لبرل ازم – مختصر مگر جامع

لبرل طبقے کے دوہرے معیارات (ڈاکٹر ھود بھائی کا مضحکہ خیز تضاد )

لبرل مسلم متحد دین ہمیشہ اس امر کا راگ الاپتے ہیں کہ علمائے کرام نے دین پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے اور اپنے سواء کسی دوسرے کو تفہیم دین کا حق دینے کیلئے تیار نہیں۔ یہ حضرات خود کو عقلیت پسندی اور رواداری کا علمبر دار بلکہ ٹھیکیدار گردانتے ہیں۔ جب کبھی دین کے کسی مسئلے کا معاملہ ہو چاہے پوری امت کا اجماع ہی کیوں نہ ایک طرف ہو، یہ حضرات اپنی رائے کو اہم تر اور امت کے تمام علماء کو بے عقل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ چند عرصہ قبل پاکستان میں ایک شخص نے پانی سے کار چلا سکنے کا دعوی کیا۔ ٹی وی مبصرین نے اس انجینیر کے ساتھ بہت سے سائنس دانوں کو آن لائن گفتگو میں شامل کیا، انہی میں سے ایک خود بھائی صاحب بھی تھے جو دینی معاملات میں خاصے لبرل واقع ہوئے ہیں۔ دوران گفتگو خود صاحب اتنے برہم ہوئے کہ برجستہ انکے منہ سے یہ الفاظ نکلے: شخص بالکل جاہل اور فراڈ ہے، اسے سائنس کی ابجد کا علم نہیں، اسے جیل میں بند کرنا چاہئے بلکہ اسے جوتے لگانے چاہئے ۔ خود بھائی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ وہی خود صاحب ہیں جو نہ یہی معاملات میں ہر الٹی سیدھی بات کہنے اور سننے کو رواداری اور عقلیت پسندی سمجھتے ہیں لیکن جب بات انکے اپنے مضمون (ڈسپلن ) کی آئی تو کسی غیر عالم Non) (expert کو یہاں کلام کرتے دیکھ کر ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے، آخر کیوں؟ در حقیقت یہی ہمارے لبرل طبقے کا اصلی چہرہ اور مشن ہے کہ دین کے اندر جتنی کنفیوژن ہے پھیلا ؤ، ہر ایرے غیرے کو بغیر علم اہل الرائے بناؤ ، البتہ سائنسی علمیت اس اصول سے مبرا ہے کیونکہ یہاں وہی بولنے کا حق رکھے گا جس کے پاس علم ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ان لوگوں کے نزدیک دین کوئی علمیت نہیں بلکہ محض ایک رویہ ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بھائی! لبرل معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں “جنس” کا بخار باقاعدہ عام کیا گیا ہو، “ریپ” کے دواعی stimulations جہاں آسمان سے باتیں کر رہے ہوں؛ اور اس پر سزائیں عورت کے بدن سے “مٹی جھاڑنے” کے مترادف۔ (معذرت خواہ ہوں، فحش گوئی مقصود نہیں، کسی کی غیرت بیدار ہو جائے تو البتہ اچھا ہے)۔ لبرل معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ برسا ہا برس اپنی دلچسپی اور ’ایکسائٹمنٹ‘ نہ کھو سکے اور جس کا ایک ایک ٹویٹ ہزار ہزار ’لائیک‘ اور ’شیئر‘ لے کر جائے! لبرل معاشرہ جہاں عورتیں اپنی “عزت” لوٹی جانے کا واقعہ تقریباً ویسے ہی بتا سکیں جیسے سڑک پر “پرس” چھینے جانے کا! “عزت” بس اتنی ہی ہوتی ہے اس گھر میں، دوستو، تھوڑی جھاڑ کر بحال ہو جاتی ہے اور زندگی رواں دواں! آپ اس پر “عبرتناک” سزا دلوانے چلے! غیرت کی بِین، اس لبرل کے آگے!؟
دنیا کے جو معاشرے لبرلزم کے کئی کئی زینے چڑھ چکے، اوپر بیان ہونے والی بات پر وہ ایک زندہ و موجود دلیل ہیں۔ ’’ریپ‘‘ سے متعلق آپ اُن ملکوں کے اعداد و شمار دیکھیے، سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔ شاید یہ مبالغہ نہ ہو، کوئی ملک جتنا لبرل، ’’ریپ‘‘ کا گراف وہاں اتنا بلند۔ لہٰذا ایک شےء لبرلزم کے ساتھ باقاعدہ جڑی ہوئی اور اس کی ایک غیرمتبدل consistent پہچان چلی آتی ہے۔ ایک سماجی پیکیج کا طبعی و فطری جزو ہے۔ وہاں آپ اس کی پرورش کے مزید سے مزید اسباب دیکھنے کے منتظر رہیے نہ کہ اس کے سد باب کے۔ ہاں جہاں تک اس پر شور اٹھانے کی بات ہے تو معذرت کے ساتھ، ’’ریپ‘‘ کے حوالے سے وہ ایک لبرل معاشرے کو بہت اچھا لگتا ہے، نہ معلوم کیوں! بلکہ یہ ہے ہی اس کے یہاں شور اٹھانے کی بات نہ کہ ختم کرنے کی! لبرل کلچر کا یہ ایک لازمی و دائمی حصہ ہے! ’’می ٹو‘‘ اس میں ایک مقبول ترین ٹرینڈ کا نام ہے، دوبارہ معذرت کے ساتھ! اس پر ’’عبرتناک سزا‘‘ کی توقع کرتے وقت دراصل آپ آدمی کے غیرت اور فطرت پر ہونے کی ایک خاص سطح فرض کر لیتے ہیں، جو کہ لبرلزم کے ساتھ خاصی شدید زیادتی ہے، جو غیرت کو ایک مِتھ یعنی خرافات کا درجہ دیتا ہے۔ (شیخ حامدکمال الدین)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لبرل ازم کے پاس معاشرتی جرائم کا حل کیا ہے ؟

