سرمایہ دارانہ نظام- عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش

نئے تناظر میں دینی تحریکوں کے کام میں تطبیق کی ضرورت

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری
مستقبل کی حکمت عملی
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کی پندرہویں صدی دین کے احیا اورتجدید کی صدی ثابت ہورہی ہے۔صدی کاآغاز جہادِ افغانستان کے انعقاد اور ایران اورسوڈان جیسی اسلامی ریاستوں کے قیام سے ہوا جو آ ج تک اپنا وجو قائم رکھے ہوئے ہیں۔چیچنیا میں بھی ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی اور طالبانِ عالیشان نے تو امارتِ اسلامیہ کے ذریعے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے مبارک ادوار کی یادتازہ کردی۔ ریاستوں کے سقوط کے بعدہر جگہ ایک ایسا جہاد برپا کردیا گیا جس نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے اور آج عراق اور افغانستان میں شکست عالمی استعمار کا مقدر بن گئی ہے۔
جہادی تحریکوں کے ساتھ ساتھ انقلابی جماعتیں بھی برسرپیکار ہیں۔ تقریباً ہرمسلم ملک میں ایسی اسلامی جماعتیں موجودہیں۔جو رائج شدہ نظام کو اصولاً بالکلیہ ردکرتی ہیں اورجو اس پورے نظام کو اکھاڑ پھینک کر اسلامی نظامِ زندگی کو قائم کرنا اپنا مقصد وجودگردانتی ہیں ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت میںایسا اضافہ رونما ہواہے جس سے استعمار خائف ہوگیاہے اور بالخصوص عرب دنیا میں واضح ہوگیا کہ جمہوری عمل کے ذریعہ اسلامی جماعتوں کو شکست دینا ایک مشکل بلکہ شایدناممکن کام ہے۔
شمال مغربی افریقہ اوروسطی ایشیا میں صوفیا کی تحاریک کا احیا ہوا ہے اور برعظیم پاک و ہند اورکسی حد تک ترکی میں عوامی دعوتی کام نے فروغ پایا ہے۔تبلیغی جماعت اوردعوة اسلامی کے بلا مبالغہ کروڑوںمخاطبین ہیں اور صوفیا اور مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام یورپ او رامریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔اور ان ممالک میں اور ہندوستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ افرادمشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔
علوم اسلامی کا احیا ہوا ہے اور بیشتر مسلم معاشروں میں علمائے کرام اور صوفیا ئے عظام کی عزت و وقعت میںاضافہ ہواہے۔ مدارس اور خانقاہیں اور زاویے، عرب دنیا اور وسط ایشیا میں، ہدایت اوررہنمائی کا سرچشمہ بن گئے ہیں مدارس نے ایران میں عوامی اقتدار کومرتب کرنے کا کام بخوبی انجام دیاہے اور سیاسی عمل پر اپنے غلبہ کوخوب مستحکم کرلیاہے۔
تمام مذاہب تہذیبیں مغرب سے شکست کھا گئیں
صرف اسلام واحد قوت ہے جو مقابلہ پر ہے
حقیقت یہ ہے کہ دشمن آج جتنا اسلام سے خوف زدہ ہے خلافتِ عثمانیہ کے عروج کے دور کے بعد سے اب تک کبھی نہ تھا۔ اس خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا پر تقریباً دو سو سال حکومت کرنے کے باوجود مغرب اسلامی علمیت اور اسلامی انفرادیت کو مسخر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔یہ علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جس نے آج کی اسلامی پیش رفت کو ممکن بنایا ہے۔ تنویری علمیت [Enlightened epistomology]نے اسلام کے سوا دنیا کے ہر مذہب کی علمیاتی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا ۔ عیسائیت نیو افلاطونیت [Neoplatonism]کا نٹ کے ریشنل ازم [Rationalism] اور ہیوم کی تجربیت [empericism] شکار ہوگئی۔ بدھ علمیت اورچینی روایات اور رومی قدامت پرستی کسی کو ہیگل اور مارکس کے تصورات [Dilectical Idealism, Historical Materialism]نے مسخر کرلیا قدیم ہندواور یہودی فکر کو نطشے اوردیگروجودی مفکرین[Existentialists] کے فلسفہ نے برباد کر ڈالا اور وہ قوم پرستی اورسوشل ڈیموکریسی کا شکار ہوگئیں۔ صرف اسلامی فکری رحجانات اور روایات اور رسوم تنویری علمیاتی یلغار کے آگے مضبوط بند باندھے رہی اورحضرت حجة الاسلام امام غزالی قدس سرہ نے یونانی فکری اثاثے کو منتشر کرنے کے لیے جوطریقہ methodology وضع فرمایا تھا اتنا مضبوط اورمستحکم ثابت ہوا کہ دورِ حاضر کی ابلیسی علمیت اس طریقہ [Method] میںایک چھوٹی سی دراڑ بھی پیدا نہ کرسکی۔

اسلامی علمیت کو کس نے محفوظ رکھا؟
اسلامی علمیت ، رسوم اور روایات کادفاع کرنے والا پورے عالمِ اسلام میں صرف وہ عالم اور صوفی تھے جن کو استعمار نے تمام مادی وسائل سے محروم کردیا تھا۔ ان کو سولی پہ لٹکایا گیا۔ بدترین تعدیب کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی املاک چھینی گئی۔ انہوں نے اپنے فاقہ سے مرنے والے بچوں کے جسد خاکی دفنائے۔ انہوں نے معاشرتی حقارت اور ذلت برداشت کی لیکن اسلام کی علمیت ، روایات اور رسوم سے سرمو انحراف گوارا نہ کیا۔ استعماری غلبہ کے تاریک ترین دورمیں علمااور صوفیا وہ تابندہ ستارہ بن گئے جنھوں نے امت مسلمہ کوتنویری فکر کی تاریکیوں میں گم ہونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچالیا۔ اس دورمیں علماء اور صوفیا کے کردار کے بارے میں شاعرِاسلام حضرت حفیظ جالندھری نے یوں بیان فرمایا ہے
وہ مرد حق تھا کتنے صاف و سادہ تھے اصول اس کے
وہ کہتا تھا خدا ایک ہے محمدۖ ہیں رسول اس کے
وہ کہتا تھا تھا محمدۖ سے محبت اصل ایماں ہے
بنائے وحدت ملت ہے پشتیبان ایماں ہے
نظر ڈالی نہ تھی کبھی اسباب و زینت پر
خدا رحمت کرے اس پاک بازو پاک طینت پر
عمل تھا تابع فرمان قرآن شریف اس کا
رہا وقفِ ریاضت عمر بھی جسم نحیف اس کا
وہ قائل تھا فقط اسلام ہی کی بادشاہی کا
دیا کرتاتھا درس اطفال کو علم الہٰی کا
کیا تھا خدمت ملت کا رستہ اختیار اس نے
اسی دامن میں بسایا گلشن کنج ہزار اس نے
مرے حبّ رسول اللہ کی بنیاد ہے مسجد
خدا آباد رکھے آج بھی آباد ہے مسجد

مغرب کے فلسفی اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہیں:
ابلیسی علمیت اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے علم بردارخوب جانتے ہیں کہ علمائے اسلام اور صوفیائے عظام کے اس عظیم الشان تاریخی کا رنامہ نے اسلام کوان کے لیے ایک ایسا خطرہ بنادیاہے جس سے مقابلہ کرنا ان کے لیے روز بہ روز مشکل سے مشکل ترہوتا جارہا ہے۔ آج تنویری علمیت بڑے اندرونی انتشارسے دوچارہے۔ اپنے کلیدی مسلمات پریقین قائم رکھنے کے لیے اس کے پاس دلیل مفقود اورخود اس کے چوٹی کے مفکرین Zizeb, Derrida Focault, Delueze Rorty اور یہاں تک کہ Kantکے فکر کے سب سے زیادہ راسخ العقیدہ فلسفی Jorgen Habermas اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مغربی فلسفہ ماڈرن ازم مسلمات کو …
٭ثابت کرنے کے لیے تنویری فکرکے پاس مضبوط دلائل موجودنہیں۔
٭ان مسلمات کوقبول کرکے جو نظام زندگی قائم ہوتاہے یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی، اس میں ان اہداف کا
حصول نا ممکن ہے جو ان مفروضات کو قبول کرنے والا اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
٭لہٰذا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ان معنوں میں مہمل اورلغو ہے کہ اس کا تصور قدر مطلق محض قدر کی نفی ہے۔
آزادی معنویت کی لاوجودیت کا دوسرا نام اور آزادی کے حصول کی جدوجہد یعنی ترقی[Progress]
ایک فعل عبث ہے۔
٭لہٰذا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی سے صرف وہ شخص یا گروہ مطمیٔن ہوسکتا ہے جو زندگی کا مثبت معنوی تصور نہ
رکھتا ہوبلکہ زندگی کو محض کھیل تماشہ لہو و لعب تصور کرتا ہو یا اس کو اپنے کسی منفی جذبہ حرص اور حسدکی تسکین کا
ذریعہ تصور کرتاہو۔
ہم سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو ابلیسی اس لیے کہتے ہیں کہ شیطان بھی صرف آدم سے انتقام
لینے کے لیے جی رہا ہے اورخوب جانتا ہے کہ آخرت میں اس کا کیا انجام ہوگا۔

تحریک تنویر کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے:
سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تباہی اوراس کا انتشار ان معنوں میں ناگزیر اور یقینی ہے کہ تحریک تنویر Enlightenment نے جو کلیدی مسلمات پیش کیے وہ لغو ثابت ہوئے ہیں ان معنی میں کہ ان مفروضات کی بنیاد پر جن مقاصد کو جواز ملتا ہے یعنی آزادی اورترقی وہ اصولاً اور اور عملاً ناقابلِ حصول ہیں اور جو انسان بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی گزارنے پر ]یعنی انسان کے human بننے پر[ راضی ہوجاتا ہے وہ محض اپنے منفی جذبات ]بالخصوص حرص اور حسد، شہوت اور غضب [ کی تسکین کے سوا کچھ نہیں پاتا۔چونکہ یہ جذبات منفی ہیں لہٰذا ان کی وقتی اورواقعاتی[incidental] تسکین سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔حرص و حسد، شہوت و غصب کی آگ ہمیشہ اونچی سے اونچی بھڑکتی رہتی ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو اس آگ کے سپرد کردیتاہے وہ ہرگھڑی جلتا مرتا رہتاہے۔اس کی انتہا وہ اجتماعی خودکشی ہے جو آج یورپ اور امریکہ کررہے ہیں اور جو ان کی تقلید میں کل چین اور ہندوستان کریں گے۔

سرمایہ داری کو درپیش خطرات:
اس دائمی[Intrinsic] خطرہ کے علاوہ بھی سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔سرمایہ داری کی تاریخ بحرانوں کشمکش اور جنگ و جدل کی تاریخ ہے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے پاس قدرِ مطلق [absolute value] کا کوئی مثبت تصورموجود نہیں لہذا اس کے پاس کوئی ایسے اصول موجودنہیںجو ایک مثبت تصورِ عدل کو متعین کرسکیں۔ہربحران اور ہر کشمکش اور ہر تصادم میں فیصل کردار فریقین کی تقابلی قوت ہی ہوتی ہے اورجو فیصلہ بھی ہووہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا کیوں کہ توازن، قوت میں تبدیلی کے ساتھ سرمایہ دارانہ عدل کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں کل تک سرمایہ دارانہ رہنما عالمگیریت و مقامیت[Globalisation and localisation] کا راگ الاپ رہے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ایسے قوانین اور ضوابط نافذ کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں جو عالمی سرمایہ دارانہ مشاورت اور مصالحت کے غماز ہوں۔ آج گلوبلائیزیشن ایک داستانِ پارینہ بنتی جارہی ہے اور عالمی ادارے امریکی مفادات کی بالادستی کے تحفظ کو جواز فراہم کررہے ہیں۔ کیا چین اورہندوستان امریکہ کی نظاماتی بالادستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبول کرلیںگے۔کیا Democratic Party امریکہ میں بر سر اقتدار آکر globalisation کی طرف رجوع کرے گی۔ کیا سرمایہ دارانہ ریاست اور مارکیٹ میں جو توازنِ اختیار اورتقسیم کار[division of labour] آج موجود ہے وہ متزلزل نہ ہوجائے گا ان سوالات کے کوئی حتمی جواب اس لیے نہیں دیے جاسکتے کہ سرمایہ دارانہ تصور عدل کوئی ایسا پیمانہ فراہم نہیںکرتا جس کی بنیادپر طے کیا جاسکے کہ سرمایہ کی بڑھوتری کو تیز کرنے کے لیے
٭مارکیٹ اور ریاست میں کونسا تقسیم کار موزوں ترین ہے۔
٭کونسی آراء [Speculative Forces] تقابلی قدرکو سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے سب سے زیادہ
موزوں طریقہ پر متعین کرتی ہیں۔
٭سرمایہ عمومی [Capital in general]کا جائز اورموزوںترین نمایندہ کون ہے۔ ریاست؟ حصص
کنندگان [Share holder]؟ فنڈ منیجر؟ [Speculator]
٭بین الاقوامی تنظیم اقتدار کی کونسی حیثیت[structure]سرمایہ کی لا متناہی بڑھوتری کے لیے سب سے
موزوں ہے ۔ یک قبطیت [unipolarity] علاقائیت [Regionalism]۔ عالمگیریت Globalisatio
٭سرمایہ دارانہ ارادہ عمومی[general will] کی ترتیب اور تفویض میں میڈیا [Media] اورریاست کا
دائرہ کار کیا ہونا چاہیے۔ وغیرہ
چوںکہ ان سوالات کے جوابات کسی متعین تصورسرمایہ دارانہ عدل کی بنیاد پر نہیںدیے جاسکتے لہٰذا عملاً ان کے جوابات تصادم قوت کے ذریعہ ہی دیے جاتے ہیں اورتصادم قوت سرمایہ دارانہ نظام ِ زندگی کو بحران[crises] سے دوچار کرسکتاہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی قبولیت کہاں کہاں ہے؟
لیکن کیاوہ اجتماعی خود کشی جو ہر سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست کررہی ہے اور بحرانوں کا وہ سلسلہ جس سے سرمایہ داری وقتاً فوقتاً دوچار ہوتی رہتی ہے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو لازماً تباہ کردے گی؟ میری رائے میں مسلمانوں کی موجودہ نسل کی زندگیوں کے دوران اس کا امکان موجود نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی اساس روحانی پراگندگی اوراخلاقی رذائل فراہم کرتے ہیں۔ سرمایہ داری بحیثیت ایک نظامِ زندگی یورپ میںغالب اس وقت آیاجب ان ممالک کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد عیسائی روحانی تعلیمات سے لا تعلق ہوچکی تھی اور رذائل اخلاق کو عمومی مقبولیت حاصل ہوچکی تھی۔ ہر وہ شخص جو human ہے جو نہ صرف حرص اورحسد ، شہوت و غضب کواپنائے ہوئے ہے بلکہ ان اخلاقی رذائل کواپنا حق اور فرض گردانتا ہے جو نہ صرف وحی سے اخذ شدہ روحانی حقائق کو ردکرتاہے بلکہ اس تردیدکی بنیاد پر ہی اپنی جاہلی علمیت تعمیر کرتاہے۔ ہرایسا شخص فطرتاً سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کواپنی ذات کے لیے اپنے معاشرہ کے لیے اور اپنے ریاستی نظام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ یورپ ، امریکہ اور جاپان میں عوام کی بہت بڑی اکثریت human ہے وہ روحانی پراگندگی کا شکا رہے اور اخلاق رذیلہ کو اخلاق حسنہ تصور کرتی ہے۔ ہندوستان میں غلبہ انہی کو حاصل ہے جو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو پسند کرتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوںکی ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرت اور نظام اقتدار کو محض برداشت کرتے ہیں۔ اس کوپسند نہیں کرتے بلکہ اس کے کچھ مظاہر سے اعلان برأت بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالات اس سے زیادہ مختلف نہیں ۔ دونوں ممالک میں علما کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس بات کا کچھ نہ کچھ یقین پیدا ہوا ہے کہ اسلام ایک متبادل نظام حیات ہے اوراس کے غلبہ اورتحفظ کے لیے رائج شدہ نظام زندگی سے، تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔
اس گفتگو سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
٭سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی اپنے اندرونی تضادات[inherent contradiction] کی وجہ سے
نیست اور نابود نہ ہوگا ۔
٭اس نظام کی تسخیر کے لیے ان لوگوںکا معاشرتی اور ریاستی اقتدار میں آنا ضروری ہے جوروحانی پراگندگی
سے محفوظ ہوںاخلاق رذیلہ اورسرمایہ دارانہ عقلیت اورعلمیت کو رد کرتے ہوں۔
٭جن معاشروں اور ریاستوںمیں سرمایہ داری کے مخالفین کو غلبہ حاصل ہو وہاں کے باشندے اس اقتدار کو قبول کرنے یا کم از کم برداشت کرنے پر راضی ہوں۔
میری رائے میں ہمیں اپنے اہداف اور طریقہ کار اس تناظر میں متعین کرنا چاہیے۔
ہماراہدف سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا مکمل انہدام اور اسلامی نظامِ زندگی کا تحفظ اورعالمی غلبہ ہے۔ یہ ایک طویل المدت جدوجہدہے۔ نظام ہائے زندگی کا انہدام کئی صدیوں پر محیط عملی جدو جہد سے ممکن ہے۔ رومن تہذیب کا انہدام تقریباً ڈھائی صدیوں پرمحیط ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انحطاط کی شروعات ٢٠ ویں صدی کے آغاز سے تصور کی جائیں ]جیسا کہ oswald spangla کا خیال ہے ،تو غالب امکان یہی ہے کہ ابھی یہ عمل خاصی دیرجاری رہے گا اور عین ممکن ہے کہ مغرب کا زوال سرمایہ دارانہ نظام زندگی کا انہدام ثابت نہ ہو بلکہ سرمایہ دارنہ نظامِ زندگی کے خلاف فیصل معرکے چین یا ہندوستان میں لڑے جائیں۔
سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے انہدام اور تحفظ اور غلبہ اسلام کی جدوجہد لازماً تین سطحوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے انفرادیت کی سطح پر معاشرت کی سطح پر اورریاست پر۔ ہر سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت[epistimology] اور عملیت[praxis] کو منہدم کرنے کی ضرورت ہے اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کے لیے ہمیںدوباتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ وہ دودنیاوی کمزوریاں ہیں جنھوں نے مستقبل قریب میں تحفظ اورغلبۂ دین کی جدوجہد کو قدرِبے اثراوراس کے دائرۂ کار کو محدود کردیاہے۔
پہلی اور اہم ترین کمزوری: سرمایہ داری سے عدم واقفیت :
پہلی کمزوری یہ ہے کہ مجاہدین انقلابی مدافعین، مبلغین علما اور صوفیا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا وقیع اورجامع ادراک نہیں رکھتے۔ اسلامی مفکرین اور قائدین کی رائے یہ ہے کہ ہماری جدوجہد عیسائیت ، یہودیت ، امریکہ یامغرب کے خلاف ہے۔ اور وہ مکمل نظام حیات جس میں یہودیت ، عیسائیت ، امریکہ اور مغرب پیوست ہیں۔ ہمارے فکرو عمل کا ہدف نہیں یہ درست ہے کہ یہودیت اور عیسائیت ہی کی خاکستر سے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی برآمدہوا۔ اور عیسائیت اور یہودیت ہی سرمایہ دارانہ تصورات کے ماخذ ہیں اگر عیسائیت حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہ بناتی تو الوہیت انسانی یا شیطینت [human being] کا تصور پیدا نہ ہوسکتا تھا۔ اور عیسائیت اور یہودیت ہی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تاریخی اور معاشرتی میراث فراہم کرتی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی عیسائی اور یہودی تعلیمات سے انحراف بھی ہے اور یہ نظام زندگی یہودیت اور عیسائیت سے کچھ منتخب تعلیمات اوراعمال کو لے کر بہت سی دوسری روایات اور تعلیمات سے منسلک کرتا ہے اور ایک نیا علمیاتی اور عملیاتی منہج تعمیر کرتا ہے جس کی عیسائیت اور یہودیت محض ایک شق ہو کر رہ جاتی ہیں۔

معتزلہ: مغرب: سرمایہ داری
یہ بھی درست ہے کہ مغرب ہی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا مرکز ہے اورامریکہ ہی اس کی سب سے پشت پناہ ریاست ہے لیکن مغرب اور سرمایہ داری کا یہ تعلق وقتی اور حادثاتی ہے لازمی اور منطقی نہیں۔ اگر معتزلہ کی فکر نویں اور دسویں صدی عیسویں میں مسلم دنیا میں غالب آجاتی تو اس کا بہت امکان تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام عرب دنیا میں پروان چڑھتا۔ معتزلہ کے پیرو اسلامی معیشت دان آج اسی چیز کا ماتم کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کیوں مسلم دنیا میں جڑ نہ پکڑی اور متکلمین فقہا اور صوفیا کی فکرنے امام غزالی کی قیادت میںکیوں معتزلہ کو شکست دی۔

سرمایہ داری کامرکز مغرب سے مشرق منتقل ہوسکتا ہے:
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کا زوال ہو لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز چین یا مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک منتقل ہوجائے۔ ان حالا ت میں یہ ممالک اسلام کے تمدنی اور سیاسی حریف اور دشمن کے طور پر ابھریں گے اورمغرب کی مرتی ہوئی قوموںکی قوت ختم ہوجائے گی لہٰذا ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارا جہاد کسی قوم کے خلاف نہیں بلکہ ایک نظامِ زندگی کے خلاف ہے وہ نظامِ زندگی سرمایہ داری ہے۔ اس کاایک مذہب ہے ]جس کو آج سائنس اور فلسفہ کہا جاتا ہے[۔ اس کی معیشت مارکیٹ یا پلان ہے اس کی سیاست ریپبلک اور دستورہے اس کی معاشرت سول سوسائٹی ہے اور یہ تمام مظاہر ہیں اس انفرادیت کے جس کو ہیومن بینگ [human being]کہتے ہیں۔ ہم سائنس اور فلسفہ، مارکیٹ اور پلان، ریپبلک اور دستور، سول سوسائٹی اور ہیومن بینگ [human being] کو منہدم کرنے کے لیے جہاد کررہے ہیں تاکہ علوم دین، بازار اور تجارت ، خلافت ِ الہیہٰ ، مدنیت اور انسانیت کا غلبہ۔ وہ انسانیت جس کی ہستی خداکے حضور عبادت کے ذریعہ معنویت اور معرفت حاصل کرتی ہو۔ اسی چیز کو[being with God] کہا جاتا ہے اور یہ human being کی واضح اور حتمی تردید ہے۔
اس جہاد کوجاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری امت مسلمہ کی حمایت اورقوت اس کے لیے مہیا [mobilize]کی جائے۔ اس سے پہلے کہ اس حکمت عملی کے خطوط پر گفتگو کرو ںجس کو اپنا کرہم ا س ہدف کو حاصل کرسکتے ہیںضروری ہے کہ مسلم معاشرہ کی موجودہ حالت کے بارے میں میرے جو تاثرات ہیںوہ عرض کروں ۔
مسلمانوں کی مجموعی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہے ]٢٠٠٥ء کے اعداد و شمار کے مطابق[ اور ٢ئ٢ فی صد سالانہ کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی آبادی اور اس میں ٣٠ سال سے کم عمر افراد کی تعداد تقریباً دو تہائی ہے جوکہ لا طینی امریکہ کے southern cone کے برابر اور دنیا کے دیگر تمام ملکوںمیں جوانوں کی مجموعی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعیت ہندوستان میںہے جہاں ہماری تعداد کم از کم ٢٥ کروڑ ہے۔ چین ،روس اوریورپ میں تقریباً ١٠ کروڑ مسلمان آباد ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ آبادی چین میں ہے۔دو اسلامی ریاستیں قائم ہیںایران اورسوڈان امارت اسلامیہ افغانستان اور چیچنیا کا ماضی قریب میں سقوط عمل میں آیا ہے۔ فلسطین کے چند محدود اضلاع میں یہودی تسلط کے زیر سایہ ایک اسلامی جماعت کو حکومت قائم کرنے کا موقع ملاہے۔

سرمایہ داری سے عالم اسلام میں عدم واقفیت:
سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاستی نظام کی گرفت مسلم دنیا پر مستحکم اور مضبوط ہے اوراس نظام ِ زندگی کے خلاف منظم اور مربوط جدوجہدنہ ہونے کے برابرہے۔عوام الناس کی بہت بڑی اکثریت سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو بحیثیت مجموعی قبول کرنے یا برداشت کرنے پر آمادہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے خلاف عوامی جدوجہد کے امکانات مفقود ہیں۔ جاہلانہ علمیت بلخصوص سائنس اورسوشل سائنسز کی گرفت مسلم ذہن پر مضبوط ہوتی جارہی ہے اور معاشرہ میں بہت سی ایسی چیزوں کو برداشت کیا جارہا ہے جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھی ۔ برصغیر پاک وہند میں صوفیاکی تحاریک اس قدرکم زور پڑگئی ہیں کہ عوامی روحانیت کو فروغ دینا ان کے لیے ممکن نہیں رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم سیکیولر حکومتوں اور استعماری ذرائع سے چلنے والی فحاشی پھیلانے والی اور حقوق کی سیاست کو عام کرنے والی NGOsکا معاشرتی اثر بڑھ گیاہے۔ کئی مسلم اکثریتی ممالک میں غیر مسلم اقلیتوںکو ، بالخصوص آغاخانیوں ، عیسائیوں، قبطیوںاور ہندوؤں کو ]انڈونیشیامیں[ معاشروں کو سیکولرائز کرنے کی ذمہ داری استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے سونپ دی ہے۔

مسلم دنیا عالمی سرمایہ داری میں ضم نہیں ہوسکی:
اس سب کے باوجود مسلم دنیا کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کرناایک مشکل کام بن گیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک یہ کہ آج کے دور میں سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس کے کلیدی مفروضات اوراس کی عقلیت[Rationality] لغو بے معنی مہمل اورتضادکا مجموعہ ثابت ہوئی۔ اس نے جو معاشرتی دعوے کیے تھے وہ نہ صرف یہ کہ حاصل نہ ہوئے بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ ان کا حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ جن اقوام نے اس جاہلانہ علمیت کو قبول کیا وہ آج اجتماعی خود کشی کررہی ہیں۔ جن ممالک میں یہ جاہلانہ علمیت فروغ پارہی ہے۔بالخصوص چین اور ہندوستان وہاں کی فکری اشرافیہ خوب جانتی ہے کہ ان ممالک کا انجام کیا ہوگا یہاں بھی آزادی اورترقی کے حصول کے لیے اجتماعی خود کشی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ آبادی میں اضافے کی رفتار تیزی سے گررہی ہے۔ عورتیں بچہ پیدا کرنے اور پرورش کے بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ نسوانیت اور مردانگی تباہ ہورہی ہیں اور انسانیت human being کے قالب میں ڈھل کر سسک کر دم توڑرہی ہے۔

چین اور ہندوستان کا المیہ:
چین اور ہندوستان کاالمیہ وہی ہے جوقرونِ وسطیٰ کے یورپ کا المیہ تھا۔ ان ممالک میں سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت کا موثر مقابلہ کرنے والی کوئی علمی روایت موجود نہیں۔ یورپ ،چین اور ہندوستان کی مذہبی علمیت نے انبیاء کی تعلیمات کو مسخ کردیا تھا اور نتیجتاً جب ان تہذیبوں کا سابقہ خالص علمی جاہلیت ]فلسفہ اور سائنس[ سے پڑا تواس جاہلیت خالصہ کے فروغ کے لیے تمدنی میدان پہلے ہی سے زرخیز تھا۔ لہٰذا ان ممالک میں جاہلیت خالصہ کی مخالفت جزوی ہوگئی ان ممالک نے جاہلیت خالصہ اورسرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی ایک تعبیر اورتشریح کورد کیا لیکن اسی نظامِ زندگی کی دوسری تشریح کو اپنالیا۔ مثلاً چینی کمیونسٹ نے مائو [Mao] کی فکر کا سہارا لے کر لبرل ازم کو رد کیا لیکن اشتراکیت [Socialism] کی بنیادپر مقبولیت عام حاصل کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہی مقام قوم پرستی کو دیا چینی کمیونزم اور ہندوتوا قوم پرستی جو قدیم چینی اور ہندو علمی اور تمدنی روایات شامل کی گئی وہ جاہلانہ علمیت میں ضم ہوکر رہ گئیں۔ تاریخی عمل نے ثابت کردیاہے کہ چینی کمیونزم اور ہندو توا قوم پرستی کے غلبہ کے نتیجہ میں لائوتسی [Laotse] اور کنفیوشسس [Confucious] اور بھگوت گیتااور ویدوںکی تعلیمات کا احیاء نہ ہوا بلکہ ہندوستان اور چین کوسرمایہ دارانہ انفرادیت ، معاشرت اور ریاستی نظام نے مسخرکرلیا ۔

مسلم معاشرے سرمایہ داری میں تحلیل کیوں نہ ہوئے؟
مسلم انفرادیت ، معاشرت اور نظام اقتدار کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں ضم کرنے کی کوشش کی متوقع ناکامی کی دوسری بنیادی وجہ ہے کہ اسلامی علمی اور روحانی روایات آج بھی اسی طرح محفوظ ہیں جیسے استعمار کے غلبہ سے قبل تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ جیسا عالم کسی دوسری امت کو نصیب نہ ہوا اور اس بات کا اظہار خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رویائے صادق میں فرمایا ہے۔ حضرت حجة الاسلام نے اسلامی روحانیت و علمیت کو ایک ایسے مربوط نظام فکر میں سمودیا جوناقابل تسخیر ہے اورجس کو بنیاد بنا کر سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت کو مسخر کیا جاسکتاہے۔ استعمار اور جاہلی علمیت کے اقتداری عروج کے دورمیں علمائے کرام اور صوفیائے عظام نے اس عظیم علمی اور روحانی ورثے کو کوڑے کھا کھا کر اورفاقہ پر فاقہ کرکر کے جاہلانہ عقلیت کے مغربی علم برداروں اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں کو ایسی عبرت ناک شکست فاش دی جسکی تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔
انیسویں صدی کے علمائے کرام اور صوفیا عظام کا یہ عدیم المثال کارنامہ وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ہم سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو منہدم کرنے کی حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔ اسلامی انفرادیت، معاشرت اور نظامِ اقتدار وہ ہتھیار ہیں جن سے عالمی سطح اوردنیا کے ہر گوشہ میں سرمایہ دارانہ جاہلی عقلیت اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کوبے دخل کیا جاسکتاہے۔ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والے نہ کسی بقائے باہمی قائل ہیں نہ کسی تہذیبو ںکے تصادم کے وہ اسلام کے سوا کسی تہذیب کے وجود کے قائل نہیں۔اسلام کے سوا دنیا میں جونظام زندگی بھی موجود ہے وہ جاہلیت خالصہ پر مبنی ہے اورعقل اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر جاہلانہ نظام زندگی کو جتنی جلد ممکن ہو تباہ کردیاجائے۔ اسلام کا حق ہے کہ وہ دنیا کے ہر گوشہ میں غالب آئے۔مسلم دنیا میں’ یورپ اورامریکہ میں’ چین اورہندوستان میںلا طینی امریکہ اور افریقہ اسود میں اورمسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس غلبہ کے لیے قیامت تک مسلسل جدوجہد کرتے رہیں۔

