خدا کی طرف سے وحی کو بہت سارے مظاہر پرست مسترد کرتے ہیں . ایک ایسی دنیا میں جہاں نسبتاً کمزور مخلوق آزاد گھومتی ہے، ایک انتہائی طاقتور خدا (جسے مظاہرپرست بھی تسلیم کرتے ہیں )کے آزادانہ طور پر کام کرنے کو ناممکن سمجھنا بے عقلی کی بات ہے ، (Lacordaire cited in McGrew, 2013, p. 283)۔ اسی کا اعتراف کرتے ہوئے ، پاین اپنے مظاہر پرست ہمسروں کی نسبت “وحی کے امکان” کا اقرار کرتے ہیں گو کہ وہ اس پر “بالکل بھی یقین نہیں رکھتے” (1892, pp. 175-176)۔
اس طرح بہت سارے مظاہر پرست خدا کی طرف سے وحی کے ذریعےآنے والی کسی بھی چیز کو “غیر معقول” سمجھتے ہیں اگر یہ آسانی سے قابل فہم نہ ہو۔ اس کے جواب میں ، خدا پرست یا اہل مذہب عقل سے ماورا ا ور خلاف عقل معاملات کے مابین فرق کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں(Al-Hamadānī, 1965, vol. 15, p. 110; Ibn Taymiyyah, 2005b, vol. 3, p. 210)( ماورائے عقل: وہ تصورات جو ہماری انسانی فہم سے بالاتر ہیں ، جیسے مافوق الفطرت مخلوق ، حیات بعد الموت، وغیرہ پر اعتقاد ۔ کسی چیز کے سپر عقلی ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے عمومی خیال کو سمجھا اور سمجھا یا جا سکتا ہے، لیکن اس کو مکمل طور پر جانا نہیں جاسکتا کیونکہ ہم اس کے بارے میں کلی طور پر حواس کے ذریعے علم یا آگاہی حاصل نہیں کر سکتے۔ خلاف عقل: وہ معاملات جو خود سے ہی متضاد ہیں اور ہماری عقل سے متصادم ہیں ، جیسے شادی شدہ کنوارے کا تصور یا چار کونوں والی مثلث وغیرہ)
لہذا یہ ایمان مثلا فرشتوں کا وجود ہے، ایک ایسے شخص کے لئے غیر معقول نہیں ہے جو پہلے سے ہی ایک ایسے طاقتورخدا پر یقین رکھتا ہو جو ان کی تخلیق کرسکے۔ اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کوئی مذہب سچا ہے، تو اس کا اس مذہب کے عقل سے بالاتر نظریات جنہیں غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں ‘پر یقین کرنا عیب نہیں ۔
یہ فرض کرتے ہوئے کہ خدائی وحی ممکن ہے اگر ہم اس کو لازمی نہیں بھی سمجھتے تو کیا ہم اس کے نازل ہونے کو قابلِ قبول سمجھ سکتے ہیں ؟ اگر ہم یہ تصدیق کرتے ہیں کہ خدا کامل یا حد سے زیادہ حکمت والا اور اچھا ہے ، تو میرا موقف یہ ہے کہ اس کا جواب ہاں میں ہے ۔۔ یہ دلیل خاص طور پر مظاہر پرستوں کی غالب اکثریت پر لاگو ہوتی ہے جو خدا کی حکمت اور اچھائی کی دو صفات کو یا ان میں سے کسی ایک کی تصدیق کرتے ہیں۔
ذیل میں آسمانی وحی کے پیش کردہ کچھ فوائد پیش ہیں جو اس کی انتہائی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
1.1.1. وحی الہی خدا کے عطا کردہ مرکزی اخلاقی احکام کی وضاحت کرتی ہے:
وہ مظاہر پرست جو خدا کی اچھائی کی تصدیق کرتے ہیں، انکا یقین ہے کہ “فطرت پر غور کرنے” سے ہم خدا کے اخلاقی کردار کو اخذ کرسکتے ہیں، اور اس طرح خدا کے اخلاقی احکام کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ مظاہر پرست سائنسی تحقیقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ وہ خداکے دنیا میں فعال کردار اور اقتدار کے انکاری ہیں ۔ بیک وقت ان دونوں مواقف سے چمٹے رہنا پریشانی کا باعث ہے کیوں کہ ارتقائی ماہر حیاتیات (evolutionary biologists ) کہتے ہیں کہ قدرتی انتخاب (natural selection)کے پیش نظر، ہم اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ حادثاتی ہےاور فطرت میں “خدا کا دست قدرت” کہیں بھی “نظر نہیں آتا۔” اس کے بجائے ، ہمیں صرف “طبیعیات کی اندھی قوتیں” سرگرم عمل ملتی ہیں (see Gould and Dawkins in Plantinga, 1997, pp. 8-9)۔
