میں جہاں دو صدیوں میں آٹھ کروڑ مقامی باشندے Red Indians قتل کیے گئے) اس نظام زندگی نے ترقی کی اور انیسویں صدی کے آخر تک تقریباً پوری دنیا پر اس نظام نے ریاستی غلبہ حاصل کرلیا۔ (انفرادیت اور معاشرت کی سطح پر اس نظام کو کبھی عالمی غلبہ حاصل نہیں ہوا) بیسویں صدی اس نظام کے زوال کی پہلی صدی ہے اور موجودہ دور میں یہ نظام مختلف النوع بحرانوں سے دوچار ہے۔
عرفان ذات کے ضمن سب سے اہم بحران عقلیت کا ہے وہ عقلیت جو سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں فروغ پائی، آج مہمل ثابت کردی گئی ہے۔ جس فکری تحریک نے یہ کام کیا اس کو پوسٹ ماڈرن ازم (Post Modernism) کہتے ہیں اور اس کے کلیدی مفکرینFoucault, Derrida, Deluze, Lyotard,Rerty ہیں۔ ان مفکرین نے ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ کلیدی تصورات بالخصوص آزادی (Freedom) اور ترقی (Progress) مہمل اور ناقابل حصول ہیں۔ انفرادیت لازماً انتشار (Fragmentation) کا شکار ہوتی ہے۔ اور اعمال کی معنویت کی جستجو محض لغتی کھیل (Language Game) ہے۔ کسی انفرادی یا معاشرتی عمل میں عقیدہ کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جاسکتی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت لازماً تحلیل (Deconstruction) کا شکار ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرتی اداروں کا سہارا لے کر اپنی جو معاشرتی صف بندی کی تھی وہ سب ان انحطاط پذیر ہے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی اجارہ داری کا شکار ہے۔ اور مسابقتی عمل Distort ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ Market کی کارکردگی سے Efficient اور Equitable نتائج برآمد نہیں ہوتے قیمت کے تعین کا کوئی معروضی (Objective) پیمانہ موجود نہیں۔ لہٰذا (Financial) اور کموڈیٹی (Commodity) بازاروں کی کارکردگی میں عدم استحکام (Disequilibrium) دائمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دو ہزار سات (2007)سے شروع ہونے والا بحران کسی صورت سے قابو میں آتا نظر نہیں آرہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں جو واحد اجتماعیت قائم ہوئی تھی وہ تھی طبقہ (Class) کی اجتماعیت بیشتر سرمایہ دارانہ معاشروں میں مزدور سرمایہ دارانہ خطوط پر منظم ہوگئے تھے۔ اور مزدوروں کی طبقاتی تنظیمیں (Trade Unions and Social Democratic Parties)سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ کے لیے جدوجہد کرتی تھیں اس جدوجہد کی نظاماتی اہمیت کا ادراک سب سے واضح طور پر Keynes اور Boltow کی فکر میں ملتا ہے آج سرمایہ دارانہ عمل کے فروغ کے نتیجے میں یہ طبقاتی تنظیمیں سرمایہ دارانہ ریاست سے اس طرح منسلک ہوگئی ہیں کہ سرمایہ دارانہ عدل کی جدوجہد ناممکن ہوگئی ہے۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب یورپ امریکا میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ طالب علم، بے روزگار، پینشن یافتہ افراد، سرمایہ دارانہ پیداواری اور تجارتی عمل سے بے دخل کردیے گئے ہیں۔
مزدور تحریک کی جگہ ان New Social Movements مثلا حقوق نسوان کی تحریک، اغلام بازوں کی تحریک (جس کا سب سے بڑا پشت پناہ آج صدر اوباما ہے) ماحولیاتی تحریک نے لے لی ہے جو محض کھیل تماشا ہے اور سرمایہ داری کی ترتیب نو کی ضمن میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتی۔
سرمایہ دارانہ ریاستی انحطاط کا سب سے اہم مظہر جمہوری نظام کی شکست و ریخت ہے۔ میڈیا پر سرمایہ دارانہ غلبہ کے نتیجہ میں آراء کی تشکیل کا عمل عوامی نہیں رہا۔ لوگوں کی رائے میڈیا ساز (Media Crafted) ہوگئی ہے۔ اور جمہوری عمل تفریح (Entertainment) کا ذریعہ بن گیا ہے۔ نمایندگی (Representation) صرف سرمایہ کی ہے۔ یورپ میں کئی دہائیوں سے انتخابات میں ووٹرز کی شرکت مستقل گِر رہی ہے اور ١٩٤٦ء کے بعد سے کسی امریکی صدر کو عوام کے اکثریت کے ووٹوں سے منتخب نہیں کیا گیا۔ کوئی ووٹ کیوں دے جب کہ میڈیا کئی ہفتے پہلے ہی انتخاب کا نتیجہ بتادیتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی یورپی سیاسی فلسفی جمہوریت کے حق میں دلیلیں دیتا ہوا نظر نہیں آتا۔ Habermas جو آج کل سرمایہ دارانہ علمیت کا سب سے بڑا وکیل ہے نوحا کناں ہے کہ مکالمتی عمل (Communicative Action) اتنا Distort ہوگیا ہے کہ Dialogue جمہوریت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ (Alian Badiave) کہتا ہے کہ آج جمہوری عمل وہ زنجیر ہے جس سے عوام کے گھوڑے کو سرمایہ دارای کے اصطبل میں باندھا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ سرخیل ریاستیں پیہم عسکری شکستیں کھارہی ہیں۔ امریکا ذلیل ہوکر عراق سے بھاگ گیا اور مزید ذلیل ہوکر افغانستان سے بھاگنے کی تیاری کررہا ہے۔ لاطینی امریکا میں بلویا، اکواڈور، وینزویلا اور کیوبا اس کی سیاسی گرفت کو تاراج کرچکے ہیں۔ آج چند سو اوغر (Ughar) مجاہدین نے گانزو صوبے کے ایک بڑے علاقے سے چینی استعمار کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ اور سنکیانگ نے بھی پیش رفت حوصلہ افزا ہے ان حالات میں چین کسی دوسرے ملک میں عسکری کارروائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مسلسل اور ہمہ پہلو زوال سے آج انکار ممکن نہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے متبادل کے خدوخال ابھی واضح نہیں ان معنوں میں ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس کی تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں مماثلت ہے۔ اس دور میں رومی انفرادیت معاشرت اور سلطنت تحلیل ہورہی تھی لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ نظام زندگی کی ترتیب نو کن خطوط پر ہوگی۔ اس دور میں رومی نظام زندگی کا اختتام Chronic حیثیت اختیار کر گیا تھا آج کی New Political Sociology موجودہ دورکو Liminal اور Transitional گردانتی ہے۔ Baudrillard اقرار کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ اقلیت کی گرفت انفرادیت، معاشرت اور ریاست کمزور پڑتی جارہی ہے اور غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست قائم ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کا دائرہ اختیار محدود ہورہا ہے۔ اور سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست کے اندر سے غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست اُبھر رہی ہے۔ Daluze کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی Implode ہورہا ہے لیکن کیا یہImplosion ہے یہ محض ایک Complexification ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبد ِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

اسلامی روین ازم:(Islamic Revisionism)
مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام زندگی بزور شمشیر مسلط کیا گیا اور ہمارا ابتدائی رد عمل عسکری جدوجہد ہی کا تھا۔ برصغیر میں اس عسکری جدوجہد کے انتشار کے بعد جمعیت علماء ہند ١٩٢٠ء میں قائم ہوئی، اور اس کے بعد سے علماء کے سواد اعظم نے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے بارے میں ایک مصالحانہ رویہ اختیار کیا اس رویہ کے دو اظہار تھے ایک رویہ برأت اور انخلا کا تھا۔ علماء اور صوفیاء نے ایسے دائرہ عمل تلاش کیے جہاں اسلامی انفرادیت اور معاشرت فروغ پاسکے اور اسلامی علمیت کا تحفظ کیا جاسکے، اس ضمن میں سب اہم اجتہاد مدارس کا ملک گیر قیام اور انصرام تھا اور یہ کارنامہ علماء بریلی اور علماء دیو بند نے بخوبی انجام دیا۔ دوسرا رویہ دُخول (Penetration) کا تھا اور اس کا اظہار تحریک خلافت اور جمعیت علماء ہند کے دستوری جدوجہد ہے۔ اس رویہ کےتحت سرمایہ دارانہ نظام حیات کے اُصول اور ترتیب میں وہ گنجائش تلاشکی گئی جس کے ذریعہ اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اقتدار کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس رویہ کو Islamic Revisionism کہا جاسکتا ہے۔
