خورشید ندیم صاحب نے ”سیکولرازم کیا ہے؟“ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”سیکولرازم کئی طرح کا“ ہوتا ہے نہ کہ ایک طرح کا اور پھر پاکستانی مفکرین کو دعوت دی ہے کہ وہ یہاں کے مقامی حالات کے مطابق کوئی نئی طرح کا سیکولرازم تیار کریں۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ خورشید صاحب نے متعلقہ مباحث کو بری طرح خلط ملط کر دیا ہے بلکہ جو مثالیں پیش کی ہیں وہ بھی غلط ہیں۔ اسی بنا پر خورشید صاحب کا یہ کالم بہت سی غلطیوں کو سموئے ہوئے ہے اور ان کی تصحیح کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ متعلقہ مباحث کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
سیکولرازم کا جوہر
خورشید صاحب نے اپنے پورے کالم میں قاری کو یہ نہیں بتایا کہ سیکولرازم کیا ہے؟ یعنی اس کا جوہر کیا ہے؟ اس ”نہ بتانے“ کو جسٹیفائی کرنے کے لیے وہ یہ بحث لے کر بیٹھ گئے کہ اصطلاحات کے معنی کا تعین ڈکشنری سے نہیں بلکہ عام تعامل سے ہوتا ہے۔ یعنی اسلام کا معنی کیا ہے؟ علمی دنیا میں اس کا تعین اس سے نہیں ہوگا کہ مسلم اہل علم اس بارے میں کیا کیا کہتے ہیں. سوشل ازم کا معنی کیا ہے؟ اس کا تعین سوشلسٹ مفکرین کی آراء سے نہیں ہوگا بلکہ اس سے ہوگا کہ عام تعامل میں اس کے کیا معنی ہیں۔ خورشید صاحب کا یہ دعوی غیر علمی ہے کیونکہ علمی دنیا میں اصطلاحات کے معنی متعین کرنے میں اہل علم کا فہم و تعامل معتبر ہوتا ہے نہ کہ عوام کا۔ یہ مقدمہ انہوں نے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ سیکولرازم کے بارے میں ”ان کے اپنے ذہن“ میں جو کچھ معنی ہیں، اسے تعامل قرار دے کر پیش کیا جاسکے، حالانکہ یورپ و امریکہ کے مفکرین تو سیکولرازم میں ان بنیادوں پر فرق نہیں کرتے جیسے انہوں نے بتانے کی کوشش کی ہے۔
سیکولرازم کا جوہر یہ ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق امور کا فیصلہ کسی مذہبی کتاب و روایت نہیں بلکہ ایک مخصوص ”ریشنل نکتہ نگاہ“ سے طے کیا جائے گا۔ وہ “مخصوص ریشنل نکتہ نگاہ“ لبرل ازم کا مفروضہ ”ہیومن رائٹس کا قانونی فریم ورک“ ہے (ہیومن رائٹس فرد کے بارے میں مخصوص مابعد الطبعیات سے اخذ ہوتے ہیں، سیکولرازم کا اصلی لادینی چہرہ انھی میں پیوست ہے اور ان مباحث کو سمجھے بغیر سیکولرازم کو سمجھنا ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں)۔ ”فرد کے حقوق و فرائض“ کا تعین اسی فریم ورک کی بنیاد پر ہوگا اور ”فرد اور ریاست کا تعلق“ بھی اس معنی میں اسی فریم ورک سے ہوگا کہ ریاست کی ذمہ داری انھی حقوق کی حفاظت و تنفیذ ہے۔ سیکولرازم کے بارے میں یہ بات مغرب و مشرق ہر جگہ درست ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
– یورپ و امریکہ کا سیکولرازم؟
اب آئیے اس نکتے کی طرف کہ کیا یورپ و امریکہ کا سیکولرازم الگ الگ ہے؟ خورشید صاحب یہ تو بتاتے ہیں کہ اہل یورپ نے مذہب اور ریاست کو الگ الگ کر دیا مگر یہ نہیں بتاتے کہ الگ کرنے کے بعد فیصلے کی بنیاد کیا بنی؟ اسی طرح وہ یہ تو کہتے ہیں کہ امریکہ میں فرد و ریاست کے حقوق کی جنگ رہی مگر یہ نہیں بتاتے کہ حقوق کی یہ کشمکش کس بنیاد پر جاری ہے؟ یعنی جو جوہر ہے، وہ ان کی گفتگو سے یکسر غائب ہے۔ جناب یہ ”مذہب کو ریاست سے الگ کر دینا“ اور ”فرد و ریاست کے مابین حقوق کی کشمکش“ برپا ہونا یہ دو مختلف باتیں نہیں بلکہ یہ دونوں سیکولرازم کی ”لازمی صفات“ ہیں جو ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ سیکولر فریم ورک میں ابتداء سے یہ بحث رہی ہے کہ آیا ریاست کی مداخلت کی جائز وجوہات اور بنیادیں کیا کیا ہیں (اس کی تفصیلات سوشل سائنسز بالخصوص علم معاشیات وغیرہ کی تعلیمات سے متعین ہوتی ہیں) اور اس کا اظہار مغرب و مشرق کی ہر سیکولر ریاست میں ہوتا ہے (ہمارے یہاں کے سیکولر طبقات بھی یہی دہائی دیتے ہیں کہ فلاں فلاں قانون فرد کی آزادی پر ناجائز قدغن اور ریاست کا فرد پر ناجائز جبر ہے)۔ چنانچہ آپ جس شے کو ”فرق“ کے عنوان سے پیش کررہے ہیں وہ فرق نہیں بلکہ اس کے ”داخلی مباحث“ (صفات) ہیں۔ خورشید صاحب کا استدلال ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی ہاتھی کی سونڈھ و کان کو ہاتھ لگا کر کہے کہ ہاتھی دو طرح کا ہوتا ہے۔
– مسلم ممالک کا سیکولرازم؟
یہ جنھیں مسلم ممالک میں ”مذہبی سیکولرازم“ کا عنوان دیا جاتا ہے تو اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک اور تاریخی مذہبی فریم ورک کے مابین جہاں جہاں تضاد ہے، انہیں مذہب کی بنیاد پر کس طرح ہم آہنگ بنایا جائے؟ مسلم دنیا میں مختلف متجددین یہی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ہمارے یہاں اس فریضے کی ادائیگی ”اصحاب المورد“ متبادل بیانیے کے نام پر کر رہے ہیں۔ چونکہ مسلم دنیا میں زندگی کے ہر معاملے میں شرع کو ماخذ قانون ماننے کی ذہنیت کی بنیادیں نہایت گہری و قدیم ہیں لہذا سیکولرازم کو قابل قبول بنانے کا پہلا قدم یہ باور کروانا ہے کہ ہیومن رائٹس اور شرع ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان میں تضاد نہیں، یعنی ہیومن رائٹس کی روشنی میں شرع کی تشریح ممکن ہے۔
خورشید صاحب کی فکر کے دو بڑے مسائل ہیں: ایک یہ ہے کہ وہ مباحث ریاست کو ٹیکنیکل و غیر اقداری شے سمجھے ہوئے ہیں اور دوسرا غامدی صاحب کا تصور دین ہے جو زندگی کے بڑے دائرے میں سیکولرائزیشن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خیر ان موضوعات پر گفتگو پھر کبھی سہی۔
ڈاکٹر زاہد مغل