کوئی دن گذرتا ہوگا جو پاکستان کے اخبارات و رسائل میں سول معاشرہ’ روشن خیالی اور وسیع نقطہ نظر جیسے خیالات و نظریات اور ان کے امکانات سے متعلق گفتگو نہ ہوتی ہو۔ بیسویں صدی کے اواخر سے جس کوشش کا شدت سے آغاز ہوا وہ اس صدی میں بھی جاری و ساری ہے ۔ایک جانب اگر ارباب اقتدار ریاستی جبر کے ذریعے عوام کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانان عالم اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے لیے تنگ نظری (شرعی طریقۂ فکر) کو ترک کر دینا بہتر ہے اور بجائے اس کے دنیا میں ترقی و خوشحالی کو مقصود حیات قرار دیتے ہوئے فقط اسی کے لیے کوشش کی جائے اور مذہب کو ایک روایت کے طور پر برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جہادی فکر کے تابع کسی نظام کی تبدیلی یا اسلامی انقلاب کی فکر کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا’ دوسری جانب ہمارے دانشور و فلسفی اور اعتدال پسند مفکرین بھی فکری بنیادوں پر مذکورہ نتائج کے حصول کے لیے کوشاں ہیں (اخبارات و رسائل اور فکری و علمی جریدے اس امر کے گواہ ہیں) ۔یقینا یہ تاریخ کا کوئی نیا حادثہ یا واقعہ نہیں ہے کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد جس کے لیے دین و شریعت زندگی میں بنیادی حیثیت کی حامل ہو اور دنیا کے بجائے آخرت کو اہم سمجھتی ہو اسے اس کے برعکس طریق زندگی پر قائل و راضی کر لیا جائے ۔یہ بھی درست ہے کہ یہ تبدیلی چند ماہ و سال کا کام نہیں ہے بلکہ صدیاں صرف ہوتی ہیں تب کہیں جا کر اقوام و تہذیب کے قبلے تبدیل ہوا کرتے ہیں۔
تاریخ اقوام و تہذیب کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو ہمیں عیسائیت کی ایک واضح مثال نظر آتی ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ عیسائیت آج جس حالت میں موجود ہے وہ فقط چند رسوم اور عقائد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ سیاست و معیشت کے میدان میں اس کے پاس کچھ علیحدہ بات کہنے کے لیے نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ را ئج و موجودہ افکار کو چند ثانوی وغیر اہم تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرتے چلے جائیں۔ عیسائی اقدار کے معاملہ میں بھی نئی تہذیب کی برتری بالکل واضح ہے شرم و حیا’ تقویٰ و احسان’ ایثار و قربانی’ آخرت سے محبت’ دنیا پرستی و امارت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور اس نوع کے دیگر اوصاف تمام معاشروں سے بتدریج فارغ ہوتے چلے گئے، نتیجتاً ایک نئے طرز کے معاشرے وجود میں آگئے جو قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشروں کی بالکل ضد تھے جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ تبدیلی آناً فاناً نہیں بلکہ صدیوں میں وقوع پذیر ہوئی۔
یورپ میں رد عیسائیت کی تحریکوں میں شروع شروع میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ عیسائیت کا براہ راست انکار کر سکیں۔ ان تحریکوں نے ابتداً جس چیز کا انکار کیا وہ عیسائیت کی اجتماعی تعبیر تھی اور اس کے علی الرغم ایسی لبرل تعبیر پیش کی گئی جس کے نتیجے میں عیسائیت خدا کی مرضی اور منشا معلوم کرنے کا ذریعہ نہ رہی بلکہ افراد اور اقوام کی خواہشات کے حصول کے ذریعہ بن گئی عیسائیت کی اس لبرل تعلیم کو تحریک اصلاح کا نام دیا گیا۔
