شریعت محمد کا وصف۔۔!!

10153707_1567933213443305_2222735533702525096_n
کیا اعتراض اُس چیز پر ہو جو پہلے بھی انبیاءکے ہاں پائی گئی، جبکہ اُن انبیاء پر اِن لوگوں کا ایمان بھی ہو بلکہ ان انبیاء اور ان انبیاءکے صحیفوں پر ایمان لانے کی دعوت بھی یہی لوگ دیتے پھر رہے ہوں؟!! اعتراض اس پر تو کریں کہ کوئی چیز انبیاء کے ہاں تھی اور اِس نبی کے ہاں پائی جانے سے رہ گئی!!!
وہ سب خیر جو پہلے انبیاء کے ہاں متفرق پائی گئی، اِس نبی کے ہاں مجتمع پائی گئی اور بے حد وافر!!!
صاف بات ہے، یہ ایک عالمی رسالت ہے اور قیامت تک کیلئے زمین پر خدا کی مہر۔ اِس کے بعد کچھ آنا اب باقی ہی نہیں۔ لہٰذا اِس رسالت کو زمین میں کوئی خصوصی کردار ملتا ہے اور اُسی کی مناسبت سے اِس کو نصرت دی جاتی ہے تو یہ خدا کے فیصلے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جس پر گزشتہ نبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے واقعی کوئی علمی اعتراض بنتا ہو؟
پس یہ ایک کامل شریعت ہے یعنی پوری انسانی زندگی کو محیط، جس میں امن بھی آتا ہے اور جنگ بھی، جس میں فرد کے مسائل بھی شامل ہیں اور امورِ معاشرہ بھی، جس میں مصلیٰ بھی ہے اور تخت بھی۔ محراب بھی اور ایوان بھی۔ خدا کیلئے سجدہ ریز نمازی بھی اِسی کے محکوم ہیں اور حق کیلئے برسر پیکار افواج بھی اِسی کے ایک ایک حرف کی پابند۔ خانگی مسائل اِس کے دائرہ سے باہر ہیں اور نہ دیوانی و فوجداری قضایا۔ ذکر و تسبیح کے آداب اِس کی قلمرو سے خارج ہیں اور نہ ایوان ہائے صنعت و تجارت سے متعلقہ احکام۔
یہ سب مسائل ’دائرہء شریعت‘ میں آتے ہیں، جس کے انسانوں تک پہنچائے جانے کا واحد ذریعہ وقت کا نبی ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جس نے ’نبیوں‘ اور ’پیغمبروں‘ کا لفظ تو سنا ہو مگر ’شریعت‘ کا لفظ نہ سنا ہو؟؟؟ پیغمبر ’شریعت‘ دے کر نہیں جاتےتو وہ دنیا میں کرنے کیا آتے ہیں؟؟؟؟؟!!
یہ لوگ انصاف پسند ہوں تو خود شہادت دیں گے کہ کوئی ایک چیز بھی ایسی نرالی نہیں جو اِس آخری آسمانی شریعت میں نبوتوں اور شریعتوں کے سب معیار توڑ کر آگئی ہو۔ ہاں کچھ خصوصیات ہیں کہ شرائع کا جو اصل جوہر ہے وہ یہاں بامِ عروج پر نظر آتا ہے!
اِس رسالت کی بابت خاص بات یہی ہے کہ خدا نے اپنے اِس آخری نبی کی زندگی اِس قدر بھرپور اور اِس قدر گوناگوں جہت رکھی، کہ زندگی اور سماج کے ہر ہر عقدہ سے اِس کی آنکھیں چار ہوئیں اور حیاتِ انسانی کے سب لاینحل مسئلے اِس کی حق آگاہ پیش قدمی کے آگے خدا کے فضل سے بچھتے چلے گئے۔ یوں اِن سب پہلوؤں سے اس نے شریعت پر پورا اتر کر دکھایا اور عمل سے حیات انسانی کے اِن سب پہلوؤں کو متحقق کیا۔ اِس ہستی کی تشریعی جہتوں سے واقف ہونے کیلئے زیادہ نہیں آپ حدیث کی معروف کتب میں سے کوئی ایک کتاب اٹھاکر پڑھنا شروع کردیجئے، آپ دنگ رہ جائیں گے کہ زیستِ انسانی کے ہزاروں پہلو ہیں اور ہر ہر پہلو پر اِس نبی سے رشد و ہدایت کی جھڑیاں برس رہی ہیں!!! ہر ہر موضوع پر مفصل تعلیم اور عمیق بنیادیں!!!
خدایا! کسی ضابطہء حیات کو صدیوں میں ارتقاء نصیب ہوتا ہے؛ بہت چھوٹی سی ’ابتدا‘ ہوتی ہے اور ’بانی‘ شخصیت نے تو کم ہی کوئی تفصیلی مواد چھوڑ رکھا ہوتا ہے؛ بہت سی بنیادیں ’بعد میں‘ ہی جا کر رکھی جاتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ بہت سی شخصیات کا حصہ ڈَل ڈَل کر نسلوں بعد کوئی ’چیز‘ بنتی ہے، مگر یہاں ایک ہی شخص ہزارہا پہلوؤں سے انسانی زندگی کی فکری، عملی، شعوری، اخلاقی، سماجی، خانگی، معاشی، سیاسی، جنگی، ڈپلومیسی غرض سب بنیادیں واضح واضح الفاظ میں اور ٹھوس اعمال کی صورت رکھ کر جاتا ہے اور پھر امت کے ہزاروں عباقرہ geniuses، نسل در نسل، اِن بنیادوں کی صرف شرح اور توضیح کا فریضہ انجام دیتے ہیں!!! اور ”شرح و تفسیر و تطبیق“ کے اِس عمل میں اُس کے بولے ہوئے ایک ایک لفظ اور اُس سے صادر ہونے والے ایک ایک فعل کو سامنے رکھنے کے باقاعدہ پابند ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس ہستی کے الفاظ اور افعال کی روشنی میں ایک دوسرے سے اختلاف، یہاں تک کہ ایک دوسرے کا محاکمہ کرتے ہیں!!! کسی ایک آدھ شعبے میں نہیں، ”انسان“ کے تعلق سے زیربحث آنے والے ہر ہر شعبے میں!!! پھر چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اور انسانی زندگی کی اِس حیرت انگیز توسیع ہو جانے کے باوجود، انسانی ضرورت کے ہر ہر مسئلے کا حل اِس ہستی کے اقوال اور افعال میں سے ہی کمال ربط کے ساتھ مل جاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر معاشرے کی صلاح وفلاح کو یقینی بنا کر دکھاتا ہے، یوں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں اور جدید سے جدید حالات میں اُس سے ’ہدایت‘ پانے کا یہ عمل مسلسل و بلا انقطاع جاری رہتا ہے!!!

حامد کمال الدین

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password