مغربی الحادی فکر نے ہماری عوام بلکہ پوری اقوام دنیا پر یلغار کی ۔ ہمارے نوجوانوں کے سینوں کو ان کے خالق کے خلاف آلودہ اور پراگندہ کیا ۔ دین ِ اسلام کے مخالف ان کے دلوں کو کینہ سے بھر دیا ۔ انہیں ان کی نرم و ملائم فطرت سے بیگانہ کردیا۔ اسلام ، مسلمان اور قرآن کریم کے ساتھ ملحدوں کی شدید عداوت کی وجہ سے تمام مادہ پرست گروہوں اور ان کے ہم نوا دوستوں نے ہمارے عقیدہ کو عبث اور بیکار قرار دینا شروع کردیا ۔ اس سب کے پیچھے ان کا اصل ہدف اس دین ِ حنیف کے ارکان میں ارتعاش و ضعف پیدا کرنا ، اسے بد نما و بد شکل قرار دینا اور اس کے نشانات ِ راہ کو مسخ کرنا ‘ہے ۔ یہ ملحدین اور بے دین اپنے مقصد و ہدف کو پانے کے لیے مختلف طریقوں کو بطور منہج اپناتے ہیں ۔ کبھی مکر و فریب کے لبادہ میں ، کبھی دھوکہ و تدلیس کے پردہ میں اور بیشتر تو یہ لالچ اور دھمکی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ان ملحدوں کے تابع بن جاتے ہیں ۔ دراصل یہی لوگ مغربی تہذیب اور اس کی بے حقیقت اور دھوکہ بازچمک دمک سے حیران و ششدر ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ الحاد زندگی میں امر ِ واقع بن گیا ہے جسے ٹی وی چینلز پھیلاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے صفحات فروغ دیتے ہیں ‘ اسی لیے براہِ راست اس کی حقیقت کو عیاں کرنا ، اس سے برتاؤ اور علاج کے طریقوں پر خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔
٭الحاد کا مطلب
درا صل الحاد (Atheism)درست راستے سے ہٹ کر ظلم ، جور اور جدال کی جانب میلان کا نام ہے ۔مثلا عربی میں لَحَدَ ، أَلْحَدَ إِلْحَادًا کے الفاظ اس شخص کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو ظلم ، زیادتی اور جدال کے جانب جائے ۔ملحدین (Atheists)سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کائنات کے خالق اور ربّ کا انکار کیا ۔ جو اس کائنات میں تصرف کرنے والا ہے ؛جس کے علم اور حکمت سے اس کائنات کا نظام چل رہاہے ؛ جس کے ارادہ و قدرت کے ساتھ اس کائنات کے واقعات و حادثات پیش آتے ہیں ۔ ملحدین سمجھتے ہیں :کہ کائنات یا اس کامادہ ازلی ہے ؛ کائنات کے تغیرات امر ِاتفاقی کے تحت طے پاتے ہیں یا مادہ کی طبیعت اوراس کے قوانین کے تقاضوں کے تحت پورے ہوتے ہیں ؛ زندگی اور زندگی کے تابع فکر وشعور ایسی سب چیزیں مادہ کی ذاتی ترقی کا نتیجہ ہیں ۔ (۱)
٭معاصر الحاد کی تاریخ ،ابتداء و ارتقاء
