سوشلزم کی تاریخ1.:
سوشلزم(Socialism)، لبرل ازم اور قوم پرستی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو جواز فراہم کرنے والا ایک نظریہ ہے۔ سوشلزم بذاتِ خود کوئی نظام زندگی نہیں، سوشلزم کے چند بنیادی تصورات کی جڑیں قدیم یونانی اور ایرانی مفکرین کے یہاں ملتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے علامہ اقبال نے سوشلزم کو ”مزدکیت” کہا ہے۔
مزدک نے زرتشت کی تعلیمات کے خلاف بغاوت کی اور انفرادی ذاتی ملکیت کو حرام قرار دیا۔ افلاطون کا تصور ریاست بھی اسی خصوصیت پر مبنی تھا جو اشتراکی تصور ریاست سے مماثل ہے۔ لیکن جس نظریہ کو اشتراکیت (socialism) کہتے ہیں۔ اس کی ابتداء انیسویں صدی میں ہوئی۔ اس نظریہ کی دو تعبیریں پیش کی گئیں Owen Foureir, Morris, Prodhounنے Socialist idialism اور Marx اور Engles نے Seientific Socialism کی تعبیر پیش کی۔ ان دونوں نظریات میں مشترکہ عقیدہ ذاتی ملکیت کی نفی تھی اور دونوں نظریات سرمایہ دارانہ ظلم اور استحصال کے خاتمے کے لیے ذاتی ملکیت کے خاتمہ کو ضروری سمجھتے تھے۔socialist idealists کا خیال تھا کہ ذاتی ملکیت ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تبلیغ کی ضرورت ہے۔ اور اس کے نتیجے میں لوگ خود بخود ذاتی ملکیت ترک کردیں گے اور اجتماعی ملکیت کے اصولوں پر کاروباری زندگی کو مرتب کریں گے۔ اس کی عملی مثال Robert Owenنے اپنے کارخانہ میں پیش کی۔
Seientific Socialism کا نظریہ تھا کے ذاتی ملکیت کا خاتمہ انسانی تاریخی عمل سے لازماً برآمد ہوگا Socialistمادہ پرست (Materialist) ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مارکس کے تصورات نے ارتقا نے تاریخ انسانیت کا سائنسی تجزیہ اسی حیثیت سے کیا ہے جس حیثیت سے Darwin نظریہ ارتقاء ثابت کیا ہے۔ مارکس اپنے آپ کو بنیادی طور پر ایک سائنس دان سمجھتا تھا اور اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف ”داس کیپیٹل” کو بھی Darwinکے نام ہی منسوب کیا ہے۔
Sceentific socialist شخصی ملکیت کے خاتمے کو انسانی تاریخی عمل کا ایک لازمی نتیجہ سمجھتے ہیں لیکن یہ عمل خود بخود آگے نہیں بڑھتا۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے انسانیت کا ایک نمایندہ (Representative) طبقہ جدوجہد کرتا ہے۔ اس طبقہ کو Prolitaret کہتے ہیں۔ اور جب یہ طبقہ اپنی آمریت ( Ddictator shipْ) قائم کرلیتا ہے تو ذاتی ملکیت ختم ہوجاتی ہے۔
Socialist idealists سوشلسٹ نظریات پچھلے تین صدیوں سے موجود ہیں۔ دنیا کی تمام سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں نے Socialist idealistنظریات اپنائے ہیں۔ ان پارٹیوں میں انڈین کانگریس، پاکستان پیپلزپارٹی، برطانوی لیبر پارٹی، فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب اصولاً انفرادی ملکیت کی ریاستی تحدید کی قائل ہیں۔ لیکن اس عمل کو عوامی مقبولیت سے مشروط کرتی ہیں۔ سوشلسٹ ڈیموکریٹک نظریات تیزی سے فروغ پارہے ہیں اور ان لبرل نظریات میں ادغام کا عمل اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارہ مثلاً آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، وغیرہ کے ذریعہ فروغ پارہا ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک فکر نے اسلامی جماعتوں کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان جماعتوں کے زعماء مثلاً راشد غنوشی، احمد غزالی، جلال الدین احمد، خرم جاہ مراد، پروفیسر خورشید احمد ایک مدت سے سوشل ڈیموکریٹک مباحث کی اسلام کاری میں مصروف ہیں۔٢٠١٢ء کے مصری انتخابات میں اخوان المسلمون کا منشور اور٢٠٠٢ء کے انتخاب میں ایم ایم اے کا منشور بے شمار سوشل ڈیموکریٹک مطالبات کا مجموعہ تھا۔
