“داؤد نبی (ہم اُن کیلئے ”علیہ السلام“ بولتے ہیں) موآبیوں پر فتح پا کر ان کو اسیر کرتا ہے تو ان کو زمین پر لمبے لٹا لیتا ہے۔ جس طرح کسان بیگھہ ماپتا ہے اُس طرح قیدیوں کے انبوہ کو رسی کے ساتھ ماپتا ہے، دو دو ’ماپ‘ تہ تیغ کرتا جاتا ہے اور ایک ایک ’ماپ‘ چھوڑتا جاتا ہے، جن کی جان بخشی ہوتی ہے ان کو غلام بنا لیتا ہے جو اسے ’جزیہ‘ دیتے ہیں:
اور داؤد نے موآبیوں کو بھی شکست دی۔ اُس نے اُنہیں زمین پر لٹا کر رسی سے ناپا اور رسی کی ہر دو لمبائیوں تک کے لوگ قتل کر دیے گئے اور ہر تیسری لمبائی تک کے زندہ رہنے دیے گئے۔ پس موآبی داؤد کے محکوم ہو کر اُسے خراج دینے لگے۔
(2 Samuel سموئیل 2، اصحاح 8: 2)
اور اب یوشع بن نون کا صحیفہ دیکھئے، جو بائبل میں موسی علیہ السلام کے بعد نبی ہوتے ہیں (اردو بائبل میں ان کو ’یشوع‘ لکھا جاتا ہے):
جنگ کے وقت اسرائیل کی فوجوں نے عی کی فوجوں کو میدان اور ریگستان میں دھکیل دیا۔ اور اُس طرح اسرائیل کی فوج نے عی سے تمام فوجوں کو مارنے کا کام میدان اور ریگستان میں پورا کیا۔ تب اسرائیل کے تمام فوجی عی کو واپس آئے۔ پھر اُنہوں نے اُن لوگوں کو جو شہر میں زندہ بچے تھے مار ڈالا۔ اُس دن عی کے تمام لوگ مارے گئے۔ وہاں 12000 مرد اور عورتیں تھیں۔ یشوع نے اپنے برچھے کو عی کی طرف بطور نشانی رکھا تاکہ اُس کے لوگ شہر کو برباد کر سکیں۔ اور یشوع نے اُنہیں اُس وقت تک نہیں روکا جب تک وہ سب تباہ نہ ہوگئے۔ اسرائیل کے لوگوں نے جانوروں اور شہر کی چیزوں کو اپنے پاس رکھا یہ وہی بات تھی جس کے کرنے کا حکم خداوند نے یشوع کو دیتے وقت کیا تھا۔ تب یشوع نے عی شہر کو جلا دیا وہ شہر ویران چٹانوں کا ڈھیر بن گیا یہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ یشوع نے عی کے بادشاہ کو ایک درخت پر پھانسی پر لٹکا دیا۔ اُس نے اُس کو شام تک ایک درخت پر پھانسی دے کر لٹکا دیا۔ غروب آفتاب پر یشوع نے بادشاہ کی لاش کو درخت سے اُتارنے کی اجازت دی۔ اُنہوں نے اُس کی لاش کو شہر کے دروازہ پر پھینک دیا اور اُسکی لاش کو کئی چٹانوں سے ڈھانک دیا۔ چٹانوں کا وہ ڈھیر آج تک وہاں ہے۔
(Joshua یشوع، اصحاح 8: 29 تا 24)
یہ صحیفہ، اِس سے پہلے کے کئی ابواب پڑھ لیجئے، بعد کے کئی ابواب پڑھتے جائیے، اور پھر تعجب کیجئے کہ ’تلوار‘ کا ’یہ‘ استعمال قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن معترضین کو نہ تو بائبل کو کتابِ مقدس ماننے میں کبھی مانع ہوتا ہے اور نہ بائبل کے انبیاء کو انبیاء ماننے میں! قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں تو اللہ کے فضل سے ہم دیکھتے ہیں ”جہاد“ کے باب میں عدل اور احسان کے ضابطوں کے سوا کچھ نہیں مگر وہ اِن مبلغینِ بائبل کو معاذ اللہ ’ظلم‘ اور ’وحشت‘ نظر آتا ہے البتہ بائبل کتابِ مقدس ہے جسے دھڑا دھڑ اور ’مشنری بنیادوں‘ پر پوری دنیا میں بانٹنا ’مسیح کو خوش کرنے‘ کا مقبول ترین ذریعہ!!! آخر یہ باتیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر ہوئیں عام لوگوں سے نہیں، انبیاء سے ہی تو منسوب ہیں اور کسی اور نے نہیں، بائبل نے ہی تو بیان کی ہیں!
ایسے بددیانت معیار رکھنے والے کیا دنیا کو انصاف سکھائیں گے؟ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔
پھر صحیفہ قضۃ پر آجائیے، یہاں بنی اسرائیل اپنے ایک قبیلے بنی بنیامین سے ناراض ہو کر قسم کھا بیٹھتے ہیں کہ آئندہ وہ اُن کو بیٹیاں نہیں دیں گے۔ اب ان کی نسل کیسے چلے گی؟ قسم توڑ دی تو ’گناہ‘ ہوگا لیکن بنیامین کی نسل بڑھنا بھی از حد ضروری ہے! اِس مسئلے کا حل یوں نکالا جاتا ہے :
“اِس لئے اسرائیل کے لوگوں نے اپنے 12,000 سب سے بہادر سپاہیوں کو یبیس جلعاد شہر کو بھیجا۔ اُنہوں نے اُن فوجوں سے کہا، ”جاؤ اور یبیس جلعاد لوگوں کو عورتوں اور بچوں سمیت اپنی تلوار کے گھاٹ اُتار دو۔ تمہیں یہ ضرور کرنا ہوگا۔ یبیس جلعاد میں ہر ایک مرد کو مار ڈالو۔ اُس عورت کو بھی مار ڈالو جو ایک مرد کے ساتھ رہ چکی ہو۔ لیکن اُس عورت کو نہ مارو جس نے کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلق نہیں کیا ہے۔“ فوجوں نے یہی کیا۔ اُن 12,000 سپاہیوں نے یبیس جلعاد میں 400 ایسی عورتوں کو پایا جنہوں نے کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلق نہیں کیا تھا۔ سپاہی اُن عورتوں کو کنعان کے سیلا کے خیمہ میں لے گئے۔ تب اسرائیل کے لوگوں نے بنیامین کے لوگوں کے پاس ایک پیغام بھیجا۔”
(Judges قضات، اصحاح 41: 13 تا 10)
سموئیل نبی کے صحیفہ اول پر آجائیے:
“داؤد اور اُس کے آدمی گئے اور جسوریوں، عمالیقیوں اور جزریوں پر چھاپا مارا۔ داؤد نے اُس علاقہ کے لوگوں کو شکست دی۔ داؤد نے اُن کی سب بھیڑیں مویشی، گدھے، اونٹ اور کپڑے لے لئے اور اُنہیں واپس اکیس کے پاس لایا لیکن داؤد نے اُن لوگوں میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ داؤد نے ایسا کئی بار کیا۔”
(1 Samuel سموئیل 1: اصحاح 27: 10-8)
بائبل کے عہد قدیم کے صحیفے اِس جیسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کوئی ان کو اکٹھا کرنے لگے تو پوری ایک کتاب بن جائے۔
ہم نے اِن صحیفوں کی یہ چیدہ چید ہ نصوص ہی نقل کی ہیں تاکہ وہ تلوار جو اِن لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں نظر آتی ہے، جبکہ وہ حق اور عدل کی تلوار ہے اور صرف ظلم اور ناانصافی کے خلاف چلی ہے اور قرآن کے سائے میں رہ کر اِس جنگ وخون ریزی سے بھری دنیا کو امن کی قلمرو بنا کر دِکھا چکی ہے ، بجائے اِس کے یہ لوگ اُس تلوار کو ایک نہایت بددیانت سیاق میں دکھا دکھا کر انسانیت کو گمراہ کرسکیں، ایک ایسی تلوار اِن کے مشنریوں کے بستے سے ہی نکال کر دکھا دی جائے جو واقعتا خوفناک ہے۔
ہمارے نزدیک تو اِن نصوص کا پایہء ثبوت کو پہنچنا ہی محل بحث ہے البتہ یہ لوگ اس کتاب پر جس میں مذکورہ بالا اقتباسات ایسی بے حساب نصوص ہیں لوگوں کو ایمان دلواتے پھر رہے ہیں!