در حقیقت کوئی متعین تاریخ نہیں ملتی جس سے الحاد و بے دینی کی اساس کے بارے میں معلوم ہوسکے کہ اس کی ابتدا ء فلاں تاریخ سے ہو ئی۔ یہ تاریخ میں دیگر امورکے روبرو اپنے طورپر نمودار ہوجانے والا ایک طفیلی فتنہ ہے ۔ جس کی کوئی پائیدارجڑیں اور اساسیات نہیں پائی جاتیں حتی کہ نہ قدیم یونانی سوفسطائیوں کے ہاں؛ نہ ابیقورکے ہاں اور نہ والٹیر کے ہاں ۔ الحاد ایک مستقل فلسفہ کی طرح ہے ۔ جس کی پوری تاریخ میں کوئی بنیاد نہیں ملتی ۔ اس لیے یونانی مؤرّخ کہتا ہے : ’’تاریخ میں قلعے، محلات اور درس گاہوں کے بغیر شہر وں کے وجود پائے گئے ہیں مگر تاریخ میں عبادت گاہوں سے خالی شہرکبھی نہیں پائے گئے ۔‘‘
ہمارے جدید زمانہ میں معاصر الحاد کے ظہور کے لیے متعین تاریخ مکمل ضبط کے ساتھ بتانا ‘ مشکل ہے ۔ لیکن مغربی مؤرخین میں سے اغلب بتاتے ہیں کہ معاصر الحاد کی ابتداء 1789ء میں باسٹل قلعہ کی قید ڈھانے کے بعد انقلابِ فرانس کے آغاز کے ساتھ ہوئی ۔ البتہ یہ الحاد عالمی سطح پر بالفعل1917ء کے انقلاب کے پیچھے پیچھے نمودار ہوا‘جب روس میں قانون سازی کے لیے بلاشفہ (اکثریت ) کوپہنچ حاصل ہوگئی ۔ لیکن معمولی انصاف کے ساتھ ہی یہ بات ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ بلاشفہ (اکثریت ) بھی عملًا ملحدین ہی تھے جنہوں نے دین سے چومکھی لڑائی لڑی ۔ یکم جنوری 1956ء کو ٹائم اخبار کے نشر کردہ پرچہ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ سویت یونین میں 1917ء میں گرجا گھروں کی تعداد 46ہزار تھی ۔ جبکہ یہ تعداد 1956ء تک کم ہو کر 4ہزار رہ گئی ۔ ہاں البتہ کمیونسٹ بلاشفہ (اکثریت )کا الحاد جتنا سیاسی تھا اتنا علمی ، فلسفیانہ اور فکری نہ تھا ۔ کیونکہ مارکس کے نظریہ کے مطابق دین ایک بالائی عمارت کا نام ہے ۔ جس میں فکر ، معاشرت ، سیاست ، رسوم و رواج اور اخلاقی اقدار موجود ہوتے ہیں ۔ جبکہ مارکسی معاشرہ کے لیے معیشت و اقتصاد ایک نچلی عمارت ہوتی ہے ۔تمام بالائی عمارتیں دراصل اس نچلی عمارت کا عکس ہوتی ہیں۔ نچلی عمارت کے بغیر اکیلی بالائی عمارت کبھی وجود نہیں رکھتی۔ مارکس کی مراد یہ ہے کہ دین ایک عارضی عامل اور باعث ہے ۔ جو آئندہ مرحلہ میں مکمل طور پر زائل ہو جائے گا ۔حتی کہ مارکس کے لوگوں کی ادارت میں اقتصادی عامل باقی رہ جائیگا ۔ اس لیے پوری دنیا میں ملحدین کی تعداد کے اکثر اعداد و شمار بالکل بکواس اور سطحی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی مملکت جب اشتراکی حکومت ہونے کا اعلان کرتی ہے ‘ تو گراف کے جداول میں اس مملکت کے شہریوں کی تعداد دین کے خانہ سے بے دینی اور الحاد کی طرف خود بخودتبدیل ہوجاتی ہےیہی چیز ہے جس کی جانب صامویل نے اشارہ کیا ہے۔وہ اپنی کتاب (صدام الحضارات)’’تہذیوں کا ٹکرائو‘‘ کے صفحہ 108پر لکھتاہے :’’ پوری دنیا کے ملحدین میں سے تقریبا 92فیصد چینی بنتے ہیں ۔ کیونکہ جب کمیونزم چین میں آیا تو پوری دنیا میں اہل ِ دین کے لیے کیے گیے اعداد و شمار کے سروے میں تمام غیرسامی اصحاب ِ ادیان ملحدوں اور لادینوں کی جانب خود بخود منتقل ہو گئے۔‘‘ یہ ایک جبری اور نامناسب تبدیلی و منتقلی ہے ۔ (۲)
