ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری :
کیا واقعتا نظام بدل رہا ہے؟
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس کو تاریخی اعتبار سے نظامی تبدیلی [Systemic Transition] کا دور کہا جاسکتا ہے۔ ایسے ادوار پہلے بھی گزر چکے ہیں مثلاً سلطنتِ روم کے زوال کا دور ]دوسری سے چوتھی صدی عیسوی کا دور[ سلطنتِ عثمانیہ کے انحطاط ]اٹھارویں اور انیسویں صدی کا دور[ مسیحی یورپ کے انتشار کا دور ]پندرہویں اور سولہویں صدی[ وغیرہ۔ ان ادوار کی اہم ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں ایک نظامِ زندگی آہستہ آہستہ معطل ہوتا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک یا کئی اور نظامِ ہائے زندگی کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہم دورِ حاضر کے تناظر میں اس عمل کا جائزہ لیں گے لیکن پہلے نظامِ زندگی کے تصور کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
١۔ نظامِ زندگی کیا ہے؟
انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس ہے۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ان معنوں میں ہے کہ وہ لامحالہ اپنی انفرادی حیثیت میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خیر اور شر کیا ہیں۔ اس دنیا میں اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال و افعال اختیار اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہئیں؟ اسی بنیادی انفرادی ذمہ داری کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص اپنی انفرادی موت سے دو چار ہوتا ہے اور اس کو انفرادی طور پر اپنی قبر میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہوتا ہے۔
ہم مسلمان ہیں یا آزاد ہیں؟
اپنی انفرادیت کے تعین کے لیے ہر شخص اس سوال کا جواب دینے پر مجبور ہے کہ ”میں کون ہوں؟” آج کل کے زمانہ میں اس سوال کے دو جوابات مقبول ہیں: ]١[ میں مسلمان ہوں ]٢[ میں آزاد ہوں۔
ان میں سے جو جواب بھی دیا جائے وہ چند قبل از احساس اور قبل از فکر پر مبنی مفروضات پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی چیز کو ”ایمان” کہتے ہیں۔ ایمان دلیل اور وجدان پر منحصر نہیں۔ دلیل اور وجدان ایمان پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا رحمت اللہ علیہ کسی شخص کے ایمان لانے کو معجزہ کہا کرتے تھے۔ ]آپ کے دستِ مبارک پر ہزاروں لوگ ایمان لائے۔ کوئی شخص اپنے احساسات یا اپنی سوچ کی بناء پر ایمان نہیں لاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت عظیم مفکر اور روحانی پیشوا مثلاً ارسطو، گاندھی، ووکانندا، کانٹ، آئن انسٹائن وغیرہ ایمان نہیں لائے۔ ایمان کی دولت صرف اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے نتیجے میں ملتی ہے۔ گاندھی تو ایمان نہ لائے لیکن ان پڑھ مرہٹہ لیٹرے ٹانٹیا گوپی کو خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمِ خواب میں کلمہ پڑھوایا اور ٹانٹیا گوپی تقی الدین بن گئے اور شہادت سے قبل ان کی دنیا بدل گئی۔
احساس اور تفکرات کے اظہار کی دو سطحیں:
احساس اور فکر کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ اسی چیز کو ہم، صوفی تصورِ حال سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنے حال کے مطابق اپنے مقام کا تعین کرتا ہے جو شخص اسلام پر ایمان لایا اس کے احساسات اور افکار اسی کے ایمان کا پر تو ہیں اعمال اپنے احساس اور تفکرات کا اظہار ہیں اور یہ اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے۔
]١[ معاشرہ کی سطح پر ]٢[ ریاست کی سطح پر
اقدار بدلنے سے ادارے بھی بدل جاتے ہیں:
معاشرہ اس اجتماع کو کہتے ہیں جو افراد بغیر جبر و اکراہ اپنی انفرادیت کے اظہار کے لیے قائم کرتے ہیں۔ چونکہ انفرادیت کا تعین مختلف ہے۔ کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ لوگ کافر۔ لہٰذا معاشرے بھی مختلف النوع ہوتے ہیں۔ معاشرہ رضاکارانہ [Voluntary] صف بندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی معاشرہ میں مختلف ادارے وجود میں آتے ہیں مثلاً خاندان، مسجد، بازار، محلہ، قبیلہ، برادریاں، مدرسہ، مدینہ، نظامِ شفع وغیرہ۔ ان اداروں کے قیام کی بنیاد تاریخی روایات کا تسلسل ہے۔ ہر ادارہ معاشرتی تسلسل کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ انہی اقدار کی غمازی کرتا ہے جو قدیم زمانے سے معتبر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے جیسے ان اقدار میں تبدیلی آتی ہے معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہو تی ہے۔ مثلاً مسلم معاشرہ میں خانقاہی نظام تقریباً مکمل طور پر معطل ہوگیا ہے اور بالخصوص بازار کی زندگی پر خانقاہ کا اثر تقریباً ختم ہوگیا۔ خانقاہ کی جگہ Chambers of Commerce نے لے لی ہے۔ اسی طرح یورپی معاشرہ میں خاندان کا ادارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ [Cohabitation] نے لے لی ہے۔
اس نوعیت کی تبدیلیاں جبر کی بنیاد پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ کراچی اور لاہور کے تاجروں نے بہ رضا وہ رغبت بغیر کسی جبر کے خانقا ہوں سے اپنے قدیم تعلقات آہستہ آہستہ منقطع کیے ہیں۔ نیویارک کا نوجوان زنا کو نکاح پر ترجیح دیتا ہے کوئی اس کو زنا کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ معاشرتی تغیر [Social Change] کے عمل کی بنیاد اقدار کی تبدیلی ہے جبر نہیں ہے۔
ریاست کو جبر یا معاشرتی رضا سے ملنے والے اختیارات:
لیکن معاشرہ کو ایک نظامِ جبر کی ضرورت ہے، اس نظامِ جبر کوریاست کہتے ہیں۔ ریاست معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز حلال اور حرام کے ان تصورات اور پیمانوں کو نافذ العمل بناتی ہے جن کو معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہے، یا جن کو معاشرہ برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ ریاست محض نظامِ جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظامِ جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو۔
ریاست مقبول معاشرتی اقدار کو نافذ العمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔ یہ جبری ادارے مثلاً عدلیہ محصولاتی تنظیم، شہری انتظامیہ، محتسب، فوج۔ اس قوت کا اظہار اور ترتیب ہیں جو معاشرہ اپنے مقتدرین کو سونپنے پر راضی ہوتا ہے۔ اس معاشرتی رضا کی دو نوعیتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدرین ریاستی نظام کے ذریعے ان اقدار کو نافذ کرنے کی کوشش کریں جو معاشرے کا ایک عام باشندہ فی الواقع پسند کرتا ہو، مثلاً ایک عام امریکی آزادی اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتا ہے اور امریکی ریاست ان کو نافذ العمل بنانے کے لیے ملک میں اور ملک سے باہر۔ مثلاً عراق اور افغانستان میں جو جبر کرتی ہے ایک عام امریکی اس کا حمایتی ہے اور اس حمایت کا اظہار انتخابات میں بش کو منتخب کر کے کرتا ہے۔
عوامی رضا کی دوسری شکل برداشت ہے۔ جب برصغیر میں انگریزی ریاستی نظام قائم ہوا تو جن اقدار کا وہ غماز تھا ان کو ہندوستانی معاشرہ میں قبولیت عام حاصل نہ تھی، لیکن ان اقدار اور ان پر قائم نظامِ اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے عوام خاطر خواہ قربانیاں دینے پر راضی نہ تھے، لہٰذا جہادِ ١٨٥٧ء اور حضرت شیخ المشائخ امداد اللہ مہاجر مکی رحمت اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمت اللہ علیہ کی تحریکات جہاد ناکام ہوئیں اور علمائے دیو بند اور بریلی کا عوام نے ساتھ نہ دیا۔ مسلم عوام اور خواص انگریزی اقدار اور انگریزی اقتدار کو برداشت کرنے پر راضی ہوگئے۔ سرسید کامیاب ہوگئے اور پاکستان جدید مغربی اقدار، اقتدار و روایات کی وارث ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔
انسانی حیات تین سطحوں پر ہوتی ہے:
اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حیات تین سطحوں پر ہوتی ہے:
]١[ انفرادی سطح پر جہاں فرد اپنی ایمانیات کا تعین کرتا ہے اور ان ایمانیات کی بنیاد پر اپنے حال اور مقام کا تعین کرتا ہے۔
]٢[ معاشرتی سطح پر جہاں ان اقدار کے فروغ کے لیے جن کو افراد نے غیر اکراہی طور پر اختیار کیے ہیں، غیر اکراہی یا رضاکارانہ voluntory صف بندی کہی جاتی ہے۔
]٣[ ریاستی سطح پر جہاں جبری مقبول عام یا عام طور پر برداشت کیے جانے والے، اقدار کو قانون اور قوت کے ذریعہ نافذ العمل بنایا جاتا ہے۔
ان تینوں سطحوں کے ارتباط کو ”نظامِ زندگی” کہتے ہیں۔ ”نظامِ زندگی” کا تصور حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ کی تصنیف ”حجة اللہ بالغہ” اور حضور رحمت اللہ علیہ کی دوسری تصانیف میں پیش کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں اسی تصور کو مولانا مودودی رحمتہ علیہ نے اپنی دو کتابوں میں واضح کیا ہے۔ ”اسلامی نظامِ حیات” اور ”اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی” ”نظامِ حیات” سے مراد وہ مجموعہ ہے جسے ”تہذیب” بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر تہذیب ایک مخصوص انفرادیت، ایک مخصوص معاشرت اور ایک مخصوص ریاست کو فروغ دیتی ہے۔ مولانا مودودی نے تعلیم دی ہے کہ ہمیں انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو الگ الگ نظاموں کے طور پر تصور نہیں کرنا چاہیے۔ ایک خاص انفرادیت کا ایک مخصوص معاشرت اور مخصوص ریاست ہی میں پنپنا آسان ہوسکتا ہے۔ غیر مسلم معاشرہ اور غیر مسلم ریاست میں اسلامی شخصیت کا پروان چڑھنا مشکل ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اسلامی جدوجہد تین سطحوں پر منتج ہے:
]١[ تزکیہ ]انفرادیت کی سطح پر[ ]٢[ تبلیغ اور نصیحہ ]معاشرت کی سطح پر[ ]٣[ جہاد اور خلافت ]ریاست کی سطح پر[۔
لیکن تحفظ دین اور غلبہ دین کی تحاریک کو دانستہ ان تینوں سطحوں پر کئے جانے والے کام کو مربوط کرنے کی سعی کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر اسلامی انفرادیت اسلامی معاشرت اور اسلامی ریاست تقویت حاصل نہیں کرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں گوکہ، چشتی صوفیائے کرام کا دائرہ عمل انفرادی اصلاح رہا، لیکن انھوں نے پٹھان فرمانروائوں اور سیدنا عالمگیر رحمت اللہ کی تحریکات کی بھرپور معاونت فرمائی۔
لہٰذا تحفظ اور غلبہ دین کی تحاریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مجموعی کام کو اس طرح مربوط کریں کہ اسلامی نظامِ زندگی ___ (نہ کہ صرف اسلامی انفرادیت، صرف اسلامی معاشرت یا صرف اسلامی ریاست) ___ فروغ پائے۔ یہ درست ہے کہ ہر جماعت اپنے ہی ذمہ کا کام کرے گی، لیکن وہ اس کام کو دوسری جماعتوں کے کام سے مربوط اور منطبق کرنے کی دانستہ سعی بھی لازم پکڑے گی۔ اگر عمارت کا فرش بنانے والے مزدوروں نے عمارت کی دیواریں کھڑی کرنے والے مزدوروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھا تو اسلامی نظام زندگی کی عظیم الشان عمارت کس طرح کھڑی کی جاسکے گی
۔
٢۔ مغربی نظامِ زندگی- سرمایہ داری:
جب ہم اسلامی نظامِ زندگی کے تحفظ اور غلبہ کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں لازماً زمانی اور مکانی تناظر کو خاطر میں لانا پڑتا ہے۔ اسلامی نظامِ زندگی کا تحفظ اور غلبہ دورِ حاضر کے غالب اور محفوظ نظامِ زندگی کی تسخیر اور انتشار کے بغیر ممکن نہیں۔ آج جو نظامِ زندگی غالب اور محفوظ ہے وہ سرمایہ داری ہے۔ اس نظامِ زندگی کو سید قطب شہید رحمت اللہ علیہ نے ”جاہلیت خالصہ” کہا ہے۔ مغربی نظامِ زندگی کے غلبہ کے نتیجہ میں اسلامی انفرادیت، اسلامی معاشرت اور اسلامی ریاست لازماً برباد اور منتشر ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے اندر اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اقتدار کو فروغ پانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اس نظام زندگی کے مقتدرین یا ان کے وکیلوں سے مصالحت یا مکالمہ لازماً اسلامی نظامِ زندگی کے انتشار کا ذریعہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی تین سطحیں:
اب ہم سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تینوں سطحوں کا جائزہ لیں گے۔
1۔سرمایہ دارانہ انفرادیت:
سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو ”مغربی” کہنا صرف ان معنوں میں درست ہے کہ آج یورپ اور امریکہ نے اس نظامِ زندگی کو اپنایا ہوا ہے۔ چودہویں صدی عیسوی تک مغرب میں سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو نہ تحفظ حاصل تھا نہ غلبہ۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی یورپ کے چند ساحلی شہروں میں جڑ پکڑ سکا تھا۔ سولہویں صدی تک سرمایہ دارانہ مخالف تحریکیں یورپ میں عام تھیں اور اسی صدی کے نصف میں [oliver Cromwell] نے ایک خالص مذہبی ریاست انگلستان میں قائم کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور غلبہ کے دو تاریخی سنگِ میل ہیں۔ انقلاب امریکہ ]١٧٧٦ئ[ اور انقلاب فرانس ]١٧٨٩ئ[ انگلستان کا ”شاندار انقلاب” [Glovious revolution] ]١٦٨٨ئ[ ان دونوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
سرمایہ دارانہ شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے عروج کی وجوہات کو بیان کیا جائے۔
چوتھی صدی عیسوی سے پندرہویں صدی عیسوی تک:یورپ پر کیتھولک عیسائیت کو معاشرتی اور انفرادی غلبہ حاصل تھا۔ یورپی انفرادیت اور معاشرت عیسائی اقدار کی غماز تھی، لیکن یہ انفرادیت اور معاشرت ایک ایسے ریاستی نظام سے مربوط تھی جس کے خدوخال میکیاویلی (Machiavelli )نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یورپی فرمانروا کسی عیسائی شریعت کے پابند تھے اور وہ عیسائی انفرادیت اور معاشرت کے غلبہ کے ہزار سالہ دور میں خالصتاً دنیا پرستانہ [Secular] سیاست کرتے رہے اور اس سیکولر سیاست کا جواز چوتھی صدی میں عیسائیت کے سب سے بڑے عالم سینٹ آگسٹائن Saint Augestine نے City of Man اور City of God میں بیان کر دیا تھا۔ Augestine کے بعد عیسائی علمیت پر ارسطو اور افلاطون کی فکر بتدریج غالب آتی چلی گئی اور اس علمیاتی غلبہ نے عیسائی روحانیت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ عیسائی فکر کو کبھی کوئی امام غزالی نصیب نہ ہوا اور قرون وسطی کی عیسائیت علمیت [Scholasticism] اعتزال ہی کی ایک شکل تھی۔
]ہمارے بزرگوں نے ایسے خواب بیان فرمائے ہیں جن میں انھوں نے دیکھا کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم امام غزالی رحمت اللہ علیہ کو حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ”کیا آپ کی امت میں اس جیسا عالم پیدا ہوا” سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر ایمان ثریا سے اوپر بھی چلا جائے تو ایک فارسی اس کو واپس لے آئے گا۔ بہت سے محدثین کی رائے کہ اس حدیث میں حضور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ حضرت امام غزالی رحمت اللہ کی طرف ہے[
عیسائی فکر نے ١٨ اور ١٩ ویں صدی سے قصداً اسلامی فکر کو حقیر اور بے وقعت جانا۔ امام غزالی رحمتہ اللہ کی فکر کو حقیر اور بے وقعت جانا۔ امام غزالی رحمتہ اللہ کی فکر طاہرہ کے مقابلہ میں معتزلہ دہریوں مثلاً ابن رشد، فارابی، ابن سینا کے افکارِ فاسدہ کو بنیاد بنا کر ارسطو اور جدید افلاطونیت [Neo Platonism] کے احیاء کی راہ ہموار کی۔ صلیبی جنگوں کے دور میں فکرِ اسلامی سے عیسائی نفرت اپنے عروج کو پہنچ گئی اور فکرِ اسلامی سے نفرت کر کے عیسائیت نے اپنی مکمل بربادی کا سامان اپنے ہاتھوں تیار کرلیا۔
نیو افلاطونیت اور سیکولرازم نے عیسائیت کو تباہ کر دیا:
نیو افلاطونیت اور سیکولر ازم کو اپنا کر عیسائی نظامِ زندگی کئی بنیادی تضادات کا شکار ہوگیا۔ عیسائیت جس اخلاقیات کا پرچار کرتی تھی خود چرچ کے اندر ]یعنی مفروضہ City of God میں[ ان کا وجود ناپید ہوتا چلا گیا۔ پوپ پادری اور چرچ کے دوسرے اہل کار بدترین جرائم کے مرتکب ہونے لگے۔ روحانی تربیت کے نظام [Monastaries] کو چرچ کی بیورو کریسی سے باضابطہ طور پر الگ کر دیا گیا اور اس تفریق کے نتیجے میں پوپ خود ایک سیکولر بادشاہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ معاشرہ میں چرچ کے بیوروکریسی کا نفوذ ریاستی بیورو کریسی کے نفوذ کے مماثل ہوتا چلا گیااور یہ دونوں بیوروکریسیاں اس حد تک خلط ملط ہوگئی کہ عوام [laity] کے لیے ان میں فرق کرنا دشوار بلکہ عملاً ناممکن ہوگیا۔
جو چیز عیسائی نظامِ زندگی کو لے ڈوبی وہ نفاق تھا۔ روحانی اور اخلاقی تعلیمات اور معیارات انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیماتِ مبارکہ سے ہی ماخوذ تھیں لیکن معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تمدنی عمل کا ان تعلیمات سے تعلق بتدریج منقطع ہوگیا۔ لہٰذا افلاطونی فلسفہ اس تضاد کا منطقی جواز اور توجیہہ بیان کرتا تھا اور یہی عیسائی علمیت تھی۔
ان حالات میں اخلاقِ فاسدہ کا فروغ پانا ناگزیر تھا۔ شہوت رانی، ہوس پرستی، معاشی ظلم، احتکار، لوٹ مار، خدا بے زاری عام ہوگئے۔ تیرہویں صدی سے یورپ نے اپنے قبل از عیسائی نظامِ ہائے زندگی Paganism اور Hellenism کی طرف عمومی مراجعت شروع کر دی۔ عیسائی تعلیمات کی اصولی فوقیت اور عیسائی بیوروکریسی کے نظامِ اقتدار کو چیلنج کے بعد چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ جو Pagan اور Hellenistic ]یونانی[ نظامِ زندگی عملاً گزار رہا تھا اس کی علمی اور اصولی فوقیت قائم کرنے کی جدوجہد کرنے لگا۔
عیسائیت کی اندرونی کشمکش: نو آبادیات کا قیام
پندرہویں صدی سے یورپی اخلاقی زوال کی رفتار میں برق رفتاری سے ترقی ہوئی۔ اس کے بعد یورپ دو عظیم الشان فسادوں کا شکار ہوگیا۔ ایک طرف کیتھولک اور غیر کیتھولک عیسائیت میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو تقریباً دو سو سال جاری رہی اور جس میں یورپی کلیدی ممالک فرانس، اٹلی، جرمنی، ولندیز اور اسپین ملوث ہوئے۔ دوسری طرف فرانس، اسپین، پرتگال، ولندیز اور برطانیہ نے عالمی استعماریت کی بنیاد ڈالی۔ مذہبی اور استعماری جنگوں میں مغربی یورپ کے تقریباً ہر گھرانے کے افراد شریک ہوئے۔ ان جنگوں میں وحشت، بہیمیت اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی۔ کروڑوں غیر یورپیوں کو قتل کیا گیا۔ پورے پورے براعظم لوٹ لیے گئے اور وہاں صدیوں سے آباد نسلوں کو کلیتاً تہہ تیغ کر دیا گیا اور برطانوی فرانسیسی، اسپینی اور پرتگالی ان کی دولت اور ان کے ملکوں پر قابض ہوگئے۔ یورپ میں لوٹی ہوئی دولت کے انبار لگ گئے اور قتل و غارت، ظلم اور استبدادِ، جنسی بے راہ روی، لوٹ مار، دھوکہ اور فریب یورپ میں رائج نظامِ زندگی کا حصہ بن گئے۔ اس اخلاقی تغیر کی کئی تصویریں شیکسپیئر کے ڈراموں میں پیش کی گئی ہیں۔
عیسائیت استعماریت کی تاریخی حلیف رہی ہے: آج بھی ہے
اس لوٹ مار، جنسی بے راہ روی، قتل و غارت، ظلم اور استبداد کے فروغ میں عیسائیت ہر جگہ یورپ میں امریکہ میں مشرق بعید میں حکومت کے دستِ راست کے طور پر کام کرتی رہی۔ اس نے ہر اس جرم کا مذہبی جواز فراہم کیا جس کے ذریعے یورپی حکمرانوں نے دولت لوٹنے، قتل عام کرنے اور سفاکیت کو فروغ دینے کے لیے کیا۔ ہر استعماری لشکر کا مذہبی پیش رو کسی نہ کسی چرچ کا نمائندہ ہی ہوتا تھا اور بالکل جس طرح Evangilical پادری امریکی فوجوں کی عراقی اور افغان کارروائیوں کا جواز پیش کر رہے ہیں اسی طرح کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں نے استعماری مہمات کی پشت پناہی کی۔
انقلاب امریکہ و فرانس نے عیسائیت کو بے دخل کر دیا:
١٨ ویں صدی کی ابتدا تک عیسائی نظامِ زندگی معطل ہوگیا تھا۔ عیسائی بیورو کریسی کا اقتدار سیکیولر ریاستی نظام کا حصہ بن گیا تھا لیکن جیسے جیسے عیسائی بیورو کریسی کی معاشرتی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ ویسے ویسے حکومتیں ان کو غیر ضروری تصور کرنے لگیں۔ جیسا اوپر عرض کرچکا ہوں عیسائی نظامِ زندگی کو مکمل طور پر غیر معقول اور غیر مقبول بنانا دو انقلابوں کا کارنامہ ہے۔ انقلاب امریکہ اور انقلاب فرانس ان دو انقلابوں کے ذریعہ یورپ نے جس نظام زندگی کو اصولاً عملاً رائج کیا، اس کو سرمایہ داری کہتے ہیں۔
مذہب سرمایہ داری ایک نظام زندگی ہے:
سرمایہ داری ان معنوں میں ایک نظام زندگی ہے کہ اس کا اپنا ایک مخصوص تصور انفرادیت، ایک مخصوص تصورِ معاشرت اور ایک مخصوص تصورِ اقتدارریاست ہے اور یہ تینوں تصورات باہم مربوط ہیں۔ غیر سرمایہ دارانہ شخصیت سرمایہ دارانہ معاشرہ میں پنپ نہیں سکتی۔ سرمایہ دارانہ ریاست غیر سرمایہ دارانہ معاشرت کا وجود برداشت نہیں کرسکتی۔ سرمایہ داری ایک نظامِ زندگی سے کسی دوسرے نظامِ زندگی کا حصہ نہیں بن سکتی۔ وہ دوسرے نظامِ زندگی کو تباہ کر کے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر کسی ملک میں اسلامی انقلاب آئے تو اسے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی، سرمایہ دارانہ انفرادیت، سرمایہ دارانہ معاشرت، سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار اور ریاست کو تباہ کرنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو اسلامی نظامِ زندگی میں ضم نہیں کیا جاسکتا۔
سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرت اور ریاست کے تصورات سرمایہ دارانہ علمیت سے ماخوذ ہیں۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ یہ علمیت Peter Abelard کے وقت سے یورپ میں فروغ پا رہی تھی۔ اس فکر کے غلبہ میں ١٧ویں صدی بہت اہم ہے جب وہ چیز وجود میں آئی جس کو ہم Science کہتے ہیں۔ ١٨ویں صدی میں اسی Science نے ایک ایسے فلسفہ کو جنم دیا جس نے ان تمام نیوپلوٹونک [neo platonic] تصورات انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو مہمل ثابت کر دیا ہے جو عیسائی نظامِ زندگی کے اصل الاصول کے طور پر قبول کیے جاتے تھے۔
اس فلسفہ کو جس تحریک نے پروان چڑھایا وہ تحریک تنویر [Enlightenment] کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تحریک کا سب سے اہم مفکر Emanuel Kant تھا اور Kant کے کردار میں وہ تمام تضادات پائے جاتے ہیں جن کی سرمایہ دارانہ انفرادیت غماز ہوتی ہے۔ Kant اپنے آپ کو عیسائی سمجھتا تھا اور اس کے خیال میں اس نے علمیت کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کی ہے لیکن وہ اغلام باز [Homosexual] بھی تھا اور اس کی ذاتی زندگی نہایت نجس اور غلیظ تھی۔ اس نوعیت کے تضادات ہمیں مغرب کے ہر بڑے فکری رہنما اور ہر بڑے فلسفی، مفکر، سیاست داں کی زندگی میں ملیں گے۔ گو کہ سرمایہ داری عیسائی نظامِ زندگی کو رد کرچکی ہے لیکن عیسائی تہذیبی ورثہ سے اپنا دامن نہ چھڑا سکی اور اس تہذیبی ورثہ کا اہم ترین جزو منافقت ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ امن کے حصول کے قیام کی خاطر افغانستان اور عراق میں لاکھوں انسانوں کو مستقل قتل کیے جا رہا ہے اور امریکی عوام کی غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت کیا ہے؟
اب میں سرمایہ دارانہ تصورِ انفرادیت کی خصوصیات بیان کروں گا۔ یہ تصویر Kant کے فکر سے ماخوذ ہے۔
٣۔ سرمایہ دارانہ تصورِ انفرادیت: تحریک تنویر کا اہم ترین اور کلیدی تصور “Humanity” ہے۔ “Humanity” کا ترجمہ ”انسانیت” کرنا غلط ہے۔ ”انسانیت” کا درست انگریزی ترجمہ “Mankind” ہے۔ یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں ١٨ ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ “Humanity” کا تصور ”انسانیت” کے تصور کی رد ہے۔
صہیب ایک انسان ہے وہ خود انسان نہیں بنا۔ اللہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ صہیب کو انسان بنائے۔ وہ چاہتا تو صہیب کو فرشتہ یا جن، یا جانور یا درخت یا پتھر بنا سکتا تھا۔ صہیب کا انسان ہونا ایک حادثہ [Contergency] ہے۔ صہیب کی اصلیت Essense اس کی عبدیت ہے۔ وہ کچھ بھی ہوتا جن یا فرشتہ یا جانور یا درخت۔ یا گھاس کا ایک تنکہ۔ ہرحال میں مخلوق اور عبد ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اصلاً مسلم ہوں اور صرف حادثاتی طور پر اور ضمناً انسان ہوں۔ میری انسانیت میری اسلامیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ میری انسانیت اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر مسلم انسانوں سے مخاطب ہوتا ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت میں دے سکتا ہوں، کسی ماورائے اسلام ”انسانی مفاد کے تناظر میں ان سے مکالمہ نہیں کرسکتا۔ یہ بات مولانا مودودی نے اپنی کتاب ”رسالہ دینیات” میں خوب اچھی طرح تعلیم فرما دی ہے۔ ”تجدید و احیائے دین” میں مولانا ”تجدد” اور ”تجدید” میں فرق بیان فرماتے ہوئے بھی اسی نکتہ پر زور دیتے ہیں۔
humanity انسانیت کے تصور کا ان معنوں میں رد ہے کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اصولاً اور عملاً رد ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل “autonomy” یعنی خود ارادیت اور خود تخلیقیت ہے۔ انسان اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے۔ ]قالوابلیٰ[ human being خود اپنا رب ہوتا ہے ]انا ربکم الاعلیٰ[۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزر کرتا ہے۔ humanity کی بنیادی قدر آزادی ہے human being معیارات خیر و شر خود متعین کرتا ہے۔ کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ نہ human being کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کے سامنے کسی عمل یا کسی شے کو پیش کر کے اس عمل یا فعل کی قدر [value] کو متعین کیا جاسکے۔ قدر کا تعین صرف انسانی ارادہ ہی کرسکتا ہے۔
Kant کے مطابق خیر و شر کے تعین کے لیے human being کو ایک سوال کا جواب دینا چاہیے۔ کیا یہ عمل [Universalise] کیا جاسکتا ہے؟ یعنی کیا میں جو چیز پسند کرتا ہوں وہ تمام human being کو پسند کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوں۔ اگر میں زنا کی عمومی اجازت دینے کے لیے تیار ہوں مگر چوری کی عمومی اجازت دینے کے لیے تیار نہ ہوں تو زنا univeralisablity پر پورا اترا اور چوری پوری نہیں اتری لہٰذا میں زنا کو اختیار کرسکتا ہوں اور چوری کو اختیار نہیں کرسکتا۔
نظریہ افادیت: لذت پرستی کا عروج
نظریہ افادیت [Utilitarianism] نے قدر کے تعین کا ایک پیمانہ بھی پیش کیا ہے اور وہ ہے شدت لذت [Intensity of Pleasure] مثلاً اگر Hang زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب زیادہ قدر دے گا لیکن Barry کا یہ حق تسلیم کرے گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلہ میں زیادہ قدر دے۔
قدر کے ان دونوں تصورات میں human being آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human beingکو قدر کا تعین اپنے ارادہ کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔
لہٰذا Humanist تصورِ انفرادیت کی دوسری ]ذیلی[ قدر مساوات [Equality] ہے۔ ہر فرد کو اپنے ارادہ کے مطابق قدر کے تعین کا مساوی حق حاصل ہے۔ Kant اور نظریہ افادیت کے مفکر ]مثلاً Mill, Bentham, Hume اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر فرد کے تعین قدر کی ترتیب کو مساوی گردانا جائے۔ کسی کے اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہ دی جائے خود ارادیت اور خود تخلیقیت [autonomy] کا ہر human being یکساں مکلف ہے اور سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف آزادی کافی نہیں مساوی آزادی کو [equal freedom] تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔
اس مساوی آزادی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ human being اپنے ارادہ کو غیر human اشیاء پر مسلط کر کے اس کو اپنے ارادہ کا تابع کرے ]ان غیر human موجودات میں غیر human انسان اور فطری قوتیں دونوں شامل ہیں۔[ human ارادے کے اس کائناتی تسلط کو progress یا ترقی کہتے ہیں۔ progress سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تیسری قدر ہے۔ Progress کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔(قرآن کے مشہور انگریزی مترجم) حضرت مولانا محمد مارماڈیوک پکتھال رحمة علیہ نے سرمایہ کو تکاثر کے مماثل کہا ہے اور تکاثر کے انگریزی معنی “rivalry in Wordly Increase” بیان فرمائے ہیں۔ سرمایہ میں بڑھوتری آزادی کے فروغ کی عملی شکل ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب ایک شخص اپنے human ہونے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ سرمایہ کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کے اولین مقصد کے طور پر قبول کرتا ہے کیونکہ آزادی کا مطلب ہی سرمایہ کی بڑھوتری ہے اس کاکوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادہ سے اقدار کی وہ ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو۔
سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کرسکے۔ مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے تو شراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پر جائے، کسی چیز کی کوئی اصلی [intrinsic] قدر نہیں۔ ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف human خواہش اور ارادہ سے حاصل کرتی ہے۔ لہٰذا قدرِ اصل [Intrinsic Value] صرف ارادہِ انسانی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدر صرف اس کی ہے کہ انسان جو چاہنا چاہے وہ حاصل کرسکے اور تمام اعمال اور اشیاء کی قدر اس امر سے متعین ہوتی ہے کہ Human اس کو دوسرے اعمال اور اشیاء کے مقابلہ میں کتنی شدت سے پسند یا نا پسند کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ علمیت میں قدرِ مطلق صرف human being کے ارادے محض [Preference for preference itself] یعنی کہ سرمایہ کی ہے کیونکہ سرمایہ ہی ارادہ محض کا اظہار ہے۔ سرمایہ ہی یہ ممکن بناتا ہے کہ Human جو چاہنا چاہے اس کے حصول کی جستجو کرے۔ لہٰذا ارادہ محض [preference for preference itself] کے سوا کسی چیز یا فعل کی کوئی قدرِ اصل [absolute and intrinsic value] نہیں ہر فعل اور عمل کی قدر محض تقابلی ہے، یعنی Exchange Value۔ قدرِ محض [absloute value] اور تقابلی قدر [Exchange Value] کے تعلق کو میں اگلے حصے میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
اصلی قدر ارادہ انسانی سرمایہ سرمایہ دارانہ عقلیت :
قدرِ اصل صرف ارادہ انسانی کے اظہار یعنی سرمایہ کی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دار عقلیت [rationality] کا تقاضا ہے کہ ہر human being اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول [realisation] کی جدوجہد قدرِ اصل یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔ خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو human being کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار [Instrument] نہیں بناتی، عقلیت کے خلاف ہے irrational ہے۔ جیسا کہ حضرت حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ نے تہافة الفلاسفہ میں تحریر فرمایا ہے، عقلیت کے کئی جاہلانہ تصورات ہیں۔ سرمایہ دارانہ عقلیت rationality۔ وہ جاہلانہ عقلیت ہے جو huaman being کے ارادہ محض ]یعنی سرمایہ کی بڑھوتری[ کو اصل الاصول اور مقصد اصل [end in itself] کے طور پر فرض [presume] کرتی ہے اور ہر عمل اور شے کی خود اس ذلیل اور فاسد اور باطل اور لغو مقصدِ اصل ]یعنی سرمایہ کی بڑھوتری[ کے حصول کے ذریعہ کی حیثیت کی بنیاد پر متعین کرتی ہے۔ اس بحث کی سہل ترین تشریح مولانا مودودی کی کتاب ”عقل کا فیصلہ” میں دیکھی جاسکتی ہے۔
زندگی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری کے سوا کچھ نہیں ہے:
اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا اصل الاصول [end in itself] سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔ سرمایہ کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر Human being کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور ان کی تقابلی قدر [exchange value] اس قدر محض [Intrinisc Value] کے مطابق متعین کی جاتی ہے۔ ہر وہ خواہش جو سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اس کی تقابلی قدر [Exchang Value] صفر یا منفی ہوتی ہے۔ مثلاً صہیب کی خواہش یہ ہے کہ میں جنت میں جا ئوں تو اگر وہ جنت میں جانے کے لیے کیے گئے اعمال اور سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے کیے گئے اعمال میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا تو اس کے جنت میں جانے کے لیے کیے گئے اعمال کی مثبت [positive] تقابلی قدر متعین کی جائے گی۔ مثلاً صہیب میزان بینک کا آفیسر سرحد کی حکومت کا وزیر ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو شریعت کے مقبول طریقوں میں فروغ دینا چاہتا ہے تو سرمایہ دارانہ عقلیت اس کے ان اعمال کو مثبت تقابلی قدر [exchange value] کی حیثیت دے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ قدر Standared Chartered Bank کے افسر اور شیر پائو پی پی پی کے وزیر کے اعمال کے مقابلہ میں کم ہو۔ لیکن ہوگی پھر بھی مثبت کیونکہ صہیب بھی پی پی پی کے وزیر اور SCB کے کارندے کی طرح سرمایہ کی بڑھوتری کو ممکن بنا رہا ہے۔
صہیب تبلیغی جماعت اور دعوة اسلامی کا کارکن ہے وہ سمجھتا ہے کہ جنت میں داخلہ کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ایک حصہ کو سرمایہ دارانہ عقلیت سے مطلقاً پاک کرلیا جائے۔ وہ زندگی کے اس حصہ میں human being نہیں بلکہ انسان کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے لیکن زندگی کے اس ظاہر حصہ کا پر تو اپنی باقی زندگی پر نہیں پڑنے دیتا۔ وہ سرمایہ دارانہ کاروبار کرتا ہے۔ مسلم لیگ میں شامل ہے، مشاعرہ منعقد کرتا ہے، اس صورت میں سرمایہ دارانہ عقلیت صہیب کے جنت میں جانے والے اعمال کو برداشت [tolorate] کرنے پر تیار ہوسکتی ہے۔ وہ ان اعمال کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے فروغ اور استحکام کے لیے بے ضرر تصور کرسکتی ہے اور ان کی تقابلی قدر [exchange value] صفر متعین کرسکتا ہے۔
صہیب ایک انقلابی یا مجاہد ہے۔ وہ جنت میں جانے کے لیے اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی اس کو تباہ و برباد کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ کاروبار کرتا ہے تو غیر سرمایہ دارانہ اصولوں پر، سیاست کرتا ہے تو انقلابی یا جہادی۔ اس کی علمی اور ادبی کاوشیں سرمایہ دارانہ عقلیت کو جہالت ثابت کرنے کی سعی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں سرمایہ دارانہ عقلیت صہیب کے جنت میں جانے والے اعمال کو منفی [negative] تقابلی قدر [exchange value] متعین کرے گی۔ وہ ان عمال کو برداشت کرنے پر تیار نہ ہوگی۔ اس کی نظر میںصہیب ایک دہشت گرد ہے جس کو جلد از جلد قتل کر دینا چاہیے۔ صہیب کو قتل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے وہ صہیب کو جہاد یا انقلاب ترک کرنے پر راضی کرسکے۔
سرمایہ دارانہ طرز زندگی کو رد کرنے کی اجازت نہیں:
اس مثال سے یہ بات واضح ہو جانا چاہیے کہ ”تحریک تنویر کا یہ دعوی کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے فرد کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو رد کرنے کا حق نہیں۔ ہر فرد اپنی انسانیت [Man Kind] ترک کر کے human being بننے پر مجبور ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں سرمایہ دارانہ عقلیت ان تمام خواہشات ]یعنی عبدیت[ کی ”تحدید اور تنسیخ کرتی ہے جو انسانیت کے اظہار کا ذریعہ ہوسکتیں ہیں۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہیومن رائٹس [Human rights] کے نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔
سرمایہ داری میں کس کی زندگی محفوظ ہے؟
سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہر human being کو تین بنیادی حقوق تفویض کرتا ہے۔
حقِ زندگی: ہر human being کا حق ہے کہ وہ اپنی جان کو سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ بنائے۔ جیسا کہ ١٧ویں صدی کے مشہور فلسفی جان لاک [John Locke] نے بیان کیا، سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں انسانی جسم، سرمایہ کی بڑھوتری کا ایک آلہ ہے ]جس نظریہ کے تحت یہ رائے دی اس کو Labour theory of value کہتے ہیں اور ہم اس طرف پھر رجوع کریں گے[ جب تک ایک human being اپنی زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے، اس کی جان محفوظ ہے جو انسان زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے آلہ کے طور پر استعمال کرنے پر تیار نہیں، ان کی جان محفوظ نہیں اور اگر وہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بن جائیں تو ان کا قتل کرنا واجب ہے۔ ١٦ سے ٢٠ ویں صدی تک امریکہ میں نو کروڑ سرخ ہندی نسل در نسل قتل کیے گئے اور John Locke نے صدیوں پر محیط منظم نسلی کشی اور قتل عام کو اسی بنیاد پر جائز قرار دیا تھا کہ ریڈ انڈین اپنی جان کو سرمایہ کی بڑھوتری میں کھپانے پر آمادہ نہیں۔ جارج واشنگٹن [George Washington] نے ریڈ انڈینوں کو بھیڑئے اور ابراہام لنکن [Abraham Lincon] نے ان کو سور اور سانپ کہا۔ حضرت عتبہ بن نوفل رضی اللہ عنہ تعالیٰ کے ایک قول کے مطابق امریکہ کے قدیم باشندہ حضرت یونس علیہ السلام کے امتی تھے۔ آج لاک، واشنگٹن اور لنکن کی دلیلیں جارج بش عراقی اور افغانی مسلمانوں کے قتل عام کے جواز میں پیش کر رہا ہے۔
ہر شخص اپنی خواہشات کو جس طرح چاہے مرتب کرے:
دوسرا ہیومن رائٹس [human rights] اظہار آزادی ضمیر [Right of consciousness] کا ہے۔ ہر human being کو حق ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو جس طرح مرتب کرے اور خواہشات کی تمام انفرادی ترتیبوں کو سرمایہ کی بڑھوتری کی قدر مطلق [Absolute Value] پر تولے جانے کے حق پر راضی ہو۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ خواہشات کی ایسی ترتیب مرتب کرے جو سرمایہ کی بڑھوتری کی قدر مطلق ہونے کی حیثیت کی نفی کرے اور سرمایہ کی بڑھوتری کی جگہ کسی دوسری قدر مطلق کا تصور پیش کرے۔ اس human rights کو نظریۂ برداشت [tolerance] کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ نظریہ برداشت [tolerance] کے مطابق :
٭ قدر مطلق صرف سرمایہ کی بڑھوتری کو حاصل ہے۔
٭ ہر خواہش کی تقابلی قدر [relative value] اس قدر مطلق کی کسوٹی پر متعین کی جائے گی۔
٭ ہر اس خواہش اور ترجیح کو برداشت کیا جائے گا جو بڑھوتری سرمایہ کے اصل الاصول کی نفی نہیں کرتیں۔
٭ ایسی کسی ترتیب خواہشات کو برداشت نہیں کیا جائے گا جو سرمایہ کی بڑھوتری کے قدر مطلق ہونے کو چیلنج کرتی ہو۔ اگر صہیب ہندو ہوجائے تو اس کو برداشت کیا جائے گا لیکن اگر وہ انقلابی یا مجاہد بن جائے تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سرمایہ داری انفرادی ملکیت ختم کر دیتی ہے:
تیسرا ہیومن رائٹ حق ملکیت ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کے دیکھیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ذاتی ملکیت کو ختم کر دیتا ہے اور کارپوریٹ [corporate] ملکیت کو رائج کرتا ہے۔ کاپوریشن human being کی وہ شکل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں قانوناً قائم کی جاتی ہے۔ اس شکل میں Human Being اپنے آپ کو بڑھوتری سرمایہ کے مقصد کے لیے کلیتاً وقف کر دیتا ہے۔ Copration کا مقصدِ وجود بڑھوتری سرمایہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، ہر Human Being کو حق ہے کہ وہ اپنی جان ]بحیثیت ملازم Employee اور اپنا مال بحیثیت حصص دار [shareholder] کارپوریشن کے سپرد کرے اور سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں اپنی ذات کو گم کر دے۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی دولت کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کی معاشرتی بالادستی کو چیلنج کرے۔ غیر کاپوریٹ ملکیت اس حد تک برداشت کی جاسکتی ہے کہ وہ سرمایہ کی بڑھوتری میں رکاوٹ نہ ہو۔ کوئی ایسی معاشی تنظیم جو سرمایہ کی بڑھوتری کی بالادستی کو چیلنج کرے برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی بینک سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔ ایک مکمل اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کی اجازت کبھی نہیں دی جاسکتی۔
خلاصہ: سرمایہ دارانہ انفرادیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:
٭ سرمایہ دارانہ نظام زندگی آدمی کو Human being بنا دیتا ہے۔ Human being انسانیت کی ضد ہے۔
٭ human being ایک شیطانی [demonic] وجود ہے۔ وہ خود ارادیت اور خود تخلیقیت کا دعوی کرتا ہے اور اپنے وجود کو شہوت، غضب، حرص اور حسد کے سپرد کر دیتا ہے۔
٭ نظامِ سرمایہ داری کی کلیدی اقدار آزادی مساوات اور ترقی ہیں۔
٭ ان اقدار کے فروغ کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔
٭ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں سرمایہ کی بڑھوتری اصل الاصول اور قدرِ مطلق کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کو ایک ایسی کسوٹی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے جس پر تمام اشیاء اور اعمال کو پرکھ کر ان کی تقابلی قدر متعین کی جاتی ہے۔
زندگی ضمیر املاک کو سرمایہ کے سپرد کرنے کے تین اہم طریقے:
٭ انسان کو humen being بنانے کے لیے فرد کو تین حقوق او فرائض تفویض کیے گئے ہیں:
١۔ حقِ زندگی ]جان کو سرمایہ کے سپرد کرنا[
٢۔ حق ضمیر ]ایمان اور عقائد کو سرمایہ کے سپرد کرنا[
٣۔ حق ملکیت ]مال کو سرمایہ کے سپرد کرنا[
٭ جو لوگ ان حقوق و فرائض کو قبول نہیں کرتے ان کو سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں نہ زندہ رہنے کا حق ہے نہ اعتقاد اور اس کے اظہار کا نہ مال کے تصرف کا۔ صرف ایسے عقائد اعمال اور ترجیحات برداشت کیے جاسکتے ہیں جو بڑھوتری سرمایہ کی آفاقی بالادستی اور اس کے اصل الاصول ہونے کی حیثیت کو چیلنج نہ کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام زندگی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت کی جو تفصیل میں نے ابھی تک بیان کی وہ لبرل اور کنزرویٹیو مفکرین اور قائدین کی فکر سے ماخوذ ہے۔ اشتراکی اور قوم پرست مفکرین نے بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی ایک تشریح پیش کی ہے۔
اشتراکی قوم پرست سرمایہ دارانہ اقدار کے حامی ہیں:
اشتراکی اور قوم پرست سرمایہ داری کے مفکر بھی تحریک تنویر کے وارث ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام Hegal, Marx اور Neitzshe کے ہیں۔ یہ تینوں بھی الوہیتِ آدم کے قائل ہیں اور انسان کو human بنانا ان کا مشن ہے۔ یہ بھی آزادی، مساوات اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں اور بڑھوتری سرمایہ کو ان مقاصد کے حصول کے ایک ناگزیر اور لازمی ذریعہ سمجھتے ہیں۔
الوہیت انسانیت کے طریقے:
قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داری کے فلاسفر ہیگل مارکس اور نطشے humanity کو بحیثیتِ نوع الوہیت کا مکلف سمجھتے ہیں۔ لبرل مفکرین کے برخلاف یہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ Human being انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی وجود کا اظہار ہے۔ Human being اپنی الوہیت کا اظہار تاریخی عمل میں کشمکش کے ذریعہ کرتی ہے۔ قوم پرست مثلاً نطشے کہتا ہے کہ یہ کشمکش مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہے۔ اشتراکی سرمایہ داری کے وکیل مثلاً مارکس اس کشمکش کو طبقاتی سمجھتے ہیں۔ دونوں قسم کے مفکرین کی رائے ہے کہ اس تاریخی کشمکش میں جو قوم یا طبقہ [class] غالب آتا ہے وہی human being کا اصل نمائندہ [representative] ہوتا ہے اور وہی اپنے ارادہ کے نفاذ کے ذریعہ الوہیت human being کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ پوری human نسل کا فرض ہے کہ وہ اس غالب قوم یا طبقہ کی اطاعت کرے۔ یہی غالب قوم یا طبقہ خیر اور شر کی تعبیر اور تنفیذ کا حق دار ہے اور تمام human انفرادتیوں کو اسی غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت میں ضم ہوجانا چاہیے۔ یہ غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت۔ ان تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے جو لبرل مفکرین شخصی انفرادیت کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔ اس غالب قوم یا طبقہ کا مقصد وجود آزادی اور ترقی کا حصول ہوتا ہے۔ یہ غالب قوم یا طبقہ آزادی اور قوت کے اضافے کی تگ و دو میں انتہا درجہ کا حریص اور حاسد ہوتا ہے اور اپنی آزادی اور ترقی کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری ہی کو اصل ذریعہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی آزادی اور ترقی کے لیے لوٹ مار، قتل و غارت اور بدترین سفاکیت اور بہیمیت کو نہ صرف جائز بلکہ فرض عین گردانتا ہے کیونکہ اسی قتل و غارت، لوٹ مار اور دھوکہ اور فریب کے ذریعہ ہی اس کی آزادی اور ترقی ممکن ہوتی ہے اور اس طبقہ اور قوم کا غلبہ ہی الوہیت ہیومن بینگ [human being] کا اظہار ہے حق صرف وہ ہے جو اس اظہار کو ممکن بناسکے۔
اشتراکی استبداد کا انجام بدترین اخلاقیات کا عروج:
قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا نظام اقتدار [state] لبرل نظام اقتدار سے مختلف ہوتا ہے ]اس کی تفصیل بعد میں عرض کروں گا[ اس نظامِ اقتدار میں غالب قوم یا طبقہ کی نمائندگی ایک رہبر ]ہٹلر، اسٹالن[ یا ایک پارٹی ]نازی یا کمیونسٹ[ کرتی ہے۔ اس فرد یا جماعت کا حق ہے کہ وہ خیر اور شر کی تعبیر و تشریح کرے جو اس کی آزادی اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اس غالب فرد یا جماعت کا فائدہ ہی پوری قوم اور طبقہ کا فائدہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیگر افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادیت، غالب پارٹی یا رہنما کی انفرادیت میں ضم کر دیں اس عمل میں مہمیز دینے کے لیے چین میں ١٩٦٦ء میں مشہور ثقافتی انقلاب [Cultural Revolution] برپا کیا گیا اور نازی جرمن اور سویت یونین کی ثقافتی، پالیسی سوپرمین [Superman]، نیومین [New man]، سوویٹ مین [Souvait man] کو وجود میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا جب سرمایہ کی بڑھوتری مقصد وجود کے طور پر اجتماعی سطح پر قبول کیا جاتا ہے تو بیشتر افراد کی زندگی فاسد اور رذیل رجحانات سے ملوث ہوجاتی ہے جس کا اظہار نظام اقتدار اور غالب قائد یا پارٹی کرتی ہے۔ لہٰذا قوم پرست یا اشتراکی انفرادیت کو عام آدمی ہیجانی ادوار کے علاوہ کبھی بھی قبول نہ کرسکا اور غالب قیادت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک آدمی کی زندگی میں ہوس، حرص، شہوت رانی، دنیا پرستی، خود غرضی اور سفاکیت نے فروغ پایا اور اس کو اشتراکی اور قوم پرست نظام اقتدار کے فروغ اور استحکام کے لیے ریاستی استبداد کے ذریعہ مسلسل مجبور کرنا پڑا۔ جیسے جیسے ریاستی استبدادی گرفت ڈھیلی پڑی عام آدمی نے اشتراکی نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے بدترین اخلاقی رزائل کو اپنا لیا۔ لوٹ مار، جھوٹ، دھوکہ اور فریب جنسی بے راہ روی اور فحاشی کا جو سیلاب آج مشرقی یورپ، روس اور چین کے ساحلی شہروں میں آیا ہوا ہے اس کی مثال تو یورپ اور امریکہ کے غلیظ ترین معاشرہ میں بھی نہیں ملتی۔
اس سے ثابت ہوا کہ اشتراکی یا قوم پرست انفرادیت کوئی علیحدہ چیز نہیں سرمایہ دارانہ انفرادیت وہ انفرادیت ہے جو:
٭ الوہیت human being کی طالب ہے۔
٭ جس کے احساسات اور خواہشات پر حرص اور حسد شہوت اور غضب حاوی ہوجاتے ہیں۔
٭ اور جو اپنی عقل کو ان ہی رذائل کے اظہار کے لیے بذریعہ بڑھوتری سرمایہ استعمال کرتی ہے۔
یہ انفرادیت شخصی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی ] قومی طبقاتی[ بھی دونوں صورتوں میں اس انفرادیت کو پنپنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب میں سرمایہ دارانہ معاشرت کی بنیادی خصوصیات بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
2۔سرمایہ دارانہ معاشرت:
معاشرہ نظامِ زندگی کے اس شعبہ کو کہتے ہیں جہاں افراد بہ رضا و رغبت اور بلا اکراہ و جبر دوسرے افراد سے اپنے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ معاشرتی تنظیم اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد یہ معاشرہ بنا اور چلا رہے ہیں ان کے میلانات و رجحانات اور خواہشات کیا ہیں اور وہ دوسرے لوگوں سے تعلقات استوار کر کے کن مقاصد کا حصول چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا سرمایہ دارانہ انفرادیت ]خواہ شخصی خواہ اجتماعی[ سرمایہ کی بڑھوتری کے ذریعہ آزادی اور ترقی ]یعنی تسخیر کائنات[ چاہتی ہے۔ وہ حرص اور حسد اور شہوت اور غضب سے مغلوب ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنی خدائی میں شریک کرنے کو گوارا تو کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ دوسرا اسی جیسی خصوصیات کا حامل ہو[ اور اصولاً مساوات کا قائل ہونے پر مجبور ہے۔ ]اس مجبوری کی توجیہہ Hobbes نے سب سے واضح الفاظ میں بیان کی ہے اور سارتر Sartre کا یہ مشہور جملہ:
“Hell is other people” اس میں مجبوری کا اظہار ہے[ لیکن عملاً وہ مسابقت [competition] اور نمائندگی کے ذریعے اس مساوات کی مستقل تحدید کرتا رہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشرہ اور کنٹریکٹ:
سرمایہ دارانہ انفرادیتیں جس بنیاد پر غیر جبری [voluntary] روابط قائم ہوتے ہیں وہ غرض [interest] ہے۔ ہر فرد ]شخصی یا اجتماعی[ ان روابط کے ذریعے دوسرے افراد کو اپنی آزادی بڑھوتری سرمایہ کا ذریعہ بناتا ہے۔ روابط کے وہ نظام جو سرمایہ دارانہ انفرادیت میں بڑھوتری سرمایہ اور فروغِ آزادی اور ترقی کے لیے قائم کرتی ہیں اس نظامِ کو سرمایہ دارانہ معاشرت کہتے ہیں۔ ان روابط کو متشکل کرنے کے لیے جو قانونی ذرائع استوار کیے جاتے ہیں ان کو کانٹریکٹ [Contract] کہتے ہیں سب سے بنیادی معاہدہ وہ ہے جس کو روسو [Rousseau] نے معاہدہ عمرانی [Social Contract] کہا تھا۔ اس معاہدہ کے ذریعے ایک ایسی ریاست وجود میں آتی ہے جس کا مقصد وجود سرمایہ کی بڑھوتری اور فروغ آزادی ہوتا ہے۔ ]یہی سرمایہ دارانہ ریاست یا Constitutional Republic ہے جس کی تفصیل میں انشاء اللہ اگلے حصے میں بیان کروں گا۔ اسی ریاست کی پشت پناہی اور قانونی اور عسکری تحفظ کے بل بوتے پر مارکیٹ [Market] وجود میں آتے ہیں۔
مارکیٹ سرمایہ داری کا بنیادی ادارہ ہے:
مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرت کا بنیادی ادارہ ہے۔ مارکیٹ بازار نہیں ہے کیونکہ مارکیٹ ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سرمایہ دارانہ ملکیت [Corporate property] کو وجود میں لاتا ہے اور اس کی سماجی بالادستی کو مستحکم کرتا ہے۔ کارپوریشن وہ شخصیتِ قانونی ہے جس کا واحد مقصد وجود سرمائے کی بڑھوتری [Maximisation of Shareholder’s value] ہے۔ کارپوریشن کو ایک ایسی انتظامیہ چلاتی اور قابو کرتی ہے جو سرمایہ کی بڑھوتری میں اضافہ کرنے کی مہارت رکھتی ہے۔ انتظامیہ میں شامل افراد کارپوریشن کے مالک نہیں ہوتے۔ کارپوریشن کی ]فرضی[ ملکیت لاتعداد حصص کنندگان کے پاس ہوتی ہے جو عملاً کمپنی کے معاملات میں دخل اندازی اور اس کی کاروباری حکمت عملی کی ترویج میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کا مطالبہ کارپوریشن کی انتظامیہ سے صرف یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ انتظامیہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ صرف ایسی حکمتِ عملی اپنائے جس کے بروئے کار لانے سے سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار تیز سے تیز ہو اور Value Share holder کی زیادہ سے زیادہ [Maximize] ہو۔ اگر مینجمنٹ ایسی حکمتِ عملی اختیار نہیں کرتی ہے تو کارپوریشن دیوالیہ ہوجائے گی یا کسی دوسری مینجمنٹ کا اس پر قبضہ جما لینے بذریعہ [takeover-merger] کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ حقیقتاً نہ شیئر ہولڈر کارپوریشن کا مالک ہوتا ہے نہ مینجمنٹ اس کا مالک ہوتا ہے۔ کارپوریشن کا اصل مالک صرف سرمایہ۔ یعنی حرص اور حسد ہے۔ سرمایہ مینجمنٹ اور حصص کنندگان کو اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ صرف ایسی حکمت عملی اپنائیں جس کے نتیجہ میں حرص و حسد پورے معاشرہ کو اپنی گرفت میں جکڑلیں۔
مارکیٹ بازار کھا جاتا ہے کارپوریٹ ملکیت ذاتی ملکیت ختم کر دیتی ہے:
مارکیٹ کے ذریعہ لوگوں کی دولت کھینچ کھینچ کر کارپوریشنوں کی مینجمنٹ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے اور وہ اس دولت کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے کارپوریشنوں کی بالادستی اور انتظامی فوقیت مستحکم ہوتی ہے ذاتی کاروبار اور بازار کا دائرہ کار محدود سے محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ مارکیٹ بازار کو کھا جاتا ہے اور کارپوریٹ ملکیت ذاتی ملکیت کو برباد کردیتی ہے۔ ہر شخص سرمائے کا فرد بننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اجرتوں کا نظام معاشرتی تسلط حاصل کرلیتا ہے۔ ٩٩ فیصد افراد کی آمدنی کا ذریعہ اجرت بن جاتی ہے۔ آدمی اپنی دولت خود استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جیسے جیسے کارپوریشنیں معاشی عمل پر حاوی ہوتی ہیں اور جیسے جیسے مارکیٹ کا دائرہ کار وسیع ہوتا جاتا ہے آدمی اپنی دولت کو خود استعمال کر کے روزی کمانے کے قابل نہیں رہتا۔ ہر شخص بینک میں اکائونٹ کھولتا ہے، یا حصص اور بانڈ خریدتا ہے، یوں اس کی دولت اس کے تصرف سے آزاد ہو ہو کر کارپوریشن کی مینجمنٹ کے پاس پہنچ جاتی ہے اور کارپوریشن کا مینجمنٹ اس دولت کو بڑھوتری سرمایہ کو مہمیز دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
زر کا بازار اور سرمایہ کی مارکیٹ: دو اہم ادارے
سرمایہ کی بڑھوتری اور ارتکاز کو فروغ دینے کے لیے دو منفرد بازار ١٩ویں صدی میں قائم کیے گئے۔ ایک زر کی مارکیٹ [money markt]اور دوسرا سرمایہ کا مارکیٹ [Capital Market]۔ ٢٠ویں صدی سے قبل پوری اسلامی تاریخ میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے حضرت سلطان المعظم خلیفہ عبدالحمید ثانی کے انتقال تک[ اس گھنائونے کاروبار کا کہیں وجود نہ تھا۔ زر کے مارکیٹ اور سرمایہ کے مارکیٹ کے دو بنیادی وظائف ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بچت کرنے والے [Saver] کی دولت کو کاروبار میں لگانے والے [invester] سے جدا کر دے۔ بچت تو عوام کریں لیکن اس بچائی ہوئی دولت کا استعمال صرف وہ مینجمنٹ کرے جو اس دولت کو صرف اور صرف سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور اس پر مجبور بھی ہے۔ یوں سرمایہ کا لامحدود ارتکاز ممکن ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ محض حرص اور حسد ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی منجمد [concerete] حیثیت نہیں لہٰذا اس کی بڑھوتری [accumalation] کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ کسی منجمد شے ]مثلاً سیب یا زمین یا مشینری[ اور کسی ایسی خدمت ]مثلاً دنداں سازی، مکانوں کو خرید و فروخت کا کاروبار یا فوجی خدمات[ جن کے نتیجہ میں کوئی جسمانی ضرورت پوری ہو لامتناہی بڑھوتری [Accumalation for the sake of accumulation] کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ مثلاً دندان سازی کے کاروبار کی حد دنیا بھر میں دانتوں کی تعداد متعین کرتی ہے۔ سیبوں کو لامتناہی مقدار میں جمع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کبھی نہ کبھی ضرور سڑ جائیں گے۔ فوجی خدمات کو اس حد سے زیادہ جمع کرنا بے معنی ہے جب وہ تمام عالم کو فتح کرنے کے لیے کافی ہوجائیں۔
سرمایہ دارانہ زر کیا ہے؟
لہٰذا سرمایہ، یعنی حرص اور حسد کی لامتناہی بڑھوتری [accumalation for the sake of accumulation] کو بروئے کار لانے کے لیے ایک ایسی شے کی ضرورت ہے جس کی
٭ اپنی کوئی منجمد ماہیت نہ ہو
٭ جس کے ارتکاز اور اجتماع کی کوئی فطری حد نہ ہو۔
یہ شے سرمایہ دارانہ زر ہے سرمایہ دارانہ زر کے پیچھے کوئی منجمد شے مثلاً سونا، چاندی، دھات وغیرہ نہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظامِ بینکاری جتنا چاہے اور جب چاہے سرمایہ دارانہ زر بنا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کے اعتبار کی اجراء ضمانت صرف اور صرف سرمایہ دارانہ ریاست کی حاکمیت [Soverignity] فراہم کرتی ہے۔ سونا یا چاندی کے ڈھیر یہ ضمانت فراہم نہیں کرتے۔ سرمایہ دارانہ زر کے اجراء اور گردش کا مقصد صرف اور صرف سرمایہ کی بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کی مقدار صرف سرمایہ کی بڑھوتری کے زمانی اور مکانی امکانات کرتے ہیں اور چونکہ سرمایہ یعنی حرص و حسد کی بڑھوتری کے کوئی اصولی حدود نہیں لہٰذا سرمایہ دارانہ زر بھی لامحدود بڑھوتری کا معمول [agent] ہے۔ دوسری جنگ عظیم ]بالخصوص Bretton woods کے مالیاتی نظام کے انہدام[ کے بعد سرمایہ دارانہ زر کا تعلق سونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا گیا۔ ١٩٧٩ء کے بعد سے سرمایہ دارانہ زر کا تعلق کاغذ سے بھی بتدریج منقطع کیا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حکام چاہتے ہیں کہ وہ وقت جلد آئے جب سرمایہ دارانہ زر صرف اور صرف کمپیوٹر کی یادداشت مقدارِ محض [Pure Quantity] کی اعدادی [Numerical] شکل اختیار کرلے۔
ہر شے اور عمل کی قدر زر کا بازار متعین کرتا ہے:
سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری سرمایہ دارانہ بازار زر کا بازار اور سرمایہ کا بازار ممکن بناتے ہیں۔ ان بازاروں کا دوسرا اہم فریضہ یہ ہے کہ یہ ہر شے اور عمل کی قدر متعین کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی قدرِ مطلق [absolute value] یہ ہے کہ وہ human being کے کائناتی اختیار کو لامحدود بنا دے۔ ]انسان کو خدا بنا دے[ یہ قدرِ مطلق سرمایہ دارانہ معاشرہ میں سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری، حرص اور حسد کے لامحدود فروغ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ کی ضرورت ہے کہ وہ ہرشے اور ہر عمل کی تقابلی قدر [Relative value] اسی پیمانہ کی بنیاد پر متعین کرے، قدر کے تعین کا یہ کام سرمایہ دارانہ بازار انجام دیتے ہیں۔ سرمایہ کے بازار [capital market] میں حصص اور تمسکات [bonds] کی خرید و فروخت کا کاروبار ہر لمحہ جاری و ساری رہتا ہے۔ ہر شیئر اور بانڈ کی قیمت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنا منافع دیتا ہے۔ تصور کیجیے کہ حصص کے بازار میں دو کمپنیاں ہیں کمپنی الف جائے نماز بناتی ہے اور کمپنی ب فحش فلمیں بناتی ہے۔ جب بازار میں ان کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں متعین کی جائیں گی تو اس چیز کو نظر انداز کیا جائے گا کہ کمپنی الف اور کمپنی ب کا کاروبار کیا ہے؟ سوال صرف یہ اٹھایا جائے گا کہ کونسی کمپنی زیادہ منافع کمانے کے قابل ہے۔۔ کونسی کمپنی زیادہ ڈیویڈنڈ [Divident] دے گی۔ اگر جائے نماز بنانے کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہونے کی توقع ہے تو اس کے حصص کی قیمت فحش فلمیں بنانے والی کمپنی کے حصص کی قیمت کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔ اگر فحش فلمیں بنانے کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہے تو اس کمپنی کے حصص کی قیمت جائے نماز بنانے والی کمپنی کے حصص کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھے گی۔ جس کمپنی کے حصص کی قیمت زیادہ ہوگی پیسہ اس ہی کی طرف کھنچ کے آئے گا۔ اگر جائے نماز بنانے والی کمپنی کے حصص کی قیمت گرے گی تو اس کی مینجمنٹ اس بات پر مجبور ہوگی کہ وہ جائے نماز بنانا چھوڑ دے ورنہ کمپنی دیوالیہ ہوجائے گی۔ فحش فلمیں بنانے والی کمپنی اس کو خرید لے گی اور فحش تصاویر کے ذریعے اس کاروبار کو فروغ دینے کے مزید ممکنہ طریقے تلاش کرے گی۔ طلب و رسد کے کافرانہ قانون کے تحت یہ طرز عمل فطری قرار دیا جاتا ہے۔
شیئر بانڈ خریدنے والا اس کے مالک اور اس کے استعمال سے لاعلم رہتا ہے:
جب ایک عام خریدار شیئر یا بانڈ خریدتا ہے تو اس کو یہ بالکل علم نہیں ہوسکتا ہے کہ اس پیسے سے کیا کام کیا جائے گا۔ اول تو ٩٥ فیصد حصص اور بانڈ کی ملکیت ہی نامعلوم ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس شخص کی ملکیت والے حصص یا بانڈ خرید رہا ہے۔ دوسرے جو حصص یا بانڈ تازہ اجراء [New Issue] والے ہوتے ہیں ان کو خریدنے والے عملاً اس بات کو متعین کرنے سے قاصر ہیں کہ اس پیسہ سے حصص یا بانڈ جاری کرنے والی کمپنی یا حکومت کیا کرے گی۔ یہی بات واضح کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ملکیت ذاتی ملکیت نہیں۔ اس نظام میں ذاتی ملکیت محض ایک قانونی دھوکہ [legal Fiction] ہے۔ ایک عام فرد اس بات پر مجبور ہے کہ اپنی تمام بچتیں بینکوں یا کارپوریشنوں کے ذریعہ سرمایہ کے حوالے کر دے اور صرف اس بات سے غرض رکھے کہ بچت کی اس سپردگی کے نتیجہ میں اس کو کتناسود مل رہاہے۔ کتنا ڈیویڈنٹ مل رہاہے کتنا capital gain ہورہا ہے۔ سرمایہ منجمد نہیں۔ وہ ہردم اپنی بڑھوتری کے لیے اشیا اور خدمتوں کے درمیان گردش کرتا ہے۔ سرمایہ حر ص اور حسد ہے ۔ حرص اور حسد انسانی زندگی میں پوری طرح سرائیت کرنے کی متقاضی ہے جب تک معاشرے کا ہر فرد تاجر، مزدور، منیجر، حصص کنندگان ، بینک کا ڈیپازیٹر اپنے آپ کو سرمایہ کے حوالے نہ کردے شیطنت یعنی humanism کو غلبہ عمومی حاصل نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ معاشرت اسی ہی شیطنت humanism کے عام غلبہ کی غماز ہے۔
سول سوسائٹی کا مطلب مذہبی معاشرہ کا خاتمہ ہے:
سرمایہ دارانہ معاشرت مارکیٹ پر مسلط ہو جانے کا مسلسل عمل ہے ۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں مارکیٹ زندگی کے ہر شعبہ کو مسخر کر لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت کا بنیادی غیر معاشی تعلق سرمایہ دارانہ معاشرت کا غلبہ اور استحکام اور زنا اور آزاد شہوت رانی کا عام ہوجانا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشرت غلاظت، نجاست اور پلیدگی کی نچلی ترین سطح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک human یعنی شیطانی معاشرہ ہوتاہے۔ اس معاشرہ کو civil society کہتے ہیں۔ یہ سول سوسائٹی لازماً مذہبی سوسائٹی کے انہدام کے ذریعہ قائم ہوتی ہے۔
سول سوسائٹی میں مذہبی اقدار لغو ہوتی ہیں:
جان اسٹیورٹ مل [John Steart Mill] نے حق زنا کو ایک human right کے طور پر پیش کیا ہے۔ سول سوسائٹی تمام مذہبی اقدار و اعمال کو لغو اورلایعنی ثابت کرتی ہے۔ سول سوسائٹی میں جو ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ وہ عقلیت ہے۔ اس ذہنیت کو rationality کہتے ہیں اور اس کا اظہار سائنس اور فلسفہ کے ذریعہ ہوتاہے۔ rationality ہر فعل کو خود ارادیت، خود تخلیقیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ اس پیمانے پر تو لاجائے تو للہیت محبت، طہارت، عفت، تقویٰ، غیرت، ایثار، اور شہادت بالکل بے وقعت اور بے قدر نظر آتی ہیں۔ سول سوسائٹی میں ان اوصاف کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں سول سوسائٹی ان اوصاف کے فروغ پانے کو مشکل سے مشکل بنادیتی ہے۔ اس کا نظامِ تعلیم تسخیر کائنات اورتمام فطری قوتوں کو humanکے ارادہ کے مطیع بنانے کو مقصد کے طور پر قبول کرنے کی ایمانیات کو مستحکم کرتاہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم انسان کو زیادہ سے زیادہ خود غرض ، سفاک لذت پرست ، ہوسناک اور خدا کا باغی بناتاہے۔ سرمایہ دارانہ تصورِ عدل خود غرضیت اورخود ارادیت [liberty] کے مساوی [equal] فروغ کو تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خود غرضیت اور لذت پرستی کافروغ مقصد وجود ہو اور جس کا پیمانۂ عدل ہی خود ارادیت کے مساوی مواقع فراہم کرتا ہو وہاں شیطان ہر فرد کے دل اور دماغ پر قابض نہ ہوگا تواور کیا ہوگا۔
انفرادیت کا اظہار صرف صارف کی حیثیت سے ہوتا ہے:
سول سوسائٹی کا ایک عام باشندہ اپنی انفرادیت کا اظہار عمل تصرف [Consumption] کے ذریعہ کرتاہے۔ human اختیار کے لا محدودہونے کا اظہار عملاً اشیائے صرف کے درمیان لا محدود اختیار کے ذریعہ ہی کیا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں آپ ٦ لاکھ قسم کے صابنوں میں سے کوئی بھی خرید سکتے۔ کئی ہزار ٹی وی چینلز میں سے کوئی بھی دیکھ سکتے۔ سینکڑوں طریقوں سے جنسی آسودگی حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن کوئی بھی صابن خریدیں ، کوئی چینل دیکھیں کسی بھی طریقہ سے جنسی آسودگی حاصل کریں مقصد آپ کاحصول لذت اور اپنے ارادہ کی تکمیل ہے۔ حصول لذت اور ارادہ کی تکمیل کے سوا سرمایہ دارانہ معاشرہ اظہار ذات کے ہر دوسرے طریقہ کو نا ممکن بنا دیتا ہے کیونکہ حصول لذت اور تکمیل ارادے کے ذریعے ہی سرمایہ کی بڑھوتری کا نظامِ بالادستی قائم کرتا ہے۔ حرص اور ہوس، ، لذت پرستی اور خود پرستی ہی سے فروغ پاتی ہیں۔ ان کو فروغ دینے کے دوسرے کوئی ذرائع موجود نہیں۔
جہاں سرمایہ داری ہے وہاں گناہگاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے:
اس سے ثابت ہوا کہ سرمایہ دارانہ عقلیت [epistimology] اور سرمایہ دارانہ عمل [Practice] معاشی حدود تک محدودنہیں رہ سکتے۔ دنیا میں آج کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت ترقی کررہی ہو۔ لیکن خاندان تباہ نہ ہورہے ہوں۔ زنا عام نہ ہورہا ہو۔ادب اور ثقافت ، دھوکہ ، غلیظ ترین اور فحش ترین رحجانات کی عکاسی نہ کررہا ہو۔ استبداد اور جعل سازی اور ظلم عام نہ ہو ۔مارکیٹ contract کے تمام اعمال بھی مساوی آزادی [equal freedom] کا اظہار ہیں اور سول سوسائٹی اسی غلاظت، سفاکیت اورنجاست کا مرکب ہے۔
سرمایہ داری کا فطری نتیجہ زنا کاری ہے جو آبادی ختم کر رہی ہے:
سرمایہ دارانہ معاشرت انسانیت کے رذیل ترین رحجانات کا اظہار سرمایہ دارانہ معاشرتیں اجتماعی خود کشی کررہی ہیں۔ زنا کا معاشرتی غلبہ لامحالہ انسانی نسل کی کی تحدید پر منتج ہوتا ہے۔ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ معاشرت نے فروغ پایا ان کی آبادی ١٩٠٠ میں دنیا کی آبادی کا ١٤ فی صد تھی۔ ٢٠٠٠ میں یہ شرح گر کر ١٣ فی صد رہ گئی اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ٢٠٥٠ء میںیہ شرح ٤ فی صد رہ جائے گی۔ انہی اندازوں کے مطابق اگر موجودہ معاشرتی رحجانات برقرار رہے تو چند صدیوں میں جرمنی، جاپان ، فرانس اور اٹلی کی قومیں مکمل طور پر مٹ جائے گی۔ جن ایشیائی ممالک نے سرمایہ دارانہ معاشرت کو اپنا یا ہے ۔بالخصوص چین ، ہندوستان ، جنوبی کوریا اور تائیوان۔وہاں بھی قومی آبادی گھٹنا شروع ہوگئی ہے۔
جبر و ترغیب: سرمایہ داروں کے دو ہتھکنڈے
مردوزن کے فطری دائرہ کار اور نظامِ تعلقات کو تباہ کرکے انسان کو شیطان human بنانے کا جو عمل سرمایہ دارانہ نظام زندگی نے رائج کیا ہے۔اس کو جاری رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کو قائم رکھنے اورفروغ دینے کے لیے ترغیب کی بھی ضرورت پڑتی ہے اورجبرکی ۔ جبر اور ترغیب کومنظم کرنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں ان کے مجموعے کوسرمایہ دارانہ ریاست کہتے ہیں۔ اسی ریاستی نظام نے سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کو جنم دیا اور آج بھی سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کے استحکام اور پیدائش کے لیے سرمایہ دارانہ ریاست پر اس معاشرت کا انحصار ناگزیر ہے اب میں سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کی اہمیت خصوصیات بیان کروں گا۔
3۔سرمایہ دارانہ ریاست
ریاست اس نظام ِ اقتدار کو کہتے ہیں جس کو معاشرتی مقبولیت یا برداشت حاصل ہو ]اس کی تفصیل میں پہلے عرض کرچکا ہوں[ سرمایہ دارانہ ریاست اس نظامِ اقتدار کو کہتے ہیں جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں۔
٭ اس کا مقصدِ وجود سرمایہ کی بڑھوتری ہو۔
٭ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سرمایہ دارانہ شخصیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت کو قائم اور مستحکم کرتی ہو۔
٭ حقوق اور فرائض کے اس نظام کو نافذ العمل بناتی ہو جس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ شخصیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت فروغ پائے۔
سرمایہ دارانہ مفکر مذہب کا اخراج چاہتے تھے:
سرمایہ دارانہ ریاست کی چند مبہم تصویریں میکیاویلی(Machiavelli) کی تحریروں میں ملتی ہے لیکن اس کی وضاحت سترھویں اور اٹھارویں صدی کے تنویری فکر سے متاثر مفکرین بالخصوص لاک( Locke) رؤسو ( (Roussoeau مونٹیکو(Monteque) اور جیفرس( Jefforson) نے پیش کیں۔ ان تمام مفکرین کا نکتہ اتفاق یہ تھا کہ مذہب کو سیاسی عمل سے خارج کرنا چاہتے تھے۔Lockeاس مذہبی ریاست کا شدید مخالف تھا جو (Cromwell) نے ١٧ ویں صدی کے وسط میں انگلستان میں قائم کی، روسو اور مونٹیسکیو کیتھولک چرچ کے کھلے دشمن تھے، جیفرسن امریکہ میں ایک سیکیولر سرمایہ دارانہ وفاقی [federal] نظامِ اقتدار قائم کرنے کا خواہاں تھا یہ سب ریپبلیکن [republican] تھے اور اس لحاظ سے ان کی فکرکا افلاطون کی سیاسی فکر سے خاص تعلق تھا۔ افلاطون نے بھی سیاسی فلسفہ پر جو کتاب مرتب کی اس کا نام Republic رکھا اور اس کی نگاہ میں ریپبلیکن نظام اس سیاسی تنظیم کو کہا جاسکتا ہے جہاں خیر اور شر کے پیمانے اور ان کو نافذ کرنے والا نظامِ اقتدار انسانی فکر نے جرح اور تعدیل کے ذریعے مروج کیا ہو۔ ارسطو سمجھتا تھا کہ بحث اور جرح اور تعدیل کے ذریعے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ دریافت کیا جاسکتاہے اور وہ نظام ِ اقدار قائم کیا جاسکتا ہے جو تمام انسانیت کے مفاد میں ہو اور جو سب کو عدل مہیا کرنے کے قابل ہو۔
مرضی رب انسان کے ارادہ عمومی کا نام ہے:
اٹھارویں صدی کے تنویری سیاسی فلسفہ میں بھی بنیادی سوال یہی ہے کہ وہ نظامِ اقدار کونساہے جو سب کے مفاد میں ہو؟ عیسائیت انسان کا مفاد رضائے الٰہی کے حصول میں دیکھتی تھی اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا تحریک تنویر کے مفکرین اس کو قطعاً اور کلیتاً رد کرتے تھے۔ human being فطرتاً آزاد ہے۔روسو نے کہا “Man is born free” اور سیاسی عمل کا مقصد ان زنجیروں [chains] کو توڑدینا ہے جن میں کیتھولک چرچ نے اس کو جکڑ رکھا ہے۔ لاک [Lock] نے کہا کہ بائبل کسی واضح سیاسی تعلیمات کی نشاندہی نہیں کرتی لہٰذا مرضی رب human beingsکے ارادہ عمومی [general will] کے ہم معنی ہے۔
سٹیزن خیر و شر کے پیمانے خود بنا سکتا ہے:
تنویری سیاسیات ]اس کوآج Political Science کہا جاتاہے اور political science کی اولین باضابطہ تشریح امریکہ کے دستور سازوں کی تصنیف Federalist Papers میں ملتی ہے[ کا کلیدی تصور ارادہ عمومی [general will] ہے ۔ روسو نے کہا کہ اس جنرل وِل کے اظہار کا ذریعہ وہ معاہدہ عمرانی [social contract] ہے جس کے ذریعہhuman being ایسی حکومت بناتے ہیں جو آزادی [liberty] کی منتہا بڑھوتری [maximisation] کو اپنے مقصد وجود کے طور پر قبول کرتی ہے۔ اس حکومت کا اساسی عقیدہLiberty کی maximisation ہے اور اس عقیدہ کا اظہار ان human rights کو مقدس[sacrosanct] اور غیر مقبول مان کرکیا جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرے اور نظامِ اقتدار کو قائم کرنے اور فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں ۔ یہhuman right ہر سرمایہ دارانہ ریاست کے دستور کا مقدمہ ہوتے ہیں اور یہ دستور صحیفہ مقدس ]انجیل ، توریت ، قرآن ، ویدا [کا عملی بدل ہے۔ دستور humanity کی لا محدود اور دائمی حاکمیت [sovergnity] کا اعلان کرتا ہے۔ human being کو سٹیزن بناتا ہے۔ اور سٹیزن وہ ہے جو اس بات پر ایمان لائے کہ وہ خیر و شرکی جو بھی تعبیر کرنا چاہے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سوائے اس تعبیر کے کہ خیرو شر کی کسی ایسی تعبیر کو قبول کیا جائے جو بجائے خود سٹیزن کے اس حق ہی کی نفی کرتی ہے۔
انسان کو Human بنانا کیوں ضروری ہے؟
قدیم یونانی تصورِ جمہوریت اور تنویری تصور جمہوریت ]اس کو لاک Representative governmentکہتا ہے[ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یونانی سیاسی مفکرین فلسفہ human rights سے آشنانہ تھے Athensکے Citizens کا یہ حق تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی اور اپنے ماتحتوں کی آزادی سلب کریں اور ان کی ریپبلک آزادی کی لا محدود بڑھوتری [maximisation of liberty] کو اپنا مقصدِ وجود تسلیم نہیں کرتی تھی۔ انہی معنوں میں ایتھنز کی ریپبلک سرمایہ دارانہ ریپبلک نہ تھی اس کے برعکس ١٨ ویں صدی میں قائم ہونے والی امریکی اور فرانسیسی ریپبلکوں نے اپنے دساتیر کے ذریعہ سرمایہ داری کو اپنے مقصدِ وجود کے طور پر قبو ل کیا۔ انہی معنوں میں امریکی اور یورپی ریاستیں سرمایہ دارانہ ریپبلک ہیں دستوری ریاستوں میں کسی سٹیزن کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کی لا متناہی بڑھوتری[maximisation of liberty] کے سوا کسی اور مقصد کو ریاست کے مقصد وجود کے طور پر نافذ کرنے کی کوشش کرے اس بات کو واضح کرنے کے لیے رو سو نے ارادہ اجتماعی [will of all] کو ارادہ عمومی [general will] سے ممیز کیا ہے۔ ارادہ اجتماعی اکثر یتی رائے ہے اور وہ بدلتی رہتی ہے۔ارادہ عمومی [general will] غیر متبدل ہے وہ صرف اور صرف آزادی کی لا محدود بڑھوتری کا دوسرا نام ہے۔ ارداہ اجتماعی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کی لامتناہی بڑھوتری کے مختلف طریقہ پسند کرے لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کی لا محدود بڑھوتری کے سوا کسی اور مقصد کو نظام اقتدار کے مقصد وجود کے طور پر اپنائے ۔ روسو اورلاک سے لیکر دورِ حاضرکے تنویری سیاسی فلاسفہ ]مثلاً Rawls، Habermasاسی بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگر ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی ]آزادی کی لا محدود بڑھوتری[ کی نفی کرے تودستوری ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے ارادہ اجتماعی کو فسخ اورساقط کرے تنویری مفکرین ہمیشہ ارادہ اجتماعی کے غیر سرمایہ دارانہ اظہار سے خائف رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے جن معاشروں میں نشو ونما حاصل کی ہے ان میں بیشتر میں کم از کم بیسویں صدی کی ابتدا تک انسانوں کی اکثریت اور human being کی ایک قلیل اقلیت تھی جو معاشرتی وسائل پر قابض تھی انسانوں کو human بنائے بغیر ارادہ اجتماعی اور ارادۂ عمومی میں تطبیق پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔ رائے دہندگان کے دائرہ کو اسی رفتار سے وسعت دی جاسکتی تھی جس رفتار سے ا نسان humanبن رہے تھے۔لاک اور جیفرسن نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے دو حکمت عملیاں مروج کیں۔
Human Being کا وجود سرمایہ داری میں کیوں ضروری ہے؟
لاک نے کہا کہ سرمایہ دارانہ ریاست کو نمائندہ حکومت [Representative government] ہونا چاہیے۔ ایتھینز میں ہر سٹیزن ریاستی فیصلہ میں شامل ہونے کا مجاز تھا۔ لاک نے کہا کہ یہ اصول قابل عمل نہیں۔ سٹیزن کو اپنا نمایندہ منتخب کرنے کا حق ہے اور حکومتی فیصلوں کا حق صرف نمائندگان کو ہے۔ چونکہ سرمایہ دار تنظیم میںمعاشرہ اور معیشت کے ذریعہ وسائل human beingکے پاس جمع ہوتے ہیں لہذا ان کا نمایندہ منتخب ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایوان نمایندگان میں بہت کم انسان پہنچ پاتے ہیں اور عموماً معاشرہ میں اکثریت میں ہونے کے باوجود انسانوں کی نمایندگی سرمایہ دارانہ مقننہ اداروں میں human being ہی کرتے ہیں۔
جیفرسن [Jefforson]نے کہا کہ یہ پیش بندی کافی نہیں سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار کو انسانیت سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظامِ اقتدار کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ مقننہ [Legslitive]انتظامیہ [executive] اور عدلیہ [judicrary]۔ نمایندگی کو صرف مقننہ کے ایوانِ زیریں تک محدود رکھا جائے۔ صرف وہی شخص عدلیہ اور انتظامیہ کا کار پرداز بن سکتا ہے جو سرمایہ دارانہ علمیت کوپورے طور پر اپنی انفرادیت میں سمو چکا ہو۔عدلیہ اور انتظامیہ کے ہی human کا ر پرداز مقننہ کے فیصلوں کی عملی تشریح اور نفاذ کے ذمہ دار ہوں۔weberنے بھی سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار انتظامیہ بالخصوص beaurocracy کی بالادستی کو ضروری سمجھا ہے۔
سوشل ڈیموکریسی انسان کو Human بنانے کی تحریک:
انیسویں صدی کے وسط سے یورپ اور امریکہ میں انسانوں کو human بنانے کے لیے عوامی تحریکیں برپا ہوئیں۔ ان میں سب سے اہم تحریک وہ ہے جس کو ہم سوشل ڈیموکریٹ[social democrat] تحریک کہتے ہیں۔ یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کو حقوق دلانے کی تحریک تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں حقوق کے طلب گار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے human بنے۔ انسانوں کا تو کوئی حق سرمایہ دارانہ نظام قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ لاک اور جیفرسن کروڑوں سرخ ہندیوں[Red Indians] کے قتل عام کے پر زور حامی تھے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے عوام کی بڑی اکثریت دورِ حاضرمیں لاکھوں افغانیوں اور عراقیوں کے قتلِ عام کو ضروری سمجھتی ہے کیوں کہ اس مستقل قتل عام کے بغیر وہاں دستوری سرمایہ دارانہ ریاست قائم نہیں کی جاسکتی۔
سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے فلاسفہ ]مثلاً Mill، Weiser، TH. Green وغیرہ [نے کہا کہ مزدور humanبننا چاہتے ہیں۔ ان کو سرمایہ دارانہ ریاستی نظام میں ضم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ human beings کے تصور میں توسیع کرکے مزدوروں کے اجتماعی حقوق [collective rights] کو تسلیم کیا جائے۔ہر مزدور کا حق کہ اس کی آمدنی [basic income] اتنی ہو کہ وہ human rights سے مستفید ہوسکے ۔سرمایہ دارانہ ملکیت میں شمولیت حاصل کرسکے۔ سرمایہ دارانہ تعلیم پاسکے۔ سرمایہ دارانہ سیاسی اور سماجی شعور حاصل کرسکے۔ سرمایہ دارانہ زندگی گزار سکے۔ مزدوروں کی یونینیں مزدوروں کو human بنانے کا اہم ذریعہ ثابت ہوئیں اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر فرد کسی نہ کسی معنوں میں سرمایہ کا غلام اور مزدور ہوتا ہے لہٰذا یونینوں نے سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو مناسب human beingایسے افرادجو اجتماعی طور پر ارادہ عمومی یعنی آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ریاست کے واحد مقصدِ وجود کے طور پر قبول کریں[ فراہم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
کمیونسٹ تحریک نے انسان کو شیطان بنا دیا؟
دوسری تحریک جس نے عام انسانوں کو human ]شیطان[ بنایا وہ کمیونسٹ [communist] تحریک تھی، اس تحریک کا بنیادی دعویٰ تھا کہ human صرف مزدور ہی ہیں۔ اور مزدوروں کا طبقاتی شعور ارادہ عمومی [general will]کی تشریح اور اظہار کا واحد ذریعہ ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ معاشرہ میں مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ [Dictatorship of the Prolitariat] قائم ہونی چاہیے۔لیکن یہ ڈکٹیٹر شپ Peoples Republicہوگی جس میں مزدور طبقہ اپنی نمایندہ حکومت قائم کرلے گا اور مزدوروں کے نمایندے تمام فیصلے ادارہ عمومی کے اظہار کے لیے کریں گے۔پیپلزریپبلک [People’s Re Public]سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کی وہ ترتیب ہے جہاں مزدوروں کے طبقاتی شعور کو [class conciousness]ارادہ عمومی کے اظہار کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور جہاں مزدوروں کی نمایندہ جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی اس اظہار کا اجارہ دارانہ حق رکھتی ہے۔ اس نظامِ اقتدار اور لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں ارادہ عمومی ]آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ریاست کا واحد مقصد وجود تصور کرتے ہیں۔[ لیکن دونوں میںاس اظہار کے جائز [legitimate] نمایندگان مختلف ہیں۔
قوم پرستی کی خطرناک ترین تحریک:
انسانوں کوhuman بنانے کی ایک اور تحریک جو بہت با اثر ثابت ہوئی ہے وہ قوم پرست [nationalist] تحریک ہے۔ اس تحریک کا دعوی ہے کہ ارادہ عمومی آزادی کی غیر محدود بڑھوتری کا صحیح اظہار صرف ایک برتر قومیت ہی کرسکتی ہے۔ human صرف اسی برتر قوم کے افرادہی ہیں اور صرف اس برتر قوم کے قومی مفاد کو فروغ دے کرہی آزادی سرمایہ کی لا متنا ہی بڑھوتری کوممکن بنایا جاسکتاہے۔لہٰذا ایک ایسا نظام اقتدار مروج کرنا چاہیے جس میں قومی مفاد کے لا متناہی فروغ کو ریاست کے مقصد وجو د کے طور پر قبول کیا جائے اور یہی آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ممکن بنانے کا واحدذریعہ ہے۔ قوم پرست تحریکات ایک عام انسان میں قومی شعور[National conciousness] پیدا کرکے اس کو human بناتی ہیں۔
سرمایہ داریت اور قوم پرستی کا تعلق:
سرمایہ دارانہ ریاست، خواہ لبرل ، خواہ سوشل ڈیموکریٹ ، خواہ کمیونسٹ ، خواہ قوم پرست، خواہ ان سب کا امتزاج[ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرت کے قیام استحکام اور فروغ کے لیے ضروری ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ ریاست ہی انسانوں کو human بنانے اور human رکھنے کی حقیقی ذمہ دار ہے۔ ١٩ویں صدی میں سرمایہ دارانہ ریاستیں قومی تھیں وہ اپنی ریاستی حدود میں ہی سرمایہ دارانہ ذہنیت کو فروغ دینے اور سرمایہ دارانہ ملکیت کو مستحکم کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی تھیں۔لہٰذا سرمایہ دارانہ مارکیٹوںکا دائرہ کار قومی یا قومی استعماری علاقوں تک محدود ہوتا تھا۔ برطانوی سرمایہ برطانوی ریاست اور برطانوی استعماری نظام کے حدود میں مرتکز تھا اور یہیں اپنے آپ کومحفوظ تصورکرتا تھا۔غیر ممالک میں بھی برطانوی کارپوریشنیں اپنے تحفظ کے لیے برطانوی ریاست کی طرف ہی دیکھتی تھیں۔
عالمی سرمایہ کے تحفظ کے لیے عالمی ریاست کی ضرورت:
١٩٧٠ء کی دہائی سے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی قومی تشکیل میں بتدریج دراڑیں پڑرہی ہیں اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ بالخصوص Financial Market قومی نہیں رہی بلکہ بتدریج عالمی ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ بازاروں کو ایک ایسی عالمی ریاست کی ضرورت ہے جو
٭ انسانو ں کو مسلسل قتل کرتی رہے۔ انسانوں کو بے بس لاچار اور مجبور بناتی رہے۔ انسانوں کی دولت اور وسائل پر قبضہ کرتی رہے۔
٭ انسانوں کو human ]شیطان[ بناتی رہی تاکہ ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی آزادی سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری کا ذریعہ بن جائے۔
امریکہ:
دنیا کی سب سے زیادہ مقروض ریاست:
١٩٩٠ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ کو وہ عالمی عسکری بالادستی حاصل ہوگئی ہے۔ جس کو کوئی سرمایہ دارانہ ریاست چیلنج کرنے کی پوزیشن میںنہیں لہٰذا تمام سرمایہ دارانہ مارکیٹ امریکہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے کاروبار کو فروغ دے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی تمام امریکی حکومتوں نے عالمی سرمایہ کہ تحفظ اور فروغ کی ذمہ داری قبو ل کی ہے۔اور اب اس کے لیے ناممکن ہوگیا ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے پیچھا چھڑائے کیوں کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ مقروض ریاست بن گئی ہے اور امریکی معاشی استحکام کا دارومدار چینی ، جاپانی ، کورین اور یورپی سرمایہ کاری پر مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے۔
امریکی عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے فروغ اور تحفظ کی ذمہ دار ہے لیکن اس کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنی ساخت کے اعتبار سے امریکہ ایک قومی ریاست ہے اس کا وجو دکروڑوں ریڈ انڈینوں کے قتلِ عام کے نتیجہ میں ممکن ہوسکا۔ یورپ سے آئی ہوئی جن قوموں نے تین صدیوں پر محیط قتل عام ، لوٹ ماراور جبر و استبداد کو برپاکیا وہ تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ ظالم ، سفاک، مکار، خود غرض، ذلیل اور درندہ صفت قومیں تھیںاور بیسویں اور اکیسویں صدی میں امریکی استعمار کی خود غرضی، ظلم پرستی ، سفاکیت ، دہشت گردی میں مستقل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ امریکہ کے حاکم جو اپنی قوم کے سب سے زیادہ ظالم، مکار ہیں اپنی اور انتہائی درجہ کی خود غرض قوم سے اپنی پالیسیوں کی تصدیق حاصل کرتے ہیں ۔ عالمی سرمایہ دارانہ بڑھوتری کے تحفظ کے فروغ کے لیے اگر امریکی حکام ایسے فیصلے کریں جو امریکی عوام اپنے مفاد کے خلاف سمجھیں تو ان فیصلوں کی تصدیق کروانا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔
سرمایہ داری چین و ہندوستان میں کیوں؟
اس بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرو ںگا۔ اس وقت سرمایہ دارانہ بڑھوتری کی رفتار کو مہمیز دینے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری چین اور ہندوستان میں کی جائے۔ ان ممالک کی آبادی فرداً فرداً امریکہ سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ ان ممالک کے سرمایہ دار اور ان کے کارندے امریکیوں سے بازی لے گئے ہیں۔ خود امریکہ میں بزنس، انجینئرنگ اور قانون کے شعبوں میں بہترین طالب علم عموماً چینی، ہندوستانی اور کورین ہوتے ہیں پھر چین اور ہندوستان میں سرمایہ داروں کو ہر سطح پر جو اجرتیں دینی پڑتی ہیں اور دیگر اخراجات [cost of production]ا برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ وہ امریکہ یورپ، اور جاپان کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ چینی اورہندوستانی معاشرتی ڈھانچہ ، امریکی سول سوسائٹی [Civil Society] کے مقابلہ میں کہیںزیادہ مستحکم اور منظم ہے اور وہاں ابھرتی ہوئی عوامی قوتیں مثلا ً B.J.Pعالمی سرمایہ کی فطری حلیف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور سرمایہ دارانہ بڑھوتری کی رفتار کو تیزکرنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سرمایہ امریکہ کے تیزی سے بوڑھے ہوتے ہوئے معاشرہ اورانحطاط کی طرف مائل ریاستی نظام پر اپنا انحصار کم کرے اور چین اور ہندوستان کی معاشرتوں اور ریاستوں سے اپنی وابستگیاں استوار کرے۔ اگر امریکی ریاست فی الواقع عالمی سرمایہ کی پشت پناہ اور فروغ دینے والی ریاست ہے تو عالمی سرمایہ داری اس امر میں حق بجانب ہے کہ وہ امریکی ریاست سے مطالبہ کرے کہ امریکی ریاست عالمی سرمایہ کی چین اور ہندوستان کی طرف منتقلی کو تحفظ اورفروغ دے گو کہ اس کا لازمی نتیجہ امریکی معیشت اور امریکہ کی ریاستی قوت کا زوال ہوگا۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ کلنٹن [clinton]انتظامیہ عالمی سرمایہ کے اس مطالبہ کو بہت حد تک قبول کرتی تھی۔ اس نے کوشش کی کہ عالمی سیاسی اور معاشی نظام کو عالمگیریت اور مقامیت کے خطوط پر فروغ دیے۔ امریکی ریاست اپنی عالمگیری [global] ذمہ داریوں سے بتدریج بری ہوجائے اور یہ ذمہ داریاں ایسے عالمگیراداروں کی طرف منتقل کردے جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو ایسے اصولوں کے مطابق چلا ئیں جو عالمی سطح پر سرمایہ کی بڑھوتری کو زیادہ سے زیادہ تیز کرنے کے لیے ضروری ہوں۔
معاشی اور انسانی قتل عام کے جدید طریقے:
اس دور میں سیاسی سطح پرجن گلوبل یا پیرا گلوبل[Para global]اداروں کو فروغ دیا گیا ان میں نیٹو اوراقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل [security Council] اوراس کے پیس کیپنگ مشن [UN Peace Keeping Mission] ہیں۔ کلنٹن [Clinton] نے کئی لاکھ عراقی بچے، صومالی اور سوڈانی عوام اور روانڈہ اور برنڈی[Rawanda and Burundi] کے باشندے قتل کیے لیکن اس قتل عام کو Natoاور اقوام ِمتحدہ کے پیس کیپنگ مشنوں نے منظم کیا اسی طرح یورپی، امریکی اورجاپانی لوٹ ماراور معاشی استحصال کو منظم کرنے کے لیے WTO، IMF،NAFTA، Asian Development bankاور Islamic Development bank وغیرہ کو استعمال کیا گیا۔ کاروبار اور دیگر لین دین کے معاملات کو گلوبل بنانے کے لیے [International Accounting Standards]IAS، [International Standard Organisations] ISOاور Rating Agencies وغیرہ کو استعمال کیا گیا۔
Evangilical چرچ کی تاریخ کیا ہے؟
بش نے عالمگیریت کے اس عمل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔بش اورNew Conservatives کے پیچھے جو عوامی قوت اور تحریک ہے وہ عیسائی بنیاد پرستی Christian Fundementalistکہی جاتی ہے لیکن عملاً یہ ایک خاص عیسائی فرقہ ایوینجیلیکل [evangilicals] کا احیاء ہے۔Evanglicalsامریکہ کی بجرنگ دل ہے یہ وہی فرقہ ہے جس کے پادری ان دستوں کی قیادت کرتے تھے جو نہتے ریڈ انڈین بستیوں پرحملہ آور ہوتے تھے۔ جب ریڈانڈین مردوں کے زندہ جسموں سے ان کی کھال اتاری جاتی تھی جب ریڈ انڈین عورتوںکو اجتماعی زنا کاشکار کیاجاتا تھا۔جب ریڈ انڈین بچوں کو آگ میں بھونا جاتا تھایہ Evangilicalپادری حضرت عیسیٰ ]علیہ السلام[ کو بھینٹ دینے کی رسوم منعقد کرتے اور بائبل کی تلاوت کرتے تھے۔آج ان Evangilicals کے Evangilicalجانشین عراق اور افغانستان میں یہی کچھ کررہے ہیں۔
Evangilicalاتنے ہی عیسائی ہیں جتنے بجرنگ دلی ہندو ہیں اورجتنے zionist یہودی ہیں۔ Evangilicals کا عیسائیت سے صرف ایک منفی علامتی [negative symbolic]تعلق ہے۔ ان Evangilicals نے عیسائی تعلیمات کو امریکی دستوریت [constitutionalism] اور امریکی قوم پرستی کے تناظر میں مکمل طور پر اسی طرح مسخ کرکے رکھ دیا جیسے zionists نے یہودیت کو برباد کیا ہے۔
تمام عالمی ادارے واحد عالمی استعمار کے آلہ کار بن جائیں:
صدربش ان اس کی انتظامیہ انہی Evangilicals کی آلہ کار ہے۔ وہ امریکی قومیت کو ہر قیمت پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ بش دیگر استعماری قوتوں ]فرانس، جرمنی، برطانیہ، جاپان[ سے مشاورت کے قائل نہیں وہ WOT، IMF، Nato، ورلڈ بنک اور Asian Development Bank کا کوئی غیر جانبدار اور آزادانہ کردار برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہ تمام ادارے امریکی خارجہ پالیسی کو نافذ کرنے والے آلہ کار بن جائیں۔ بش اور ان کی انتظامیہ اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ مفاد کا تحفظ اور فروغ امریکہ کے نظاماتی [systemic]تسلط کو ابدی طور پر قائم رکھنے ہی کے ہم معانی ہے۔ امریکی قوم پرستی کی اٹھتی ہوئی عوامی لہر اس رائے کی تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مبصرین کہتے ہیں کہ ١١ ستمبر ٢٠٠١ء کے بعد عالمگیریت و مقامیت [Globalisation and Localisation] کا دور گزر چکا اور اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جو روما [Roman] سلطنت کے زوال کے دور کے مماثل ہے۔
کیا ہونے والا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا:
کیا یہ دور ماضی کے طورپر ]روم کی طرح[امریکہ کی تباہی پر ختم ہوگا۔ کیا چین ٢١ ویں صدی کی وسط میں امریکہ کی جگہ لے کر سرمایہ داری کو تحفظ اور فروغ دینے والی عالمی ریاست بن جائے گی کیا امریکہ کی جگہ استعماری ریاستوں کاایک ایسا اتحاد لے گا جس میں یورپ، چین، جاپان ، ہندوستان، روس اور عظیم اسرائیل شامل ہوں یا عالمی سر مایہ دارانہ نظام خود شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا۔ ان سوالات کاحتمی جواب نہیں دیا جاسکتا لیکن مندرجہ ذیل باتیں ذہن نشین کرنا ضروری ہیں:
انسان کو Human بنانے کے طریقے:
٭ سرمایہ دارانہ انفرادیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت اپنے وجود ، بقا اور فروغ کے لیے ایک سرمایہ دارانہ ریاست ]سرمایہ دارانہ تنظیم قوت اور اقتدار[پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
٭ سرمایہ دارانہ ریاست مقامی بھی ہوسکتی ہے ]١٤ صدی کا فلارنس آج کاسنگا پور ، ہانگ کانگ[ قومی بھی ہوسکتی ہیں اورعالمگیر [global] بھی۔
٭ ہرسرمایہ دارانہ ریاست اپنے دائرہ اختیار خواہ ، مقامی، خواہ قومی،خواہ عالمگیری[ میں جبر اور ترغیب کے ذریعہ سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری کو انفرادی اور معاشرتی وجہ وجود[raison d’etra] —–کے طور پر جواز فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔
٭ سرمایہ کی بڑھوتری یعنی آزادی کو وجہ الوجود کے طور پر قبول کرنا humanity ]شیطنت[ کا بنیادی عقیدہ ہے۔ سرمایہ دارنہ ریاست وہ ریپبلک ہے جوکتاب الہٰی اور سنتِ انبیا کی جگہ ایک ایسے دستور کو نا فذ العمل بناتی ہے جس کا کلیدی مقدمہ ہیومن رائٹس [human rights]۔سرمایہ دارانہ تصورملکیت [Property]، سرمایہ دارانہ تصوروجود[Life] اورسرمایہ دارنہ تصور ضمیر برداشت[conciousness and toleration] فراہم کرتے ہیں۔غیر لبرل سرمایہ دار ریاستوں، قوم پرست اور اشتراکی ریاستوں میں یہ human right فرد کو حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس نمائندہ اجتماعیت [Collective] کو حاصل ہوتے ہیں جو human rights کے اصل مفاد کے مکلف تصور کی جاتی ہے۔
٭ اس دستور کے ماتحت سرمایہ کی حاکمیت ریاستی اداروں کے ذریعہ منظم کی جاتی ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ سرمایہ دارانہ حاکمیت کے بلواسطہ مظہر ہوتے ہیں۔ مقننہ میں سرمایہ کی حاکمیت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی کے مماثل ہو اور دونوںہی سرمایہ کی بڑھوتری کو وجہ وجود ]انفرادی اور اجتماعی[ کی تصدیق کرتی ہوں۔ اگریہ مماثلت موجود ہے توسرمایہ دارانہ دساتیر جمہوریت کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں اگر ایسا نہیں تو دستور کے اور دیگر ریاستی ضوابط کے ذریعہ جمہوریت کی تحدید ناگزیر ہوجاتی ہے۔
٭ رائے عامہ کو ارادہ عمومی ]سرمایہ کی لا متناہی بڑھوتری کی فرضیت[سے مماثل کرنے کے لیے ریاست اور مارکیٹ دونوںسرمایہ دارانہ تعلیمی اور تشریحی نظام کومنظم اور مستحکم کرتی ہے۔
٭ سرمایہ دارانہ ریاست کافرض ہے کہ غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت اورمعاشرت کو بذریعہ جبر و ترغیب ختم کیا جائے۔ استعماریت [imperialism]اس فریضہ کی ادائیگی کی واضح ترین شکل ہے۔
٭ استعماریت اس حقیقت کا عملی اظہار ہے کہ ہیومن رائٹس کی فراہمی اور آزادی ، مساوات اور ترقی کے عمل کو ہیومن [humans]کے لیے جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر ہیومن انسانوں کو مستقلاً قتل کیا جاتارہے۔ان کے ممالک کو بربادکیا جاتا رہے۔ ان کے اموال کو چھینا جائے۔ تاریخی طورپر انسانوںکی عظیم اکثریت کو جبر کے ذریعہ ہی human بنایا گیا ہے عموماً دلیلوں سے قائل ہوکر انسان human نہیں بنتے ۔