ایڈز کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا کے تمام ممالک میں کچھ عرصے سے زبردست مہم جاری ہے اور مختلف تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ ان کوششوں کے کچھ اثرات سامنے آئے ہیں اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہورہی ہے، لیکن رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہم جنسیت میں مبتلامردوں میں HIV/AIDS کی موجودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایڈز کے کنٹرول کے لیے عالمی سطح پر سرگرم اقوامِ متحدہ کی تنظیم UNAIDS کی 2013ء کی رپورٹ میں صراحت سے کہا گیا ہے:
“Although the incidence of HIV infection is declining in most regions of the world, the incidence among men who have sex with men appears to be rising in several places – including Asia, where this mode of transmission is a major contributor to the HIV epidemics of several countries. Globally, men who have sex with men are estimated to be 13 times more likely to be living with HIV than the general population”.
’’اگرچہ HIV سے متاثر ہونے کے واقعات میں دنیا کے بیش تر علاقوں میں برابر کمی آرہی ہے، لیکن بہت سے مقامات پر ہم جنسیت میں مبتلا مردوں کے اس مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں برابر اضافہ ہورہا ہے ، بالخصوص براعظم ایشیا میں، جہاں کے متعدد ممالک میں HIV کے وبائی صورت اختیار کرنے کا ایک بڑا سبب ہم جنسیت ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو جو مرد اپنی ہی جنس سے شہوانی تعلق قائم کرتے ہیں وہ عام آبادی کے مقابلے میں HIV سے تیرہ (13) گنا زیادہ متاثر ہیں‘‘۔
(AIDS by the numbers, P6(LGBT Pride Parade)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1973 سے پہلے نفسیاتی امراض کی عالمی ریفرنس بک “ڈی ایس ایم” میں ہم جنسیت کو ایک نفسیاتی بیماری سمجھا جاتا تھا اور اس کے علاج کے مختلف طریقے رائج تھے. اس وقت اسے نفسیاتی عارضہ سمجھنے کے مخالف ماہرین نفسیات کی تعداد بہت کم تھی. لیکن 1969 کے ہم جنس پرستوں کے ہنگاموں کے بعد “ہوموفائل” (عجوبوں کے حق میں) تنظیمیں بہت فعال ہو گئی تھیں۔ ان کے نمائندوں نے مختلف ہتھکنڈوں سے امریکن ایسوسی ایشن آف سائکاٹرسٹس پر دباؤ بڑھانا شروع کیا ، اپنے ساتھ تفریق پر مبنی معاشرتی رویے کا رونا رویا کہ ڈاکٹروں نے اسے بیماری قرار دے رکھا ہے اور اسے ایک “سوشل سٹگما” (کلنک کا ٹیکہ) بنا کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں. اس وقت یہ لوگ ملکی سطح پر ایک مؤثر سیاسی پریشر گروپ کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے. لہٰذا ایسوسی ایشن بھی اپنے آپ کو اس دباؤ سے محفوظ نہ رکھ سکی اور اس کے بارے میں تھیوریز پر نظرثانی کر کے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کا عندیہ دے دیا. ایسوسی ایشن کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہم جنس پرستی غالباً واحد بیماری ہے جس کا فیصلہ کسی ٹھوس سائنٹفک تحقیق کے بجائے ووٹنگ کے ذریعے کیا گیا. اور یوں 1973ء میں 42 کے مقابلے میں صرف 58 فیصد ووٹوں کی برتری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے اسے نفسیاتی بیماری قرار نہیں دیا جائے گا. اور 1974ء کے ایڈیشن میں اسے کتاب سے خارج کر دیا گیا.! اس کے بعد تو پھر اس طوفان نفس پرستی اور لبرل ازم کے شتر بے مہار کے آگے کوئی بند اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی. اور آج مغرب میں یہ حال ہے کہ اسے بیماری قرار دینے والے اور اس کا علاج کرنے والے کا میڈیکل لائسنس کینسل کر دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف بولنے والوں کو عدالتی مقدموں میں گھسیٹا جاتا ہے.