٭حالیہ الحاد و بے دینی کے اسباب
1۔یورپی گرجا اور تحریف شدہ عیسائیت کی دینداری : جس نے خرافات کو پھیلایا اور تجرباتی علم اور سائنسی ایجادات سے جنگ مول لی۔
2۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی یلغار :جس نے اخلاق ِ حسنہ کا جنازہ نکالا اورحرص ،طمع ، مفاد پرستی اور استعمار کو رواج دیا۔
3۔ اشتراکی فکر کی ترویج : جو بزعم ِ خویش فقراء ، محروموں اور مظلوموں کے دفاع کی دعویدار ہے لیکن اس نے اِن پسے ہوئے طبقہ کو مزید محرومی اور فقر میں مبتلا کردیا۔ (۳)
۴۔دور ِ جدید کی زندگی اور تہذیب ِنو کے چکا چوند مظاہر: مادی سائنس نے انسان کے لیے پرتعیش اور آسائشات سے لبریز زندگی کے دروازے کھول دیے ۔ کار، ہوائی جہاز اور ریلوے ایسی لگژری سواریاں ؛ مواصلات، راحت و سکون کے وسائل ؛پُرفخر مشروبات اور کھانے ؛ بیش قیمت ملبوسات؛زندگی میں لذات کے حصول کے لیے عجیب و غریب تنوع اور شہوات اور اشتیاق انگیز اشیاء کے لیے دوڑ ودھوپ۔ایسی تمام چیزوں نے انسان پر زندگی سے تمتع کے کچھ ایسے رنگ عیاں کیے جن سے انسان نا آشنا تھا ۔ شہوات اور لذات میں انسان کا انہماک بڑھ گیا ۔ جبکہ دین انسان کو بالعموم اسراف سے روکتاہے اور اسے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے ۔ دین ‘شراب ، زنا اور عریانی ایسی اشیاء کو حرام قرار دیتا ہے کیونکہ جو لوگ دین کے اس راز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ دین کی جانب سے یہ پابندیاں ان کی آزادی پر قدغن ہیں اور ان شہوات و لذات کی راہ کا پتھر۔یہ چیز لوگوں کے لیے دین سے مزید دوری کا باعث ہے اور آخرت کی یاد دھانی کرانے والوں ، آگ سے ڈرانے والوں اور جنت کا شوق دلانے والوں سے کراہت کا سبب ہے ۔ نتیجۃً دینی عقائد سے اجنبیت و غرابت بڑھ گئی ہے اور الحاد و زندقہ کے افکار فروغ پاگئے ہیں ۔
5۔الحادکو مادی قوت کا تعاون:جس چیز نے انسان کو اللہ عزّ وجلّ کے ساتھ کامل الحاد کی جانب بڑھنے پر دلیر اور بہادر کر دیا ‘ وہ ہے الحاد کو مادی قوت کا تعاون حاصل ہونا اس کا باعث یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یورپ ‘گرجا کے افکار اور عقائد کو ترک کرنے کے بعد ہی مادی قوتوں کی جانب پیش قدمی کر سکا اور اسرار ِ زندگی کو عیاں کر سکا ۔ روس جیسی ریاست الحادی مملکت ہونے کے اعلان کے بعد ہی مملکت عظمی بن سکی ۔ مزید لوگوں نے یہ غور کیا کہ جب تک مملکتیں دین سے جڑی رہتی ہیں ‘ وہ قوت ،صنعت اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ رہتی ہیں ۔ لہذا لوگ یہ گمان کربیٹھے کہ کہ الحاد‘ قوت اور علم کا ذریعہ ہے ۔