زینب، آصفہ، فرشتہ جیسی بچیوں کیساتھ جنسی ذیادتی کے سانحات پر میں نے اسلام پسند اور لبرلز میں یکساں غم و غصہ دیکھا ہے۔مسئلہ یہاں آ کر خراب ہوتا ہے کہ اس جرم کا اور اس جیسے کئی معاشرتی جرائم کا حل کیا ہے؟ کیا یہ عارضی غم و غصے کی رولر کوسٹر ہی ہمارا مقدر ہے یا کسی نظریے کے پاس ایسے ٹھوس قوانین اور لائے عمل موجود ہے جو ان جرائم کی جڑ کاٹ سکیں؟
حقائق پر مبنی سچ یہ ہے کہ کیپٹلزم کی سماجی فکر یعنی ‘لبرلزم’ اس سوال کے جواب سے عاجز ہے۔ اس دعوے کی عملی دلیل یہ ہے کہ چائلڈ پورن اس عالمی نظام کے تحت، تمام سطحی قوانین ہونے کے باوجود ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری بن چکا ہے۔ Children trafficing کے سب سے بڑے گاہک انہی لبرل ترقی یافتہ ممالک کے امراء اور شرفاء ہیں۔
ٹھنڈے اور غیر جانبدار ذہن سے سمجھنا چاہیے کہ لبرلزم دراصل سیکولرزم کی سماجی شاخ ہے اور سیکولرازم کے پاس ایسی کوئی حتمی فکر سرے سے موجود ہی نہیں جو کسی بھی عمل کو مطلق غلط یا جرم ثابت کر کے اس کا سدباب کر سکے۔ مغربی معاشروں میں بھی ایک صدی پہلے تک کئی ایسے اعمال کو برائی یا جرم سمجھا جاتا تھا جو بلآخر معاشرے کے لبرل ارتقاء کی بھینٹ چڑھ کر اب باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لبرلزم پہلے فرد کی آزادی فکر و اظہار کے نام پر برائی کا رجحان پیدا کرتا ہے اور جب اکثریت اس رجحان سے متاثر ہو جاتی ہے تو سیکولرزم اس برائی کو قانونی شکل دے کر اس عمل کو ‘برائی’ کی فہرست سے نکال پھینکتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ کل کو لبرل معاشروں میں چائلڈ سیکس کا رجحان اکثریت کا مزاج بن جائے اور “طریفین کی رضامندی” کے ساتھ مشروط کر کے اسے بھی قانونی جواز مل جائے اور جسم فروشی، جوا، ہم جنس پرستی، شراب، نیوڈسٹ ساحلوں کی طرح یہ گھنونا گناہ بھی ‘گناہ’ نہ رہے۔
کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ لبرلزم کوئی اخلاقی و قانونی سانچہ نہیں رکھتا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سانچے میں پیوندکاری یوں ہوتی ہے کہ گویا کوئی بھی امر حتمی طور پر نہ اس سانچے کے اندر ہے نہ باہر۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان مکمل طور پر عاجز ہے۔ وہ عاجز ہے کہ سماجی، قانونی، اخلاقی اقدار کا تعین خالص عقل کی بنیاد پر کر سکے۔ اخلاقیات مکمل طور پر انبیاء کی طرف سے انسانیت کو دیا گیا تحفہ ہے اور انبیاء کی تعلیمات سے دور ہو کر کسی سماجی و اخلاقی جرم کی جڑ کاٹنا اور عوام کے مزاج کو برائی کے مخالف کر دینا ناممکن ہے۔ انسان کی فلاح اللہ کے قوانین کو انکھ بند کر کے ماننے میں ہے۔
ابو ابراہیم

