ظالموں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی تو تکلیف ہے کہ خدا کا یہ آخری نبی آیا تو دلیل کے مقابلے پر دلیل لے آیا اور تلوار کے مقابلے پر تلوار۔۔ اور پھر، اِس کھوئے ہوئے توازن کو بحال کر دینے کے بعد، فیصلہ خدا کی مخلوق پر چھوڑ دیا کہ جس عقیدہ کو چاہیں پورے اختیار اور آزادی سے قبول کریں!!!َ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔۔
پھر کیوں نہ ہوتا کہ قومیں اور ملک اِس دعوتِ حق کو ہاتھوں ہاتھ لیتیں؟!
اِس عمل کے نتیجہ میں اِن لوگوں کا قائم کیا ہوا نظامِ جبر دنیا پر اپنی آہنی گرفت کھو بیٹھا، لوگوں کو ”دلیل“ کی روشنی میں اپنا دین چننے کی آزادی ملی، اور اِن ’بیچاروں‘ کو ایشیا اور افریقہ کی ’کالونیوں‘ سے بے دخل ہو کر اپنے وطن لوٹ جانا پڑا۔ جہان میں بلکہ تاریخ کے اندر ’توازن‘ کا اِتنا بڑا شفٹ؟!!!!
تب سے آج تک ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ اِن کے دلوں پر کچوکے لگا رہی ہے!!!وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ پر بے تحاشا اِن کے دانت پستے ہیں، بس میں نہیں ہے کہ کیا کردیں!!! کیونکہ ’یہ‘ ساتھ نہ ہوتی تو ’خالی دلیلیں‘ تو اِن کی بہت آزمائی ہوئی تھیں!!! دینِ مسیح علیہ السلام میں بھلا کیا ”دلیل“ نہیں تھی؟؟؟ کہ جس کے موحد پیروکاروں کو بے دردی کے ساتھ پیس کر رکھ دیا گیا تھا اور اُس کی جگہ پال کی تثلیث کو ’منصبِ دین الٰہی‘ پر تخت نشین کرانے میں دھونس کی آخری حد کر دی گئی اور یوں قوت اور زور کے بل بوتے پر بالآخر پوری ایک آسمانی شریعت کا گھونٹ بھر لیا گیا تھا؟!! پس کیوں نہ ہوتا کہ وہ ”دلیل“ جس کے خلاف اِن کی دھونس نہ چل سکے، اِن کو زہر سے بری لگتی؟!!
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دراصل اِن کو یہی تو ’شکایت‘ ہے، جوکہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں ”کتاب یہدِی وسیفینصُر“ کو لے کر اِس پیچیدہ جہان میں تشریف لائے تھے، یعنی کتاب: قلوب اور عقول کی ہدایت کیلئے اور تلوار: جباروں اور کج کلاہوں کو سیدھا کرنے کیلئے!!! یہ ’کومبی نیشن‘ بھلا اِن کو کیوں بھاتا!
آخر(انکا) یہ وہی تخت تو ہے جس پر بیٹھ کر ظلم اور طنطنہ اور جبر کا ایک نظام صدیوں چلایا گیا اور جس کے پایوں تلے، پوپ ڈھونڈیں، تو اب بھی بے شمار اقوام کا خون پڑا ہوگا! کیا یہ وہی تخت نہیں جس پر جلوہ افروز تاج پوشوں نے کبھی ’دلیل‘ اور ’منطق‘ اور ’حق‘ کے پرخچے اڑائے تھے!! سائنس اور انسانیت کے خلاف چرچ کی تاریخی لٹھ برداری ہی تو تھی جس نے انکے پیروکاروں کو مذہب کو ہی چھوڑ دینے پر آمادہ کردیاتھا۔
پھر کیوں نہ ہوتا کہ قومیں اور ملک اِس دعوتِ حق کو ہاتھوں ہاتھ لیتیں؟!
اِس عمل کے نتیجہ میں اِن لوگوں کا قائم کیا ہوا نظامِ جبر دنیا پر اپنی آہنی گرفت کھو بیٹھا، لوگوں کو ”دلیل“ کی روشنی میں اپنا دین چننے کی آزادی ملی، اور اِن ’بیچاروں‘ کو ایشیا اور افریقہ کی ’کالونیوں‘ سے بے دخل ہو کر اپنے وطن لوٹ جانا پڑا۔ جہان میں بلکہ تاریخ کے اندر ’توازن‘ کا اِتنا بڑا شفٹ؟!!!!
تب سے آج تک ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ اِن کے دلوں پر کچوکے لگا رہی ہے!!!وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ پر بے تحاشا اِن کے دانت پستے ہیں، بس میں نہیں ہے کہ کیا کردیں!!! کیونکہ ’یہ‘ ساتھ نہ ہوتی تو ’خالی دلیلیں‘ تو اِن کی بہت آزمائی ہوئی تھیں!!! دینِ مسیح علیہ السلام میں بھلا کیا ”دلیل“ نہیں تھی؟؟؟ کہ جس کے موحد پیروکاروں کو بے دردی کے ساتھ پیس کر رکھ دیا گیا تھا اور اُس کی جگہ پال کی تثلیث کو ’منصبِ دین الٰہی‘ پر تخت نشین کرانے میں دھونس کی آخری حد کر دی گئی اور یوں قوت اور زور کے بل بوتے پر بالآخر پوری ایک آسمانی شریعت کا گھونٹ بھر لیا گیا تھا؟!! پس کیوں نہ ہوتا کہ وہ ”دلیل“ جس کے خلاف اِن کی دھونس نہ چل سکے، اِن کو زہر سے بری لگتی؟!!
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دراصل اِن کو یہی تو ’شکایت‘ ہے، جوکہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں ”کتاب یہدِی وسیفینصُر“ کو لے کر اِس پیچیدہ جہان میں تشریف لائے تھے، یعنی کتاب: قلوب اور عقول کی ہدایت کیلئے اور تلوار: جباروں اور کج کلاہوں کو سیدھا کرنے کیلئے!!! یہ ’کومبی نیشن‘ بھلا اِن کو کیوں بھاتا!
آخر(انکا) یہ وہی تخت تو ہے جس پر بیٹھ کر ظلم اور طنطنہ اور جبر کا ایک نظام صدیوں چلایا گیا اور جس کے پایوں تلے، پوپ ڈھونڈیں، تو اب بھی بے شمار اقوام کا خون پڑا ہوگا! کیا یہ وہی تخت نہیں جس پر جلوہ افروز تاج پوشوں نے کبھی ’دلیل‘ اور ’منطق‘ اور ’حق‘ کے پرخچے اڑائے تھے!! سائنس اور انسانیت کے خلاف چرچ کی تاریخی لٹھ برداری ہی تو تھی جس نے انکے پیروکاروں کو مذہب کو ہی چھوڑ دینے پر آمادہ کردیاتھا۔
ہر وہ شخص جو اَدیان و شرائع کے بنیادی عناصر سے ذرا واقفیت رکھتا ہے اور انبیاءکے اخبار وآثار بھی اُس کی سماعت کیلئے بہت اجنبی نہیں، جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا تو اُس کا سامنا عین انہی چیزوں سے ہوگا جو انبیاء ہی کے پاس ہوتی ہیں۔ انبیاء نے تلوار بھی اٹھائی ہے اور جنگیں بھی کی ہیں۔ انبیاءنے معرکے بھی لڑے ہیں، اور انبیاءنے دنیا میں امن اور عدل بھی قائم کر کے دکھایا ہے۔ کچہریاں بھی سجائی ہیں اور تعزیریں بھی لگائی ہیں۔ شادیاں بھی کی ہیں، اولادیں بھی چھوڑی ہیں اور کاروبارِ زندگی سے سروکار بھی رکھا ہے۔
آخر کونسی بات یہاں نرالی ہوئی ہے جس پر طوفان کھڑا کیا جائے؟؟؟
حامد کمال الدین