6۔یورپی یلغار کے مقابل عالم اسلامی کی ہزیمت: یورپ کے لیے مادی قوت پر قدرت ، آلاتِ صنعت کا استعمال اور فیکٹریوں کی تعمیر و ترقی ممکن نہ تھی ۔ حتی کہ اس نے اپنی فیکٹری کی مصنوعات کو فروخت کرنے اور صنعت و حرفت کے لیے ضروری خام مواد کے حصول کی خاطر اپنی منڈیوں سے ماوراء دیگر ممالک کا رخ کیا ۔ فیکٹریوں کے لیے خام مال کے متلاشی یہ ممالک اپنی مطلوبہ چیزوں کو کم ترین بلکہ درحقیقت بلاقیمت پانے کے خواہاں تھے اسی لیے ان ممالک نے اپنی زائد عسکری قوت کو استعمال کیا ۔ جبکہ اِدھر عالم ِ اسلام پسماندگی ، فقر عسکری ضعف اور سیاسی کمزوری میں انتھاء کو پہنچ چکا تھا۔ اسی وجہ سے عالم ِ اسلام یورپی استعماری یلغار کے سامنے زیادہ دیر تاب نہ لا سکا ۔ اس عسکری ہزیمت کا جس میں یورپی معرکہ کے مقابل مسلمان مبتلا تھے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے میں بہت بڑا اثرہے اور یورپی استعمار کے لائے ہوئے الحادی ریلے اور بہائو کے سامنے عقائد ِ اسلامیہ کا بند نہ باندھ سکنے میں بے حد بڑا کردار ہے ۔ مسلمان عوام یورپی استعمار کی تقلید کرنے ، اس کے اخلاق و عادات کی مشابہت کرنے اور اس کے الحادی عقیدہ میں شامل ہونے لگے یہ گمان کرکے کہ اہل یورپ دین کا انکار کرکے ہی قوت کو پہنچ پائے ہیں ۔ یہ ایک نئی غلطی تھی اور عالمی الحادی فنامنا و فتنہ میں حصہ دار ایک دوسرا سبب تھا۔(۴)
٭ الحاد و بے دینی کی اشاعت و ترویج اور اسکے ذرائع
۱۔الحاد کی دعوت کے لیے میڈیا کا استعمال:
اس کام کے لیے کئی شکلیں اور صورتیں اختیار کی گئیں ۔ چنداہم ترین صورتیں یہ ہیں :
1۔تالیفات و کتب مثلاً:وھم الإلٰہ(معبود کا وہم/ دی گاڈ ڈیلوین )مصنف :رچرڈ ڈیوکنز، نھایۃ الإیمان(ایمان کا اختتام/اینڈ آف فیتھ )مصنف:سام ہارس۔ اللّٰہ لیس عظیمًا (اللہ عظیم نہیں/گاڈ از ناٹ گریٹ) مصنف: کریستوفرہیتشنزوغیرہ
2۔ٹی وی اور ریڈیو کے پروگرامز :مثلاً :رچرڈ ڈیوکنز کا ڈاکومنٹری فلموں کا سلسلہ جوکہ ’’شر کی کلی اساسیات ‘‘ کے عنوان سے نشر ہوا۔کچھ تکنیکی و فنی طریقہ سے ملحدین ان فلموں میں بھی داخل ہوئے اور بہت سے الحادی و لادینی پیغامات کو پاس کرانے کے ذمہ دار بنے ۔ جس کی مثالیں ویڈیواور گانوں کے کلپس ہیں ۔ مشہور ترین گانوں میں سے جان لینن کا ’’تخیّل خیال ‘‘ والا گانا،’’ عزیزی الرب پیارے خدا‘‘والا گانا اور ’’ أنا لست خائفًامیں خائف نہیں ‘‘ والا گانا۔
3۔عالمی الحادی ادارے:مثلاً :ملحدین کا بین الاقوامی باہمی تعاون و اتحاد (Atheist Alliance International) ملحدین کی کمیٹی(Atheist Nexus) ادارۂ رچرڈڈیوکنزبرائے فروغ ِ عقل و سائنس (Richard Dawkins Foundation for Reason and Science)
بین الاقوامی اتحاد انسانی و اخلاقی توجہ کے لیے بین الاقوامی کمیٹی برائے بے دین و ملحدین
