کیا یہ کائنات کسی تسلسل کا حصّہ ہے؟اگر ہاں، تو قبل ِکائنات یعنی عدم کی ماہیّت کیا ہے؟
شے، عدَم یا لا شے؟
عدم ایک پراسرار مظہر ہے۔ یہ کائنات مادّہ پر مبنی ہے جسے ہم شے یا Matter کہتے ہیں، اشیاء کا مجموعہ ہی کائنات ہے۔ شے کے حوالے سے جب ہم کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہے یا “لاشے”، نابود یا عدم، تو درحقیقت ہم صرف شے کے حوالے سے with reference to matter ہی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اور مزید یہ کہ ہم صرف اور صرف وجود کے پیرائے میں ہی بات کر رہے ہوتے ہیں (only within the parameters of existence) کیونکہ وجود کا تعلّق اشیاء اور مادّے ہی سے ہے، تو جب کچھ نہیں تھا تو وجود کا تصوّر بھی نہیں تھا۔ یعنی مادّے کے ظاہر ہونے سے پہلے عدم میں خود وجودیت عیاں ہوئی یا تخلیق کی گئی۔
یہ نکتہ توجّہ چاہتا ہے کہ وجودیت عدم سے جدا بذاتِ خود ایک مظہر Phenomenon ہے کہ جس کے مخصوص اور محدود طبعی پیرائے ہوسکتے ہیں، اسی لیے انسان کائنات اور خالق کو وجود کے حوالے سے ہی سمجھنے کا مکلّف ہے! یعنی انسان اور وجودیت ایسے ہیں جیسے کہ مچھلی اور سمندر، گویا انسان وجودیت کے سمندرمیں تیرتی مخلوق۔ وجودیت کے پیرائے میں لا وجودیت nonexistence کے بارے میں ہم یہی سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے ایک خلا یا لامحدود سنّاٹا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ابتدائے کائنات سے پہلے کچھ نہیں تھا تو یہ صرف وجود کے حوالے سے درست مقولہ ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدم میں وجود سے بالا کچھ اجنبی مظہر phenomenon ہو۔ گویا “بالائے وجود” Meta-existence میں جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارے لیے” کچھ نہیں” ہی کہلائے گا، حالانکہ ہو سکتا ہے کہ وہاں پہ انسانی شعور سے بالا کچھ اور غیر طبعی یا اجنبی حقائق ہوں۔ گویا یہاں ہم صرف اپنی لُغت اور علم تک ہی با شعور ہیں۔
ایک بات بہرحال عقل قبول کرتی ہے کہ اُس عظیم تخلیقی ابتدا سے قبل یقینا کوئی ایسا ماحول موجود تھا جو کہ بالائے وجود تھا یعنی عدم بھی کوئی ماحول یا مظہر تھا جو ہمارے شعور و عقل سے ماورا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اجنبی اِرتعاشات Alien Frequencies ہوں جو شاید ابھی ہم سمجھ نہ پا رہے ہوں یا ہم سے اوجھل ہوں۔ لیکن اس کا ایک اثر تو ہمارے خیالات میں جاگزیں ہے، تبھی تو ہم اس کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اگر ہماری لغت یا Vocabulary کے حوالے سے کوئی مافوق التصوّر ذہانت، لامحدود ارادہ یا لامحدود زندگی موجود ہو سکتی ہے تو پھر اس مفروضے hypothesis پر غور کرنا عین منطقی ہوگا کہ اس لامحدود قوتِ تخیّل یا اِرادے نے اس کائنات کی تخلیق وجودیت کے پیرائے میں کی اور انسانوں کو اس میں ایک خاص مقصد کے تحت داخل کر دیا تاکہ وقت، مادّہ اور حیات یعنی کُل وجودیت کو ایک کائناتی ماحول میں مقیّد کر کے انسان کا امتحان لیا جائے۔ اس نکتے کی تفصیلی وضاحت آگے بھی آئے گی۔
مختصراً انسان وجودیت (وقت، مادّہ و حیات) کے مدار میں گردش کرتا ہوا ذی شعور ہے، جس کی عمومی سو چ اور عمل کا محور صرف وجود اور مادّہ ہے۔ انسان ہر لمحہ اور لگاتار ابھرتے واقعات و معاملات و جذبات کے عمل اور ردّعمل کے دائرے میں مصروف، منہمک اور اُلجھا رہتا ہے۔ اُس کا شعور، حواس، تجسّس، علم، تجربات و نتائج اور جذبات ایک طرح کا خوشی، غم، دکھ سکھ کا ایک مصنوعی ماحول یا طبعی دھوکہ Physical Illusion تخلیق کیے رہتے ہیں کہ انسان اُس کو ہی حقیقت Reality گرداننے میں مجبور ہوتا ہے کیونکہ اُس کے حواس کا پیغام یہی ہوتا ہے، جبکہ برتر حقیقت انسانی حواسِ خمسہ پر مبنی شعورکی پہنچ سے باہر ہے۔ دیکھیں جب انسان کسی مشین کو مصنوعی ذہانت Artficial Intelligence دیتا ہے تووہ ایک روبوٹ بن جاتی ہے، جس کے پاس ادنیٰ درجے کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے۔ اگر کسی طرح اس میں “ذات کا شعور” ڈال دیا جائے تو پھر وہ روبوٹ ایک درجہ اوپر ہو کر مصنوعی ذہانت Artificial Intellegence نہیں بلکہ عقل کا خوگر ہو جائے گا، کیونکہ انسان نے اُسے کسی اعلیٰ تر الیکٹرانک ماحول یا کسی برقی دھوکے Electronic Illusion میں محصور اور مقیم کر دیا۔ بڑے کینوس پر یہی حال انسان کا ہے جو ایک عظیم تر نظام میں مقیم ہے، جہاں وقت کی طنابیں انسان کو جکڑے ہوئے ہیں۔
وقت انسان کو گھیرے ہوئے ایک حرکت پذیر غیر مرئی ہیولا ہے جس میں خیالات اور ان سے جڑے ہوئے واقعات انسانی زندگی پر محیط اور مسلّط رہتے ہیں۔ اس کے رُخوں Dimensions کی گرفت اتنی مضبوط اور سحر انگیز ہے کہ قابل سے قابل محقّق بھی اس غیر مرئی گرفت کی نزاکتیں سمجھے بغیر اسی کے اندر سوچتا، تحقیق کرتا اور نتائج اخذ کرتا ہے۔ کائنات اور زندگی سے متعلق تمام فلسفہ حیات جو کہ طبعی زندگی کی اصلیت کی کھوج میں متعیّن کیا گیا ہے، وہ سب اسی وقت کے صندوق یا کیپسول میں بند ہے، یعنی دنیا کے تمام امور خواہ ذاتی ہوں یا آفاقی، وہ سب وقت کے بہاؤ میں رواں ہیں۔ وقت کا یہ مسلسل بہاؤ ہر لخطہ ایک بدلتا ہوا ماحول اور اس سے منسلک عوامل پیدا کرتا رہتا ہے اور انسان اپنے حواس senses کی وجہ سے مجبورہے کہ ان کو قبول کرے اور ردّعمل دے۔ جذبات، خواہشات اور عمل و ردّعمل ایسا بھنور تخلیق کرتے ہیں کہ مخلوق اس میں گھومتی رہتی ہے۔ بدلتا ہوا وقت اور ابھرتے ہوئے خیالات انسان کو کسی نہ کسی طرح دنیا میں منہمک رکھتے ہیں۔ یہی روزمرّہ کے حالات و واقعات کی بدلتی ہوئی جہتیں Ever Changing Dimensions ہیں جو انسان کو اس کے حواس اور شعور کے تئیں مصروف کار رکھتی ہیں۔
شعور ہماری ذہنی حیات کا وہ طبعی اظہار ہے جو کہ روح کے توسّط سے ہوتا ہے۔ حقیقی سچائی کو مزید سمجھنے کے لیے ہمیں حیوانی شعور اور اس کی متوقّع قسمیں اور انسانی شعور کا فرق سمجھنا ہوگا۔ مختلف حیوانات میں شعور مختلف پیمانوں میں موجود ہوتا ہے، جیساکہ حشرات الارض، پرندے، جانوراور سمندری مخلوقات وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کے شعور کا تعلّق اپنے ماحول اور اس میں حرکیات Movements سے ہے۔ ایک جرثومے سے لے کر ہاتھی یا اونٹ ہو، یا ایک لاروے سے لے کر وھیل مچھلی ہو، سب کے پاس اپنے ماحول کے حوالے سے ایک خاص درجہ کا شعور ہوتا ہے، جو ان کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کا ان حیوانات سے کوئی شعوری رابطہ communication نہیں ہے لہٰذا انسان ان کے شعور کی تنگی یا وسعت کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان کے شعور کی سطح وہ نہیں ہے جو کہ انسان کی ہے۔ انسان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو شعور کی حد کو ناپ سکے یا اُس کا تعیّن کر سکے لہٰذا انسانی شعور بھی لامحدود تو نہیں ہوسکتا، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے پاس مخلوق میں برتر طبعی شعور ہے، جبکہ کوئی اجنبی یا غیر مرئی شعور Unseen/Abstract Alien Conciousness بھی کہیں موجود ہوسکتا ہے۔
ہماری سوچ کی راہیں لامتناہی اس لیے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لامتناہی ہیں۔ ہم حقیقت کا تعیّن اپنے شعور اور حواس سے کرتے ہیں۔ انسان اسی علم کو مکمّل حقیقت سمجھے گا جہاں پر اس کا شعور مزید آگہی سے قاصر ہوگا۔ ہم حیوانات کو باشعور اور نباتات کو نامعلوم شعور کا حامل سمجھتے ہیں، اور جمادات کو مردہ قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں بے جان نظر آتے ہیں، لیکن ایٹم کے بارے میں ہم کیا کہیں گے؟ اس میں حرکت، توانائی اور تنظیم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ایٹم باشعور ہوسکتا ہے؟
مندرجہ بالا بحث کا صرف یہ مقصد ہے کہ انسا ن کے مقام اور صلاحیّتوں کی حد اور موجودہ ماحول میں اس کا دائرہ کار سمجھا جائے۔ اس بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کسی اجنبی شعور اور اجنبی مظہر کو سمجھنے کی ایک محدود عقلی صلاحیّت ہی رکھتا ہے۔
مجیب الحق حقی