تحریک اصلاح جو بظاہر کلیسا کو خرابیوں سے پاک کرنے کی ایک تحریک تھی جس نے عام عیسائی کو کلیسائی پادریوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا لیکن جو صورتحال سامنے آئی وہ کچھ اس نوعیت کی تھی کہ عام فرد کے لیے بھی مذہبی قوانین پر کلام کرنا اور اس کو رد کرنا ممکن ہو گیا۔ لوتھر’ کیلون’ ژونگلی اور دیگر اصلاحی مفکرین نے اس نکتہ کو پیش کیا تھا کہ انجیل مقدس کو سمجھنے کے لیے کلیسا کا اجماع’ روایات اور ادارے ضروری نہیں ہیں بلکہ ہر شخص اور ہر گروہ اور قوم اپنے ضمیر’ خواہش اور عقل کے مطابق انجیل مقدس کی تعبیر کر سکتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ دو سو سال کے اندر اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے کہ عیسائیت کا رد کیا جاسکے۔ اس تابوت میں ایک واضح اور بڑی کیل فلسفیوں نے پیوست کر دی۔ ڈیکارٹ جس سے فلسفہ کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے اس نے انسان کو عقل پرستی کی راہ سجھائی’ ایک ایسی عقل جو اپنی زندگی کی اقدار خود متعین کرسکتی ہے’ خیر و شر کی حدود کا تعین کرسکتی ہے۔’ در حقیقت عقل نے جس چیز کی جگہ لی وہ انجیل مقدس تھی جسے وحی الٰہی ہونے کا درجہ حاصل تھا۔ روز مرہ سے لے کر معیشت و سیاست تک جن معاملات میں کلام الٰہی سے مشاورت کا طریقہ رائج تھا اب عقل انسانی نے یہ ذمہ داری خود سنبھال لی۔ چند سو سالوں میں اس کا لازمی نتیجہ بھی سامنے آگیا جب نطشے نے مذہب کی ہر علامت سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ (نعوذ باﷲ) خدا مر چکا ہے۔
اس واضح اور بڑی مثال سے ہم درج ذیل نتائج برآمد کر سکتے ہیں۔
1۔ سول معاشرہ مذہبی معاشرہ کی ضد ہے۔
2۔ سول معاشرہ کا قیام آناً فاناً نہیں بلکہ بتدریج عمل میں آتا ہے۔
3۔ سول معاشرہ کے قیام کے لیے ابتدا اجماع امت سے انکار کرکے جاتی ہے۔
ہم کوشش کریں گے کہ قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشروں کا حال’ ریاستوں کی حاکمیت اور اصلاح پسندی کے ان پر اثرات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کردیں۔
قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشرے:
اجمال کے ساتھ عرض یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشرے ان اخلاقی اقدار سے متصف تھے جنہیں الہٰیاتی اخلاقیات کہا جاسکتا ہے۔ شرم و حیا ایثار و احسان’ تقویٰ و پرہیزگاری کسی نہ کسی طور پر ان معاشروں میں رائج تھے۔ ایسے افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا جو ان اوصاف کے زیادہ حامل ہوا کرتے تھے۔ اگر غور فرمائیں تو تحریک اصلاح کے جن مفکرین کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بھی اپنی ذاتی زندگی میں گناہوں سے پاک زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے اور عیسائی روایات کے مطابق راہبانہ زندگی کو نہایت سنجیدگی سے اختیار کرتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح اسلامی معاشروں میں فقر و سادگی اختیار کرنے والے بزرگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح عیسائی معاشروں میں ایسے افراد نہایت اہمیت کے حامل تھے اور اس نوع کی اقدار نہایت درجہ عمدہ تصور کی جاتی تھیں۔
دیہی سطح پر قرون وسطیٰ کا نظام جاگیردارانہ تھا۔ عام خیال کے برعکس یہ نظام’ نظام عدل تھا اور عیسائی اخلاقی تعلیمات اور کلیسا کے قوانین کا پابند تھا۔ وہ اس جاگیردارانہ نظام سے قطعاً مختلف تھا جس کو آج ہمارے ہاں طعن و تشنیع سے نوازا جاتا ہے۔ اس نظام کی بنیادی طور پر دو اہم خصوصیات تھیں۔
1۔ جاگیردار کے لیے زمین بنیادی طور پر منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی علامت تھی۔ زمین کو بنیادی طور پر منافع کا ذریعہ قرار دینا جاگیردارانہ نظام کے لیے ایک اجنبی چیز تھی لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ استحصال’ جبر اور ظلم جیسی جتنی اصطلاحیں آج ہم جاگیرداری کے ساتھ منسلک کرتے ہیں وہ اس وقت غیر متعلق تھیں۔ معاشرتی اقدار اور عزت کا معیار پیسہ اور دولت نہیں تھی۔ عزت کا معیار’ عمل کا نفاذ’ سخاوت’ ماتحت افراد سے حسنِ سلوک کرنا وغیرہ سمجھے جاتے تھے۔ معاشرتی اقدار اور ان کے درمیان ترجیحات کا تعین عیسائی تعلیمات کرتی تھیں۔ پیسہ دولت یا دھن اقدار کی ترجیحات کا پیمانہ نہیں تھے۔ ٹونی Twney کے بقول ”جاگیردارانہ نظام میں متعد قطعات زمین کا حاصل ہونا اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اہم تھا کہ ان سے منافع کس قدر حاصل ہوتا تھا؟ کئی بڑے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ قرون وسطیٰ کا جاگیر درانہ نظام، نظام عدل تھا’ کسانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر تھیں اور وہ معاشی طور پر خوشحال تھے۔
2۔ قرون وسطیٰ کے معاشروں کا ایک اہم ستون عیسائی خانقاہیں اور چرچوں کا نظام تھا۔ چرچ عیسائیت کی علمی برتری کا محافظ اور فروغ دھندہ تھا۔ وہ اس سارے نظام کا نگراں بھی تھا ۔رہبانیت پر مبنی نظام دور روحانی ماحول قائم رکھنے اور قائم کرنے کا ذمہ دار تھا اس نظام میں زہد و قناعت پرورش پاتے تھے جبکہ حرص و حسد کا قلع قمع ہوتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشروں میں عمومی طور پر آخرت کو دنیا پر ترجیح دی جاتی تھی۔ عبادت خانوں میں غریبوں کی امداد کے لیے پورا نظام قائم کیا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں بے سہارا اور بے آسرا لوگوں کو مدد فراہم کی جاتی تھی۔ عیسائی بادشاہوں نے اس نظام امداد کو جاری و ساری رکھنے کے لیے عبادت گاہوں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف کی ہوئی تھیں، اس طرح اس معاشرہ میں وہ مخیر حضرات بھی موجود تھے جو خدا ترسی کے جذبہ کے ماتحت دیگر افراد کی مدد کیا کرتے تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہاں پیداواری عمل کو اس لیے روبہ عمل لایا جاتا تھا کہ اس کی مدد سے انسان کی ضرورت اور استعمال کی اشیاء پیدا کی جاسکیں اور انہیں بہم پہنچائی جاسکیں خود معاشی عمل بذات مقصود نہیں تھا، منافع برائے منافع یا بڑھوتری برائے بڑھوتری ایک اجنبی تصور تھا جسے سرمایہ دارانہ طرز معیشت نے عام کیا۔
عیسائی طرز حاکمیت:
جو لوگ عیسائیت اور تاریخ عیسائیت سے کسی قدر واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عیسائی فکر میں اپنی فقہ نہ ہونے کے باعث سیاسی حوالے سے ذاتی احکام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی خاص عیسائی ریاست کے قیام (جس طرح دین اسلام میں تصور موجود ہے) کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رومی حکومت میں عیسائی فکر کی شمولیت کو کافی سمجھتے ہوئے اسے عیسائی قرار دے دیا گیا ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حاکمیت کی سند اور جواز مذہبی Auttorities بھی دیا کرتی تھیں اس جواز کا ابتدائی خاکہ St. Augstine نے پیش کیا اس نے اپنی کتاب City of God میں خدا اور آدمی کی سلطنت کے درمیان امتیاز اور ہم موجودیت کے تصور کو واضح کیا۔ خدا کے شہر پر پوپ اور چرچ کی حکمرانی ہوگی جبکہ آدمی کے شہر پر بادشاہ کی حکمرانی ہوگی۔ دنیاوی اور دینی قیادت کی یہ تفریق اس لحاظ سے مذہبی تھی کہ اس تقسیم کا جواز مذہبی اور ایک مذہبی سند نے تجویز کیا تھا۔ عام طور پر اسے سیکولرازم کی ابتداء کہا جاتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ Augstine کے اس نظام میں کسی شعبہ کو مذہب کی دسترس سے باہر نہیں رکھا گیا مزید ،یہ کہ بادشاہ جو کچھ بھی کرتے تھے اس کا جواز مذہب میں ہی تلاش کرتے تھے اور پوپ کی رائے کو برتر گردانتے تھے۔ اس وقت تک بادشاہوں کے الوہی ہونے کا تصوربھی موجود نہیں تھا’ یہ خیال اصلاحی مفکرین نے بعد میں پیش کیا جیسا کہ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں کہ اصلاح پسندی کی ابتدا کلیسا کی خرابیوں کو تحریک کا مرکز بناتے ہوئے اصلاح کا کام انجام دینا تھا اور نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ہر فرد کو اس کا اختیار دے دیا گیا کہ وہ کلیسا کی تعبیر’ تشریح اور تفسیر کو رد کرسکے لیکن دوسری جانب اصلاح پسندوں کی تحریروں میں حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل تابعداری کی تعلیمات صاف نظر آتی ہیں۔ لوتھر کے ایک خط میں اس تابعداری کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ:
”میں خدا کی مرضی کا اظہار یوں کرتا ہوں کہ بادشاہ کا مکمل احترام کیا جائے اور اس کے باغیوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے کیونکہ ان کے لیے دونوں جہانوں میں رحم نہیں ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تم پر رحم کیا جائے تو ان باغیوں کے ساتھ مت ملنا اور حاکم سے ڈرتے رہو اور خیر اختیار کرو۔”
مزید یہ ایک اور کلیہ اس بات سے خبردار کرتا ہے کہ ”اگر بادشاہ ظالم اور نا اہل بھی ہو تب بھی تمہیں اس بات کا اختیار نہیں کہ تم اس کے خلاف آواز اٹھائو۔”
اس نوع کی تحریروں نے بادشاہت کا ایک تصور قائم کر دیا جو خدا کی مانند ہے اور ریاست کے لوگ اس کے پابند ہوگئے کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی کو مقدم جانیں اور اس کی خوشنودی کو ممکن بنائیں۔ اس جدید نظریہ نے یورپ میں قوم پرست فکر کی بنیاد رکھ دی، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہوں نے آہستہ آہستہ پاپائے روم کی سلطنت سے نکلنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں عالمگیر عیسائی ریاست تباہ ہونے لگی اور قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔
اس سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کے بعد علمی’ معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا بھی ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں اگر ایک جانب عیسائیت کی شکست تھی تو دوسری جانب سول معاشروں کا آغاز تھا۔