جدوجہد برپا کرنے والے گروہ:
اب میں اس جدوجہد کو جاری رکھنے کی حکمت عملی کے چند پہلوں کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کروں گا۔
تحفظِ دین اور غلبہ دین کی جدوجہد برپا اور منظم کرنے والے چار ممتاز گروہ ہیں۔
٭مدرسین اور مزکی
٭مبلغین اور مصلحین
٭انقلابی
٭مجاہدین
مدرسین اور مُزکیوں کا بنیادی ہدف اسلامی انفرادیت کا فروغ ہے۔ ان کا سب سے اہم ادارہ مدرسہ ہے۔ جس نے بیشتر مسلم ممالک میں خانقاہ کا نعم البدل پیش کیا ہے۔ مدارس کے فروغ کے نتیجہ میں مساجد کا سماجی دائرہ کار وسیع ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے زعما مدار س اورمسجد کے پھیلنے اور ان کے دائرہ کا ر میں آنے والی وسعت سے خائف ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ مدارس کو جاہلی علمیاتی نظام کے ماتحت کردیا جائے اور مسجد کو حکومت اورغیرا سلامی سماجی اور معاشی تنظیموں کے ماتحت کیا جائے۔ روحانی تربیت کے اداروں کو بدعات کے عام کرنے کے ذرائع کے طورپر استعمال کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔
مبلغین اور مصلحین ان گروہوں پر مشتمل ہیں جو دینی تہذیبی روایات کے تحفظ اورفروغ اور حلال کاروبار کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان میں سب سے اہم تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی ہیںاور بلاشبہ ان دونو ںجماعتوں کا عوامی اثر اوررابطہ دیگر تمام اسلامی صف بندیوں کے مقابلہ میں زیادہ مستحکم اور توانا ہے۔بہت سے بازاروں میں اسلامی تجارتی صف بندی بھی کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اوربرادریوں کا نظام حلال رزق اور اسلامی تجارتی نظام کے فروغ کے لیے ایک اہم کردار ادا کررہاہے۔بھٹو کے دورتک فکر اسلامی مزدور یونین مزدوروں کی اسلامی صف بندی کے ضمن میں یہی رول ادا کرتی تھیں لیکن یہ یونینیں ختم ہوگئی ہیں۔
مصلحین اور مبلغین میں اسلامی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ یہ تحفظ دین کی جدوجہد کو تقویت پہنچاتی ہیں اور شہری صوبائی اور مرکزی حکومتی اداروں میں شمولیت کے ذریعہ اسلامی اقدار اورروایات کا دفاع کرتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے زعما مصلحین کے ان گروہوں کو منتشر کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں۔ عوامی مبلغین میں سیاسی عمل سے منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان میں سیکولر رحجانات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اسلامی کاروباری صف بندی کو Financialمارکیٹ میں ضم کرنے کی سعی جاری ہے اور اس عمل کو اسلامی بینکاری کے ذریعے فروغ دیا جارہاہے اسلامی سیاسی جماعتوں کو لبرل جمہوری روایات اصول اور ترجیحات کو قبول کرنے پرآمادہ کیا جا رہا ہے۔
انقلابی گروہ وہ ہیں جو رائج شدہ نظام زندگی میں مکمل تبدیلی کے خواہاںہیں یہ لوگ مولانا مودودی اور سید قطب علیہ رحمہ کی فکرکے وارثین ہیں اور ان کی بنیادی سعی غلبہ دین کے لیے ہے۔
اخوان اور اخوان سے نکلی ہوئی انقلابی اسلامی جماعتوں کی عوامی مقبولیت عرب دنیا میںبڑھ رہی ہے اور موجودہ استبدادی حکومتوں خواہ وہ بادشاہتیں ہوں خواہ آمریت کے متبادل قیادت کے طور پر اسلامی انقلابی جماعتیںہی ابھر رہی ہیں۔

اسلامی انقلابی جماعتوں کو قوم پرست بنانے کی کوشش:
سرمایہ دارانہ استعمار کی کوشش ہے کہ اسلامی انقلابی جماعتوں کو جمہوری نظام میں ضم کرکے ان کو بنیادی طورپر مسلم قوم پرست بنادے ۔ قومی ترقی اور آزادی ان جماعتوں کے اصل سیاسی اہداف بن جائیں اور یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اس طرح ضم ہوں جیسے چین اور ہندوستان ضم ہوچکے ہیں لیکن اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کم از کم فی الوقت مسلم قوم پرست حکومتوں کووہ مراعات دینے پرآسانی سے تیارنہ ہوگا جو وہ چین اور ہندوستان کو دینے پر آمادہ ہے ظاہرہے مسلم قوم پرستی کو اپنانے کے بعد ان ریاستوںمیں علماء کی قیادت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکے گی اور اسلامی انقلاب فیصلہ کن شکست کھا جائے گا لہٰذا ان کو مسلم قوم پرست ایجنڈہ کو کلیتاً اپنانے پرراضی کرنا آسان نہیں۔
افغان مجاہدین نے جو ریاست قائم کی وہ ایک قومی ریاست نہیں ایک آفاقی جہادی ریاست تھی اس ریاست نے اپنا وجود جہاد کو عالمی سطح پر جاری رکھنے کے لیے قربان کردیا۔ سقوط افغانستان تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے بالخصوص ان معنوںمیں کہ اس نے جہاد کو ایک عالمگیر تحریک کے طور پر برپا کردیا۔ خلافت عثمانیہ کے دور کے بعد سے جہادِ افغانستان تک کے دور میں جہاد نے قومی جنگوں War of National Liberation کی شکل اختیار کرلی تھی۔ یہWars of national Librationلازماً دفاعی نوعیت کی ہوتی تھیں اور ان کا مقصد کسی مسلم علاقہ کو استعمارسے آزاد کرانا ہوتا تھا ان کی قیادت خواہ اسلامی عناصر کے ہاتھ میں ہو خواہ قوم پرست ہاتھوںمیں بنیادی طورپر ایک قومی ریاست کے قیام کے لیے جنگ کرتی تھی اور جہاد کا اختتام ایک مسلم قومی ریاست کے طور پرہوتا تھا۔ چوں کہ جہاد کا مقصد کسی مسلم قوم کی آزادی ہوتاتھا لہٰذا فطرتاً اس ریاست میں ایک قوم پرست قیادت ہی برسر اقتدار آتی اور اس کی پہلی ترجیح قومی جدوجہد کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے اسلامی عناصر کو ریاستی نظام اقتدار سے بے دخل کرنا ہوتا تھا۔ اس عمل کی سب سے واضح مثالیں الجیریا اور انڈونیشیا کی تحریک آزادی پیش کرتی ہیں۔
جہادِ افغانستان ]اور غالباً جہادِ چیچنیا اور داغستان[ war of national librations نہ تھی ۔ طالبان نے جو ریاست فتح کی وہ فوراً عالمگیر اسلامی جہاد کا بیس کیمپ بن گئی اس میں کسی قوم پرست قیادت کا ابھر کر سامنے آنا ممکن ہی نہ تھا لہٰذا قوم پرست قیادت] شمالی اتحاد[ امریکی استعمار کی باج گزار بننے پر مجبور ہوگئی اور سقوط امارةِ اسلامیہ کے بعد امریکہ کی باج گزار ریاست اس کی کٹھ پتلی قوم پرست نے قائم کی قومی اسلامی ریاستوں ، ایران اور سوڈان میں قوم پرست قیادت ریاستی تنظیم اقتدار سے کبھی بھی پوری طرح بے دخل نہیں ہوئی کیوں کہ قومی اسلامی ریاستیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے پیوست رہتی ہیں۔ ان قومی اسلامی ریاستوں کے ساتھ عالمی سرمایہ پُر امن بقائے باہمی [peaceful coexistence]کی بنیاد پر معاملہ کرسکتا ہے چناںچہ سوڈان کو کسی حد تک برداشت کرنا امریکہ کی افریقیائی سٹرٹیجک [stratigic] حکمت عملی کا حصہ ہے اورایران نے امریکی کمپنیوں کو توانائی کے شعبہ تک میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے سے گریز نہیں کیا۔ اپنی معاشی اورریاستی تنظیم میں بھی ان دونوں قومی اسلامی ریاستوں نے سرمایہ دارانہ صف بندی کو رد نہیںکیا۔ اس میں جزوی ترمیم پراکتفا کیا اورعالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ان کے تعلق کا سب سے واضح اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ ایران اور سوڈان سرمایہ داری سے کامل قطع تعلق نہ کرسکے۔ لہٰذا دونوں اپنے آپ کو ری پبلک [republic] کہتی ہیں۔
