اشتراکیت یا ریاستی سرمایہ داری

اشتراکیت کے علم برادر بڑی فنی مہارت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نظام ایک خاص نوعیت کی معاشی ہیئت ہے جس میں معاشرے کے کمزور اور مفلوک الحال طبقات کو سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ سے بچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لوگ محض اشتراکیوں کے پروپیگنڈے سے مسحور ہو کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف کوئی نظام ہے حالانکہ اگر گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت خودبخود منکشف ہوجائے گی کہ اشتراکیت سرمایہ داری سے الگ کوئی نظام نہیں اور نہ یہ اس کے خلاف کوئی ردعمل ہے بلکہ دراصل یہ اشتراکیت سرمایہ دارانہ مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کا محض ایک دوسرا طریقہ ہے۔
ہر چند کہ اشتراکیت ایک دم توڑتی ہوئی قوت ہے اور ہمارا اصل مقابلہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام سے ہے جو کہ استعمار کی شکل میں اس وقت غالب ہے لیکن اشتراکی سرمایہ داری سے بھی امت مسلمہ کو خطرات ہیں جن کا ادراک کرنا اشد ضروری ہے خصوصاً اس پس منظر میں کہ اشتراکیت نے برصغیر میں خصوصاً اور دیگر مسلم ممالک میں عموماً اسلامی فکر کو بہت متاثر کیا ہے۔ امت مسلمہ کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اور غلبہ دین کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان دونوں باطل نظریات کو شرح صدر کیساتھ بالکلیہ رد کردیں۔

اشتراکی سرمایہ داری کی اساسی بنیادیں:
جیسا کہ ہم تمہید میں بیان کر چکے ہیں کہ تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی دو شکلیں ہیں۔
1۔ لبرل سرمایہ داری
2۔ اشتراکی سرمایہ داری
یہ بات ہم اس لیے کہتے ہیں کہ دونوں کے بنیادی ماخذات اور اساسی تصورات میں کوئی فرق نہیں ہے’ دونوں کے مابعد الطبیعاتی تصورات اور منہج میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے اور اصولاً دونوں کے اہداف بالکل یکساں ہیں۔
اشتراکی سرمایہ داری اور لبرل سرمایہ داری دونوں تحریک تنویر کی پیداوار ہیں جو دراصل مغربی تہذیب کی روح رواں تحریک ہے یہ تحریک خدا سے بغاوت کی تحریک تھی۔ اس تحریک نے کہا کہ انسان قائم بالذات’ خود مختار ہستی ہے۔ وہ ان معنوں میں آزاد ہے کہ اسے وحی اور ہدایت کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے حق کی جو چاہے تشریح بھی کرسکتا اور حق کی تعمیر بھی کرسکتا ہے، گویا تحریک تنویر کی بنیادی دعوت ”آزادی” کی دعوت ہے۔ فرد ان معنوں میں آزاد ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہے اس پر کوئی خارجی قدغن نہ لگائی جائے بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ جو اپنے لیے چاہتا ہے سب کے لئے چاہ سکتا ہے یا نہیں یعنی اپنی چاہت کو سب کے لیے آفاقی کرسکتا ہے یا نہیں مثلاً فرد اگر اپنی ذہنی کسوٹی پر اس بات کو رکھے کہ وہ زنا چاہتا ہے اور اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ زنا عام ہو تو پھر یہ ایک پسندیدہ قدر کہلائے گی گویا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ ہر وہ خواہش جو نفس انسانی کے اندر پرورش پاتی ہے اگر اس خواہش کو آفاقی بنایا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ہم ایسے اصول مرتب کرسکیں کہ تمام انسانوں کے لیے یہ ممکن ہوسکتا ہو کہ وہ اپنی اپنی خواہش کو پورا کرسکیں تو یہ کہنا درست نہیں کہ اسے یہ خواہش نہیں رکھنا چاہئے۔ المختصر ہر فرد اپنے لیے پیمانہ معیار خیر و شر چن سکتا ہے بس وہ کسی دوسرے کی تشریح خیر و شر میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے تحریک تنویر کو ”آزادی” کے ساتھ ”مساوات” کو بھی اساسی قدر کے طور پر اپنانا پڑا۔
آزادی اور مساوات لبرلزم کی دو بنیادی اقدار ہیں اور ان دونوں اقدار کو اشتراکیت نے من و عن قبول کیا ہے۔ اگر ہم کسی اشتراکی سے سوال کریں کہ نظام زندگی کو مرتب کرنے کے اصول کیا ہیں تو وہ ایک لبرل کی طرح جواب دے گا کہ آزادی اور مساوات اساسی اصول ہیں۔ یہ آزادی اور مساوات بنیادی طور پر عبدیت کی رد ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اﷲ نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور سورة یٰسین میں ہے۔
”نہ بندگی کرنا شیطان کی وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ بندگی کرو اﷲ کی کہ یہ سیدھا راستہ ہے” اور اسی وصف عبدیت کی بنیاد پر معاشرے میں اس کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ اسلام میں بنائے فضیلت تقویٰ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بزرگی کا حامل وہ شخص ہے جو اس سے ڈرنے والا ہے جو اس کے اوامر پر عمل کرنے والا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنے والا ہے ۔خشیت کا یہ وصف جس انسان کے اندر جس قدر بڑھا ہوا ہوگا اس نسبت سے وہ شرافت و بزرگی کا اہل قرار پائے گا۔
اس لئے اسلام کے علاوہ بھی تمام الہامی مذاہب آزادی اور مساوات کو رد کرتے ہیں اور عبدیت اور ہدایت پر زور دیتے ہیں۔ اسلام میں اس دنیا کے لئے اور اخروی دنیا کے لیے بھی ہدایت کا پورا نظام موجود ہے جو ہم تک انبیائ’ صحابہ’ تابعین’ تبع تابعین’ علماء اسلام اور صوفیائے عظام کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے جس طرح ہم عبدیت پر اصرار کرتے ہیں اسی طرح اس نظام ہدایت پر بھی اصرار کرتے ہیں اور لبرل سرمایہ داری’ اشتراکی سرمایہ داری کی جو اقدار اس کی نفی کرتی ہیں ان کو بالکلیہ رد کرتے ہیں آزادی اور مساوات کی انہی اساسی قدروں کی وجہ سے ہم لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری دونوں کو کفر کہتے ہیں اس لیے کہ یہ عبدیت سے انکار اور خدا سے بغاوت پر زور دیتے ہیں، تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود جڑاور بنیاد دونوں کی ایک ہی ہے اس لیے دونوں معاشروں کا جائزہ لیں تو افراد میں یکساں قلبی کیفیات پروان چڑھتی ہیں جتنا باغی او ررذیل ایک فرد لبرل سرمایہ داری میں ہوتا ہے’ اتنا ہی اشتراکی سرمایہ داری میں بھی ہوتا ہے۔

لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری میں فروعی اختلاف:
اساسی اقدار کی مماثلت بیان کرنے کے بعد ہم اس سوال کی جانب آتے ہیں کہ ان دونوں میں اختلاف کیا ہے اور کس بنیاد پر ان دونوں کی راہیں جدا جدا محسوس ہوتی ہیں …..اشتراکیت کا لبرل سرمایہ داری پر محض یہ اعتراض ہے کہ سرمایہ درانہ نظام میں آزادی اور مساوات کا حصول ممکن نہیں ہے ۔لبرل سرمایہ داری جس آزادی اور مساوات کا دعویٰ کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں قائم نہیں ہوسکتے اور اس کی وجہ لبرل سرمایہ داری کی ایک علمیاتی غلطی ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ لبرل سرمایہ داری میں سمجھا جاتا ہے کہ فرد بحیثیت فرد خیر کی تشریح کر سکتا ہے جبکہ اشتراکی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ خیر کی تشریح فرد نہیں کرتا بلکہ انسانیت بحیثیت مجموعی کرسکتی ہے اور کسی فرد کا یہ فیصلہ کہ حق کیا ہے اور کیا نہیں ہے آفاقی نہیں بنایا جاسکتا ۔حق کی وہ تعبیر آفاقی بنی ہے جو عملاً کسی تاریخ کے اندر تعمیر کی جاتی ہے’ حق کی تلاش اگر کرنی ہے تو انسان کی تاریخ کے اندر دیکھو’ تاریخ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ہے انسان ترقی کرتا گیا ہے تاریخ کے اندر وہ نظام موجود ہے جس کے اندر باطل خیالات و تصورات خودبخود ختم ہوتے چلے گئے ہیں اور وہ تصورات جو کہ حق اور خیر ہیں ان کو غلبہ اور عروج حاصل ہوا ہے لہٰذا تاریخی تسلسل ہی وہ ذریعہ ہے جس کے نتیجے میں حق کی اصلی تعبیر ہوتی چلی آئی ہے اس لیے فرد کو تشریح خیر کے ضمن میں مرکزی حیثیت دینے کے بجائے ہمیں انسانیت کے ایک گروہ کی جدوجہد کے مطالعے کی ضرورت ہے جو تاریخی عمل کے نتیجے میں غالب آتا ہے اس لئے ہمیں حق اور خیر کی تشریح جاننے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ تسلسل تاریخ انسانیت کیا ہے اور وہ کون سے رجحانات ہیں جن کی وجہ سے ایک خاص طرز زندگی غالب آیا ہے۔