Scientific socialist نظریات کو قبو ل کرنے والی کیمونزم جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں نے روس، چین، کیوبا اور کئی دیگرممالک میںسوشلسٹ انقلابات برپا کیے ہیں۔ اورProlitariatکی Dictator ship قائم کرکے ذاتی ملکیت ختم کردی۔ لیکن ١٩٨٩ء کے بعد سے ان جماعتوں کو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور پورے مشرقی یورپ چین اور کیوبا میں نجی ملکیت کا احیاء ہوا۔ چین اور کیوبا کے علاوہ ہر جگہ لبرل نظریات اور لبرل نظام ریاست غالب آگیا اور آج scientific sociatism کے دعوے دار اپنے بہت سے نظریات سے انحراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
٢… سوشلسٹ انفرادیت:
سوشلزم ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے لہٰذا سوشلسٹ، لبرل اور قوم پرست نظریات میں بنیادی اعتقادی ہم آہنگی ہے۔ سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد لبرلوں اور قوم پرستوں کی طرح”لاالہ الا ا نسان” کے کلمۂ خبیثہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوشلسٹوں، لبرلوں اور قوم پرستوں کا مقصدِ زندگی آزادی کے فروغ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ تینوں نظریات انسان کو صمد اور قائم باالذات بنانا چاہتے ہیں اور ہر فرد کو اس با ت پر راضی اور مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرنے کو اپنے مقصد اولیٰ کے طورپر قبول کرلے اور تصرف فی الارض کی جدوجہد میں اپنی تمام توانائی کو کھپادے۔ سوشلزم، لبرلزم اور قوم پرستی انہی معنوں میں کفر ہیں کہ یہ تینوں نظریات الوہیتِ انسان کا عقیدہ رکھتے ہیںاور آخرت سے انکار کرکے دنیا میں حصولِ لذات کو انفرادی اور معاشرتی عمل کا محور اور مرکز بنادیتے ہیں۔تینوں نظریات بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری، سرمایہ کو آزادی اور الوہیتِ انسان کے اظہار کا واحد قابلِ عمل ذریعہ تصور کرتے ہیں۔
لبرل، قوم پرست اور سوشلسٹ تصور انفرادیت میں فرق بھی ہے۔ لبرل نظریہ کے مطابق ہر فرد اپنی ذات میں خدا ہے اور تمام اجتماعیتوں کے قیام کا جواز فرد کی الوہیت اور آزادی کا فروغ ہے۔ ہر فرد ایسے بنیادی حقوق رکھتا ہے کہ جن کو کسی اجتماعی مفاد کی بنیاد پر پامال نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کا سب سے بنیادی حق ذاتی ملکیت کا حق ہے۔ وہ اپنے مادی وسائل کو جس طرح چاہے خرچ کرے بشرط کہ اس استعمال سے کسی فرد کا یہی مساوی حق پامال نہ ہوتا ہو۔ لبرل مفکرین کے نزدیک معاشرہ اور ریاست کے وجود کا جواز یہی ہے کہ شخصی ملکیت کے حق کو فروغ دے۔
قوم پرست اور سوشلسٹ انفرادی الوہیت کے قائل نہیں۔ بلکہ وہ اجتماعی الوہیتِ انسانی کے قائل ہیں۔ قوم پرستوں کے مطابق الوہیتِ انسانی کا مظہر ”قوم” ہے انفرادی شخصیت نہیں۔ ہر مہاجر کو مہاجر قوم کی الوہیت کے فروغ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر ہر وقت راضی رہنا چاہیے، بنیادی حقوق قوم کے ہوتے ہیں۔ اور قوم کی الوہیت کے حق کے سامنے اس کے تمام افراد کو اپنے انفرادی بنیادی حقوق سے دستبردار ہونا چاہیے۔
سوشلسٹ الوہیتِ انسانی کا مظہر نہ فرد کو مانتے ہیں نہ قوم کو بلکہ سوشلسٹ نظریہ کے مطابق الوہیتِ انسانی کا مکلف ایک طبقہ ہے یہ طبقہProlitariatہے۔ یہ طبقہ سوشلسٹ کہتے ہیں کہ انسانیت کا نمایندہ (Representative) طبقہ ہے اور الوہیتِ انسانی کا بنیادی حق اسی طبقہ کو حاصل ہے۔ جبProlitariatطبقہ اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کرتا ہے تو وہ ذاتی ملکیت کو ختم کرکے تمام انسانوں کے مساوی حقوق کا اثبات کرتا ہے۔ اور بنی نوع انسان کا ہر فرد وسائل کائنات سے یکساں مستفید ہونے کا مکلف ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ پرولتاری ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کی جدوجہد میں شریک ہو اور اس کے قیام کے بعد پرولتاری قیادت کے احکام کو تسلیم کرے۔اسی تابع داری میں الوہیتِ انسان کا صحیح اظہار ممکن ہے۔
