عصر حاضر میں جہادکے موضوع پر کام کرنے والوں میں بہت سے اہل علم نے اس سوال سے صرف نظر کیا ہے اور اس کے بجائے اس امر پر بحث کی ہے کہ کیا اسلام صرف “دفاعی جہاد” کو ہی جائز سمجھتا ہے یا “اقدامی جہاد” بھی اس کے نزدیک جائز ہے [مولانا فضل محمد، دعوت جہاد ، ص 393-398، مبشر لاہوری، اسلام میں تصور جہاد، ص66-72]ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ فقہاء کے عام طریقے کے مطابق جہاد کے حکم کی “علت” پر بحث کرتے کیونکہ علت کی موجودگی معلول کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے اور علت کی عدم موجودگی میں معلول بھی نہیں پایا جاتا۔ اگر جہاد کی علت “کفر” ہے، جیسا کہ بعض فقہاء کا موَقف تھا، تو پھر تمام غیر مسلموں کے خلاف جہاد فرض ہوگا، اور اگر جہاد کی علت “محاربہ” ہے، جیساکہ جمہور فقہاء کا مسلک تھا، تو صرف ان لوگوں سے ہی جنگ کی جاسکے گی جو محاربہ کا ارتکاب کرتے ہوں۔ دونوں صورتوں میں بعض اوقات اقدام ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے دفاعی اور اقدامی کی تقسیم مناسب محسوس نہیں ہوتی۔ پھر بھی ایک مسئلہ ہے کہ اگر جہاد صرف دفاع تک ہی محدود ہوتو دفاع میں کون سی صورتیں آتی ہیں؟ کیا دفاع سے مراد ریاست کا دفاع ہے یا امت اور دین کا دفاع بھی اس میں شامل ہے؟ ہم پہلے فقہاء کے طریقے کے مطابق جہاد کی علت پر بحث کریں گے اور اس کے بعد اس حکم کی وسعت کا جائزہ لیں گے۔
:جہاد کی علت:-
جہاد کے حکم کی صحیح نوعیت اور وسعت معلوم کے لیے دفاعی اور اقدامی کی بحث سے ذیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اس حکم کی “علت” اور “غایت” کی تحقیق کی جائے۔
فقہاء کے ایک گروہ کا موَقف یہ تھا کہ قتال کی علت “کفر” ہے۔ یہ قول امام شافعی اور بعض ظاہریہ و حنابلہ سے مروی ہے۔ [شمس الدین محمد بن محمد الخطیب الشربینی، مغنی المحتاج الی شرح المنھاج، بیروت مکتبۃ الحلبی 1933ء، ج4، ص 223، ابوالولید محمد ابن رشد، بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد، الریاض مکتبۃ مصطفٰی باز، 1995ء ج1،ص371]
اس قول کے بموجب کفر کا وجود جب تک باقی رہے گا قتال جاری رہے گا ۔ تاہم اس قول پر چند قوی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتا عورتوں ، بچوں اور دیگر مقاتلین کے قتل سے منع فرمایا۔ اگر قتال کی علت کفر تھی تو اس استثناء کی حیثیت کیا ہوگی؟ مزید یہ کہ اگر کفر علت ہو تو جنگ اس وقت تک جاری رہنی چاہئے جب تک کہ تمام کفار مسلمان نہ ہوجائیں، یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے بھی بس دو ہی راہیں ہوں گی، اسلام قبول کرلیں، نہیں تو انہیں قتل کیا جائے گا۔اس طرح یہ قول بنیادی قرآنی اصول “لا اکراہ فی الدین” سے متصادم ہوجاتا ہے۔ نیز اس قول کے بموجب اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی اقامت اور ان سے جزیے کی وصولی بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ [اس موضوع پر امام ابن تیمیہ رح کی تفصیلی تنقید کے لیے دیکھیے : قاعدۃ فی قتال الکفار، ص 123-125]
ان قباحتوں کے پیش نظر بعض لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ قتال کی علت “کفر” نہیں بلکہ “شوکت کفر” ہے۔ گویا غیر مسلموں کو ان کے دین پر عمل کی اجازت تو ہوگی مگر انہیں یہ حق نہیں حاصل ہوگا کہ وہ منظم ریاست کی صورت میں رہیں، اور قتال اس وقت تک جاری رہیگا جب تک کفر کی شان و شوکت باقی ہے۔[ مولانا مودودی نے جہاد کی اس مخصوص قسم کو “مصلحانہ جہاد” قرار دیا ہے جو “فتنہ” اور “فساد” کے خاتمے کے لئے کیا جاتا ہے اور مولانا مودودی کے خیال میں “کافرانہ نظامِ حکومت” ہی فتنہ و فساد کا بنیادی سبب ہے۔ الجہاد فی الاسلام، ص 117-118] جب اسلام اور مسلمانوں کی بالادستی قائم ہوجائے تو غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اسلامی ریاست کے زیر سایہ اپنے مذہب پر عمل کریں، انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس دوسرے قول کے لئے عام طور پر استدلال ان آیات و احادیث سے کیا جاتا ہے جن میں یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کے خاص پہلو’ عذاب الٰہی ‘ کا ذکر کیا گیا ہو، یا جن میں اسلام اور کفر کی مستقل نظریاتی کشمکش کا ذکر ہو۔ نیز بعض اوقات ان آیات و احادیث سے استدلال جن میں قتال کے فریضے کا مطلقا ذکر آیا ہے ۔ مثلا سورۃ التوبۃ میں حکم ہوا ہے:
[اے ایمان والو ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے]﴿سورۃ التوبۃ آیت 123﴾
دوسری طرف وہ آیات ہیں جو قتال کے حکم کو محاربے کے ساتھ مقید کردیتی ہیں۔ مثلا سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو بیشک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو]﴿سورۃ البقرۃ، آیت۱۹۰﴾
ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ سورۃ التوبۃ کی آیات نے سورۃ البقرۃ کی آیات کو منسوخ کردیاہے۔ لیکن یہ دلیل انتہائی ضعیف ہے کیونکہ نسخ کی طرف تبھی جایا جاتا ہے جب جمع ممکن نہ ہو، جبکہ یہاں “حمل المطلق علی القید” کے قاعدے پر جمع ممکن ہے۔ اور پھر سورۃ البقرۃ کی آیات کس طرح منسوخ ہوسکتی ہیں جبکہ وہ قتال کی علت بیان کر رہی ہیں؟ ان وجوہات کی بناء پر جمہور فقہاء، جن میں امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور شافعیہ و حنابلہ کی اکثریت شامل ہیں، کی رائے یہ ہے کہ قتال کی علت “کفر” یا “شوکت کفر” نہیں بلکہ “محاربہ” ہے ۔ دیکھیے[ابن رشد، بدایۃ المجتھد، ج1، ص 371؛ ابن الھمام، فتح القدیر، ج4، ص291؛ سحنون عبدالسلام بن سعید بن حبیب التنوخی، المدونۃ الکبری،{القاہرۃ، دارالباز،1323ھ}، ج3،ص6؛ ابن تیمیہ، قاعدۃ فی قتال الکفار، ص116]
اگر مان لیا جائے کہ قتال کی علت “کفر” یا “شوکت کفر” کا خاتمہ ہے تو پھر اس کا لازمی تقاضہ یہ ہوگا کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ مسلسل برسرجنگ رہیں گے، امن کا معاہدہ اول تو کیا نہیں جائے گا، اور اگر کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت کیا گیا تو وہ بھی موقت ہوگا جس کی حیثیت جنگ بندی کی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر جمہور فقہاء کرام کی رائے کے مطابق مان لیا جائے کہ قتال کی علت “محاربہ” ہے تو پھر قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مخالفین کی جانب سے محاربہ پایا جائے۔ جب وہ محاربہ ترک کرکے امن کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہوں تو ان کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی۔ جمہور کے قول کا لازمی تقاضہ یہ بھی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ جائز ہو، چاہے یہ معاہدہ موقت ہو یا وقت کی قید سے آذاد ہو۔ امام سرخسی فرماتے ہیں: والمقصود ان یامن المسلمون و یتمکنوا من القیام بمصالح دینھم و سنیاھم۔ [المبسوط، کتاب السیر، ج10، ص4]ترجمہ:[ مقصود یہ ہے کہ مومن امن سے رہیں اور ان کے لیے اپنے دین اور دنیا کے مصالح کا حصول ممکن ہوسکے۔]
جمہور کے موقف پر عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث مبارکہ میں جہاد کے ہمیشہ جاری رہنے کا اعلان کیا گیا ہے:ترجمہ :جہاد جاری ہے جب سے مجھے اللہ نے بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے جنگ کریں، اسے ظالم کا ظلم باطل کرسکے گا نا عادل کا عدل۔ [سنن ابی داوَد، کتاب الجھاد، باب فی الغزو مع ائمۃ الجور ، رقم الحدیث 2170]
یہ حدیث دیگر کئی آیات و احادیث کی طرح جہاد کی فرضیت بیان کر رہی ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہاد کی فرضیت تا قیامت قائم رہے گی اور منسوخ نہیں ہوگی، لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ مسلمان ایک مسلسل جنگ جاری رکھیں، چاہے کوئی ان سے جنگ کرے یا نہ کرے، اور چاہے کسی نے محاربے کا رتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ بلکہ جب بھی قتال کا سبب پایا جائے گا قتال کیا جائے گامثلا صلوٰۃ و زکوٰۃ کی فرضیت بھی تا قیامت قائم رہے گی، مگر اس پر عمل تبھی ہوگا جب فرضیت کا سبب پایا جائے گا [مثلا نماز ظہر کے لیے زوال شمس، یا زکوٰۃ کے لیے نصاب کے برابر مال کی ملکیت] ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں رسالت کی ابتداء سے “جہاد” کا ذکر ہے، اور معلوم ہے کہ مکی دور میں جہاد کا لفظ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا تھا۔ پس حدیث میں اسی وسیع مفہوم میں جہاد کے جاری رہنے کا ذکر ہے ۔ البتہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کی خاص اور اعلٰی قسم ، قتال، کا سبب ہوگا تو قتال بھی جاری رہے گا۔ پس قیامت سے کچھ قبل بھی مومن دجال کے خلاف قتال کریں گے۔