************

مروجہ داعی ریپ کلچر (Sex -Seduction -Culture) میں کوئی الہامی قانون بھی مکمل موثر ثابت نہیں ہوسکتا۔ اس سسٹم میں بالفرض اسلام سے یہ صفائی (جاروب) کا کام لیا جاتا ہے اور واقعتاً فرق بھی پڑتا ہے، تو پھر بھی یہ غیرفطری ہی رہے گا کہ ایک جانب نکتہ ابال تک پہنچانے والے ریپ کے داعیے تو جوں کے توں موجود رہیں لیکن ان دواعی سے مغلوب ہو کر اگر کوئی زنا کرلے تو اسلام آکے اسکو سخت سزا دے۔ یہ اسلام کا مزاج نہیں ہے کہ ایک جانب طواف کو سجا دھجا کر چوراہے میں بیٹھا دو اور کوئی خریدار آئے تو اسکو مجرم متعین کر کے تختہ دار پر چڑھا دو ۔
یہ سر تا سر منافقت ہے غیرفطریت ہے کہ ایک جانب پورا ریاستی و میڈیائی نظم ہوس پروری میں جُتا ہو اور دوسری جانب خود ہی پارسا بن کر مجرم کو تختہ دار پر چڑھانے پہ بھی بضد ہو، اور یہ سوال بھی اٹھائے جائیں کہ اسلام حق ہے تو اپنے طبقے میں ان جرائم کو روک کیوں نہیں پاتا ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جدید سسٹم کے پیدا کردہ گند کی صفائی کی ذمہ داری اسلام کے سر منڈھنے پہ بضد ہیں، جبکہ اسلام اس گندگی کا ذمہ دار ہے نہ اس گندگی کی صفائی کا، جس سسٹم نے یہ گندگی پھیلا رکھی ہے اسی کی ذمہ داری ہے کہ صاف کرے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ماڈرنزم کی قیمت سے واقفیت کے بغیر ماڈرنزم پر لٹو ہوئے پڑے ہیں، مغرب جب عورت کو مارکیٹ میں لانے کی بات کرتا ہے تو خاندانی نظام کی بربادی کی سازش کا جن برآمد ہو آتا ہے، حالانکہ یہ کوئی سازش وازش نہیں بلکہ ماڈرنزم اور ترقی کی قیمت ہے نیز مغرب کی خیرخواہی ہے کہ وہ ہمیں ہماری محبوبہ ترقی اور جدیدیت کیلیئے اپنے مجربات سے آگاہ کر رہا ہے ۔
نعمان احسان بتغیر قلیل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے ہاں جب بھی کبھی جدید انسان کی ہوس اور درندگی سر چڑھ کر بولتی ہے تو وقتی جوش اور ردعمل میں لٹکا دو جلا دو عبرت بنا دو کی دو چار روز صدائیں گونجتی ہیں اور پھر سب وقت کی گرد کی نظر ہو جاتا ہے، دوبارہ کسی واقعہ پر یہی صورتحال ہوتی ہے اور یوں یہ سائیکل لامتناہی رواں دواں ہے، ہم ہر دفعہ شور شرابا کرتے ہیں اور وقتی جوش میں آ کر جنونیت زدہ ہو جاتے ہیں لیکن اس بنیادی سوال کو ہر بارنظر انداز کیئے دیتے ہیں کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ جس نے جدید انسان کو ہوس زدہ درندہ بنا دیا ہے ؟ کیا اس میں جدید غیرفطری نظام اور اس کے الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سمیت کلی ٹیکنو سائنٹفک ٹیکنالوجیکل اسٹرکچر کا بھی کوئی کردار ہے؟ جدید ریاست اورمارکیٹ کا جنسیت کی ہوس کو بوائلنگ پوانٹ تک پہنچانے والا سیکس سیڈکشن کلچر جو ان جنسی درندوں کی تھوک کے حساب سے پروڈکشن کر رہا ہے بالکل معصوم اور دودھ کا دھلا ہے ؟
دراصل ہم فرد سے آگے دیکھنے کی ہمت نہیں کررہےیا اپنے محبوب سسٹم کی محبت اور جدائی کے خوف سے جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چاہتے! بہرحال معروضی صورتحال جو نقشہ پیش کر رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پورا جدید سسٹم کلی خطہ ارضی سے انسانیت ختم کر کے ہوس زدہ درندے جننے میں مسلسل جُتا ہوا ہے۔
(نعمان احسان)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہماری نوجوان نسل (خصوصا جامعات میں پڑھنے والے بچوں و بچیوں) کو نجانے کس “دانشور” نے یہ غلط اصول سکھا دیا ہے کہ لباس تمہارا ذاتی مسئلہ ہے نیز کسی کو اسے کسی بنیاد پر ریگولیٹ کرنے کی اتھارٹی (اخلاقی و قانونی حق) حاصل نہیں۔ اس دانشوری پر بس سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کیونکہ خود لبرل اصولوں کے تحت بھی اس عمومی بیان کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ لبرل اصول کے تحت فرد کا ہر وہ عمل و قول اصولا پبلک ریگولیشن کے زمرے میں آسکتا ہے جسے دوسرے دیکھ و سن سکتے ہیں یا جس سے دوسروں پر کوئی اثر پڑتا ہو، بحث صرف اس میں ہوسکتی ہے کہ آیا اس اصول کے تحت کس فعل کو ریگولیٹ کرنا ہے اور کسے نہیں (یہ بحث بھی محض اس بنا پر ہے کہ اس اصول کے تحت قابل ریگولیٹ اعمال کا تعین کیسے ہوسکتا ہے)۔ مثلا ایک کالج یا جامعہ کے دو طلباء اگر آپس میں لڑائی جھگڑا کریں یا کسی پبلک مقام پر آپس میں گالم گلوچ کریں یا باآواز بلند فحش گفتگو کریں یا ایک اکیلا ہی فرد پبلک مقام پر کھڑا ہوکر فحش گوئی یا گالم گلوچ کرے تو ان کا یا اس اکیلے فرد کا یہ عمل اس بنا پر ریگولیشن سے ماوراء نہیں ٹھہرتا کہ یہ ان کا یا اس کا ذاتی فعل ہے جس سے کسی دوسرے کو نقصان نہیں ہورہا۔ ن لیگ کے ایک بندے نے پی ٹی آئی کے ایک بندے کو گالی دی تو اول الذکر کا عمل محض اس بنا پر جائز نہیں ٹھہرا کہ گالی دینا اس کا ذاتی عمل ہے (بلکہ نہ صرف یہ کہ اسے تھپڑ رسید ہوا بلکہ اس نے معافی بھی مانگی)۔
لبرل اصولوں کے تحت ہر وہ عمل قابل ریگولیشن کے زمرے میں آسکتا ہے جس کے یا تو بیرونی منفی اثرات ہوں یعنی دوسروں سے متعلق (اسے negative externality کہتے ہیں) اور یا پھر اندرونی یعنی فرد کی اپنی ذات سے متعلق (اسے negative internality کہتے ہیں)۔ کاش کہ ہمارے نام نہاد لبرل حضرات ہماری نوجوان نسلوں کو گمراہ کرنے سے قبل خود اپنی شریعت کے اصول و قواعد کو ہی صحیح سے سیکھ لیں۔ باقی ایک مسلمان کو یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ “کس عمل کو ریگولیٹ کرنا ہے اور کسے نہیں” لبرل اصولوں کی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں، وہ شرع کا پابند ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ان حلقوں پر ہوتا ہے جو غلط سلط لبرل نتائج کو جواز دینے کے لئے مذھب کی زبان استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لبرل فرانس کی حکومت کی طرف سے حجاب پر پابندی کو تو بالکل درست سمجھتے ہیں، کیونکہ فرانسیسی معاشرے کو اپنا سیکولر تشخص محفوظ رکھنے کا حق ہے، لیکن کوئی مسلمان حکومت اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے عبایا وغیرہ کو لازم کرنا چاہے تو یہ درست نہیں، کیونکہ یہ سماجی آزادیوں کے منافی ہے۔ اس سے ہمارے ہاں پیدا کیے جانے والے اس التباس کی قلعی مزید کھل جاتی ہے کہ سیکولرزم یا لبرل ازم ایک ’’نیوٹرل’’ پوزیشن رکھتے ہیں اور بس فرد کو سماج کے جبر سے محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ بذات خود اقداری تصورات ہیں اور لبرل اہل دانش اقداری بنیادوں پر ہی کسی اقدام کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان تصورات یا ان کے حاملین کے ’’غیر جانب دار’’ ہونے کی بات محض تلبیس ہے۔
عمار خان ناصر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اخلاقی گراوٹ کو “ذاتی معاملے” کی اوٹ دے کر معاشرے میں عام بنانا “لبرل ازم” کا کامیاب ترین طریقہ واردات ہے ،درحقیقت لبرل ازم اپنے آغاز سے اب تک کھڑا ہی اس بیساکھی پر ہے ۔لبرل ازم نے سکھایا کہ مذہب کو سیاست سے نکال دو، پھر اسے معیشت سے لے کر معاشرت تک سب سے نکال دو، پھر آخر میں اسے گھر سے بھی نکال کر باہر “ذاتی معاملہ” کا بورڈ لگا دو اور آخر میں کہو زندگی میں مذہب ایک فالتو سامان ہے جس نے بیکار جگہ گھیری ہوئی ہے ، اسے فارغ کرو ،مغرب میں یہی سب ہوا ،یہی حال اب پاکستان میں لبرل ازم کے ٹھیکیداروں کا ہے انہیں اسلام نہ اجتماعی معاملات میں قابل قبول ہے نہ ذاتی معاملے میں تو پورا دین بدلنے کی بجائے یہ اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کر لیتے ۔؟
اسلام اسلام ہے، کوئی اور مذہب نہیں جو سکڑتے سکڑتے اپنا وجود کھو بیٹھے گا بلکہ اسے ایک دور میں جتنا اس کے مرکز سے دور کھینچا گیا، یہ اگلے دور میں اتنی ہی شدت سے واپس اپنے مرکز کی طرف بھاگا ۔تاریخ سے ثابت ہےاور ہمیں من حیث القوم یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ بے وفا قوم کو وفادار قوم سے بدل دیا کرتا ہے، وہ بے نیاز ہے ۔
عائشہ غازی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک دیسی لبرل کی ڈائری