مزید مظاہر پرست’ مذہبی نظریہ ارتقاء ‘سے بھی مدد لے نہیں سکتے ، جس کے مطابق خدا نے چیزوں میں ارتقاء کے عمل کا انتظام و انصرام کیا ہے۔ کیونکہ مظاہر پرست تو مانتے ہی نہیں ہیں کہ خدا دنیا کو چلا رہا ہے۔ چنانچہ مظاہر پرست کیسے ‘فطرت پر غور و فکر’ کے ذریعے خدا کے اخلاقی احکامات اخذ کر سکتے ہیں جب ککہ اسی فطرت کا نظام خدا کے علاوہ کسی اورقوتوں کے غیر شخصی کام کا نتیجہ ہو؟!
مظاہر پرست یہ رائے دیتے ہو ئے جواب دے سکتے ہیں کہ جب خدا نے دنیا کو تشکیل دیا ، تو اس نے ارتقائی عمل کا آغاز کر کے بعد میں اس عمل میں مداخلت نہیں کی، وہ پہلے سے ہی طے کر چکا تھا کہ ارتقائی عمل اس کی مرضی کے مطابق کیسے قدرتی طور پر ظہور پذیر ہو گا۔ لیکن یہ جواب دو وجوہات کی بناء پر بیکار ہے: اول ، خدا کی قدرت کے بارے میں مظاہر پرستوں کا مؤقف مبہم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر خدا نے ارتقا جیسے نازک ، پیچیدہ عمل کا قبل از وقت من و عن تعین کر دیا تھا، جس میں طویل عرصے تک ان گنت انواع میں ماحول کے تَناسَب سے تبدیلیاں ہونا شامل تھیں ، تو پھر ہماری دنیا میں خدا کی شمولیت سے انکار کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟!مظاہرپرست ایک غیر موثَر اور دنیا سے بے پرواہ خدا کا تصور رکھتے ہیں انکے نظریے کے مطابق الہی حکم دنیا میں غیر موثر ہے جبکہ دنیا کے کسی سلسلے کے بارے میں خدا کی بنائی ہوئی فعال ترتیب اس کے برعکس ہے کیونکہ یہ تو ارتقا کا مذہبی تصور ہے کہ خدا کی ہدایت کو مسلسل عمل میں لایا جا رہا ہے اور یہ اس کی مرضی کی فعال موجودگی کی گواہی ہے۔ دوم ، ‘قدرتی قانون’ (natural law) کا نظریہ بھی بالکل مذہبی ہو جاتا ہے اگر یہ بھی حقیقت میں مافوق الفطرت طور پر پہلے سے طے شدہ اور ایک عین الہامی طریقے سے ڈیزائن شدہ ہو۔
دوسری طرف ، الہی وحی کو اس طرح کی کسی بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ خدا نبیوں اور صحیفوں کے ذریعہ اپنے اخلاقی احکام کو بیان کرنے کا انتخاب کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر خدائی وحی کے ماننے والے خدا کے کچھ اصولوں کی تشریحات پر اختلاف کرتے بھی ہوں، تو بھی یہ محدود و متعین کردہ حدود میں ہی ہو گا اور خداکے بھیجے گئے انبیاء کا اسوہ معیار قرار پائے گا۔ (Al-Ghazālī, 2003, pp. 141-142)۔ اخلاقیات اور قانون سازی پر ذاتی خواہشات ، چاہتوں یا لوگوں کی ناقص عقل کی بنیاد پر کئے گئے موضوعی قسم کے فیصلوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ خدا پرست اصرار کرسکتے ہیں کہ ہماری مدد سے محروم عقل صرف اخلاقی آفاقیات کو جاننے میں ہماری مدد کرسکتی ہے (جیسے کہ انصاف کرنا اچھا عمل ہے ، دوسروں کو نا حق نقصان پہنچانا برا عمل ہے ، وغیرہ)، لیکن ساری اخلاقی تفصیلات کو پورے اعتماد کے ساتھ جاننے میں مدد نہیں کر پائے گی (جیسے کہ اسقاط حمل یا لاعلاج مریض کو بغیر تکلیف مارنے کی اخلاقی حیثیت ، وغیرہ) (Al-Ghazālī, 1975, p. 58; Al-Jawzīyyah, 2011, vol. 2, pp. 1153-1154)۔ چنانچہ اگر ایک اچھا خدا موجود ہے ، جیسا کہ بہت سارے مظاہر پرست یہ دعوی کرتے ہیں ، اگر لازمی نہ بھی ہو تو بھی اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ خدا ہم تک اپنے اخلاقی قوانین وحی کے ذریعے پہنچائے۔ یہ وحی ان اخلاقی اصولوں کو عیاں کرے گی جن کو عقل کے ذریعے اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے( نا وہ باقیوں کے لیے معیار بن سکتے ہیں) ، اور یہ ان اخلاقی احکامات کی بھی توثیق کرے گی اور ان میں مددگار ہوگی جن کو ہم اپنی عقل سے اخذ کر سکتے ہیں (Al-Āmidī, 2004, vol. 4, p. 50; Al-Fihrī, 2010, p. 518)۔
1.1.2. خدا کی طرف سے وحی ان معاملات کی وضاحت کر سکتی ہے، جن تک ہماری مدد سے محروم عقل نہیں پہنچ سکتی:
خدا پرستوں کا کہنا ہے کہ خدائی وحی ہمیں ان سوالوں کے جوابات مہیا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جو صرف انسانی عقل کی مدد سے اعتماد کے ساتھ حل نہیں کئے جا سکتے ، جیسے: خدا نے ہمیں کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے؟ کیا خدا کا مطالبہ ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں؟ اگر ایسا ہے تو ، کیا وہ اس کی توقع کرتا ہے کہ ہم اس کی عبادت ایک خاص انداز میں ادا کریں ؟ کیا زندگی بعد الموت ہے؟ اگر ہاں ، تو کیا وہاں خدا حساب کتاب کرے گا؟ کیا وہاں جنت اور دوزخ ہے؟ اگر ایسا ہے تو ، کیا نجات کا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیے جانے کی ضرورت ہے؟
ابدیت اور خدائی انصاف جیسے عقائد پر یقین رکھنے والے مظاہر پرستوں کا خیال ہے کہ ہم ان عقائد کا خالص عقل کے ذریعہ کھوج لگا سکتے ہیں۔ تاہم ، اگر ایسا ہے تو پھر یہ مظاہر پرست کیوں ان نظریات کے سلسلے میں خود ہی باہم اختلاف کرتے ہیں؟ اگر ہماری عقل مذہبی حقیقت کو دریافت کرنے کے لئے ایک رہنما کی حیثیت سے کافی ہے تو پھر بہت سارے ذہین اور باشعور لوگ مظاہر پرستی کے برخلاف مذہب کی کسی نہ کسی شکل کو کیوں قبول کرتے ہیں ؟(Wainwright, 2013, p. 56)
یہ کیوں ہے کہ بہترین الٰہیات دان اور فلاسفہ، مثلاً تھامس ایکویناس (Thomas Aquinas۔ متوفی 1274) اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہماری عقل ہمیں اس نتیجے پر پہنچا سکتی ہے کہ صرف ایک خدا موجود ہے (Aquinas cited in Byrne, 1989, p. 2) ، جبکہ دوسرے ممتاز فلاسفہ جیسے ڈیوڈ ہیوم (David Hume۔وفات 1776) اور جان ہک(John Hick) اختلاف کرتے تھے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہت سارے مظاہر پرستوں کے برخلاف جو ابدیت پر یقین رکھتے ہیں، بہت سارے خدا پرست فلسفی ابدیت پر یقین نہیں کرتے ہیں (An-Nasafī, 2011, pp. 682-683)؟