مارکس کا مادی نظریہ تاریخ اور طبقاتی نزاع:
مارکس نے ایک خاص تعبیر تاریخ پیشکی ہے جسے جدی مادیت (Dialectical Materialism) یا مادی تصور تاریخ کہا جاتا ہے اور اس نظریہ تاریخ سے وہ اپنا طبقاتی نزاع (Class Struggle) کا نظریہ بھی بیان کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ حق کی تعمیر و تشریح کا اصلی ذریعہ ایک طبقہ اور کلاس ہے’ وہ فرد نہیں ہے اور حق کی تعمیر و تشریح طبقات کی باہمی کشمکش کے ذریعہ ہوتی ہے۔ بنیادی عمل جو تاریخ میں انسان تسخیر کائنات یا کائنات میں اپنی مرضی مسلط کرنے کے لے یا قدرت پر اپنے اقتدار کی توسیع کے لیے کرتا ہے مارکس کے بقول وہ پیداواری عمل ہے اس کے بقول ذرائع پیداوار کی نوعیت ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر انسان کے اخلاقی اور مذہبی معتقدات اور اس کے تمدن اور علو م و فنون کی بالائی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔پیدائش دولت کے مختلف طریقے ہی کسی دور کی ذہنی’ سماجی اور سیاسی زندگی کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں انسانیت کے ارتقاء کی اس کے نزدیک صورت یہ ہے کہ پہلے معاشی پیداوار کے طریقوں میں تبدیلی ہوتی ہے اس کا براہ راست اثر اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات پر پڑتا ہے اور اس سے زندگی کی مادی قدریں از خود بدل جاتی ہیں اور اس طرح ایک نیا نظام وجود میں آتا ہے۔ اب دونوں نظاموں میں جذلی عمل اور کشمکش شروع ہوتی ہے اور بالآخر وہ مصالحت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد دونوں مل کر ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جس میں تمام صالح اجزاء شامل ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ایسا نظام پہلے نظاموں سے بہتر ہوتا ہے اور اسی طریقے سے انسانیت کا ارتقاء ہورہا ہے اس نظریہ تاریخ کے مطابق دنیا کی ساری صداقتیں اضافی قرار پاتی ہیں۔ یعنی ہر صداقت جس دور کے معاشی حالات سے وجود پذیر ہوتی ہے’ اس دور کے ختم ہوجانے پر ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے اگر کسی چیز کا وجود کسی دور کے معاشی تقاضوں کے لیے ناگزیر ہے تو وہ مستحسن اور پسندیدہ ہے لیکن یہی چیز اگر معاشی تقاضوں کے بدل جانے سے بے کار ہوجائے تو وہ باطل ہوجاتی ہے ایسی کوئی صداقت نہیں اور نہ ہوسکتی ہے جو ہر زمانے کے لیے یکساں طور پر صحیح اور ابدی ہونے کی دعویدار ہو۔ المختصر اوزار پیداوار اور طرائق پیداوار کے بدل جانے سے تعلقات پیداوار بدلتے چلے جاتے ہیں اور ان میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے اور دیگر ساری تبدیلیاں انہی کے مرہون منت ہوتی ہیں۔
تاریخ کی اس مادی تعبیر ہی سے طبقاتی نزاع کے تصور نے جنم لیا۔ مارکس کے نزدیک ہر معاشی نظام جب ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے اندر سے ہی بعض نئی پیداواری قوتیں نمودار ہوجاتی ہیں جو اپنے زمانے کے حالات پیداوار سے متصادم ہوجاتی ہیں۔ نئی قوتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مروجہ نظام میں جس طبقاتی تقسیم پر مبنی ہے اسے بدل کر طبقوں کی از سر نو تقسیم عمل میں لائی جائے اور پرانا ملکیتی نظام بھی تبدیل کردیا جائے۔ یہ مطالبہ ان طبقوں پر بہت شاق گزرتا ہے جنہوں نے مروجہ معاشی تنظیم اور طبقاتی تقسیم میں دوسرے طبقوں سے زیادہ قوت و اقتدار حاصل کرلیا ہے۔ وہ اپنے مفادات کی پوری طاقت کے ساتھ حفاظت کرتے ہیں اس لیے جب کسی معاشی تنظیم میں نئی پیداواری قوتیں ابھر کر مروجہ طبقاتی تقسیم کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتی ہیں تو یہ طبقے انہیں ختم کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ پسے ہوئے طبقے جب نئی پیداواری قوتوں کو آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے استحصال کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سے ایک کشمکش جنم لیتی ہے ۔مارکس کے نزدیک انسانیت کے تمام اہم فیصلے جو زندگی اور اس کی قدروں کو بدلنے والے ہو ںاس کشمکش کا نتیجہ سے طے پاتے ہیں۔ مارکس اور اینجلز نے اپنے اشتمالی منشور کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے۔:
”انسان نے آج تک جتنے معاشرے قائم کیے ہیں ان سب کی تاریخ طبقاتی نزاع کی تاریخ ہے’ غلام اور آقا’ امراء و جمہور’ سرمایہ دار اور مزدور مختصر یہ کہ ظالم و مظلوم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مخالف اور باہم برسرپیکار رہے ہیں۔”

سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید:
سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید بیان کرنے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ مارکس کی چند اصلاحات کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
1۔ سرمایہ: (Captial)
جب اشیاء خرید و فروخت کے لیے بنائی جائیں تو ان پر خرچ آنے والی رقم سرمایہ کہلاتی ہے کیوں کہ یہ رقم اس لیے خرچ کی جارہی ہے کہاکہ اس سے بننے والی اشیاء کی فروخت سے مزید رقم کمائی جائے۔
2۔ جنس: (Commdity)
فطرت کے عطا کردہ مادہ پر جب اس لیے محنت کی جائے کہ اسے تجارت کے لیے بیچا جاسکے تو پیدا کی جانے والی چیز کو جنس کہتے ہیں۔
3۔ قدر استعمال: (Use value)
قدر استعمال کسی جنس کی صفت یا خصوصیت کا نام ہے مثلاً اناج کی قدر استعمال کھانے سے معلوم ہوتی ہے۔
4۔ قدر اصل: (Intrinsic value)
استعمال کی جانے والی جس شے پر نظر ڈالیے وہ اس معیاری سماجی ضروری محنت کا اظہار کرتی ہے جو اس جنس کے بنانے میں صرف ہوتی ہے ہر جنس کے بنانے میں سماجی ضروری محنت کا معیار جدا جدا ہوتا ہے جو اس جنس کی ”قدر اصل” کہلاتا ہے۔
5۔ معیاری سماجی ضروری محنت (Socially necessarly labour)
اس میں دو مختلف اجناس کی کیفیت یا قسم مدنظر نہیں ہوتی بلکہ یہ دیکھاجاتا ہے کہ ان اجناس میں استعمالی قدر پیدا کرنے کے لیے کس قدر وقت اور اوسط محنت صرف ہوئی ہے۔
6۔قدر تبادلہ: (Exchang value)
نسبت تبادلہ میں اجناس کی قدر کم یابی یا فراوانی یعنی رسد اور طلب کے ماتحت قرار پاتی ہے۔
7۔ قدر زائد: (Surpluss value)
مارکس کا یہ کلیدی تصور ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مزدور دو گھنٹے کی سماجی ضروری محنت سے وہ سب اجناس پیدا کرلیتا ہے جن سے مزدور اپنی محنت کرنے کی طاقت حاصل کرسکتا ہے مگر سرمایہ دار استحصال کے ذریعہ اس سے آٹھ گھنٹے کی بے معاوضہ محنت لیتا ہے اس غیر ادا شدہ اجرت کا نام قدر زائد ہے۔
ان اصطلاحات کی مختصر وضاحت کے بعد ہم سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید بیان کریں گے جو دراصل اس کے مادی تعبیر تاریخ سے ماخوذ ہے۔
مارکس کہتا ہے کہ ایک شخص جو براہ راست اپنی ضرورت کی تسکین کے لیے کوئی چیز بناتا ہے بلاشبہ استعمالی قدر کی چیز تو بناتا ہے’ لیکن تجارتی جنس پیدا کرنے کے لیے اسے دوسروں کی استعمالی قدر کی چیز یعنی سماجی استعمالی قدر کی شے بنانی چاہئے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ معاشرہ کے مختلف افراد ایسی چیزیں پیدا کریں تو ان تجارتی چیزوں کے باہم مبادلے کے لیے شرح کیسے متعین ہو؟ یعنی جدا جدا تجارتی چیزوں کے باہم مبادلے کے لیے شرح کیسے متعین ہو یا جدا جدا تجارتی چیزوں کی قدر کا تعین کیسے کیا جائے اس کا جواب بقول مارکس کے یہی ہوسکتا ہے کہ چوں کہ یہ تمام اشیاء متفرق ہونے کے باوجود محنت کی پیداوار ہیں اس لیے ان کی قدر اور شرح کے تعین کے لیے اس محنت کے وقت اور اس کی مقدار سے کیا جائے گا جو ان کی اس مادی شکل میں پنہاں ہے مثلا ً مختلف بڑھئی اگرچہ مختلف وقت میں ایک ٹیبل تیار کرتے ہیں مگر اوسطاً 24 گھنٹوں میں ایک ٹیبل تیار کرلیتے ہیں۔ یہی 24 گھنٹے کی محنت معیاری سماجی ضروری محنت ہے اور ہر وہ چیز جس کی پیداوار میں اتنی ہی سماجی ضروری محنت صرف ہوتی ہے اس کا تبادلہ اس ٹیبل سے ممکن ہوسکے گا۔
اب یہ دیکھا جائے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں محنت کا استحصال کیسے ہورہا ہے چونکہ مزدور ذرائع پیداوار سے محروم ہے اور ان کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے اس لئے مزدور اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہے جوکہ درحقیقت چیزوں میں قدر اصل پیدا کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدور اپنی محنت کی یہ طاقت یا کام کرنے کی صلاحیت کس شرح پر بیچے؟ مارکس کے بقول مزدور کی محنت کی طاقت برابر ہے ان تمام چیزوں کے جو اس کے اور اس کی بیوی بچوں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ مزدور چار گھنٹے کی محنت سے یہ اجرت حاصل کرسکتا ہے لیکن سرمایہ دار استحصال کے ذریعہ مزید چار گھنٹے کی محنت بھی اس سے بے معاوضہ لیتا ہے اور اس سے قدر زائد پیدا کرتا ہے جو کہ سب سرمایہ دار کی جیب میں چلی جاتی ہے اور اسی کے ارتکاز سے سرمایہ دار مزید استحصال کے قابل ہوجاتا ہے چونکہ مزدور کو اس کا کوئی حصہ نہیں ملتا اس لیے اس نظام میں پیداوار سے اس کی مغائرت (alienation) بڑھتی چلی جاتی ہے جس سے لامحدود پیداواری ترقی ممکن نہیں رہتی۔
اس لامحدود پیداواری ترقی کو ناممکن بنانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام نے ”مارکیٹ” کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے مارکیٹ مارکس کے بقول وہ نظام ہے جس میں عوام کو مجبور و بے کس بنا دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قوت اور دولت مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے اس ارتکاز کی وجہ سے وہ لامحدود پیداواری ترقی حاصل نہیں کرسکتے جو نئے نئے آلات و ذرائع یعنی ٹیکنالوجی کی وسعت کی وجہ سے ممکن ہورہی ہے اس لیے کہ سرمایہ دار طبقہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے اور وہ انقلاب یہ ہے کہ ذرائع پیداوار پر مزدور کا قبضہ ہوجائے اور اس قبضے کے نتیجے میں وہ ایسا معاشرہ قائم کرسکیں گے جس کے اندر تعلقات پیداوار ذرائع پیداوار سے دوبارہ ہم آہنگ ہوجائیں ، ان کے ہم آہنگ ہوجانے سے لامحدود ترقی ہوگی’ جب مارکیٹ کا خاتمہ ہوجائے گا تو دراصل اس سرمایہ دارانہ نظم ملکیت کا خاتمہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں معاشی بڑھوتری سرمایہ دارانہ مسابقت کے نتیجے میں ہوتی ہے اور اس کی جگہ ایسی معیشت قائم ہوگی جس میں تمام سرمایہ ریاست کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتا ہے۔

لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری دونوں ہی ذاتی ملکیت کو رد کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ملکیت کارپوریشنز کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جبکہ اشتراکی سرمایہ درای میں یہ ریاست کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اس لئے اشتراکیت کو ہم ریاستی سرمایہ داری کہتے ہیں۔ سرمایہ درانہ نظام میں کارپوریشن وہ شخص قانونی جس کا وجود بڑھوتری سرمائے سے مربوط ہے اس کا وجود اس بات پر منحصر ہے کہ وہ بڑھوتری سرمائے کے عمل کو جاری و ساری رکھے، اسی طرح اشتراکی سرمایہ داری میں ملکیت کا جو فاعل اور ایجنٹ ہے وہ ریاست ہے جس کا فرض ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