  1. خدا کا انکار کرو اور مادیت کی مگر جوتیوں کو بھی خدا سمجھو۔ قادر کا نام بھی مت لو اور قدرت کی مگر پوجا کیا کرو۔
  2. ظاہر کروکہ اللہ اور رسول کو بھی اسلام آپ ہی نے ازراہِ مہربانی سکھا دیا ہے۔ہاں وہاں وہاں اللہ رسول سے البتہ شدید غلطی ہوئی ہے جہاں جہاں انھوں نے آپ سے پوچھے بغیر کچھ کہہ دیا ہے۔
  3. دنیاکے ہر فن کو اس کے اصولوں کے مطابق لو،سوائے اسلامی اصول و فنون کے کیونکہ یہ تو خیر خود خدا کو بھی آپ ہی نے سکھائے ہیں۔ خواہ عربی کی ایک سطر کیا ایک لفظ بھی درست نہ پڑھ سکو، چنداں حرج نہیں . ہاں فقہا و محدثین کی اصلاح کرنے پر بہر طور تل جاؤ۔
  4. مت مانو کہ انسان کی کوئی روح بھی ہوتی ہے ، اصرار کرو کہ انسان بس جسم ہی جسم ہے اور جسم بھی بس جنس ہی جنس ہے۔
  5. اس دیانت دار شخص جناح کو نواز شریف سے اور زرداری سے ملاؤ اور مان لو کہ وہ صرف ایک دن کی زندگی جئے ، گیارہ اگست کی اورصرف ایک ہی انھوں نے تقریر کی گیارہ اگست کی۔ صرف ایک تقریر میں انھوں نے سچ بولا، گیارہ اگست کی تقریر میں۔
  6. مذہب کے خلاف انسانیت کو عریاں کرنا پڑے تو جانگیہ تک اتار پھینکو ۔لبرل ازم کے گن گاؤ لیکن اگر کسی لبرل ملک میں اذان ، دوپٹے ، حجاب اور مسجد وغیرہ پر قدغن لگائی جائے تو کانوں میں سیسہ انڈیل لو اور آنکھوں پر حیض کا خون مل لو۔ فطری ہے نا!
  7. مخصوص مزاج کی مکھی بن جائو ،اقبال ہو یا کوئی اور خبردار جو کہیں سے کبھی کوئی خیر چن کے لائے تو.
  8. آزادی فکر کی بات کرو اور وعدہ کرکے بھی وہ مضمون چھاپنے سے مکر جاؤ جو گو آپ کے جواب میں ہو ، مگر ایسا شائستہ ہو کہ نہ اس میں آپ کو گالی دی گئی ہو اور نہ آپ کیلئے گالی دینے کی گنجائش چھوڑی گئی ہو۔
  9. اصولوں کی بات کرو اور گوئلبز کے اصولوں پر ڈٹ جاؤ۔ آخر مغربی تو ہے نا! پھر اس اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس طرح کے مضمون باندھو کہ تاریخ خود رو پڑے کہ کاش وہ آپ سے پوچھ کے گزری ہوتی۔
  10. دوسروں کو طفل ِمکتب سمجھو،علم کا ایسا دعوی ٰکرو کہ قارون کو بھی پسینہ آجائے۔ مغرب کے بے دام وکیل بن جاؤ۔ مانو ہی نہیں کہ مغرب سے پہلے بھی کبھی انسان نے ترقی کی تھی ، قوموں کے عروج و زوال کے قاعدے یکسر فراموش کر دو ۔ ثابت کرو کہ آج تک سوائے مسلمانوں کے کوئی قوم مغلوب نہیں ہوئی اور سوائے مسلمانوں کے کوئی قوم ہمیشہ زوال میں نہیں رہ سکتی۔
  11. معروضیت کی بات کرو اور بھول کر بھی کبھی مت مانوکہ تمھارا مخالف بھی درست بات کر سکتا ہے ، ثابت کر دو کہ کائنات میں ایک صرف تمھی کا دماغ کامل اتارا گیا ہے۔
    ضروری نوٹ:
    یاد رہے جتنے بھی تکبر اور تفو ق کے لفظ ہیں وہ آپ کے لئے ہی لغت میں اتارے گئے ہیں اور جتنے بھی تحقیر و تضحیک کے جملے ہیں. بغیر سوچے سمجھے جان لو کہ صرف آپ کا مخاطب ہی اس کا اصلی اور صحیح سزاوار و حق دار ہے.
    تاکیدِ مزید۔:
    خود کو فزکس کیمسڑی ، منطق وغیرہ وغیرہ کا ایسا اتارو سمجھو کہ لوگ سمجھیں نیوٹن کو آپ نے سبق دیا ، ارسطو نے آپ کی ٹانگیں دبائیں اور سارے مغربی مفکرین کو آپ نے یا آپ کو انھوں نے گود کھلایا ہے۔
    یوسف سراج