پھر اگر اس حدیث کا یہ مفہوم لیا جائے کہ جہاد بمعنی قتال کی کاروائی تا قیامت بغیر کسی انقطاع کے جاری رہے گی تو اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں قتال کے اسباب یعنی محاربے کی مختلف صورتیں قیامت تک موجود رہیں گی اس لیے قتال بھی جاری رہے گا۔ گویا اس حدیث کی حیثیت پیشنگوئی کی ہوجائیگی۔ کسی بھی آیت یا حدیث کو اس سے مخصوص سیاق و سباق اور دیگر آیات و احادیث کے ذخیرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ۔
مسلسل جنگ کے نظریے کے اثبات کے لئے بعض اوقات ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں جہاد کی فضیلت ذکر ہوتی ہے اور اس سلسلے میں ان احادیث کے مخصوص موقع و محل اور دیگر آیات و احادیث کے ساتھ ان کے تعلق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ مثلا عام طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے:الجنۃ تحت ظلال السیوف ۔[جنت تلواروں کی چھاوَں میں ہے۔]
اب ایک تو اس حدیث کا مخصوص موقع و محل ہے ۔ اس بات کی روایت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے حروریہ کے موقع پر کی اور کہا کہ جب ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ دشمنوں کے ساتھ ہورہی تھی تو اس موقع پر آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا گویا جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ترغیب دے رہے تھے اور ان کا حوصلہ ابھار رہے تھے۔ اگر اس مخصوص موقع و محل کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز بھی کیا جائے تو دیکھیے کہ اس حدیث کی ابتداکے الفاظ کیا ہیں؟
لا تتمنوا لقاء العدو، و سلوا اللہ العافیۃ ۔ واذا لقیتموھم فاصبروا، واعلموا اَن الجنۃ تحت ظلال السیوف۔ [صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب لا تتمنوا لقاء العدو، رقم الحدیث 2801]ترجمہ: [ دشمن سے مد بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگو۔ ہاں، اگر ان سے تمہارا سامنا ہوتو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھاوَں میں ہے۔]
اب اگر حدیث کی ابتداء کو دیکھا جائے تو مسلسل جنگ کے نظریے کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی تمنا کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
مزید برآں، اگر ابتدائی جملوں کو بھی نظر انداز کیا جائے اور صرف آخری جملے کو دیکھا جائے تب بھی اس سے مسلسل جنگ کے لیے استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس سے تو صرف جہادکی فضیلت ثابت ہوتی ہے، جس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اوقات سورۃ التوبۃ کی آیت کا یہ ٹکڑا پیش کیا جاتا ہے ہے:
فقاتلوا اَئمۃ الکفر ۔[تو کفر کے ان پیشواوَں سے لڑو۔]
اب پہلے تو اس آیت کو پورا نقل کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص موقع و محل سے متعلق حکم ہے۔ چنانچہ آیت شروع سے یوں ہے:[ترجمہ:اور اگر وہ تم سے معاہدہ کرنے کے بعد اسے توڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے ان پیشواوَں سے لڑو، ان کے معاہدے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، تاکہ یہ باز آجائیں۔]﴿سورۃ التوبۃ آیت12﴾
سورۃ التوبۃ کے بہت سے دیگر احکام کی طرح یہ حکم خاص شرائط کیساتھ ہے، کفر کے پیشواوَں سے مراد ہر دور میں کفار کے وہ سردار ہوں گے جو آیت میں مذکور جرائم کا ارتکاب کریں، یعنی عہد شکنی، یا مسلمانوں کے دین میں طعن جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی شامل ہے’ کرنے والے ۔ چنانچہ یہ حکم تمام غیر مسلموں یا ان کے تمام سرداروں کے متعلق نہیں ہے۔