Islamic Revisionistرویہ سرمایہ داری کو ایک نظام زندگی تسلیم نہیں کرتا (وہ اسلام کو بھی ایک نظام نہیں گردانتا) بلکہ جدا جدا سرمایہ دارانہ اعمال کو نصوص صحیحہ کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان اعمال میں کس نوعیت کی ترمیم اور تبدیلی کے ذریعہ ان کو تعلیمات شرعیہ کے مطابق بنایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ Islamic Revisionist اور Islamic Modernist میں بنیادی فرق ہے۔ Islamic Modernist مثلاً علامہ اقبال کی تشکیل جدید الٰہیات اسلامی (Reconstruction of Religious Thought in Islam) احکام شریعت کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے پیمانہ پر جانچتے ہیں اور ان احکامات میں ترمیم کرکے ان کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے مطابق بناتے ہیں۔ یہ Islamic Revisionism کے بالکل برعکس عمل ہے۔ Islamic Revisionismاسلام کی سرمایہ کاری ہے۔ Islamic Modernism اور Islamic Revisionism میں مماثلث یہ ہے کہ دونوں رویے سرمایہ دارانہ نظام زندگی سے کسی تصادم کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس سے مصالحت کے قائل ہیں۔ ابتداً تصادم سے گریز کا یہ رویہ سیاسی میدان میں ظاہر ہوا اور جمہوریت اور دستوریت کی اسلامی کاری پر Islamic Revisionistجماعتوں نے پورا زور صرف کیا ١٩٧٠ء کے بعد سے سعودی عرب کی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ معیشت کی اسلامی کاری کی مہم جاری ہے اور اس مہم کی حکومتی سرپرستی کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلامی بینک اور اسلامی سرمایہ دارانہ ادارے قائم ہوگئے ہیں۔
زاہد صدیق مغل صاحب کے ان مضامین میں اسلامی جمہوریت اور اسلامی بینکاری کے ان تجربات کا علمی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے۔ آپ کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس طریقہ سے اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اسلامی نظام اقتدار استوار نہیں ہوتا بلکہ عملاً Islamic Revisionism اور Islamic Modernism سے ایک ہی نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے اور وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں اسلامی شخصیت، معاشرت اور اقتدار کا مغلوب ادغامSubordinate Subsumption)۔ اسلامی بینکاری اور اسلامی جمہوریت کو فروغ دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت ناممکن ہے کیوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید کے ثانی کے دور تک قائم رہنے والی ایک ہزار سالہ اسلامی معاشرت اور ریاست میں نہ کوئی اسلامی بینک موجود تھا اور نہ اسلامی مقننہ۔ Islamic Revisionismحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت اور غلبہ دین کو ناممکن سمجھتی ہے۔ وہ جہاد سے پہلو تہی برتتی اور سرمایہ دارانہ استعمار کے ہاتھوں ہم نے جو انیسویں صدی میں شکست کھائی اس کو دائمی تصور کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے قائل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں شمولیت کے ذریعہ اس سے مستفید ہورہی ہے۔ اس کے اکابرین کو اندازا نہیں کہ امت کے تشخص کو اس رویہ کے اختیار کرنے سے کتنا عظیم نقصان ہورہا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسلم زعماء سرمایہ دارانہ نظاماتی زوال سے واقف نہیں۔ وہ انیسویں صدی کے باسی ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ نظام ماڈرن تھا اور اس کی موثر مخالفت مشکل نظر آتی تھی اس کے باوجود مجاہدین اسلام نے جہاد سے پہلو تہی اختیار نہیں کی۔ آج جب سرمایہ دارانہ
