ہمارے سوشلستان میں دانشوری چھاجوں کے حساب سے برستی ہے بس ذرا موقع آنے کی دیر ہوتی ہے دانشور بہہ نکلتے ہیں۔ ہر طرح سے بہتے ہیں اور ہر طرف سے بہتے ہیں۔
جب سے ننھی زینب پہ قیامت ٹوٹی ہے دانشورانہ تنقید، تنقیص، نکتہ چینیوں، تبصروں اور مفت مشوروں کے کارخانے کھل گئے ہیں۔ حکومتی نااہلی پولیس کرپشن اور نفاذِ قانون کی خرابیوں سے لیکر روایتی فقہ تک کے نقائص بیان کرنے کے موقعے نکل آئے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اب سیکس ایجوکیشن کے متوالے ماہرین بھی اپنے اپنے سنٹر چوراہے کے بیچ کھول کے بیٹھ گئے ہیں۔اس کائیں کائیں سے تو یوں لگتا ہے کہ ننھی زینب اور اس جیسے دیگر معصوموں کے ساتھ جو گھناؤنا سلوک ہوتا ہے وہ صرف اس سبب سے ہوتا ہے کہ ان کے پاس سکس ایجوکیشن نہیں ہوتی۔کوئی ان سے پوچھے کہ خدا کے بندو! سات سالہ زینب اگر سیکس ایجوکیشن میں سند یافتہ ہوتی تو کیا وہ اس درد ناک انجام سے بچ جاتی؟ حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کے واقعات کا سبب صرف سیکس ایجوکیشن کا فقدان نہیں ہے اور بھی بہت کچھ ہے۔
جہاں تک جنسی تعلیم کا تعلق ہے ہمارے روایتی نظام تعلیم و تربیت میں یہ ہمیشہ سے نصاب کا حصہ رہی ہے۔ سیدھا سا اصول یہ ہے کہ جو شے زندگی میں جس حد تک ضروری ہے دین میں اس کی تعلیم کا بندوبست بھی اسی حد تک فرض ہے۔ جنس چونکہ زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے بلکہ زندگی قائم ہی اسی کے وسیلے سے ہے لہٰذا اسکی تعلیم سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے روایتی معاشروں میں سیکس ایجوکیشن کا الگ سے کوئ شعبہ یا اس کا کوئ رنگ رنگیلا عنوان نہیں ہوتا تھا بلکہ عام دنیاوی و اخلاقی تعلیم (جس کے مجموعے کا نام دینی تعلیم ہے) ہی کا ایک لازمی جز جنسی تعلیم بھی تھا جسے بچے بچیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتے اپنے گھر میں ہی عام گھریلو تربیت کے دوران یا کسی باعتبار استاد/استانی سے سیکھتے تھے۔ ہمارے اسی روایتی نصاب کا ایک نمونہ “بہشتی زیور” نامی کتاب ہے جس پر، اسی ایک پہلو کے سبب، اور تو اور آج کے جدید تعلیم کے متاثر مولویوں کو بھی ناک بھوں چڑھاتے دیکھا سکتا ہے۔ باقی جہاں تک جدیدیت زدگان کی بات ہے تو ہمارے ممدوح حسن عسکری صاحب (جو بعد میں تو مولانا اشرف علی تھانوی کے بہت قائل ہوئے) نے بھی ایک زمانے میں بہشتی زیور کو اسلیے اٹھاکر گھر سے باہر پھنکوا دیا تھا کہ لڑکیاں اس سے جنسی لذت سیکھتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے پرانے نظامِ تربیت میں جنسی تعلیم کا پورا پورا اہتمام ہے۔
یہ جو سیکس ایجوکیشن والے آج پھر سے موقع پاکر بہت متحرک ہوگئے ہیں ان کی سیکس ایجوکیشن کا شعور لامطلوب حمل یا زیادہ سے زیادہ جنسی بیماریوں سے بچنے کیلیے غلاف کے استعمال کے طریقے سکھانے تک محدود ہے اور وہ بھی ایک ایسے آزادانہ ماحول میں جہاں دافعِ مرض و مانع حمل امور میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اسے آزمانے کے مواقع بھی وافر طور پہ دستیاب رہیں۔ جبکہ ہمارے روایتی نصابِ تعلیم میں جنس کو ہمیشہ اخلاقی حدود کا پابند مانا گیا ہے اور اسی لیے ماحول اور استاد کی اہلیت کو بھی سختی سے مدنظر رکھا گیا ہے۔ اُس مذہبی شعور کے نزدیک جنس ایک “مقدش شے” ہے۔ چونکہ ہر مقدس شے تقدیس کے پردے میں رکھی جاتی ہے اسلیے جنس کی تعلیم بھی مقدس ماحول چاہتی ہے۔