1۔ اگر علمیت اور عقائد کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے عیسائیت میں عقیدہ الوہیت و تجسیم اور مسیح کے ابن اﷲ ہونے کا نظریہ تھا ۔لازمی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ تعلیم قطعی طور پر نہیں تھی، یہ عقیدہ تو پال اور بعد میں آنے والوں نے شامل کیا اور اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جبکہ ایک شخص ابن اﷲ اور مجسم خدا ہوسکتا ہے تو پھر دیگر انسان بھی ان اوصاف سے متصف ہوسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگلی منزل انسان کے خود خدا بننے کی ہی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیت نے مذہب کی بنیادوں کو کفر و شرک سے آلودہ کرکے خود اپنی تباہی و شکست کی بنیاد رکھ دی۔
2۔دوم یہ کہ عیسائیت کے پاس اپنی کوئی فقہ موجود نہیں تھی ابتداً حضرت موسیٰ کی شریعت کی بھی اتباع کی جاتی تھی لیکن پہلی صدی عیسوی کے وسط میں عیسائی علماء کی ایک معقول تعداد نے موسوی شریعت سے اغماض برتنا شروع کر دیا تھا اور دوسری صدی عیسوی میں اسے بالکل ترک کر دیا گیا حالانکہ رسماً آج بھی New Testaeul کے حوالے یسوع کا یہ قول کثرت سے دہرایا جاتا ہے جس کے مطابق وہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تنسیخ کے لے نہیں بلکہ اسے پورا کرنے آئے ہیں لہٰذا عیسائیت کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس متبادل نہیں تھا سوائے اس کے کہ چند رسومات و عقائد کو باقی رکھا جائے جو فرد کی اندرونی و داخلی زندگی تک محدود رہیں۔
3۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ یورپ میں عیسائیت کے غلبہ کے باوجود ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو قدیم رومی و یونانی تہذیب کی واپسی کے خواہشمند تھے اور عیسائیت کو روم کی عظیم بت پرست سلطنت کے زوال کا باعث سمجھتے تھے۔ بیسیوں صدی کا مشہور فلسفی مارٹن ہائیڈ یگر اس مخاصمت کا عکاس ہے۔ ہائیڈیگر کی لاطینیت کی ہر شکل سے نفرت اور اصلی یونانیت کی طرف رجوع کی دعوت اس کی عیسائیت کے خلاف نفرت کے اظہار کی شکل ہے۔ لوتھری تحریک کو وہ یونانی عیسائیت کہتا ہے اور اس کا وہ مداح ہے اور کیتھولک گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود کیتھولک عیسائیت سے نفرت کرتا ہے۔ وہ کیتھولک اور لاطینی عیسائیت کو یورپی فکر کی کجی کا ذمہ دار گردانتا ہے۔
4۔ پروٹسٹنٹ تحریک نے پہلی بار دولت کمانے کو احسن سمجھنے اور دنیا پرستی کو جواز فراہم کرنے کی بنیاد رکھی۔ زیادہ منافع کمانا اور دولت کے انبار لگا لینا خدا کی پسندیدگی اور رضا مندی کے مساوی بن گیا آگے چل کر سرمایہ داری کی Legitimacy کے لیے بھی یہی انداز فکر کام آیا۔
معاشرتی و معاشی تبدیلی:
اس سیاسی و علمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں زہد’ قناعت اور فقر کی معاشرتی برتری ختم ہونے لگی۔ لوگوں میں حرص و حسد عام ہونا شروع ہوا۔ زمیندار کے لیے زمین اب فقط سماجی برتری اور ذمہ داری کا نشان نہیں تھی بلکہ منافع کا سبب تھی۔ اب سوچ یہ ہو گئی تھی کہ زمین میں سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ کیا ہوگا؟ حرص و حسد کے عمومی فروغ کے نتیجے میں دو صدیوں کے اندر یہ تبدیلی آئی کہ عزت و معاشرتی قدر کا معیار عدل نہیں رہا بلکہ دولت اور پیسہ بن گئے’ وہ معیشت جس کی بنیاد ایثار و احسان پر تھی اب غرض و منافع کی معیشت بن گئی۔ پھر جاگیردانہ نظام کی وہ صورت سامنے آئی جسے آج عام طور پر ظالم و جابر سمجھا جاتا ہے۔ کسانوں سے تمام زمینیں اور مویشی چھین لیے گئے اور انہیں یا تو نکال دیا گیا یا معمولی ملازموں کے طور پر نوکری دے دی۔ جاگیر دار صحیح معنوں میں سرمایہ دار بن گئے اور ایسے قوانین بنائے گئے جن کے نتیجے میں سرمایہ دار جاگیرداروں کے مفادات محفوظ اور عام کسانوں کو زیادہ سے زیادہ مجبور بنا دیا جائے۔ کسانوں سے زمین چھیننے کی اس تحریک کا نام Enclosure Movemeut ہے جس میں نجی ملکیت کے تحفظ کے نام پر قوانین بنائے گئے اور سرمایہ دارای کا ایک فطری رویہ سامنے آیا پارلیمنٹ نے ایک کام یہ بھی کیا کہ عیسائی بادشاہت کا ادارہ ختم کرکے دستوری ریاست کو قائم کر دیا۔ دستوری ریاست عوام کی مرضی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے کسی مذہب یا الٰہی احکامات کی پابند نہیں ہوتی۔
اس مقام پر ہم درج ذیل نتائج مرتب کرسکتے ہیں۔
1۔ حرص و حسد کو معاشی جدوجہد اور نظام کی بنیاد بنا کر انکا معاشرے میں عام فروغ سول معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے۔
2۔ ایسے اداروں کا اثر و رسوخ (مثلاً دارالعلوم’ مدرسہ و خانقاہ) ختم کیا جائے جو حرص و حسد اور ان کی علمی برتری کی راہ میں حائل ہیں۔
3۔ ایک ایسے نظام حاکمیت کا قیام جس کا جواز مذہب فراہم نہ کرتا ہو بلکہ اس کا جواز عوام فراہم کرتے ہوں۔
دستوری جمہوری ریاست:
دستوری ریاست کو سمجھنے کے لیے ہم ابتدا اس بنیادی سوال سے کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟… دستوری ریاست وہ ریاست ہوتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کا اقرار کرتی ہے اور اس کی پاسداری کا حلف اٹھاتی ہے’ اور دستور سے مراد اس کتاب فطرت سے آگاہی ہے جس کی ابتدائی شناخت دور تنویر میں ہوئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ انسان کی اصل حقیقت اس کی زندگی کا مقصد اور اس کی اصل ” خواہش “ہے۔ سیاسیات کا ایک عام طالب علم اس سے واقف ہے کہ دنیا کا پہلا دستور امریکہ میں وجود میں آیا اور اس کے مرتب کرنے والے اس دعویٰ کو بجا سمجھتے تھے کہ امریکی دستور کتاب فطرت پر مبنی ہے اور اسی بنا پر تمام دنیا کو امریکا اور اس کے مفکرین کی آراء کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ دراصل بات یہ ہے کہ دستور نے جس چیز کی جگہ لی وہ کچھ اور نہیں بلکہ کتاب الٰہی یا قوانین الٰہی ہیں۔ تاریخی طور پر عیسائیت کو ابتداً جس طور پر رد کیا گیا وہ مذہب کا رد یا عیسائیت کے تصور خدا کا رد نہ تھا بلکہ جس چیز کا بنیادی طور پر رد کیا وہ کتاب کا رد تھا اور اس بات کا رد تھا کہ کلیسا کو اس تعبیر کا کلی حق حاصل ہے۔ جدیدیت نے ابتدا میں اس بات کا رد نہیں کیا کہ خدا کی مرضی ہی اصل الاصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب جان لاک نے عوام کی حکمرانی کے نظریہ کا جواز پیش کیا تو وہ خدا کی مرضی کے اصول ہی کی بنیاد پر کیا۔ اس نے کہا کہ عوام کی حکمرانی اس لیے ہونی چاہئے کہ خدا کی مرضی یہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جان لاک کو اس مرضی کا علم کیونکر ہوا؟ تو جواب یہ ہے کہ اس علم کا منبع ایک نئی دریافت شدہ کتاب یا حقیقت ہے جسے کتاب فطرت کہا جاتا ہے۔ اس کتاب تک رسائی عقل کے ذریعے ممکن ہے پہلے چونکہ کلیسا کی وجہ سے گمراہی و جہل کے پردے پڑے تھے لیکن اب صحیح طور پر اس کتاب کا مطالعہ ممکن ہے اور امریکی دستور کے مصنفین وہ ہستیاں تھیں جو اسے ٹھیک ٹھیک پڑھ سکتی تھیں’ اس بنیاد پر انہوں نے دستور کی فوقیت کا دعویٰ کیا۔ یہ بات اچھی طریقہ سے سمجھ لینا چاہئے کہ دستور کے مرتب کرنے میں کسی بھی طرح سے کتاب الٰہی کو سند نہیں سمجھنا چاہئے اور دوسری غلط فہمی جس کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ دستور بنانے کے لیے عوام وغیرہ کی مرضی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے اور نہ ہی ابتدائی دستور سازوں نے اس قسم کا کوئی دعویٰ کیاتھا مزید یہ کہ اب دنیا میں جس قدر بھی دستور سازی ہوتی ہے اس کی بنیاد وہی دستور اول اور انسانی حقوق کا چارٹر ہے جس کی توثیق کے بغیر اس کا کوئی پہلو وجود میں نہیں آسکتا۔ دستور کا مقصد عوام کی اصل مرضی اور خواہش کا اظہار ہے اور یہ مرضی ریاست میں مختلف طور پر منعکس ہوتی ہے۔ مقننہ’ انتظامیہ اور عدلیہ مساوی طور پر عوام کی مرضی کی نمائندہ ہیں۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ دستور ایک طرف تو مقننہ کے اثبات کے ذریعے اکثریت کے حق حکمرانی کو بالکلیہ طور پر تسلیم کرتا ہے تو دوسری طرف تقسیم اختیارات کے تحت مقننہ پر قدغن عائد کرکے یہ بتاتا ہے کہ اکثریت کی حکمرانی کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ یہ بات اچھی طریقہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک جمہوری دستوری ریاست میں اکثریت کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ قوت نافذہ اور قانون کی تعبیر و تنفیذ کا کام اس اقلیت کے ہاتھ میں رہے جو ریاست کو سرمایہ داری کے اوصاف سے متمتع کردے، جو وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔ بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل میں طاق ہو۔ اصولی طور پر حکمرانی اکثریت کی ہی ہے لیکن اکثریت کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ ایسی اقلیت کی حکمرانی ہو جو وسائل میں اضافہ کی اہل ہو، یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے وہاں بیورو کریسی اور ٹینکو کریسی کی حکومت مستحکم ہوتی ہے اور لوگوں کا کام محض اس اقلیت کی حکمرانی پر صاد کرنا رہ جاتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے اور بیسیویں صدی میں سرمایہ داری اور اس کی عقلیت کو رائج کرنے کا سب سے معروف ذریعہ بھی یہی ہے۔ جو لوگ جمہوری ریاست کے حوالے سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جمہوریت عوام کی مرضی اور ان کی حقیقی آزادی کو ممکن بناتی ہے تو درست یہ ہے کہ انسان کو خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے فقط یہ اختیار ملا ہے کہ وہ چاہے تو اﷲ کی بندگی اختیار کرے اور چاہے تو شیطان کی بندگی اختیار کرے لیکن اﷲ نے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ بندگی سے نکل کر مطلق آزادی حاصل کرے۔ لہٰذا یہ واضح ہوا کہ جمہوریت کا مطلب آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ اس بات کی آزادی ہے کہ سرمایہ کی گردش اور بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل پر کوئی قدغن نہ ہو اور تمام اعمال اور اداروں اور اقدار کو اسی بنیاد پر جانچا جائے جو لوگ اس میں معاونت کریں وہ انسان اور مہذب انسان ہیں اور جو اس کے دشمن ہوں انہیں تہس نہس کر دیا جائے۔ یہی آزادی ہے یہی دستور ہے اور یہی جمہوریت اور حقوق انسانی ہیں۔
ریحان عزیز