نظام زندگی شکست و ریخت کا شکار ہے اور مجاہدین اسلام نے پے در پے شکستوں سے دوچار کیا ہے تو ایک مصالحتی حکمت عملی کم ہمتی اور نادانش مندی کے علاوہ اور کیا ہے؟ عملاً اسلامی بینک اور اسلامی جمہوریت کے داعی مجاہدین کے مخالف اور سرمایہ دارانہ غلبہ اور استحکام کے آلہ کار ہیں یہ ادارے غلبہ دین کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نظام زندگی کی تسخیر بنیادی طور پر جہاد و قتال کی کامیابی پر منحصر ہے۔ محض کسی علمی دعوتی یا روحانی پیش رفت سے یہ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اگر Virgoths, Hums, Vandul اور Vibengs رومی سلطنت کو پے در پے شکستوں سے ہم کنار نہیں کرتے تو نئے نظام اقتدار کے قیام کے لیے گنجائش فراہم نہ ہوتی اور عیسائی نظام حیات کا غلبہ ناممکن تھا۔ یہ بات تفصیل کے ساتھ Osuald Spengles نے اپنے مکالات میں ثابت کی ہے۔ یورپی عوام کی اکثریت نے عیسائی نظام زندگی رومن اقتدار کے خاتمے کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد اختیار کیا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو پے در پے عسکری شکستیں نہ دی گئیں اور پیہم علاقائی فتوحات کے ذریعے اس کے نظام اقتدار کو بے دخل اور منتشر نہ کیا گیا تو ہم اسلام کاری کے عمل سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے گے۔ تمام علمی، روحانی اور دعوتی کام سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں سموتا چلا جائے گا۔ اور غلبۂ دین کی جدوجہد تو درکنار اس کا تصور بھی معدوم ہوجائے گا۔
نظام زندگی علمی اور روحانی پیش رفت کے لیے ذریعے غالب نہیں آتے۔ وہ جہاد اور قتال کے ذریعے غالب آتے ہیں۔ کیوں کہ جہاد و قتال وہ مفتوحہ علاقہ جات فراہم کرتے ہیں جہاں نیا غالب نظام زندگی بتدریج مرتب کیا جاسکے۔ یہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید ثانی کے دور تک اسلامی ریاستیں مسلسل جہاد کرتی رہیں اور انہیں عسکری فتوحات نے ترتیب فقہ اور کلام، اُصول اور تصوف کے مواقع فراہم کیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرایا اور غزاوات کا آغاز سن ایک ہجری میں شروع کردیا تھا۔ اسلامی علوم کی تدوین کئی سو سال بعد ممکن ہوسکی۔
جہاد کی اس ناگزیر اولیت کے شعور و احساس نے امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو یزید کے خلاف خروج عمومی برپا کرنے کے لیے تیار کیا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ایک سیکولر مملکت قائم اور مستحکم ہوگئی تو ایرانی اور بازنطینی نظام زندگی بے دخل نہ کیا جاسکے گا۔ اور اسلامی نظام زندگی کا تحفظ اور غلبہ ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا
باندھ کر سر سے کفن ہاتھ میں لے کر تلوار
ساتھ میں اپنے لیے صرف بہتّر انصار
دشت پُر ہول میں گھر بار لُوٹا کر اپنا
عصمتِ دیں کے لیے سر بھی کٹاکر اپنا
اپنے کردار میں قرآن کے معنی ٹھہرے
دین کے جن کا نبی بانی ثانی ٹھہرے
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان کامیابی اس سے عیاں ہے کہ اسلامی سلطنتیں ایک ہزار سال تک قائم رہی اور کبھی بھی سیکولر مملکتیں نہ بنیں، ان میں علوم اسلامی کا غلبہ رہا۔ شریعت نافذ رہی اور سلطان ظل اللہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سچے پیروکار اور مرید تھے۔ (اپنے ایک صاحب زادے کا نام بھی ابو بکر رکھا) سیدنا ابو بکر نے بھی جہاد اور قتال کی اولیت کو تسلیم کیا خلیفہ بنتے ہی جیشہ اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ فرمایا اور اپنے مبارک دورِ حکومت میں مستقل جہاد کرتے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ملک کی تمام اسلامی قوتیں جہاد کی ضرورت اور اولیت کو تسلیم کرکے ملک میں جاری تمام روحانی، علمی، اصلاحی اور دعوتی کام کو عملِ جہاد سے مربوط اور منسلک کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنے دورِ انحطاط(Downfall/Decline) میں کب کا داخل ہوچکا ہے۔ اور مدت سے شکست و ریخت کا شکار ہے۔ آج اسلام کاری کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ آج اسلامی قوتوں کو مجاہدین اسلام کی عسکری پیش رفت کے نتیجے میں جو مواقع میسر نظر آرہے ہیں، ان سے فائدہ اٹھاکر تحفظ دین اور غلبہ دین کے ایک تطبیقی حکمت عملی مرتب کرنا چاہیے۔

حوالہ کتاب: سرمایہ دارانہ نظام – ایک تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password