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اہل مغرب مریخ پر زندگی تلاش کر رہے ہیں اور مسلمان آلو پر اللہ تلاش کر رہے ہیں۔

کیا آلو پر اللہ کے نام کی تلاش کرنے والے صرف مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں؟ کتنی بار ایسا ہوا کہ مغرب کے مسیحی حضرات کو بادلوں میں، پہاڑوں میں فروٹوں میں جیسس کا نام اور شکل نظر آئی۔؟ اتنا ہی نہیں, مغربی ممالک میں کتنی ہی بار مختلف گروہوں نے قیامت کی تاریخ کا اعلان کیا بلکہ جمع ہوکر مسیح کے اترنے کا انتظار بھی کرتے رہے۔ صدر بش کو بھی عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کی ترغیب کے لئے عجیب و غریب آوازیں بھی سنائی دیتی رہی۔ اس سب کے باوجود مغرب سائنسی اور علمی ترقی کرتا رہا۔ اس کی وجہ کیا ہے۔؟

حقیقت یہ ہے کہ ہر معاشرے میں بے وقوف اور سادہ لوح انسان پائے جاتے ہیں۔ آپ کوشش کر کے بھی اس طرح کے لوگوں کو معاشرے سے ختم نہیں کرسکتے، اسی طرح مسلمانوں میں بھی بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں پھلوں، سبزیوں، بادلوں اور پہاڑوں پر خدا کا نام نظر آجاتا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی تعلق مسلمانوں کی سائنسی ترقی نہ ہونے سے نہیں ہے۔
خود مغرب کی سائنسی کامیابی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اب وہاں ایسے لوگ پائے نہیں جاتے بلکہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے جو دوسرے قسم کے لوگ ہیں انہوں نے اپنا کام امانت داری ور دلجمعی کے ساتھ کیا۔ جیسے عبدالقدیر خان نے اپنے اوپر جو ذمہ داری لی وہ کرکے دکھائی باجود اس کے کہ پاکستانی معاشرے میں آلو پر اللہ کا نام ڈھونڈنے والے تب بھی پائے جاتے تھے اور اب بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ اسی کا رونا لے کر بیٹھ جاتے تو ایٹمی سائنسدان کے بجائے پرویز ہودبھائی کہلاتے۔

دوسری بات سائنسی اور علمی ترقی کا تعلق یونیورسٹی کے علمی معیارات اور سیاست دانوں کی اس بارے میں دلچسپی سے متعلق ہے۔ فی زمانہ یہ دونوں میدان دینی حلقوں کے پاس نہیں بلکہ ان حلقوں کے پاس ہیں جنہیں مولوی نہیں سمجھا جاتا۔ یا ایک اعتبار سے انہیں سیکولر یا دنیاداری کامیدان سمجھا جاتا ہے۔
اس طرح کے فقروں سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مسلمان ممالک میں سائنس دان جب بھی ترقی کرتے ہیں تو کوئی اعلان کرتا ہے کہ آلو پر اللہ کا نام دریافت ہوگیا ہے تو سب مسلمان چاہے وہ یونی ورسٹی کے پروفیسر ہوں یا لیباریٹیری میں پائے جانے والے سائنسدان، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرآلو دیکھنے کے لئے آجاتے ہیں جس کی وجہ سے سائنسی ترقی نہیں ہوپاتی۔ یہ کتنا احمقانہ تاثر اسکے لئے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان ممالک سائنس میں ترقی نہیں کرسکے تو اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ کچھ سادہ لوح مسلمان آلو پر اللہ کا نام تلاش کرتے ہیں بلکہ اصل وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں جن میدانوں کو عام طور پر دنیاداری سمجھا جاتا ہے اس کو چلانے والوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ علمی اور سائنسی اداروں کوچلانے والے نکمے تھا یا بدنیت جس کی وجہ سے مسلمان سائنس میں ترقی نہیں کرسکے؟؟؟

آلو تو صرف ایک بہانہ ہے نالائق سیکولروں کی ناکامی کو چھپانے کا۔ اچھی خاصی سرکاری اور بیرونی فنڈنگ ہوکر بھی مسلمان کیوں پیچھے ہیں؟ اس کی وجہ آپ کو آلو سے آگے بڑھ کر کہیں اور ڈھونڈنی پڑھے گی۔جب پرویز ہودبھائی جیسے سائنسدان قوم کو سائنس پڑھانے کے بجائے مذہب پڑھائیں گے تو اور کیا نتیجہ نکلے گا؟ صرف قوم کا رونا رو کر اور مولویوں کو دوچار گالیاں دے کر اصل ذمہ داری دوسروں پر نہیں ڈالی جاسکتی.