قومی اسلامی ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے وقتی ، علاقائی اور حادثاتی چیلنج اور خطرہ پیش کرتی ہیں لیکن بنیادی [foundational]اور نظاماتی [systemic]خطرہ پیش نہیں کرتیں۔ ان کو تباہ کرنا سرمایہ داری کے لیے ضروری [necessary]نہیں کیوں کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ان کی وابستگیاں مستحکم کرنے کا امکان ہمیشہ موجودرہتا ہے۔
لیکن عالمگیر جہادی اسلامی ریاستوں سے اس نوعیت کی پرامن بقائے باہمی پر عمل کرنا ممکن نہیں ۔سرمایہ دارانہ نظام ان کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا سرمایہ دارانہ نظام عالمی جہادی اسلامی ریاستوں کو تباہ کرنے پر مجبور ہے کیوں کہ اس کی جاہلانہ عقلیت کوئی ایسی دلیل فراہم کرنے سے قاصرہے جو ان مفروضات کی اصلاح کرسکے جن پر یہ اسلامی آفاقی جہادی ترتیبِ اقتدار قائم ہوتا ہے۔ یہ بات آج کا سب سے نمایاں ماڈرنسٹ فلسفی Jorgen Habermes خوب جانتا ہے اور٢٠٠١ء کے بعد سے تواتر کے ساتھ اس کا اظہار کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کی جدوجہد اور ایران کے مؤقف کی حمایت میں امریکہ اور مغربی ممالک سے بھرپور آوازیں اٹھتی ہیں لیکن چیچنیا اور افغان مجاہدین کے حق میں پورے مغرب سے ایک آواز بھی بلند نہیں ہوتی، یہ وہ واضح فرق ہے جو قومی اسلامی ریاستوں اور خالص جہادی آفاقی ریاستوں میں موجود ہے۔
جہاد افغانستان کے تسلسل نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد جاری رکھنے کے لیے آفاقی جہادی ریاست کا وجودضروری نہیں سقوط امارة اسلامیہ کے بعد بھی مجاہدین جہاد عالمی سطح پر جاری رکھے ہوئے ہے اور اس جہاد کو جاری رکھنا مجاہدین کی امتیازی ذمہ داری ہے اسی ذمہ داری کو قبول کرکے مجاہدین نے اپنے آپ کو دیگراسلامی صف بندیوں ]مدرسین ، مبلغین ، مصلحین اورانقلابیوں[ سے ممیزکیا اورممتاز کرتے ہیں۔
اب میں پاکستانی معاشرتی ریاستی تناظر میں ان امور پر گفتگو کروں گا جو سرمایہ داری کے خلاف اس جہادکو جاری رکھنے کے لیے اہم ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرتی نظام میں مجاہدین کا وجود نہایت محدود ہے اور ریاستی نظام میں تو وہ سرے سے کوئی وجودہی نہیں رکھتے۔جن علاقوںمیں ان کو عوامی اور قبائلی اقتداری تعاون حاصل ہیں وہ پاکستانی معاشرتی اور ریاستی نظام سے صرف واجبی طورپر منسلک ہیں۔ مجاہدین کی معاشرتی اورریاستی تنہائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایم ایم اے کی سرحد کی حکومت وانا[WANA]میں جاری فوج کشی کی مزاحمت پر نہ خودآمادہ ہوئی نہ اس پر اس فوج کشی کی مزاحمت کرنے کے لیے کوئی عوامی دباؤپڑا۔
مجاہدین کی دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ بیشترمجاہدین کی صف بندیاں پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ یہ انحصار ان تنظیموں میں توبہت زیادہ ہے جو جہاد کشمیر میں متحرک ہیں جہاد کشمیر تو خالصتاً ایک War of National Liberation ہے اور اسے سرمایہ داری کے خلاف برپا عالمی اسلامی جہاد سے منسلک کرنا کم از کم اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا عراقی مزاحمت کو اورفلسطینی انتفاضہ کو اس فرق کے ساتھ کہ عراق اورفلسطین میں مجاہدین کی ریاستی اور معاشرتی قوت کشمیر کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ افغانستان میں بھی طالبان نے سقوط کابل کے بعدجو نظام اقتدار مشرقی اور وسطی صوبوں میںقائم کیاہے اس کو ایجنسیوں نے penetrate کرنا شرو ع کردیا ہے۔
ان حالات کے تناظرمیں یہ بات کہنا ناگزیر ہے کہ مجاہدین کی سب سے بڑی ضرورت مسلمانان عالم کی طرف سے اعانت اورحمایت ہے اس حمایت کے بغیر مجاہدین دنیا میں کہیں بھی ایک مستحکم عالمی جہادی ریاست قائم نہیں کرسکتے اور نہ مجاہدین کا اثر چندمحدود علاقوں سے نکل سکتا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں جمہوریت اور سرمایہ داری کا ربط حادثاتی[contingent] ہے ضروری نہیں ہے ]یہ بات کم از کم قلیل مدت کے لیے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے، یہ ممکن ہے کہ جمہوری عمل ]بشمول عمل انتخاب[ ایک ایسا ارادہ کل [will of all]ترتیب دے جوارادہ عمومی [general will] کی تحدید اورتردید کرے۔ اسی امکان کو مسترد کرنے کے لیے دستور اورہیومن راٹس [human rights] کی تقدیم کو جمہوری عمل کے لیے ضروری سمجھاجاتا ہے اورجہاں بھی ارادہ کل [will of all] ارادہ عمومی [general will ]کی نفی کرے وہاں سرمایہ ارادہ کل کے اس اظہار کی تردید کی کوشش کرتاہے۔ لیکن ارادہ کل کے اس قسم کے فیصلوں کو مسترد کرنے میں وہ ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا۔ مثلا ً وہ ١٩٩٠ء کے الجزائر کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے میں جزواً اور ترکی کے ١٩٩٩ء کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے میں کامیاب ہوگیا ]مختلف طریقوں سے[ لیکن ایران کے ٢٠٠٥ء کے انتخابات کے اسی نوعیت کے نتائج کومسترد نہ کرسکا اور ٢٠٠٦ء کے فلسطینی انتخابات کو ردکرنے میں کامیاب ہوگا یا نہیں یہ بات غیر یقینی ہے لیکن سرمایہ داری کی تاریخ اس بات کی شہادت ضرور دیتی ہے کہ اگر جمہوری عمل جاری رہے اور ہیومن رائٹس کی تقدیم کو طویل مدت تک چیلنج نہ کیا جائے تو ارادہ اجتماعی [will of all] ارادہ عمومی [general will] یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کے مطابق ہوجاتاہے۔ لہٰذا انقلابی جماعتیں اگر انتخابات یا دوسرے جمہوری طریقوں کے ذریعہ برسرِ اقتدار آئیں تووہ اقتدار کے جمہوری عمل کومعطل یا محدود کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو جمہوری عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلابی عمل کو معطل کردیتاہے اسلامی جماعتوں کا جمہوری عمل میں شامل ہونا صرف اس صورت میں غلبۂ دین کے لیے مفید ہوسکتاہے جب اس شمولیت کے نتیجہ میںدستوریت ]یعنی نظامِ اقتدار میں ہیومن رائٹس کی فوقیت[کو کمزور کرنے کے لیے اس شمولیت کو استعمال کیا جائے ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ جماعتوں ۔خواہ لبرل خواہ قوم پرست خواہ سوشل ڈیموکریٹ کے ساتھ الائنس قائم کرکے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکتا اور ایسے الائنس میں شمولیت کے نتیجہ میں اسلامی جماعتیں اپنا اسلامی تشخص کھو بیٹھتی ہیں سرمایہ دارنہ نظام اقتدار کے ذمہ داروں میں ان کا شمار ہونے لگتاہے اور اس نظام کے ساتھ ان کی وابستگیاں وفاداریاں اور مفادات منسلک ہوجاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ مخالف ادارتی صف بندی ان کے لیے نا ممکن ہوجاتی ہے۔