“کفر کی شان و شوکت توڑنا” اگر وہ دعوت کے راستے میں مزاحم ہو یا مزاحم محسوس ہو ایک ضرورت ہوسکتی ہے لیکن یہ قانونی علت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ منضبط وصف نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے علت “محاربۃ” ذکر کی ہے۔ فقہائے کرام تبھی جنگ کے جواز کے قائل ہوتے ہیں جب یہ بات محض مفروضہ نہ رہے بلکہ عملاً نظر آئے کہ کوئی حکومت اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہے ؛ اس رکاوٹ کو دور کرنے کا راستہ صرف جنگ ہی کی صورت میں ہے ؛ اور مسلمانوں میں جنگ کی استطاعت بھی ہے۔یہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ محاربہ کی ایک صورت ہے۔
محاربہ کی مختلف صورتیں :
جہاد کی علت ‘ محاربہ ‘ متعین ہوجانے کے بعد اس پر بحث ضروری ہے کہ ان صورتوں کا ذکر کیا جائے جن کو اسلامی قانون نے محاربے میں داخل قرار دیا ہے یعنی وہ صورتیں جن کے مخالفین میں پائے جانے پر اسلامی ریاست کو جنگ و قتال کی اجازت ہوتی ہے اور بزور قوت اسکا سدباب کرنا اسکے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہاں ان صورتوں کا مختصرا رذکرہ پیش کیا جاتا ہے۔
1۔ دارالاسلام کے خلاف بیرونی جارحیت ٭:
یہ واضح ہے کہ دارالاسلام پر حملے کی صورت میں حملہ آور محاربین بن جاتے ہیں اور ان کے خلاف جہاد واجب ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: [اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو، کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔]﴿سورۃ البقرۃ، آیت۱۹۰﴾
بعض مخصوص حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی جانب سے باقاعدہ حملے سے قبل پیش بندی کے اقدام کے طور پر بھی کاروائی کی تھی، جس کی مثالیں غزوہَ خیبر، غزوہَ بنی مصطلق اور غزوہَ تبوک ہیں۔
2۔ امن معاہدات کی خلاف ورزی٭
اگر مسلمانوں نے غیر مسلموں سے امن کا معاہدہ کیا ہو اور وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو ایسی صورت میں ان کے خلاف جنگی اقدام جائز ہوجاتا ہے ۔ اس طرح کے امن معاہدات دو طرح کے پوتے ہیں:
1- عقد ذمہ: جس کی رو سے غیر مسلموں کو دارالاسلام میں مستقل اقامت کا حق مل جاتا ہے، انہیں عصمت حاصل ہوجاتی ہے اور ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوجاتی ہے ۔
2- عقد موادعہ: جس کی رو سے دارالاسلام سے باہر مستقل اقامت پذیر غیر مسلموں کے ساتھ دارالاسلام کے مسلمانوں کے پر امن تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اہل موادعہ کے خلاف جنگی اقدام اس وقت تک ناجائز ہوتا ہے جب تک عقد موادعہ نافذ العمل ہوتا ہے۔
عقد موازعہ کے طرز پر امن معاہدہ کسی فرد واحد یا چند مخصوص افراد سے بھی کیا جاسکتا ہے جس کی رو سے اس فرد یا افراد کو دارالاسلام میں داخل ہونے اور وہاں عارضی قیام کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس کو “امان ” کہا جاتا ہے اور جسے امان دیا جائے اسے “مستامن” کہا جاتا ہے۔ {جیسا کہ اس دور میں ویزہ جاری کرنا، ویزہ کے ذریعہ سے غیر مسلموں کو دارالاسلام میں عارضی قیام کی اجازت حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے قوانین کی پابندی کریگا، لیکن اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسکا امان ختم ہوجائیگا}
اگر اس طرح کے معاہدے کے بعد دوسرے فریق نے کوئی “جنگی اقدام” کیا تو یہ امن معاہدہ ختم ہوجاتا ہے اور اس فریق کے خلاف فوجی کاروائی جائز ہوجاتی ہے۔ جہاں تک عقد ذمہ کا تعلق ہے، فقہاء احناف کے مطابق یہ صرف دو باتوں سے ٹوٹتا ہے:
1 – دارالاسلام کی حکومت کے خلاف بغاوت، یا
2 –دارالاسلام کی سکونت ترک کرکے دارالحرب میں مستقل اقامت اختیار کرنا- [الھدایۃ، کتاب السیر، باب الجزیۃ، فصل ولا یجوز احداث بیعۃ، ج2، ص404-405]
عقد موازعہ عقد غیر لازم ہے، یعنی کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر ختم کرسکتا ہے ۔ [ امام علاوَ الدین الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب السیر، ج6، ص73]