خدا نے ہمیں اس الجھن میں کیوں چھوڑ دیا ؟ کیا اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ آیا ہم صحیح مذہبی عقائد پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں، تو پھر بہت سے مظاہر پرست ان عقائد کے بارے میں سوچنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں جن کی خدا کو بھی پرواہ نہیں ہے؟..( جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ہم ایک مخصوص علمی آلہ (epistemic tool) استعمال کر رہے ہوں تو اختلاف پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ ہے کہ عقائد پر تنازعات وحی کی غیر موجودگی میں یعنی دلائل کی بنیاد رکھنے کے لیے کسی دستیاب معروضی حوالہ( objective reference point) کے بغیر بہت زیادہ اور ناقابل اعتبار ہونگے ۔)
جان لوک (John Locke۔وفات 1704) وحی کی ضرورت پر یقین رکھتے تھے، کیونکہ کاہلی ، بدعنوانی ، ہوس ، لاپرواہی اور کَرب انسانی عقل کو داغدار کرسکتے ہیں اور اس طرح انسانی عقل پر منفی اثر ڈالتے ہیں (Byrne, 1989, pp. 41-42)۔امام النسفی (وفات 1114) لوگوں کی تین گروہوں کی عمومی درجہ بندی کرتے ہیں: 1) وہ لوگ جو ذہین ہیں اور تحقیق میں وقت صرف کرتے ہیں۔ 2) وہ لوگ جو ذہنی طور پر اہل ہیں لیکن وہ “دنیاوی امور” میں مشغولیت کی وجہ سے تحقیق نہیں کر پاتے۔ اور 3) وہ لوگ جو تحقیق کرنے کے فکری لحاظ سے اہل نہیں ہیں (2011, p. 83)۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پہلا گروپ نایاب ہے اور زیادہ تر لوگ دوسرے اور تیسرے گروہوں میں شامل ہیں۔
اسی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ استدلال کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کو وحی الہی کی احتیاج ہوتی ہے ، کیونکہ وہ ان مذہبی حقائق کو حاصل کرنے کے لئے اپنی عقل پر انحصار نہیں کرسکتے ہیں۔ النسفی اس بھی زور دیتے ہیں کہ لوگوں کے پہلے گروہ کو بھی وحی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ وحی (معیار)کے بغیر اپنی ہر تحقیق ، فیصلے پر یقین نہیں کرسکتے نا کرواسکتے ہیں ۔ انہوں نے اس بات پر توجہ دلائی کہ یہاں تک کہ لوگوں کا پہلا گروہ بھی متعدد دینی معاملات پر مستقل مشاورت اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتا ہے۔ لہذا واضح(clear-cut) عوامی جواب کے لیے ان سب پر تو اعتبار نہیں کیا جاسکتا ( جبکہ درستگی کی کوئی سند بھی موجود نا ہو)۔ (Ibid., p. 679)۔
1.1.3. خدا کی طرف سے وحی خدا کی رحمت کی شہادت دیتی ہے۔
وہ لوگ جو خدا کے کامل خیر خواہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں، فطری طور پر اس کے ساتھ محبت بھری رفاقت رکھنے کی خواہش کرتے ہیں۔ خدا کا ان سے ابلاغ و ترسیل کے ذریعے ان کے ساتھ رابطہ قائم کرنا، محبت کے ایک باہمی اظہار کے طور پر شمار کیا جائے گا (Leftow cited in Wainwright, 2013, p. 62)۔ اگر خدا انسانیت کا خیر خواہ ہے ، جیسا کہ بہت سارے مظاہر پرستوں کا بھی یقین ہے ، تو پھر توقع یہ ہے کہ خدا اپنی تخلیق سے بات کرنا اور ان کے امور سے واسطہ رکھنا چاہے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مظاہر پرست یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا نے پہلے سے انسانوں کے ساتھ “کافی” رحیمانہ سلوک کرتے ہوئے ان کو عقل کا تحفہ دے دیا ہے ، پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ (کم ازکم اپنے بھیجے گئے مخصوص ) نمائندوں اور نازل شدہ صحیفوں کے ذریعے انسانوں سے بات کرنے کی خدائی کوشش ہمیں اس کی مہربانی اور رحم کی تعریف کرنے کی ایک اضافی وجہ فراہم کرے گی۔ (An-Nasafī, 2011, p. 683; Al-Busnawī, 2007, p. 269)۔
1.1.4. وحی الہی خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کو واضح کرتی ہے:
بچے اور ماں یا طالب علم اور استاد کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے ؟ کسی ملک کے شہریوں اور اس کے صدر یا اپنی رعایا کے ساتھ ایک بادشاہ کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے؟ جوابات مختلف ہوسکتے ہیں ، لیکن عملی طور پر ہر کوئی یہ تسلیم کرے گا کہ ایک فریق دوسری پر احترام اور بالا دَستی کا حق رکھتا ہے۔ اس کے باوجود ، کچھ رشتے دوسروں کے مقابلے میں بہت مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں ، ایک ملازم کا اپنے مالک کے ساتھ تعلق دوسری کی نسبت بہت نوکروں والا ہوتا ہے۔ کچھ بچے اپنے والدین کے بہت قریب ہوتے ہیں جبکہ کچھ نہیں ہوتے۔ ایسی اقوام کے صدور موجود ہیں جنہیں اپنے شہری انتہائی عاجز سمجھتے ہیں اور وہ دوسرے عام لوگوں کی طرح دکانوں میں خریداری کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ، جبکہ کئی دوسرے ممالک میں شہری اپنے صدر سے ایک کلو میٹر کے دائرے سے زیادہ قریب جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہر دی گئی صورتحال اور سیاق و سباق میں لوگ دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کو جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان سے کیسے برتاؤ کی توقع کی جاتی ہے اور انہیں کونسے حفظِ مراتب کی پاسداری کرنی چاہیے۔
تو خدا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ نوکر ، روحانی اولاد یا دوست کی طرح کا ہے؟ یا شاید ان سب کا ایک مجموعہ ہے؟ صرف عقل کی بنیاد پر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش قیاس آرائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تاہم ، خدا کی طرف سے وحی ہمارے خدا کے ساتھ اس رشتے کی نوعیت کو واضح کرنے میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
1.1.5. وحی الٰہی انسانوں کے مرتبے کو بلند کرتی اور عزت بخشتی ہے:
ملکہ برطانیہ سے’ سر’ کا خطاب پانا یا ریاست کے سربراہ کے ساتھ کھانے کی دعوت پر مدعو کیا جانا قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ اعزاز پانے والے افراد ان اعلٰی درجوں پر متمکن افراد کی طرف سے التفات پانے پر اپنی ایک قابل قدر اہلیت اور قیمت محسوس کرتے ہیں۔ اگر اپنے جیسے انسانوں کے معاملے پر یہ حال ہےتو پھر وہاں احساس کا کیا عالم ہوگا جہاں ایک لامحدود طاقتور اور رحم کرنے والا خدا انسانوں سے بات چیت کرنے کا انتخاب کرے جو اس سے لامحدود حیثیت میں کم تر ہیں؟ یقینا ، یہ انسانوں کو انکی فطری قدر کی پہچان کرائے گا جو خدا نے اُن کو عطا کی ۔اِس کے برعکس مظاہر پرستی ہے جہاں خدا اُن کے معاملات سے ہی بے پرواہ ہے۔
