بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں مذھب پر عمل کرنے کی جیسی آزادی ہے ویسی تو خود مذھبی ممالک میں بھی نہیں، ان ممالک میں مذھبی اقلیتوں کے ساتھ وہ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا جو مذھبی ریاست میں ہوتا ہے، مذھب تبدیل کروانے کے لئے جبر کا تصور بھی نہیں ہے، وہاں پاکستان کی طرح آبادی میں اقلیتی مذھب والوں کی گرتی ہوئی شرح کا کوئی خطرہ نہیں وغیرہ۔ یہ وہ غلط العام تصورات ہیں جو سیکولر مفکرین نے اپنی دھریہ فکر کے پردے میں پھیلا دئیے ہیں اور عام لوگ تو کجا پڑھے لکھے لوگ بھی اس پراپیگنڈہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کا تفصیلی تجزیہ ہم نے اپنی کتاب “مقالات تفہیم مغرب: کلامیات و علمیات” کے مختلف ابواب میں پیش کیا ہے اور یہاں وہ تفصیلات پیش کرنا ممکن نہیں۔ سردست چند باتوں کو نوٹ کیجئے جنہیں یہ حضرات بڑی مہارت کے ساتھ گول کرجاتے ہیں:
- کیا مغرب میں کسی مذھب والے کو یہ اجازت ہے کہ وہ اجتماعی نظم (پالیسی میکنگ پراسس) میں مذھب کی بنیاد پر کسی عمل کے جواز و عدم جواز کا تقاضا کرسکے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مذھب والے پر “قانونا لازم ہے” کہ وہ اجتماعی نظم میں مذھب کے لئے “چھوٹا بن کر رہنے” کی حیثیت قبول کرے چاہے مذھب کیسے ہی ضروری اور کتنے ہی تقاضے کیوں نہ کرتا ہو۔ جبر اور کس بلا کا نام ہے؟ یعنی زندگی کے عظیم ترین دائرے میں ہر مذھب والے پر اپنا نظریہ مسلط کرکے تم ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہو اور پوچھتے ہو کہ امتیازی سلوک کہاں ہوا؟
- کبھی غور کیا کہ بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک میں دھریت نہ ہونے کے برابر تھی (سن 1900 میں دنیا کی کل آبادی میں ان کی شرح اعشاریہ صفر ایک فیصد تھی، یعنی ایک فیصد کا بھی ایک فیصد) لیکن پچھلی پانچ چھ دھائیوں میں مغرب کے اندر دھریت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا (اب یہ نہ کہئے گا کہ وہاں دھریت نے مذھب پر “علمی فتح” حاصل کرلی)۔ یورپ کے بعض ممالک میں تو تقریبا پچاس فیصد لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی مذھب نہیں۔ تو آپ کو پاکستان میں اقلیتوں کی گرتی ہوئی شرح کی تو فکر لاحق رہتی ہے لیکن کبھی آپ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ یورپ میں غالب اکثریت والا عیسائی مذھب آج اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرات سے کیسے دوچار ہوگیا؟ یہ اس لئے ہوا کیونکہ آپ کی من پسند سیکولر ریاست نے لوگوں پر ایسا تعلیمی و اجتماعی نظام مسلط کیا جس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں، اس نے لوگوں سے کہا سکول میں بچوں کو مذہب نہیں پڑھانے دیں گے، بچوں کو کیا پڑھانا ہے یہ میں طے کروں گی اور پھر مذھب مخالف نظریات معصوم ذھنوں میں انڈیلنا شروع کردئیے، وہ بھی “معروضیت” اور “نیوٹریلٹی” کے پردوں میں۔ اس نے کہا سکول، کالج اور جامعات (جنہیں میں اپنے مقاصد کے لئے پبلک ٹیکس سے فنڈ کروں گی) کا مقابلہ اپنی مسجد اور گرجے کے چندے سے کرسکتے ہو تو کرلو، اس نے اعلان کیا کہ پبلک لائف میں مذھب خاموش ہوجائے کیونکہ یہاں میری دھریت کا راج ہوگا نتیجتا مذہب نجی زندگیوں میں بھی خاموش ہوگیا!
- کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کتنے ہی مسلمان ہیں جب ان کے بچے جوان ہوگئے تو وہ مغربی ممالک چھوڑ کر اپنے آبائی وطنوں کی طرف لوٹ گئے کیونکہ انہیں وہاں اپنے بچوں کا ایمان و اخرت محفوظ محسوس نہیں ہوتا تھا؟ جبری بے دخلی بھلا اس کے سواء اور کیا ہوتی ہے کہ “یہ ہمارا نظام ہے، اس میں رنگ کے رہ سکتے ہو تو رہو ورنہ جاؤ یہاں سے”!
جس نظام نے اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت (مذھب) کو کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا ہے کم از کم اس کی ایسی ثنا خوانی کرکے حیران تو نہ کریں۔
ڈاکٹر زاہد مغل