البتہ مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ اگر وہ اسے یکطرفہ طور پر ختم کر رہے ہیں تو کسی قسم کے جنگی اقدام سے قبل دوسرے فریق کو باقاعدہ اطلاع دیں۔ اسی طرح مستامن کے ساتھ عقد امان ختم کرنے کی صورت میں اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچانا لازم ہوتا ہے۔ جہاں تک عقد ذمہ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کے حق میں عقد لازم ہے، یعنی مسلمان اسے اپنی جانب سے ختم نہیں کرسکتے- ۔ [ امام علاوَ الدین الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب السیر، ج6، ص82]
عقد موادعہ کے بعد اگر اہل موادعہ اپنے دار کے اندر مقیم مسلمانوں پر ظلم کریں تو اس سے معاہدہ ٹوٹ نہیں جاتا لیکن اگر وہ مسلمان دارالاسلام کے مسلمانوں کی مدد طلب کریں تو ان پر ان کی مدد واجب ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں دارالاسلام کے مسلمانوں پر واجب ہوگا کہ کسی قسم کی جنگی کاروائی سے قبل پہلے عقد موادعہ کے خاتمے کا اعلان کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: [ اور جو لوگ ایمان لے آئے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو تم پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کریں ۔ اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے مگر اس قوم کے خلاف نہیں جس کے ساتھ تمہارا امن کا معاہدہ ہوا ہو۔ اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے مسلسل دیکھ رہا ہے۔]﴿سورۃ الانفال، آیت 72﴾
3۔ دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں پر ظلم٭
جیسا کہ اوپر مذکو ر ہوا ، دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری دارالاسلام کے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی ۔ تاہم اگر ان پر ظلم کیا جا رہا ہو اور وہ ہجرت نہ کرسکتے ہوں تو پھر ان کی مدد مسلمانوں پر لازم ہوجاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: [اور تمہیں ہوا کیا کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان دبائے گئے مردوں ، عورتوں اور بچوں کی مدد کے لیے نہیں لڑ رہے جو پکار پکار کر کہ رہے ہیں کہ اے ہمارےرب: ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمیں اپنی جانب سے کوئی دوست اور اپنی جانب سے کوئی مددگار عنایت فرما:]﴿سورۃ النساء، آیت 75﴾
جہاد کی علت یا فرضیت کی وجوہات-2
تحریر ڈاکٹر مشتاق صاحب، چئیرمین شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد
وقار علی
June 25, 2018 at 7:55 pmعلت القتال کی اس بحث پر جب میں نے ڈاکٹر مشتاق اور عمار ناصر کے مضامین پڑھے تو حیرت ہوئی تھی اور دونوں کو فیس بک پر مطلع بھی کیا تھا کہ آپ دونوں حضرات متضاد رائے پر جمہور کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ یعنی ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ جمہور کا اتفاق اس رائے پر تھا کہ علت القتال محاربہ ہے جبکہ اس کے برعکس عمار صاحب کہتے ہیں کہ جمہور کا اتفاق اس رائے پر تھا کہ علت القتال کفر ہے ۔ اب ہم جیسے کم علم اس کا فیصلہ کیسے کریں؟ تو عمار صاحب نے ازراہ تفنن کہا تھا کہ ووٹنگ کرانی ہوگی ۔ ویسے یہ عقدہ ابھی تک حل طلب ہے کہ ہمارے فقہ میں یہ جمہور ہے کیا ، اس کی تعریف کیا ہے اور اس طرح کے متنازع معاملات میں اصل جمہور کی رائے کس طرح دریافت کی جاسکتی ہے؟
ایڈمن
June 27, 2018 at 3:18 pm“کفر کی شان و شوکت توڑنا اگر وہ دعوت کے راستے میں مزاحم ہو یا مزاحم محسوس ہو ایک ضرورت ہوسکتی ہے لیکن یہ قانونی علت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ منضبط وصف نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے محاربہ کی صورتوں میں سے ایک صورت کے طور پر اسے لایا ہے۔ آپ تحریر مکمل پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ باقی تمام علتیں بھی جو مختلف لوگوں نے بیان کی ہیں انہوں نے اس محاربے کے تحت لائی ہیں اس طرح یہ ذیادہ منضبط اور قانونی علت بن گئی ہے۔