٣… سوشلسٹ معاشرہ:
انقلاب روس کے اولین دور میں لینن اور اسٹالن نے سوشلسٹ انفرادیت کا تصور پیش کیا اس نظریہ جو کہ مارکس کے تصور Specie beingسے ماخوذ تھا کہ مطابق جیسے جیسے سوشلسٹ نظام مستحکم ہوگا ویسے ویسے روس کا ایک عام باشندہ ”Soveit man” بن جائے گا۔ Maoze dong کا١٩٦٦ء تا ١٩٧٤ء تک کا ثقافتی انقلاب بھی سوشلسٹ انسانی شخصیت کی تعمیر کی ایک کوشش تھی۔Soveit man ایک ایسی انفرادیت تصور کی گئی جو طبقہ Proletariatکے مفادات کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیتی اورProlitariat کی آزادی اور الوہیت کو فروغ دینے کو ہمہ وقت تیار رہتی ہو۔
عملاً اس قسم کی شخصیت کا سوویت روس، چین کے علاوہ کسی اور سوشلسٹ ملک میں وجود دیرپا ثابت نہیںہوا۔ انقلاب کے ابتدائی دور میں بہت بڑی تعداد میں کیمونسٹ پارٹی کے اراکین نے اشتراکی اقتدار اور غلبہ کو قائم رکھنے کے لیے عدیم المثال قربانیاں پیش کیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا قربانی کا یہ جذبہ سرد پڑتا گیا اور سوشلسٹ معاشرہ خود غرضی، لالچ اور حسد سے بھر کر رہ گیا۔ کیمونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین افراد بدترین کرپشن اور بے راہ روی کا شکار ہوگئے اس کی واضح ترین مثالیں لینن، اسٹالن اور ماؤ نے فراہم کیں۔ جو نہایت ظالم، خود غرض، سفاک اور بددیانت حکمران ثابت ہوئے۔
سوشلسٹ اور لبرل معاشروں کی اخلاقی پستی یکساں ہیں۔ دونوں معاشروں میں حرص اور حسد کا راج ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کی مجبوریوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔ سوشلزم کایہ دعوی کہ ذاتی ملکیت کو ختم کرکے سرمایہ دارانہ ظلم کو ختم کیا جاسکتا ہے یہ قطعاً غلط ثابت ہوا۔ لینن اور اسٹالن اور ماؤ نے بڑے پیمانے پر نجی کاروبار کو ختم کرکے معاشی عمل کی بنیاد ریاستی منصوبہ بندی پر رکھی۔ لیکن اس سے سرمایہ دارانہ ناانصافیوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ ایک منصوبے کے تحت معیشت (Planned economy) میں اقتدار نجی سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکل کر ریاستی نوکر شاہی کے ہاتھ میں منتقل ہوگیا۔ اور ریاستی نوکر شاہی بھی اپنے اقتدار کو استعمال کرکے معیشت کو لُوٹنے میں مصروف ہوگئی۔ لبرل اور سوشلسٹ معاشرہ میں عام آدمی بھی استحصال پسند، خود غرض، لالچی اور عیاش ہوتا ہے، دونوں معاشروں میں قدر مشترک جنسی بے راہ روی اور ہوس پرستی ہے ، اخلاقی اور روحانی پستی کے لحاظ سے ایک عام سوشلسٹ شہری ایک لبرل شہری سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہوتا۔
سوشلسٹ ممالک کے عوام نے ریاستی منصوبہ بندی کو معاشی استحصال کا ذریعہ گردانا اور ١٩٨٩ء کے بعد یکے بعد دیگرے سوشلسٹ معیشتیں لبرل بن گئیں، ریاستی منصوبہ بندی کوتدریجاً ترک کردیا گیا اور ہر جگہ اجارہ دارانہ مارکیٹ (Mnopolistc markiets) کا غلبہ ہوگیا۔ یہ عمل روس اور مشرقی یورپ میں مکمل ہوچکا ہے۔ اور آج نہایت زور وشور سے چین، کیوبا، وینز ویلا اور بولیویا میں جاری ہے۔ سوشلسٹ ممالک جو آسانی سے لبرل بن گئے ہیں اور بنتے جارہے ہیں یہ اس بات کی فیصلہ کن دلیل ہے کہ سوشلسٹ اور لبرل اخلاقیات میں کوئی بنیادی فرق موجود نہیں۔ سوشلسٹ اور لبرل معاشروں کی روحانی اور اخلاقی کیفیت یکساں ہوتی ہے۔ لہٰذا ادارتی صف بندی میں عمومی تبدیلی کے ذریعے سوشلسٹ معاشرے کو لبرل اور لبرل معاشرہ کو سوشلسٹ بنایا جاسکتا ہے۔
٤… سوشلسٹ ریاست:
سوشلسٹ ریاست یا تو سوشل ڈیموکریٹک ہوتی ہے یا Proletarian Dictatorship۔ سوشل ڈیموکریسی میں مزدور تنظیمیں حکومت میں سرمایہ داروں کی حلیف اور ساتھی ہوتی ہیں۔ سیاسی عمل میں مزدور تنظیموں کی شمولیت کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ سرمایہ دارانہ عمل کے فروغ میں وہ رکاوٹ نہ ڈالیں اور اقتدار میں شرکت سے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مزدور بھی سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل سے مستفید ہوں۔ سوشل ڈیموکریٹک ریاست میں اس بات کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے کہ مزدور سرمایہ دار بن جائے۔ وہ حرص اور حسد کو قدر کے طور پر قبول کرلے اور انفرادی فیصلہ سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیاد پر کرے۔ مزدور سرمایہ کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل کو عقل کا تقاضا سمجھے اور اپنا مفاد اس بات میں جانے کہ سرمایہ کی بڑھوتری تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے۔ کیوں کہ جتنا یہ عمل تیز ہوگا اتنا ہی خواہشات نفسانی کے حصول کے ذرائع پیدا ہوں گے۔ اور مزدور زیادہ سے زیادہ تصرف فی الارض کے مکلف ہوں گے۔
پرولتاری ڈکٹیٹر شپ میں عوامی جمہوریت قائم ہوتی ہے۔ حکمران جماعت پرولتاری طبقہ کی نمایندگی کا دعویٰ کرتی ہے اور پرولتاری طبقہ انسانیت کی نمایندگی کا دعویٰ کرتا ہے اس ریاست میں بھی فیصلے عوام کی خواہشات کی تکمیل کے لیے کیے جاتے ہیں اور چوں کہ خواہشات کی تکمیل کا واحد ذریعہ بڑھوتری سرمایہ ہی ہے لہٰذا ریاستی عمل اور پالیسی کا جواز بڑھوتری سرمایہ ہی قرار پاتی ہے۔ لبرل اور سوشلسٹ ریاستی ڈھانچوں کی یہی مماثلت اس بات کی ضمانت فراہم کرتی ہے کہ لبرل اور سوشلسٹ ریاستوں میںکبھی جنگ نہیں ہوتی۔ آج دنیا میں چین امریکا کا سب سے بڑا حلیف ہے۔ اس نے کبھی بھی امریکی بربریت کا براہ راست مقابلہ نہیں کیا۔ نہ افغانستان میں، نہ عراق میں، نہ لاطینی امریکا میں، نہ مشرق بعید میں۔ اس کے برعکس چین نے کھربوں ڈالر امریکا میں رکھے ہوئے ہیں جو امریکی معیشت کا بہت بڑا سہارا ہیں۔
٥… اسلامی سوشلزم:
سوشلزم، لبرل ازم اور قوم پرستی کفریہ نظریات ہیں۔ یہ اسلام کا ردّ ہیں کیوں کہ ان تینوں نظریات کا مشترکہ کلمہ لا الہ الا انسان ہے۔ لیکن ان تینوں نظریات نے مسلم مفکرین اور اسلامی جماعتوں کو متاثر کیا ہے۔ برصغیر میں سوشلزم کا اثر اسلامی فکر پر پہلی جنگِ عظیم کے دوران شروع ہوا۔ جب تحریک ریشمی رومال کی پسپائی کے بعد چند علماء اور مجاہدین ہجرت کر گئے۔ اور ان میں سب سے اہم قائد مولانا عبیداللہ سندھی ترکی کے راستے روس پہنچے، ہندوستان واپس آکر آپ نے بہت سے سوشلسٹ نظریات کی اسلام کاری کی کوشش کی۔ سندھ کے دیو بندی علماء فکری طور پر اب بھی اس فکر سے کچھ نہ کچھ نہ متاثر ہیں۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے ”اسلامی سوشلزم” سے بھی متاثر ہیں۔ ہمارے نزدیک سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈا کی اسلامی جماعتوں کے منشور میں شمولیت بھٹو اور اس کے پیروکاروں سے مرعوبیت ہی ہے۔
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ لبرل ازم اور قوم پرستی کی طرح سوشلزم بھی جاہلیت خالصہ اور کفرِ لعین ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،سوشلسٹ اسلام کے بدترین دشمن ہیں کیوں کہ وہ خدا کے دشمن ہیں۔ ہم سوشلسٹ نظریات کو اُکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتے ہیں۔