عبدالسلام خلیفہ

****************

ریشنلسٹ حضرات کی مباحثانہ منطق-ہر منطقی تنقید کا ایک ہی جواب ‘مذھب کو کوسو’
ناقد: جناب آپ کی اخلاقی فکر میں فلاں فلاں بنیادی خامی ھے، اسکا کیا جواب ھے؟
ریشنلسٹ 1: معاشرے میں ساری خرابیاں مذھب نے پیدا کی ہیں، مزہبی لوگ تنگ نظر اور دقیانوسی ھوتے ہیں، عقل استعمال نہیں کرتے۔ ہم لوگ عقل سے فیصلے کرتے ھیں
ناقد: جناب یہ میرا سوال نہیں تھا، جو خامی ھے اسکا جواب دیں
ریشنلسٹ 2: آپ مذہبی لوگ عقل کی باتیں کیا سمجھو گے، جو الٹا سیدھا سمجھ میں آجاتا ھے عقل والوں کے سر تھوپ کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ھو
ناقد: مگر میری تنقید توخا لصتا عقل کی بنیاد پر ھے آپ اسکی غلطی واضح کردیں
ریشنلسٹ 3: تم مذہبی لوگ یہاں عقل پرستوں کو بہکانا چاھتے ھو، بتاؤ خدا ھے اسکا کوئ ثبوت ھے تمہارے پاس، مذہب میں اخلاقیات نہیں ھوسکتی، بس لوگوں کو ڈراتے ھو تم لوگ، دھندا بنایا ھوا ھے آپ لوگوں نے مذھب کے نام پر
ناقد: لیکن جناب یہ سوال خدا اور مذہبی اخلاقیات پر نہیں ھے
ریشنلسٹ 4: جب تمہارے پاس کسی سوال کا جواب ھے ہی نہیں تو ایسی فضول پوسٹ کیوں لگاتے ھو، اپنی عقل کا علاج کراؤ، بالکل جاہل انسان ہو تم، پتہ نہیں یونیورسٹی نے تمہیں کیسے استاد رکھ لیا، بچوں پر ظلم کرتے ھو تم
ناقد: مگر مدعے کا جواب تو دیجئے
ریشنلسٹ 5: یار آپ انہیں جتنے مرضی منطقی جواب دے دو انہیں نظر نہیں آئیں گے نہ یہ ماننے والے ہیں، عقل پر تالا پڑا ھوا ھے انکی
ناقد: خدا حافظ کہہ کر خاموشی سے ایک طرف
ریشنلسٹس: یہ ھیں ہی بھگوڑے، علمی بحث کرنا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔پھر غیر متعلقہ کمنٹس کا ایک طویل سلسلہ اور تھرڈ ختم۔۔۔۔۔۔یہی سلسلہ نئے تھرڈ پرشروع
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک لبرل صاحب کی یہ بات پڑھ کر بہت حیرت ہوئی اور لطف بھی آیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ سعادت صرف سیکولر طبقے کو نصیب ہو رہی ہے کہ پاکستان میں جہاں بھی ظلم ہوتا ہےاس کے خلاف یہی لوگ آواز اٹھاتے ہیں۔ کاش یہ بات حقیقت ہوتی، کاش پاکستان میں کوئی ایک لبرل ارون دھتی رائے جیسا ہوتا جو اقلیتوں کے ساتھ ساتھ، عافیہ صدیقی کے لیے بھی آواز بلند کرتا، کاش ہود بھائی کو اتنی توفیق نصیب ہوتی کہ وہ قبائلی ڈرون حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے لیے بھی اظہار افسوس کرتے اور مذمت کرتے، کاش ماروی سرمد کو لال مسجد بحران کو برُے طریقے سے ہینڈل ہونے پرمذمت کرنے کی توفیق ملتی۔ کاش کوئی لبرل حلقوں میں کوئی ایک قاضی حسین احمد جیسا بھی ہوتا، جنہوں نے بُرے وقت میں سیکولر اخبار فرنیٹئر ٹائمز کے مدیر کو سہارا اور پناہ دی تھی، جب اُن کے اپنے سیکولر دوست بھی، اُن کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ لہٰذا اتنا بڑا دعویٰ ثبوتوں کا متقاضی ہے۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ پاکستان کے لبرل اور سیکولر حلقوں نے صرف اُس وقت مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی ہے جب اس سے سیکولر ایجنڈے کو تقویت ملتی ہو یا مالی امداد کی کوئی صورت نکلتی ہو۔
اطہر وقار عظیم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج کل دین پر عمل نہ کرنے کے لئے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا پے۔ وہ حضرات جو دین کے ہر عمل کو ‘فرض نہیں ہے’ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ان سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ کیا آپ اپنی زندگی میں سارے کام فرض ہی کرتے ہیں، نیز کیا معاشرے میں سارے فرض کام ہی کئے جاتے ہیں؟ مثلاََ کیا نفیس اور مہنگے قسم کے برتیوں میں کھانا کھاناکوئی فرض ہے، کیا گھروں میں قالین، فرنیچر، فانوس اور ماربل کا فرش ہونا فرض ہے، کیا غسل خانوں میں ہزاروں لاکھوں روپے کا پتھر لگانا فرض ہے، کیا نئے ماڈل کی گاڑیوں میں سفر کرنا فرض ہے، کیا پُرتکلف کھانوں کا اہتمام کرنا بھی کوئی ضروری امر ہے؟ آخر یہ اور ان جیسے کئی اور کاموں میں سے کون سا کام فرض ہے؟ تو جب ایسے تما م غیر فرض کام کئے جاتے ہیں کہ جن کا کوئی ادنیٰ ثبوت نہ تو آپ ﷺ اور نہ ہی ان کے اصحاب میں سے کسی کی زندگی میں نظر آتا ے، تو یہ فرض کا فلسفہ صرف دین ہی کے لئے کیوں یاد آجاتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ محض ‘فرائض” سے عبارت نہیں ہوتا، بلکہ ہر معاشرے اور تہذیب کی معنویت اس کی سنتوں اور مستحبات (وہ جو بھی ہوں) وغیرہ ہی میں مضمر ہوا کرتی ہیں کیونکہ اس کی سنتیں اور مستحبات ہی اس کے فرائض کو تقویت بخشتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ فرائض تو کم از کم (Bare-minimum) مطلوبہ رویے کا نام ہوتا ہے، اور اگر معاشرے کے تما افراد ہی سنت اور مستحبات کو ترک کردیں تو ان کی جگہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کی سنتیں اور مستحبات لے لیتے ہیں، اور پہلے نظامِ زندگی کے فرائض بھی رفتہ رفتہ بے معنیٰ اعمال نظر آنے لگتے ہیں، جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں لوگوں کو نماز میں کوئی معنویت دکھائی نہیں دیتی اور یہ محض ایک رسمی واضافی عمل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ آپ کسی کھانے کے شوقین کے دسترخوان سے سلاد، اچار، راتہ، اور اس نوع کے دیگر لوازمات کوختم کردیجئے، پھر اس سے پوچھئے کہ اب کھانے میں کوئی مزہ ہے یا نہیں۔ غضب تو یہ ہے کہ کسی عمل کے فرض یا وجب نہ ہونے کا مطلب گویا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ بے کار اور فضول عمل ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں (العیاز باللہ)۔ بھلا ایک مومن اپنے رسول ﷺ کے اس تاکیدی ارشادِ پاک کے ہوتے ہوئے کہ لا تحقرن من المعروف شیئا (نیکی کے کسی بھی عمل کو ہرگز حقیر نہ سمجھو) کیسے اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ کسی عمل کے فرض نہ ہونے کو اس کے ترک کرنے کا جواز بنالے؟ پس جاننا چاہئے کہ یہ ‘فرض اور واجب نہیں ہے’ کا فلسفہ درحقیقت ایک شیطانی وسوسہ ہے جو اس نےہمیں توشہء آخرت (نیکیوں اور دین) سے دور لے جانے کے لئے سوجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