گویا اشتراکیت کا اعتراض سرمایہ دارانہ نظام پر یہ نہیں ہے کہ اس نظام میں کچھ ایسے اہداف ہیں جن کو اشتراکیت رد کرتی ہے بلکہ محض یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ اہداف حاصل نہیں ہوتے جن کا لبرل سرمایہ داری وعدہ کرتی ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظم ملکیت کو محض اس لیے ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ آزادی اور مساوات کے وہ اہداف حاصل کرسکیں جن پر دونوں بالکلیہ متفق ہیں۔ یہ صرف اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جگہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوجائے اور یہی ڈکٹیڑ شپ اصل جمہوریت ہے اس لیے کہ مزدور ہی وہ طبقہ ہیں جو تاریخی عمل کی حقیقت کو پہچان گیا ہے اور مزدور طبقہ وہ فاعل ہے جس کے اندر روح انسانیت حلول کر گئی ۔ جب سب لوگ اس طبقے کے ممبر بن جائیں گے اور کارپوریشن کی ملکیت ختم ہوجائے گی تو سب لوگ مل کر انسانی معاشرت کو ترقی کی انتہا پر پہنچا دیں گے اور اس وقت ہر ایک کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ ”خدا بن جائے”۔ مارکس سوشلزم کے بعد کمیونزم کی تشریح بالکل یہی کرتا ہے کہ وہ ایسا معاشرہ ہوگا جہاں فرد جو چاہے گا کرسکے گا’ وہ لامحدود قوت کا مالک ہو گا’ اس معاشرت کے اندر نہ کوئی طبقہ ہوگا’ نہ خاندان’ نہ ریاست اور نہ کوئی دوسری اجتماعیت ہوگی تمام اجتماعیتیں کمیونسٹ سوسائٹی کے اندر منہدم ہوجائیں گی اور لوگ مساوی آزاد فرد کی حیثیت سے زندہ رہیں گے، چونکہ انہوں نے تاریخی عمل کی حقیقت کو پہچانا اس لئے وہ سب مساوی طور پر خدا ہوں گے اور جس بھی طرز زندگی کو اپنے لیے پسند کریں گے وہ اپناسکیں گے۔ اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوگئی کہ طرائق کے فرق کے ساتھ دونوں حصول آزادی اور حصول مساوات پر بالکل متفق ہیں۔

اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس وقت ہم اسلام کی کسوٹی پر اشتراکی طرز زندگی یا لبرل فکر کو جانچتے ہیں تو ہم ان کو باکلیہ رد کرتے ہیں کیونکہ دونوں کی بنیادی دعوت کفر’ الحاد اور خدا سے بغاوت کی طرف ہے اور ضمناً مان بھی لیا جائے کہ ان کے اندر کوئی ایسی خصوصیت موجود ہے جس کی کوئی مماثلت کسی اسلامی تصور خیر سے کی جاسکتی ہے تو پھر بھی اس نظام زندگی کے اندر یہ ممکن نہیں ہے کہ فرد کا رجحان آزادی اور مساوات کے علاوہ کسی اور طرف ہو۔
ہم دونوں کو بحیثیت ایک نظام کے رد کرتے ہیں اور ہم بحیثیت ایک نظام کے اسلام کے غلبے کے دعوے دار ہیں۔ ہمیں ان باطل نظاموں میں کوئی جائے پناہ تلاش نہیں کرنا ہے بلکہ دونوں کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔انہی معنوں میں ہم انقلابی ہیں اور انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی معاشرت اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرز زندگی کی طرف لوٹ کر جانا چاہتے ہیں اور ہم ہر سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں جس کی تعلیم ہم تک صحابہ’ تابعین’ تبع تابعین’ علماء اور صوفیاء سے پہنچی ہے لہٰذا جب ہم انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب شریعت کے نفاذ کے سوا کچھ نہیں ہو تا ۔ شریعت کے نفاذ کا مطلب ہے عبدیت اور ہدایت اور جہاں دعویٰ ہی آزادی اور مساوات کا ہو وہاں عدل (شریعت) کے وجود کا پھر کیا سوال پیدا ہوتا ہے اس لیے ہم ان دونوں نظاموں کا بحیثیت کل مطالعہ کریں اور ان کو اصولاً رد کردیں اور اشتراکیت یا لبرل ازم کو غلبہ دین کے ذریعے کے طور پر قبول کرنے کی غلطی میں نہ گرفتار ہوجائیں یہ نہ سمجھیں کہ کوئی اشتراکی یا لبرل عمل اسلامی طرز زندگی کے اندر سمویا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں عبدیت اور ہدایت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