ڈاکٹر رضوان اسد خان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرا ایمان ہے کہ شادی مرد اور عورت کے مابین ہوتی ہے۔ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق میں نہیں ہوں۔ “2008 میں صدارتی امیدوار براک اوباما۔اوباما نے 2012 تک ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت نہیں کی تھی۔
“شادی کا تاریخی ، مذہبی اور اخلاقی پس منظر ہے، یہ حقیقت ازل سے یوں ہی چلی آ رہی ہے، اور میں سمجھتی ہوں کہ شادی ایک مرد اور عورت کے مابین ہی رہی ہے۔” – ہیلری کلنٹن 2000 میں۔کلنٹن نے 2013 تک ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت نہیں کی تھی۔
2006 میں ، ایک صحافی نے برنی سینڈرز سے پوچھا کہ کیا امریکی ریاست ورمونٹ کو ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینی چاہئے۔ اس نے کہا ، “ابھی نہیں۔”سینڈرز نے سن 2009 تک ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت نہیں کی۔
لیکن
آج کل یہی سیاستدان ہم جنس پرستوں کی فخریہ پریڈوں میں رقص کرتے پھر رہے ہیں اور “ایل جی بی ٹی ٹاؤن ہال میلوں” میں حصہ لے رہے ہیں ، اور اب دوسروں کا مذاق اڑاتے پھر رہے ہیں کہ جو بھی شخص ٹرانس جینڈر ، ہم جنس اور دوغلی جنسیت پرستی کی زندگی کو قبول نہیں کرتا ہے وہ کتنا کند ذہن اور دقیانوس ہے۔اور انہوں نے مسلمانوں اور برائے نام “اسلامی” تحقیقی اداروں کو الجھا دیا ہے جو اب یہ دلائل دیتے پھر رہے ہیں کہ (امریکی)مسلمانوں کے لئے واحد عقلمندی پر مبنی مؤقف اور کامیابی اسی میں ہے کہ وہ “ایل جی بی ٹی حقوق کی حمایت اور وکالت کریں “۔ دوسرے الفاظ میں ، اب ہمارے ہاں ایسے “اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار اور محقق” وجود میں آ چکے ہیں جو ہم جنس پرستی اور مخلوط جنسیت کی اتنے زور وشور سے حمایت کر رہے ہیں کہ اتنی حمایت تو آج سے صرف سات آٹھ سال پہلے کے لبرلز بھی نہ کرتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے مسلمانوں نے اسلام کی ازلی اقدار ، اور قرآن و سنّت کے واضح اصولوں کو بنیاد بنا کر اپنی سیاسی اخلاقیات طے کرنے کی بجائے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے ان ابن الوقتوں کے جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے کے فیصلوں کو اپنی اخلاقی بنیادیں بنا لیا ہے ؟ تاکہ وہ لوگوں کے ووٹ جیت سکیں ؟سوچیں اور اندازہ کریں ۔اگلے تین سال یا اس سے بھی کم عرصہ میں جب بائیں بازو کی سیاست مذہب کے خلاف مزید عدم برداشت اور جارحیت پر مبنی رویوں کو فروغ دے گی تو کیا آپ سب اس کے آگے سر تسلیم خم کر کے اس کے اسلام مخالف نظریات کو پوری طرح اپنا کر ان نظریات کو مسلم کمیونٹی پر ٹھونسنا شروع ہو جائیں گے ، اور پھر “خوف” کا ہتھیار استعمال کرتے ہوۓ اہل ایمان پر اثر انداز ہونے کی خاطر ان کو کہیں گے ” اف خدایا ، اگر ہم سب لوگ مخلوط جنسیت اور ہم جنسیت نہیں اپنائیں گے تو ہمیں تو قید خانوں میں بند کر دیا جائے گا ” (تاکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد خوفزدہ ہو کر ہم جنسیت کو اپنا لے)۔
استاذ دانیال حقیقت جو کی تحریر سے ترجمہ ۔ مترجم عثمان ایم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سرمایہ دارانہ نظام نے صرف سرمائے اور وسائل پر ہی تسلط نہیں جمایا ہوا ، اسکا سب سے اہم تسلط اور اجارہ داری “علم”اور “معلومات” پر ہے۔علم اور معلومات پر اجارہ داری کے سبب سرمایہ دارانہ نظام نے ایک ایسا illusion اور conditioning پیدا کی ہوئی ہے کہ اس سحر اور ذہنی حالت کے شکار افراد کو کسی اور حقیقت کا فہم تو دور کی بات اسکا وجود و آگاہی کو تسلیم کرنا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے
سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ هو یا عمرانی علوم کا معامله هو، دفاعی معاملات ہوں یا خارجہ معاملات، مالیاتی حکمت عملی هو یا سرمائے کی حقیقت ، ان سب بارے وہی رائے ، تحقیق ، سوچ ، فکر اور حکمت عملی کو قابل قبول و قابل عمل سمجھا جاتا ہے جس کی تصدیق صرف اور صرف سرمایہ دارانہ فریم ورک میں فراہم کردہ “علم اور معلومات ” سے ہوسکے۔اپنے تئیں اچھے خاصے اہل علم اور دانشور بنے حضرات سے کسی معاملے بارے رائے یا حکمت عملی بارے پوچھ لیں انکی رائے و حکمت عملی 99 فیصد کیسز میں سرمایہ دارانہ فریم ورک کی دی ہوئی تعلیم پر مبنی ہوگی۔اگر ان سے سوال کرنا شروع هو جائیں کہ آپ کی اس رائے و حکمت عملی کی فکری نظریاتی بنیاد کیا ہے اور پیاز کی پرتیں کھولتے جائیں تو پھر انکے سرمایہ داریت کے فکری اسیر ہونے کا معامله آشکار ہوجاتا ہے
یہاں مقصد اہل علم یا اہل دانش پر تنقید یا انکا مذاق اڑانا نہیں ہے ، محض اس بات کی نشاندھی ہے کہ سرمایہ دارانہ فکری و علمیاتی اسیری کے شکار لوگوں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس گہرائی تک اس سحر اور conditioning کا شکار ہیں
شاہ برہمن
***********
کوئی بتا رہا تھا کہ آجکل ایک ڈرامہ چل رہا ہے جس میں ایک درمیانی جنس کے بچے کو معاشرے میں پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے. بتانے والے نے ساتھ ہی اس معاملے میں خسروں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا.میرا کہنا یہ ہے کہ خسروں سے ہمدردی ضرور ہونی چاہئیے لیکن ایک خاص تناظر میں اور وہ تناظر ہے انکا علاج کروا کے انہیں معاشرے کا ایک فعال فرد بنانا. آجکل کے دور میں یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا. ہر پیدا ہونے والا بچہ جسکی جنس کا تعین ممکن نہ ہو اسکی مکمل تشخیص اور علاج ممکن ہے. لیکن چونکہ عوام میں اسکا شعور نہیں اور نہ ایسے علاج کی طلب ہے، اسلئیے اس مسئلے کے سپیشلسٹ بھی بہت کم ہیں اور اس فیلڈ میں بہت کام کی گنجائش ہے. ایسے ہی جو “حقیقی خسرے” بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں انکا علاج نفسیاتی پیچیدگیوں کے باعث مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں.
باقی جو نفسیاتی مریض مخالف جنس کا حلیہ بنانے پر اپنے آپکو مجبور پاتے ہیں، انکا نفسیاتی علاج کروایا جائے.لیکن ہر مسئلے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم میڈیا کے زیر اثر مخالف سمت میں سرگرم ہونا چاہ رہے ہیں. مغربی معاشرے اور مغربی میڈیا کی اندھی تقلید میں ہمارے یہاں کے لبرلز بھی جنس کو ہر لحاظ سے ایک شخص کا ذاتی معاملہ بنا کر اسکا احترام کرنے کا درس دیتے پائے جاتے ہیں خواہ معاشرے پر اس طرز عمل کا کیسا ہی منفی اثر پڑتا ہو. ایک تحقیق کے مطابق ہمارے یہاں ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ “ٹرانز ویسٹائیٹس” یعنی وہ مرد ہیں جو عورتوں کا حلیہ بنائے پھرتے نظر آتے ہیں ، ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں یہ لوگ پیش پیش ہیں. خسروں کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں. لیکن بجائے اسکے کہ ہم گنگا کو الٹی سمت بہانے کی کوشش میں اٹھارہ کروڑ عوام کے انکے بارے میں تاریخی تاثر کو بدلنے کی کوشش کریں، ضرورت اس بات کی ہے کہ انکے علاج کی تحریک چلا کر انکا وجود ہی معاشرے سے ختم کر دیں….!!!
ڈاکٹر رضوان اسد خان
************