روشن خیال بننے کے لئے کچھ آزمودہ طریقے پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے، اگر آپ مرد ہیں تو داڑھی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں، داڑھی والا ہمیشہ انتہا پسند ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اسمارٹ بنیں اور کلین شیو پر توجہ دیں،پھر ترقی پسندوں کی تصانیف پڑھیں، ان کی تصانیف میں شامل وہ باتیں جن سے کان سرخ ہوتے ہوں، ہر مناسب موقع پر لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی باتیں کریں، کسی عورت کے ساتھ ظلم ہو تو ریلیاں نکالیں، ان کے پاس جا کر فوٹو سیشن کرائیں اور یہ مطالبہ کریں‌ کہ ذمہ داروں کو جلد از جلد سزا دی جائے۔ لیکن اتنا بھی شور و غوغا نہ کریں کہ حکومت واقعی مجبور ہو، ہتھ ہولا رکھیں
اگر آپ خاتون ہیں، تو مندرجہ بالا طریقوں میں سے داڑھی کی بات چھوڑ کر باقی آپ کے لئے بھی ہیں، البتہ آپ کی صنف کے حساب سے کچھ مزید طریقے ہیں جن کو آزما کر آپ دقیانوسی کی جگہ روشن خیال کہلائیں گی۔سب سے پہلے حجاب کو خیرباد کہہ دیں، روشن خیالی کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا چہرہ بھی روشن رہے۔ اس کے بعد بتدریج دوپٹے کو سر سے سِرکا کر کندھے پر لے آئیں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دوپٹے کو بھی خیر باد کہہ دیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سارا عمل بہت آہستہ ہو ورنہ مولوی آپ کی کلاس لینا شروع کردے گا۔اسی طرح کپڑوں میں بتدریج تبدیلیاں لائیں حتیٰ کہ آپ بھی ترقی پسند خواتین کی طرح ان کی رنگ میں رنگ جائیں۔کلبوں میں جائیں، بوائے فرینڈ ڈھونڈیں، اور ظالم سماج کی زنجیریں توڑنے کا عزم کریں۔
اس کے علاوہ کتے پالنے کا شوق رکھیں، صبح کی سیر میں ان کو ساتھ لے کر جائیں تا کہ آپ ماڈرن لگیں۔ اور فوٹو سیشنز میں بھی کتوں کو گود میں بٹھا کر ان سے پیار کریں تاکہ آپ کی بے زبانوں کے ساتھ دوستی مشہورِ عام وخاص ہوجائے۔دل کھول کر مولوی کو گالیاں دیں۔ ہر بات میں مولویوں کو کوسیں، امن و امان کا مسئلہ ہو، مہنگائی کا مسئلہ ہو، یا پاکستان کی عالمی ساکھ کا، ہر بات میں مولوی کو گھسیٹیں۔ان کو معاشرے کا ناسور قرار دیں۔ ان کے رہن سہن، کپڑوں، کھانے (حلوہ ) وغیرہ کی بھی برائی کریں۔ ان کی ایسی خاطر تواضع کریں کہ کوئی بھی مولوی آپ کے سامنے ٹک بھی نہیں سکے۔اس سے آپ کا امیج بہت روشن ہوگا، میڈیا پر آپ کو بہت پذیرائی ملے گی اور آپ خود ہی محسوس کریں گی کہ واقعی روشن خیال ہونا کتنی اچھی بات ہے!!!! اب ایسا کرنے سے کوئی آپ کو کوئی بھی روک نہیں سکے گا کیونکہ آپ کے دماغ میں روشن خیالی کا بلب روشن ہے، جس کا مقابلہ مولوی کے دماغ کی پرانی شمع نہیں کرسکتی۔
ہارون اعظم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر اسلامی نظامِ زندگی پنپ سکتا ہے وہ ایک سراب کی تلاش میں ہیں کیونکہ غیر اسلامی ریاست میں اسلامی انفرادیت اور معاشرت کبھی عام نہیں ہوسکتے۔ ریاست تو نام ہی نظامِ اقتداراور جبر کا ہے جس میں مقصد جبری مقبول یا عمومی طور پر برداشت کی جانے والی معاشرتی اقدار کا فروغ ہوتا ہے تو لامحالہ کافرانہ ریاست کافرانہ معاشرت ہی کو مسلط کرے گی جس کے نتیجے میں ایک کافرانہ انفرادیت کے فروغ اور عموم کے مواقع ہی پنپ سکتے ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے فقہاء کرام بلا شرعی عذر کیوں کافر ریاستوں میں رہائش اختیار کرنے کے خلاف تھے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password