اس کے برعکس جدید ماہرینِ تعلیم و جنسیات کے نزدیک جنس کا تقدس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اسمیں ہر طرح کی آزادی روا سمجھتے ہیں۔ وہ اسکی تعلیم کے لیے بھی کسی خاص اخلاقی ماحول و مخصوص مدرِس کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک اصل خرابی ماورائے مناکحت تعلق (Extar marital relations) میں نہیں بلکہ اسکے عواقب میں ہے۔ سیکس ایجوکیشن کے جدید شعور کا اصل ہدف گناہ سے بچنا نہیں بلکہ گناہ کے نتائج اور نشانات کو منظرعام پر آنے سے روکنا ہے۔ کیونکہ جدید شعور میں گناہ تو کوئی شے ہوتا ہی نہیں بلکہ احساسِ گناہ اصل خرابی ہے۔ اس کے نزدیک باہمی رضامندی سے ازادانہ جنسی تعلق قائم کرنا ایک صحتمند تفریح ہے۔ اس آزادانہ تعلق کو موجب گناہ سمجھنا ذہنی امراض پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اب گناہ کو ختم کرنے کے بجائے احساسِ گناہ سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جدید تحلیل نفسی (Psycho analysis) سوائے اسکے اور کچھ نہیں۔ کبھی آپ غور فرمائیے تو پتا چلے گا کہ مانع حمل اور دافع امراضِ جنسی کی کاوشوں کے جدید شعور کا ایک بہت بڑا سروکار احساسِ گناہ کو جنم دینے والے اسباب کو ختم کرنا ہی ہوتا ہے۔
آج گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے جو فلسفے بتائے جارہے اس کا مقصد بچوں کو غلط ہاتھوں سے محفوظ بنانا بھی یقیناً ہوگا مگر معاشرے میں سیکس ایجوکیشن عام کرنے کی اصل غایت جنس کے بارے میں کسی اخلاقی معنویت کو فروغ دینے کے بجائے من چاہی محفوظ جنسی لذت کے حصول کو آسان بنانا اور بالجبر کو بالرضا میں ڈھالنے کا راستہ ہموار کرکے جنس جیسے مقدس عنصر کو اجناس (commodity) بنادینا ہے۔
یاد رہے کہ جدید شعورِ جنس کا مسئلہ یک زوجیت اور تقدیسِ جنسی نہ کبھی تھا نہ ہوگا۔ اسے کثیر زوجیت سے بھی کوئی پرخاش نہیں اسے اصل اختلاف جنس کو تقدیسی حدود (پردہ و نکاح) کا پابند بنانے اور اسکے بے محابا تمتع پر پابندی سے ہے۔ اِس ذہن کے نزدیک تو جنس اب موبائل فون جتنی نجی شے بھی نہیں رہ گئ۔ رابرٹ موگابے کا مشہور جملہ ہے کہ “ہم ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں عاشق و محبوب ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس تو چھو سکتے ہیں مگر موبائل فون نہیں کیونکہ وہ پرائیویٹ شے ہے”
یہ نسل جدید سیکس ایجوکیشن ہی کی تیار کردہ ہے روایتی مذہی نظام تعلیم کی نہیں۔
یہی وہ زاویۂ نظر و دائرہ عمل ہے جہاں روایتی جنسی تعلیم اور جدید سیکس ایجوکیشن کے تصورات کا بنیادی تعارض واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی جائز مسئلے کو بھی بنیاد بناکر سیکس ایجوکیشن عام کرنے کی باتیں ہوتی ہیں تو روایتی مذہبی ذہن کو اس مطالبے سے بوئے فساد آتی ہے۔
تحریر عزیز ابن الحسن، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے