(مولانا ابوالکلام آزاد کے تجربات کی روشنی میں )
یہ نقطہ نظر بھی پیش نظر رہے کہ انسانی معلومات کے عدم سےحقیقت معدوم نہیں ہوسکتی۔اگر کسی دوا کا خاصہ ابوبکررازی اور ابن بیطار سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھا تو اس کا یہ معنی نہیں کہ دنیامیں اس سے پہلے وہ دواموجودبھی نہ تھی۔کونین ہمیشہ سے موجود،اور جب سے موجود ہے،اسی وقت سے دافع تپ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا خاصہ تمہیں کل معلوم ہوا۔بہر حال یہ مثال بعینہ امراض معنویہ از قبیل شکوک و شبہات و انکار جحود اور ان کے علاج کی بھی ہے۔شک و شبہ کفر وانکار کا مرض ایک ہی ہے اور اس کا علاج بھی ایک ہی ہےہمیشہ سے یکساں مرض، اور ہمیشہ سے یکساں علاج،یہ بات نہیں ہے کہ معلومات و مکشوفات کے بدلنے سے وہ بھی بدل جائے۔(تذکرہ،صفحہ۳۷۔۲۳۶)
شک اور غفلت کا روگ اور کامیابی کی توقع:
کیا دنیا میں کوئی کامیابی بلا ایمان مل سکتی ہے۔کیا تم شک کا روگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی سی چھوٹی کامیابی پاسکتے ہو۔کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھر جو اور چاول بھی پاسکتے ہو جب تک تمہارے اندر طلب کے لیئے حق نہ ہو۔کیا ایک لمحہ کیلئے دنیا کی کوئی کامیابی اپنا چہرہ تمھیں دیکھا سکتی ہے۔جب تک کہ تم حق کی راہ میں قربانیاں دینےکیلئے تیار نہ ہو۔
خدا کی اس کائنات کے ایک ایک ذرے کے اندر اس حقیقت کی عالمگیر تصدیق موجود ہے۔اور اس دنیا میں کامیابی کا کوئی چہرہ نہیں دیکھ سکتا جب تک وہ ایمان،حق اور صبر کی منزل سے نہ گزرے۔اللہ کا ہر قانون ہر اڑنے والے پرندے کیلئے ہے۔کیا اللہ اپنا قانون تمہارے لیئے بدل دے گاکیا خدا تمہاری غفلتوں کا ساتھ دے گااگر تم اپنی غفلت کی وجہ سے اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو توتم سے بڑھ کر اپنی موت کی طرف جانے والا کوئی نہیں ہے۔(خطبات آزاد،صفحہ ۶۱)۔
شک کا عارضہ اور ہدایت کا ظہور:
اصل یہ ہے کہ انسان کاعارضہ شک و شبہات اور موت انکار حجود کا اصلی سرچشمہ خوف اس کی فکرونظر کی ایک طبیعت ثانیہ ہے جو انسان کی ہدایت اصلی و اصلی کے بعد ہی اسباب مذکورہ قرآن و سنت کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی، اور جس طرح ظہور ہدایت و دعوت الی الیقین میں حقیقت کا ظہور یکساں رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس طبیعت ثانیہ و عارضہ کا ظہور بھی ایک ہی صورت ایک ہی رنگ روپ، ایک ہی لب و لہجہ بلکہ ایک ہی طرح کی آوازوں اور بولیوں میں ہمیشہ ہوتا رہا۔(تذکرہ، صفحہ ۲۵۔۲۲۴) ۔
خلاف عقل یا ماورائے عقل:
وہ ساری باتیں جن کا امکان انسانی دماغ میں آسکتا ہے،عقل کے مطابق ہیں۔اس میں سے کوئی بات بھی عقل کے خلاف نہیں،البتہ اس کا علاج ہے کہ خود تمہاری ہی عقل راہِ خلاف میں گم ہے۔تم نے آج تک یہ موٹی سی بات بھی نہ سمجھی کہ کسی بات کے ماورائے عقل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلاف عقل بھی ہو۔(افکار آزاد،ص ۱۲۶)۔
اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی ساری فکری گمراہیوں کا اصلی سرچشمہ یہی بات ہے یا تو وہ عقل و بینش سے اس قدر کورا ہو جاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتاہے اور ہرراہ میں آنکھیں بند کیے چلتا رہتا ہے یا سمجھ بوجھ کا اس طرح غلط استعمال کرتا ہے کہ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالاترہوئی۔اُسنے فورٌا جھٹلا دی۔