1.1.6. خدا کی طرف سے وحی، گناہ گاروں کے اخلاقی محاسبے کا جواز پیش کرتی ہے۔
جو لوگ غیر اخلاقی اعمال کرتے رہے تھے، قیامت کے دن وہ جائز طَور پَر اس بنیاد پر رحم کی التجا کر سکتے ہیں کہ چونکہ وحی یعنی کوئی واضح حکم تو موجود ہی نہیں تھا لہذا وہ تو ان اصل اخلاقی احکامات سے ہی لاعلم تھے جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا۔ وہ یہ دعوی بھی کر سکتے ہیں کہ ان کے خیال میں خدا خیر و شر سے بے تعلق تھا اور اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ اخلاقی طور پر صحیح عمل کر رہے ہیں کہ نہیں یا وہ معروضی اخلاقیات پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ شاید ، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کسی مستند بندے نے بتایا ہی نہیں تھا کہ خدا ان سے عبادت کی توقع کرتا ہے۔وہ اپنے غیر اخلاقی رویے کا جواز اس طرح پیش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ انہیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے میں مدد کے لیے درکار اخلاقی رہنمائی کبھی ملی ہی نہیں ۔ دوسری طرف ، خدا کی طرف سے وحی اس طرح کے بہانوں کو ختم کر دے گی تاکہ انصاف کیا جا سکے (Al-Laqānī, 2009, vol. 1, pp. 670-672)۔ (اس کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوگا جنہوں نے الہامی وحی کی ساکھ کو قبول کیا لیکن جان بوجھ کر اس کے احکامات کے خلاف سرکشی کی۔ اس کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوگا جنہوں نے الہامی وحی کے اختیار کو بیدردی سے مسترد کردیا۔ جہاں تک وہ لوگ جو خدا کی طرف سے بھیجی گئی وحی کو بلاجواز مسترد کرتے ہیں ، میں اس معاملے پر اسلامی مذہبی نقطہ نظر سے آگے خدائی پوشیدگی کی دلیل کے آخری حصے میں بحث کروں گا۔)
اسکے علاوہ بھی دوسری وجوہات ہیں جو وحی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں: یہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کے احسانات کے بدلے ہم اظہار تشکر کیسے کریں (An-Nasafī, 2011, pp. 676-678)؛ یہ ہمیں اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتی ہے؛ یہ ہمیں خوشی کے حصول کی درست راہ بتاتی ہے (Al-Ghazālī, 2003, p. 141)؛ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کچھ خاص افعال کیوں کرتا ہے، مثلاً دنیا میں برائی کے وجود ، نا انصافی، مصیبتوں ، پریشانیوں کی اجازت کیوں دی ہوئی ہے (Wainwright, 2013, p. 58)؛ اور ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ ہم اپنی روحوں کو پروان کیسے چڑھائیں اور اسے تقویت کیسے پہنچائیں (Al-Keilānī & Titān, 1999, p. 720; Kamāl b. Abī Sharīf cited in Al-Keilānī, 1999, pp. 713-714)۔
خلاصہ : میں نے وحی الہی کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مظاہر پرستوں کی طرف سےاسکی ضرورت نا ہونے اور بے فائدہ ہونے کی باتوں کی حقیقت واضح کی جاسکتے ۔ خلاصہ یہ کہ وحی کی نہ صرف ضرورت ہے ، بلکہ انسانیت کے ساتھ ابلاغ و ترسیل نہ کرنا ایک ایسے خدا کو زیب ہی نہیں دیتاجس کو ہم کامل یا انتہائی دانااور اچھا سمجھتے ہیں۔