4۔انٹر نیٹ پر الحادی ویب سائٹس
مثلاً:
Friendlyatheit.com – Ffrf.org
Reddit.com/r/atheism
شبکۃ الملحدین العرب(عرب بے دینوں کانیٹ ورک)، قناۃ الملحدین بالعربی(عربی میں ملحدین کا چینل)، شبکۃ الإلحاد العربی(عربی الحاد کا نیٹ ورک)، مزید یہ کہ فیس بک اور ٹویٹرپر عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ملحدین کے بعض صفحات پر فعّال ممبر موجود ہیں۔
مواصلات اور خصوصا سوشل میڈیا کے انقلابات سے قبل ملحدوں اور لادینوں نے کسی ایسے دن کا خواب ہی نہ دیکھا تھا ۔ جس میں وہ اپنے خیالات و افکار کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھیں گے ۔ ان ملحدین کے پاس متروکہ ٹوٹے پھوٹے تجزیات کو ’حریت ‘سے تعبیر کرنے کے لیے مکالماتی ویب سائٹس(جینے کے لیے) سانس لینے کا واحد راستہ تھیں ۔ اب ان کی کوشش کے ذریعے فیس بک اور دیگر مواصلاتی ویب سائٹس کی وساطت سے ملحدین کا باہمی نظم و نسق قائم ہو گیا ہے ۔ فیس بک پرعرب لادین صفحات(Pages) اور مجموعوں (Groups)کا شمار یا ان کے پیروکاروں (Followers)کا شمار بے حد مشکل ہوگیا ہے ۔ شاید کم از کم بھی ان کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے ۔ یہ صفحات اپنی افکار کو پیش کرنے اور ان کی ترویج میں مختلف نوعیت کے ہیں ۔ کچھ ناقدانہ طنز آمیز ہیں ۔جبکہ کچھ دیگر صفحات علمی فکری منصوبہ بندی کے حامل ہیں ۔ جو اپنے عمومی پیروکاروں کے لیے ثقافت اور کلچر کی ترویج اور روشن خیالی( Enlightenment ) کو ہدف بناتے ہیں ۔
۲۔ادیان کی جنگ میں دہشت گردی کا بطور ِ آلہ استعمال
۳۔دین ِ اسلام پر تند وتیزیلغار
۴۔تجربی و طبیعی علوم کی بابت شدید ترین غلو(۵)
۵۔ تمام شعائر ِ دینی کا مذاق ۔ ملحدین کا ان اصحاب ِ شعائر کو پسماندگی،رجعیّت اور قدامت پرستی کا طعنہ دینا۔ دینداری یا مظاہر ِ دین کے ساتھ زندگی کو آراستہ کی جانب بلانے والی کسی دعوت سے ملحدین کی جنگ
۶۔صیہونیت (Zionism)اور فری میسن (Freemasonry) تحریک کے ساتھ ملحدین کا بے حد مضبوط تعاون اور یہود یوں اور صیہونیوں کے لیے ان کی بے انتہاء مدح و ستائش(۶)
٭معاصر الحاد کے منفی اور برے اثرات
موجودہ الحادنے انسان کے رویوں اور مختلف اقوام کے اخلاق پر بہت واضح اثرات چھوڑے ہیں ۔ ہم ذیل میں انہیں اجمالی طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۱۔بے چینی اور ذہنی خلفشاری:
الحاد سب سے پہلا اثر جو لوگوں کے نفوس میں چھوڑتا ہے ‘ وہ ہے قلق ، حیرانی ، اضطراب، نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور مستقبل کا خوف۔
۲۔ انانیت اور خودغرضی:
ذہنی قلق اور خوف کا حتمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ انسان کی توجہ فقط اپنے آپ پرمرکوز ہوکر رہ جاتی ہے ۔ دوسروں کی فکر چھوڑ کر انسان فقط اپنی مخصوص مصالح کے حصول تک محدود ہوکررہ جائے ‘ یہی انانیت اور خودغرضی ہے ۔ جبکہ دین انسان کو اپنی ذات سے ہٹ کر رضائے الٰہی کی خاطر دوسروں سے نیکی اور احسان کرنے کی ترغیب دیتاہے ۔ اس کی بجائے فقط اپنی ذات کی فکر کا رویہ پروان چڑھ چکا ہے ۔ اسی لیے الحاد اور بے دینی کے ظلمت سے اٹّے ہوئے زمانوں میں لوگوں نے دوسروں کی پرواہ کرنا ‘ چھوڑ دیا ۔ آہستہ آہستہ فقراء و مساکین سے توجہ کم ہوئی پھر اہل ِ خانہ و اقراء سے توجہ کم ہوئی پھر والدین سے توجہ کم ہوئی اوربالآخربیوی بچوں سے بھی توجہ جاتی رہی ۔
۳۔ مجرم بننے پر دبائو:
کیونکہ الحاد ضمیر ِ انسانی کی تربیت نہیں کرتا اور نہ اسے اس زمین میں اپنے تصرفات و اعمال پر نگہبان کسی قادر و قوی معبود کا خوف دلاتا ہے ‘ اسی لیے ملحد سخت دل اور احساس سے عاری ہوکر نشوونما پاتاہے ۔ ڈانٹنے اور منع کرنے والی کوئی ہستی تو ہے نہیں ‘جو اسے ظلم سے روکے اور اسے احسان و شفقت کا حکم دے ۔
۴۔ خاندانی نظام کا انہدام :
الحاد میں انسان کی اجتماعی زندگی کو توڑ پھوڑ دینے والے اثرات بھی موجود ہیں ۔ اللہ عزّ وجلّ سے دوری کا فقط یہی نتیجہ نہیں کہ نفس ِ انسانی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتاہےبلکہ اس کے لازمی نتائج میں سے انسانی معاشرے کااجڑ جانا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا‘بھی ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ انسانی معاشرہ اس وقت تک صالح اور سلیم نہیں ہوسکتا جب تک اس معاشرے کی اکائیاں صالح اور سلیم نہ ہوجائیں ۔ جب یہ اکائیاں ہی بگڑ جائیں ‘ تو اس کے تابع خاندانوں کی وجہ سے اجتماعی نظام بھی بگڑ جاتاہے ۔ اس لیے الحاد کے نتائج میں سے ایک خطر ناک نتیجہ خاندانی نظام کا انہدام واختتام بھی ہے ۔
۵۔ معاشروں کا فساداوراجاڑ:
خاندان ‘معاشرتی عمارت کی پہلی اکائی یا خلیہ ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے فساد کی وجہ سے مکمل نظام ہی فساد زدہ ہوجائے ۔ کیونکہ خاندان انسان کے لیے نگہداشت کا پہلا مرکز ہے ۔ جب انسان فساد کا شکار ہو جائے ‘ تو اس عمارت کی تعمیر میں کام آنے والی اینٹیں ہی فساد زدہ ہوگئیں ۔
۶۔سیاسی سطح پر مجرم بننا:
شاید الحاد کے سب سے بڑے آثار عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے نظام میں نمودار ہوتے ہیں ۔ وہ اس طرح سے کہ مادیت پرست الحادی اخلاق ‘ انسان کے دل کو سخت اور انانیت پسند بنادیتے ہیں ۔ جو انسان کو اس جانب دھکیلتاہے کہ وہ عالمی سیاسی تعلقات میں بھی اسی انانیت کا مظاہرہ کرے ۔ اسی خاطر ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے استعماری ممالک کمزور اقوام کو غلامی میں جکڑنے، ان کے مصالح و فوائد کو ہتھیانے اور ان کے انقلابات کو دبانے _ایسے گٹھیاترین وسائل کی جانب بے بس اور مجبور ہو جاتے ہیں ۔ (۷)