جمہوری عمل میں شرکت کا اصل مقصد سرمایہ دارانہ مخالف ریاستی اور معاشرتی اقدامات کا تحفظ ہے۔پاکستان کا تجربہ یہ ہے کہ حکومت میں شمولیت کے نتیجہ میں یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔مثلاً سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور کراچی کی شہری انتظامیہ نے ٢٠٠٢ء تا ٢٠٠٦ء کوئی بھی ایسے اقدامات نہ کیے جس کے نتیجہ میں شہری یا صوبائی سطح پر سرمایہ دارانہ مخالف اسلامی ادارتی صف بندی ممکن ہوتی۔اس کے برعکس اسلامی جماعتوں کے کارکن سرمایہ دارانہ تعمیری پروجیکٹس کے کار فرما اور منتظم بن گئے اور بہت سے سرمایہ دارانہ گروہوں اور افرادنے اسلامی جماعتوںکو اپنے مقاصد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے اسلامی جماعتوں کا تشخص بری طرح مجروح ہوا اور شہری اور صوبائی سطح پرنہ اسلامی انفرادیت نے فروغ پایا نہ اسلامی معاشرت اور ریاستی اداری صف بندی نے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں کوئی بھی اسلامی جماعت وہ معاشرتی قوت نہیں رکھتی جو سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کو انقلابی ادارتی صف بندی کا آلہ کار بنانے کے لیے ضروری ہے۔ معاشرتی انقلابی صف بندی کے بغیر نظام اقتدارمیں شمولیت لازماً مضر ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا کم از کم مستقبل قریب میں اسلامی سیاسی جدوجہد کا مقصدنظام اقتدار میں شمولیت نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس کا مقصدایسی سیاسی قوت کی فراہمی ہونا چاہیے جو سیکولر حکومت پر دباؤ ڈال کر اس کو غیر اسلامی اقدمات سے باز رکھنے اور اسلامی معاشرتی ادارتی صف بندی کو گوارا اوربرداشت کرنے پر مجبور کردے اس حکمت کو سیاست کے اندر ریاستی نظام تعمیر کرنے کی حکمت ِ عملی[Building a state within a state]کہتے ہیں اور یہ حکمت عملی کامیابی کے ساتھ ایرانی علما نے مصدق کے زوال کے بعد سے ١٩٧٨ء تک اپنائی ۔ اس حکمت عملی کی بنیاد اسلامی اتحاد فراہم کرنا ہے۔ پاکستان میں اس اتحاد کی بنیاد متحدہ مجلس عمل کے قیام کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوچکا ہے۔ اس اتحاد میں تمام اسلامی مکاتیب فکرشیعہ بریلوی، دیوبندی،اوراہل حدیث ۔ اور بیشتراسلامی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اتحاد دنیائے اسلام کی ایک نہایت اہم ضرورت سے اوراس اتحادکے عدم وجودکی بنا پر امریکہ بہت فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر شیعہ سنی اتحاد ہوتا۔ تو ٢٠٠٢ء میں طالبان کی پسپائی نا ممکن تھی کیوں کہ حکومت ایران طالبان کو کبھی بھی اس طرح تنہانہ چھوڑتی جس طرح ایک دھمکی پر افغانستان کے قدیم حلیف نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا اور عراق میں بھی امریکہ طویل عرصے تک قیام نہ کرسکتا اگر شیعہ اورسنی جہادی قوتیں متحدنہ ہوئیں تو اس اتحادکے بغیر ایران کا جوہری اسلحہ اور تنصیبات کا تحفظ بھی بہت مشکل ہے۔ پاکستان میںجتنا ضروری شیعہ سنی اتحادہے اس سے کچھ کم ضروری بریلوی ، دیو بندی اتحادنہیں۔ علوم اسلامی اور روایات اور رسوم اسلامی کے تحفظ کے لئے دیوبندی اور بریلوی مکاتیبِ فکر نے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیںوہ فطرتاً ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے والی complement کرنے والی ہیں۔ ان کے اختلافات فروعی ہیں اور ان اختلافات کو برطانوی استعمارنے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا۔ حقیقتاً بریلوی اور دیو بندی علما اور ان کی عوامی جماعتیں بالخصوص تبلیغی جماعت اوردعوت اسلامی پاکستانی معاشرہ میں ایک دوسرے کی فطری حلیف ہیں۔
جہاد اسلامی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے مسلم عوام جہاد کی بھر پور اعانت پرآمادہ ہوں اس چیزکو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جتنا بھی کام تحفظ دین اور غلبہ دین کے لیے ہورہا ہے وہ ایک لڑی میں پرودیاجائے اور فکر اور حکمت عملی کی تطبیق کے ذریعہ مختلف اسلامی جماعتوں اورگروہوں میںمسابقت اور رفاقت کی فضا قائم کی جائے اورہر گروہ کو احساس دلایا جائے کہ دیگرتمام اسلامی جماعتیں اور گروہ اس کے فطری حلیف اور معاون ہیںفکراور عمل کے اس ارتباط کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فروعی اختلافات سے صرف نظر کیا جائے اور ایک دوسرے کے عقائد اوراعمال کو شک کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیا جائے۔ بغیر اس کے ہم نہ تو مجاہدین کی جدوجہدکی عوامی مقبولیت کو منظم کرسکتے ہیں اور نہ استعمار کے ایجنٹوں کو معاشرہ اور ریاست کی سطح پر تنہا اور بے اثر کر سکتے ہیں۔
دوسرے مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مجاہدین کی جدوجہد کو عوامی سطح پر قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتاہے لیکن مجاہدین کی یہ عوامی اعانت دووجوہات سے بے اثرثابت ہوتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو مختلف اسلامی گروہوں کے آپس کے شکوک اور شبہات ہیں انہی شکوک اورشبہات نے فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے مسلمان آپس کی لڑائی ہی کو جہادسمجھنے لگے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ جب اسلامی گروہ آپس ہی میں دست و گریباں ہوں گے تو وہ لازماً اس سے قاصررہیں گے کہ ایک مربوط اور دور رس حکمت عملی تفویض کرسکیں۔ جو کچھ کام دفاع اور غلبہ دین کے ضمن میں ریاست اور معاشرہ کی سطح پر ہورہاہے لیکن اس کو ایک لڑی میں پرونے ایک نظاماتی ہیئت [structure] میں سمونے کا کوئی انتظام نہیں لہٰذا نظام کی سطح پر مسلمانان پاکستان کی قوت نہ مجتمع ہو پاتی ہے اور نہ ایک فصیل قوت کے طورپر سامنے آتی ہے۔
ضروری ہے کہ تحفظ اور غلبہ دین کے کام کرنے والا ہر گروہ اس بات کواچھی طرح سمجھے کہ اسلام ایک مکمل مربوط آفاقی اور عالمگیری نظام حیات ہے اور جو کام بھی کوئی ایک اسلامی گروہ کررہا ہے اس کا تعلق دیگر تمام اسلامی گروہوں کے کام سے مربوط ہے تفہیم اور تفسیر کتاب مقدسہ کا کام پھیل نہیں سکتا اورمحفوظ تک نہیں رہ سکتا اگرمسلمانوں کی اجتماعی سیاسی قوت مضمحل ہوجائے جہاد جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی رسوم و رواج فروغ پائیں اور صوفیائے عظام معاشرہ کو اسلامی روحانیت سے سرشار کریں۔ مدرسین ، مزکی ، مبلغین ، مصلحین ، انقلابی اور مجاہدین یہ سب ایک دوسرے کے فطری حلیف اور ایک دوسرے کے پشتبان ہیں ۔ کا یہی مفہوم ہے تمام اسلامی کام کی تطبیق کے ضروری ہے کہ ہر اسلامی تنظیم کا کارکن دو باتیں اچھی طرح سمجھ لے ۔