گویا حقیقت کے اثبات و وجود کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہے کہ ایک خاص شخص کی سمجھ ادراک کرسکتی ہے یا نہیں۔
دونوں حالتیں علم و بصیرت کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ عقل و بینش سے محرومی اور عقلی ترقی کا فقدان ہے۔جس عقل و بصیرت کا تقاضہ یہ ہوا ہو کہ حقیقت و وہم میں امتیاز کریں۔وہی متقاضی ہوں کہ کوئی بات محض اس لیئے نہ جھٹلادیں کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ عقل کا پہلا تقاضہ ہمیں وہم پرستی و جہل سے روکتا ہےدوسرا شک و الحاد سے۔
قرآن کہتا ہے دونوں حالتیں یکساں طور پر جَہل و کَوری کی حالتیں ہیں اور اہل علم و عرفان دونوں راہوں سے دور ہیں۔ جو نہ تو جہل و وہم کی راہ چلتے ہیں نہ شک و الحاد کی۔
(افکارآزاد۔ص ۷۵۔۱۴۷)۔
قرآن نے بیک وقت دونوں باتوں کی مذمت کی ہے:اس کی بھی کہ بغیر علم و بصیرت کے کوئی بات مان لی جائے اور…اس کی بھی کہ محض عدم ادراک(کسی بات کے دائرہ عقل میں ناسمانے) کی بناپر کوئی بات جھٹلادی جائے۔بل کذبوابمالم یحیطوابعلمہ(ترجمان القرآن، جلد سوم، صفحہ ۵۸۹)۔
امراض قلب و روح اور دارالشفائے وحی:
قلب و روح کی جتنی بیماریاں ہیں اصل مبدء ان کا دو قسموں سے باہر نہیں۔ایک مرض کا نام الحاد و انکار ہے۔دوسری کا توہم و سو فسطائیت۔ باقی تمام بیماریاں اسی کی اتباع و عوارض و فروع ہیں۔ اور دونوں قسموں میں ظہور مرض کے علائم و آثار و عواقب مشترک ہیں۔یعنی دونوں کا نتیجہ شک و جہل و اضطراب اور فطرت کی طمانیت اور سرور و راحت قلبی کا ازالہ یعنی باصطلاح قرآن حکیم نفس مطمئنہ کا فقدان۔
پس مرض بلحاظ علت و ظہور ہر حال میں صرف یہی ہوا کہ شک و ظلمت،اور اس عالم میں وحی الہی اور حکمت نبوت اور ان سے ماخوذ و مکتب کے علاوہ جو کچھ ہے ’’یقین’’ ’’برھان’’ ’’بصیرت‘‘ اور ’’فرقان‘‘ نہیں ہے، اور اسی لیئے دعوت خاتم الادیان و مکمل الشرائع کی نسبت اکثر خطبات نبویہ میں یہ اعلان پاتے ہوکہ اس کا ظہور کرہ ارض کے کمال جہل و فقدان علم کے وقتوں میں ہوا۔ یعنی اس لیئے ہوا تاکہ علم و نور سے دنیا کو بھر پور کردے،اور علم و نور نہیں ہے مگر یقین زوال شک و ریب۔ علی الخصوص اولین خطبہ جمعہ بالمدینہ میں فرمایا:
پس ظاہر ہے کہ جن نام نہاد علوم کا ماحاصل خود ظلمت ظن و شک اور کوری وہم و رائے سے زیادہ نہیں،وہ مریضان یقین و اعتقاد کےلئے کیونکر نقطہ شفاء ہوسکتے ہیں اور جو خود سر گشتہ راہ اور داماندہ ہے وہ دوسرے گم کردہ راہوں کی کیا رہنمائی کرسکتاہے
مرض کا ازالہ دوا سے ہوسکتا ہے، نہ کہ خود تولید مرض سے۔
اگر دنیا کا اصلی مرض ’’یقین‘‘ اور ’’بصیرت‘‘ سے محرومی ہے، اور شک و گمان کی ہلاکت تو اس کا علاج وہ کیوں کرسکتے ہیں جن کا خود اعلان یہ ہے کہ ہمارا انتہائے فکر و ادراک اس سے زیادہ نہیں کہ ہم نہیں جانتے اور نہیں کہ سکتے کہ کیا ہے اور کس کے لیئے ہے۔!
اس کا علاج اور نسخہ” شفاء لمافی الصدور۔ ”تو صرف اسی” اعلم الخلائق و اعرف العباد ”کے دار الشفائے وحی میں مل سکتا ہے جو شک کی جگہ یقین کا، ظلمت کی جگہ نور کا،عدم علم کی جگہ علم و بصیرت کا ظن و قیاس و گمان کی جگہ بینۃ و حجت کا، برہان و فرقان کا دعوی اور اعلان کررہا ہو۔ پھر تمہارے پاس بھی کوئی ’’یقین‘‘ اور ’’علم و بصیرت‘‘ ہے جس کو دنیا کے آگے پیش کرسکتے ہو۔(تذکرہ، صفحہ۹۲۔۱۸۵۵)۔