۷۔الحاد کے سوشل اور سماجی نتائج
ملحدوں کے معاشرہ کو آپ ایسے خیال کیجیے کہ جو نہ کسی حلال کو حلال جانتاہے اور نہ کسی حرام کو حرام ۔ توہلاکت خیز چیزوں میں سے جوآپ چاہیں ‘وہ آپ اس معاشرہ میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ بے دین ان ہلاکت خیز اشیاء سے کسی صورت اجتناب نہیں کرتا۔ جب تک کہ اسے کسی انجام ِ بد میں مبتلا ہوجانے کا خوف نہیں ہو جاتا ۔
*معاصر الحادی تحریک کے مسلمانوں پر اثرات
شروع سے پوری دنیا کے اکثرو بیشتر مسلمان اپنے دین ، ایمان بالغیب اور جنت وجہنم پر ایمان سے جڑے ہوئے ہیں اور شرعی عبادات پر قائم و دائم ہیں ۔وللّٰہ الحمد۔ مگر الحاد و بے دینی کی لہر مسلمانوں کی زندگی کے بیشتر جوانب خصوصا معاملات ، اخلاق اور تعلقات ِ عامہ پرحاوی ہورہی ہے ۔ اور دشمنوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے دین ، عقیدہ اور قوتوں کے بارے میں شک پیدا کرنے کے لیے بڑی بڑی کوششیں کی جارہی ہیں ۔
آج مسلمان معاشرے اپنے مسلّمات و ثوابت پر طعن و تشنیع کے مسلسل حملوں کا سامنا کرر ہے ہیں۔ وہ اس چیز کا بھی مقابلہ کررہے ہیں کہ انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر سے غافل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بلکہ ان مسلم معاشروں کو اس چیز کا بھی سامنا ہے کہ انہیں شناخت ، فکر اور فلسفیانہ تصادم کی مشکلا ت میں ہی الجھاکررکھاجائے ۔ یہ سب کچھ اسلام کے ’ فرزندان ‘ کے ہاتھوں داخلی سطح پر اسلام کو گرادینے کے نظریہ کی خاطر مسلسل کیا جارہا ہے ۔
آج مسلمانوں کے نوجوانوں میں جس قدر فکری شبہات اور بوہیمی(مطلق آزادانہ) خواہشات پھیلائی جارہی ہیں ‘ یہ اعدائے اسلام کی جانب سے کوئی نئی بات ہے نہ اجنبی ۔ بلکہ حق و باطل کے معرکہ میں یہ الٰہی سنت ہے اور ربانی طریقہ ۔ لیکن ایک چیز نئی ہے جسے اِس الحادی حملہ نے اوڑھ رکھا ہے ۔یعنی بے دینی کا یہ حملہ جدیدیت (Modrenism)کے لبادہ میں ہے اور ٹیکنالوجی ، مال ودولت اور میڈیا کے وسائل سے لیس اور مسلح ہے۔
عربی تحریر :ایمان بنت ابراہیم الرشید ترجمہ : محمد عدنان
حواشی و حوالہ جات
ویب ایڈریس:
http://www.alukah.net/library/0/103101/
(۱)دیکھیے:کواشف زیوف المذاھب المعاصرۃ مصنف : عبدالرحمن المیدانی ص۴۳۳
(۲) العودۃ الیٰ الایمان مصنف : ھیثم طلعت ص ۱۱:۱۲
(۳) دیکھیے :الالحاد اسبابہ وعلاجہ مصنف:ابو سعید الجزائری
(۴)دیکھیے : الالحاد اسباب ھٰذہ الظاھرۃ وطرق علاجھا مصنف: عبد الرحمن عبد الخالق
(۵)دیکھیے: ملیشیا الإلحاد مصنف:عبد اللہ العجیری، خلاصہ (۲۱-۸۳)
(۶)دیکھیے :ظاھرۃ الالحاد ماحقیقتھا فی مجتمعاتنا العربیۃ و الاسلامیۃ