پہلی بات تویہ کہ اسلام ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہے تحفظ و غلبہ دین کی یہ جدوجہد کوئی ختم ہونے والی چیز نہیں یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ورود کے وقت تک مسلسل جاری رہے گی اوراس کی کامیابی کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ کوئی اسلامی ریاست لازماً قائم ہوجائے یا اگر قائم ہوجائے تو قیامت تک کے لئے باقی بھی رہے جدوجہد کے نتیجے میں ریاست قائم بھی ہوتی ہے تحلیل بھی ہوتی ہے۔ جدوجہد کو مادی مظہر قیام ریاست سے مشروط و محدود کرنا اسلامی انقلابی جدوجہد کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اسے مادی اظہار سے لازماً منسلک کرنے کے مترادف ہے۔ کوئی مکمل اسلامی معاشرت یا معیشت وجودمیں آجائے یا تمام مسلمان متقی اورمومن بن جائیں ہم دنیا کے سامنے کوئی ماڈل پیش کرنے کے مکلف نہیں۔ ایک ایسے آئیڈیل معاشرہ یا ماڈل ریاست جس میں گناہ کرنا ناممکن ہو۔ تمام لوگ سکوں سے رہیں۔ تمام مسائل حل ہوجائیں۔ اورترقی و آزادی بام عروج کو پہنچ جائے۔ افراد کی للہیت بڑھتی گھٹتی رہے گی معاشرتی پاکیزگی اور پراگندگی میںاضافہ اورکمی ہوتی رہے گی اسلامی ریاستیں خواہ قومی خواہ آفاقی اور جہادی ہوںبنتی اور ٹوٹتی رہیں گی۔ تحفظ دین اور غلبہ دین میں کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ دین مکمل طور پر دنیا میں ہمیشہ کے لیے غالب آجائے حقیقت یہ ہے کہ تحفظ اور غلبہ دین کی جدوجہد کے ہر مرحلہ میں مسلمانوں کو مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ الآم اورمصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اورآزمائشوں سے مسلسل گزرتا رہنا پڑے گا۔خیر القرون اور پہلی ہجری صدی ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک تحفظ اور غلبہ دین کے نتیجے میں کامیابی کے مادی اظہار ریاست اور غلبہ و شوکت و فتح کے آثار کا ہر جگہ ظاہر ہونا ضروری نہیں، ہر جگہ اسلامی ریاستوں کا قیام بھی اس جدوجہد کا لازمی نتیجہ نہیں، لیکن اس جدوجہد پر ایمان و یقین اور اس میں مسلسل شرکت و تعاون اصل کامیابی و کامرانی اور اصل روح جہاد ہے۔ اگر اس روح کو کامیابی کے مادی مظاہر ریاست کے قیام وغیرہ سے مشروط کر دیا جائے تو یہ جدوجہد کم زور ہوجائے گی۔ مجاہد کامیا ب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتا ہے اس کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور جنت میں داخلہ کا پروانہ ملتا ہے اسی چیز کو قرآن نے فوزالعظیم سے تعبیر کیا ہے اورشہادت اس کی سب سے واضح علامت ہے۔ ہروہ کارکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہے جس نے تحفظ اور غلبہ دین کی تگ ودو میں اپنی پوری زندگی گزاری اور ”اسی دامن میں بسایا گلشن کنج مزار اس نے”
ہم دنیا میں جنت بنانے کی دعوت نہیں دیتے یا سرمایہ داری اوراس کے مذاہب لبرل ازم قوم پرستی سوشلزم کی دعوت نہیں دیتے بلکہ جنت میں جانے کے لیے جدو جہد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلبہ دین کے نتیجے میں جوریاست قائم ہوتی ہے وہ ایک جہادی ریاست ہوتی ہے کوئی ویلفیئر اسٹیٹ [welfare state] نہیں ہوتی اوراس کے قائم ہوتے ہی کفار اس کو نیست اور نابود کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔
دوسری بات جو تحریک تحفظ اور غلبہ دین کے ہر کارکن کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ کہ وہ جس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کررہاہے وہ آج کے دور میں زندگی کے ہر شعبہ پرغلبہ رکھتاہے۔تبلیغی جماعت اور دعوة اسلامی سرمایہ دارانہ انفرادیت کے خلا ف جدوجہد کررہے ہیں۔ مدارس اوراسلامی ٹریڈ یونینیں سرمایہ دارانہ معاشرت اورمعیشت کے خلاف مصروف عمل ہیں ایم ایم اے کی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام اقتدار ریاست کے خلاف بر سر پیکارہیں اگر تبلیغی جماعت اسلامی انفرادیت کی جدوجہد میں سرمایہ دارانہ معاشرت اور سرمایہ دارانہ نظام اقتدار سے اعانت حاصل کرسکے اور اسی معاشرت اورریاستی نظام کا حصہ بن جائیں تووہ اسلامی کردار کی تعمیر کے کام کو مستحکم بنیاد پر قائم نہ کرسکے گی اسی طرح اگر جماعت اسلامی اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں سرمایہ دارانہ معاشرتی صف بندی میںاپنا مقام بنانے کی کوشش کرے یا سرمایہ دارانہ علمیت کو قبول کرلے تو وہ اپنے سیاسی مقاصد کو ناقابل حصول بنادے گی۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہر جماعت اورگروہ اپنے منتخب دائرہ کار کوسرمایہ دارانہ نظام میں سموئے جانے سے محفوظ رکھے۔ یہ ایک نہایت مشکل کام ہے اور گوکہ تحفظ کی طرف پیش رفت کسی نہ کسی حد تک اتحاد اسلامی سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن اصل ضرورت ایک ایسی علمیت کی ہے جو سرمایہ داری پر بحیثیت ایک نظام زندگی حکم لگانے کی اہلیت رکھتی ہو اور جس کی بنیادپرایک ایسا علم الکلام تعمیر ہوسکتا ہے جو نظاماتی سطح [Systemic] پر سرمایہ دارانہ فکر اور عمل کی نامعقولیت ثابت کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ برعظیم پاک و ہند میں خواجہ گان چشتیہ اور حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی کے ادوار کے بعد سے غیر اسلامی نظام ہائے زندگی پر محاکمہ اور ان کی علمی اور روحانی تسخیر پر سے توجہ ہٹ گئی اور اقتدار بالعموم اسلامی ریاستوں کے پاس رہا اس لیے علمی توجہ نظاماتی سطح سے ہٹ کر انفرادی سطح پر مرکوز ہوگئی۔ نظامِ تعلیم نظام معاشرت و معیشت اور نظام اقتدار چوں کہ اسلامی خطوط پرمروج تھا لہذا توجہ کا مرکز اس نظام کے اصول اور روح نہ رہی۔ فتاوےّٰ انفرادی اعمال پر نہ کہ نظاماتی خصائص پر مرکوزہوگئے اور ١٦ ویں صدی کے وسط سے لے کر آج تک برعظیم میں جو علم کلام مرتب ہوا اسکا اصل موضوع اسلامی نظام زندگی میں بدعات اور معاصی کا ورود تھا اس علم الکلام علم فقہ کے مخاطب مسلمان تھے اور وہ مسائل جو کہ کسی غیر اسلامی نظام زندگی کے ظہور اور غلبہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس فکر کا موضو ع نہیں تھے۔
مغل سلطنت کی تباہی کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں اور برعظیم میں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو غلبہ حاصل ہوگیا اوراسلامی نظام زندگی کا غلبہ ریاستی سطح پر مطلقاً اور معاشرتی سطح پر جزو ا معطل ہوگیا ہے۔ ]اور یہی کیفیت بیشتر مسلم دنیا میں ہے[ لہٰذا ایک ایسے فقہ اور علم الکلام کی تدوین کی اشد ضرورت ہے جو نظام [System] پرحکم صادر کرے اور سرمایہ دارانہ علمیت کی اصلی اوراصولی نا معقولیت واضح کرے یہ کام اس بات کا متقاضی ہے کہ علما اورصوفیا فکر غزالی کے احیا کو تمام علمی اور روحانی کام کا مرکز اور محور بنالیں یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے مدارس میںحضرت حجتہ الاسلام رحم الہہ کی فکر اور تصانیف کووہ اہمیت حاصل نہیں جو ان کاحق ہے۔ تاریخ اسلام میں حضرت حجتہ الاسلام کا فکری اور روحانی کارنامہ منفرد اور یکتا ہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی اوراس کی جاہلانہ علمیت کا اسلامی محاکمہ امام غزالی کے فکرکے احیا کے بغیر نا ممکن ہے۔
تحریر :ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، کتاب : سرمایہ دارانہ نظام – ایک تنقیدی جائزہ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password