جو شخص جس حد تک اشتراکی یا لبرل فکر سے متاثر ہوا وہ اس حد تک حقوق کا طالب ہوگا’ آزادی کا خواہش مند ہوگا’ مساوات کا علمبردار ہوگا اور عبدیت و ہدایت اس کی زندگی میں اجنبی سے اجنبی تر ہوتی چلی جائیں گے لہٰذا ہمارے لیے کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم لبرل یا اشتراکیت کے کسی اصول’ کسی فرع′ کسی عمل’ کسی حکم کو نظام اسلامی میں شامل کرنے کی جدوجہد کریں۔

اشتراکی سرمایہ داری کے مختلف خطرات اور ان کی نوعیت:
اشتراکیت کی ابتداء انیسیویں صدی کی ابتداء میں ہوئی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں یہ موجود ہے اشتراکی جدوجہد دو دھاروں میں تقسیم ہے ایک وہ جدوجہد جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے جس میں سرمایہ درانہ لبرل ریاستی نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے اور اس میں عموماً کمیونسٹ پارٹی اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ مزدور تنظیموں میں اثر و نفوذ حاصل کرے اور ان کو استعمال کرکے اپنے آپ کو مزدور طبقے کے نمائندہ کے طور پر منوا لے۔ یہی جدوجہد چین اور روس میں کی گئی اس کے نتیجے میں ٹریڈ یونینز کے ذریعہ مزدوروں کو منظم کیا گیا اور ان یونینز میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو مسلط کیا گیا اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا گیا جس کے نتیجے میں روس′ چین او دیگر مشرقی یورپین ممالک میں سرمایہ درانہ لبرل معیشت’ نظام ملکیت اور نظام ریاست کو ختم کر دیا گیا اور کمیونسٹ پارٹیوں نے دعویٰ کیا کہ ہم حقیقی نمایندے ہیں مزدوروں کے اور مزدور حقیقی نمایندہ ہیں انسانیت کے اس لئے ہم انسانیت کی پارٹی ہیں ان معنوں میں ہم حق کی جو تعبیر کرتے ہیں وہی اس کی اصل تعبیر ہے اور اس تعبیر کو بروئے کار لاکر انسان کی خدائی اس کائنات پر مسلط کی جاسکتی ہے۔
یہی دعویٰ قوم پرستوں نے دوسرے طریقے سے کیا کہ تاریخ انسانی میں ترقی کا جو فاعل ہے وہ طبقہ نہیں بلکہ قوم ہے تمام قوم پرست جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ ہماری قوم تاریخ میں ماسٹر اور بہترین قوم ہے مثلاً ہٹلر نے اور خود ہمارے ملک میں الطاف حسین نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ ان معنوں میں قوم پرست دعوت اشتراکیت سے بہت قریب ہے کہ وہ ہیگل کی اس فکر کی شاخ ہے جس نے دعویٰ کیا کہ حق کا ادراک اجتماعیت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اہداف آزادی اور مساوات کے لیے اشتراکیت طبقے کو اور قوم پرستی قوم کو بنیادی فاعل مانتی ہے’ گویا قوم پرستی بھی انہی معنوں میں اسلام سے متصادم ہے جس معنوں میں اشتراکیت اور لبرلزم اسلام سے متصادم ہیں ان تینوں نظریوں میں کوئی اساسی اور بنیادی فرق نہیں ہے اس لیے کسی ایک نظریے کو کسی دوسرے نظریے سے تبدیل کردینا انقلاب نہیں بلکہ سرمایہ داری کو فروغ دینا ہے اگر انقلاب یہ ہے کہ عبدیت کو رائج اور ہدایت کو فروغ حاصل ہو تو تینوں نظریوں کو رد کرنا ہوگا۔
اشتراکیت کی ایک شکل تو وہ ہے جس میں مزدوروں کی سیادت و قیادت کو انسانیت کی فلاح متصور کیا جائے اس کے علاوہ اشتراکی سرمایہ داری کی دوسری شکل جس نے خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد تقویت حاصل کی وہ سوشل ڈیمو کریسی ہے۔ سوشل ڈیمو کریسی کا ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس فکر نے بہت ساری اسلامی تحاریک کو متاثر کیا ہے یہاں تک کہ آپ بعض اسلامی جماعتوں کا معاشی منشور اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا منشور دیکھیں تو ان میںبہت زیادہ مماثلت نظر آئے گی مثلاً حقوق کی تشریح اسلامی جماعتیں بھی وہی کرتی ہیں جو عموماً سوشل ڈیمو کریٹک جماعتیں کرتی ہیں تقریباً تمام اسلامی جماعتیں اسلامی ریاست کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ کہتی ہیں جو کہ خالصتاً سوشل ڈیمو کریٹک تصور ہے اس لیے یہ ہمارے لیے بڑا خطرہ ہے۔
سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ہم لبرل پارلیمانی نظام اور لبرل مارکیٹ کو استعمال کرکے مزدوروں کی بالادستی قائم کرسکتے ہیں ہم جمہوری عمل ہی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے فلاحی حقوق پر زور دیا جائے یعنی محض انسانی حقوق کافی نہیں ہیں بلکہ کچھ معاشرتی آزادیاں بھی تسلیم کی جائیں اور یہ معاشرتی حقوق’ انسانی حقوق کے لیے ضروری ہیں اس کے نتیجے میں ایک ویلفیئر ریاست قائم ہوجائے گی۔
1999ء کے بعد پوری دنیا میں ایک تحریک برپا ہے جسے رد عالمگیریت کہتے ہیں یہ انہی معاشرتی حقوق کی تحریک ہے یہ تحریک دعویٰ کرتی ہے کہ انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی آمدنی محفوظ ہو’ ان کو ملازمت کا حق حاصل ہو’ ان کو حق حاصل ہو کہ وہ ترقی کے عمل میں برابر کے شریک ہوں’ اس کے تحت بڑے بڑے مظاہرے مغربی دنیا میں ہو چکے ہیں’ بعض جگہ مسلمانوں نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ بادی النظر میں یہ تحریک بھی سرمایہ داری کے خلاف نظر آتی ہے لیکن درحقیقت اس کو سرمایہ دارانہ نظام کی حقانیت پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اور اس کے بھی بعینہ وہی اہداف ہیں جو اہداف کمیونزم’ لبرلزم’ نیشنلزم کے ہیں لہٰذا اینٹی گلوبلائزیشن یا سوشل ڈیموکریٹ کے ساتھ مل کر معاشرتی حقوق کی جدوجہد کرنا’ اسلامی انقلاب کی بیخ کنی کرنا ہے’ اگر ہماری دعوت بنیادی طور پر دنیا میں جنت بنانے کی دعوت ہوجائے تو اس سے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔
1۔ ہم اس چیز کا جواز پیش کرتے ہیں کہ دنیاوی فوائد کو اخروی فوائد پر برتری دینا جائز ہے اور ہماری سیاسی جدوجہد بالخصوص جہاد کی طرف نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسی معاشرت کے قیام کی طرف ہوتی ہے جس میں آسائشوں کا فروغ اور دنیاوی ترقی ایک ہدف کے طور پر قبول کر لی جاتی ہے۔
2۔ انقلاب اسلامی کا وقوع پذیر ہونا دنیا کی تمام طاقتوں کو ایک چیلنج ہے اور آج کل ریاست اسلامی کہیں بھی قائم ہو تو اس پر ہر طرف سے ابتلا اور مصائب کا ایک سیلاب امڈ کر آئے گا (افغان طالبان کی حکومت سے واضح ہے) اور اگر ہم لوگوں کو دنیا طلبی کی طرف دعوت دیتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوجانے سے مادی برکات کا نزول شروع ہوجائے’ تمہارے تمام معاشرتی حقوق تسلیم کر لیے جائیں گے’ سب لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی’ غربت کا خاتمہ ہوجائے گا’ آسائشوں کی فراوانی ہوگی تو جس وقت اسلامی ریاست کو ہزاروں خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا تو لوگ کس بنیاد پر قربانی’ جدوجہد اور جستجو کے لیے تیار ہوں گے اگر دعوت سوشل ڈیمو کریٹک حقوق کی طرف ہوگی تو عملاً جہاد کرنا’ طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائے گا اور ہمارے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہے گا کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اسلامی طرز زندگی کو محفوظ کرنے پر اکتفا کریں اور انقلاب کے دعوے سے سہو نظر کرنے پر مجبور ہوجائیں گے لہٰذا سوشل ڈیمو کریسی اور اینٹی گلوبلائزیشن کا معاشرتی حقوق کی طرف دعوت دینے والا طریقہ غلبہ دین کا طریقہ نہیں۔ ہمارے ملک میں خصوصاً لبرلزم اور سوشل ڈیموکریسی کے خطرات بہت شدید ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اس کو بحیثیت کل کے پہچانیں اور بالکلیہ رد کردیں۔
تحریر جاوید اقبال

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password