مولانا تقی عثمانی صاحب نہ صرف دیوبندی مکتبِ فکر کی بلکہ عالمِ اسلام کی بڑی شخصیات میں سے ہیں۔ اللہ نے ان سے دین کا کام بڑی سطح پر لیا ہے۔ علم کے ساتھ آپ نے ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفۂ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) سے اصلاح و استرشاد کا تعلق اختیار کیا۔ آپ کی تربیت میں آپ کے باکمال والد مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی بہت ہاتھ ہے۔اس کے علاوہ (جیسا کہ “نقوشِ رفتگاں” کتاب سے اندازہ ہوتا ہے۔) بھی آپ کا تعلق وقت کے بڑے بڑے علم وعمل کے جامع بزرگوں سے رہا ہے۔ اس “جام شریعت” اور “سندان عشق” کے امتزاج کا وجود اس آخری دور میں اہلِ علم میں بہت کمیاب رہا ہے۔ کے ایک کتاب “اسلامی اور سیاسی نظریات” نومبر 2010ء میں طبعِ جدید کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس میں جدید سیاسی نظریات اور نظام کی عمدہ انداز میں مولانا نے وضاحت پیش فرمائی جو اصلاً درسِ نظامی کے فضلا کے ساتھ کی گئی تقاریر تھیں۔ مدارس کے طلبہ کو اس کتاب سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔
تاہم اس کتاب کے حوالے سے المیہ یہ ہوا کہ “خارجی” ذہن کو یہ کتاب استعمار کی حمایت کا بیانیہ نظر آئی، جب کہ “روشن خیال” ذہن کو شدت پسندی کے بیانیے کی راہ ہم وار کرنے میں معاون۔ذیل میں اس بات پر تنقیدی نظر ڈالی جاتی ہے۔
مولانا کی یہ کتاب سال 2010ء میں سامنے آئی تو اس کے جواب میں سال 2012ء میں اس کے رد میں اول الذکر ذہن کی طرف سے “مجھےہے حکمِ اذاں ” نامی کتاب سامنے آئی۔ اس کتاب میں مولانا کو کہیں صریحاً اور کہیں اشارتاً درباری عالم، استعمار کا حامی، علماے سوء کی صف کا فرد اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا ہے۔اس کی وجوہات حسبِ ذیل ہیں:
1- مولانا نے اگرچہ اپنی کتاب میں جمہوریت پر نقد کیا ہے، لیکن موجودہ حالات کے ارتقا کی شکل میں انھوں نے جدید ریاستی نظم کے خلاف جنگ چھیڑے رکھنے کی پالیسی کا انکار کیا ہے۔چناں چہ خلافت کے اسلامی تصور کے باب میں مولانا نے اگرچہ یہی کہا ہے کہ اصل تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا ایک ہی امام ہو، لیکن موجودہ دور میں یہ کام عملا ً کافی مشکل ہے، اس لیے ایک سے زائد حکم رانوں کے وجود پر عمل کرنا ناجائز نہیں اور مجبوری ہے۔ ایک جگہ “کیا ایک سے زائد خلیفہ ہو سکتے ہیں؟” کے عنوان کے تحت جمہور علما کا موقف بیان کرنے کے بعد علامہ عبدالقادر بغدادی ، علامہ ماوردی ، علامہ قرطبی اور مولانا عبدالعزیز فرہاروی رحمہم اللہ کے اقوال کے حوالے لکھتے ہیں:”اسلام جس عالمگیر دعوت کا داعی ہے اور اس میں جس طرح پوری امتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا اہتمام فرمایا گیا ہے، اس کا تقاضا وہی ہے جو جمہور علما کا موقف ہے،یعنی پورے عالمِ اسلام کا ایک ہی خلیفہ یا امام ہو ۔۔لیکن موجودہ حالات میں جہاں عالمِ اسلام پچاس سے زیادہ حکومتوں میں منقسم ہے عملی طور پر ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ممالک کے حکمران متفق ہوں، ورنہ مسلمان ملکوں کے درمیان جنگ کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا، جو یقیناً زیادہ بڑی برائی ہے، اس لیے مجبوری کی حالت میں ان حکومتوں کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے، ورنہ شدید خلفشار لازم آئے گا۔ماضی میں بھی حکومتیں کئی کئی رہی ہیں اور علماے امت نے ان حکومتوں کو نافذ العمل سمجھا ہے۔لہذا اس حد تک دوسرا قول اختیار کرنا مجبوری ہے کہ ان کے احکام کو نافذ کیا جائے۔ واللہ سبحانہ اعلم! “(“اسلام اور سیاسی نظریات”، 261) اس پر “مجھے ہے حکمِ اذاں نے” خلافت کی بحث پر گفتگو کر کے مولانا عثمانی کے موقف کو طاغوت کی اطاعت کے ذیل میں شمار کرتے ہوئے تبصرہ کیا: “کیا “اقامتِ زکاۃ سے بڑھ کر فریضہ “اقامت خلافت” کا نہیں ہے، تو پھر وہ کون سی “مجبوری” ہے جو فریضۂ اقامتِ خلافت کے بجائے طاغوت کی حاکمیت “تسلیم ” کرنے پر مجبور کر رہی ہے؟”ص 29۔
2- غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات” کے عنوان کے تحت مولانا عثمانی نے اپنے والدِ گرامی اور اکابرعلماے دیوبند کی بڑی شخصیت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی “تفسیر معارف القرآن” (جو دینی مدارس میں استفادے کے لیے بہت اہم مرجع ہے۔) سے یہ بات نقل کی ہے: “یہ مضمون بہت سی آیاتِ قرآنیہ میں مجمل اور مفصل مذکورہ ہے، جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ موالات اور دوستی اور محبت سے شدت کے ساتھ روکا گیا ہے، ان تصریحات کو دیکھ کر حقیقتِ حال سے ناواقف غیر مسلموں کو تو یہ شبہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں غیر مسلموں سے کسی قسم کی رواداری اور تعلق کی بلکہ حسنِ اخلاق کی بھی کوئی گنجائش نہیں اور دوسری طرف اس کے مقابل جب قرآن کی بہت سی آیات سے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور عمل سے ، خلفاے راشدین اور دوسرے صحابہ کے تعامل سے غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ہمدردی وغمخواری کے احکام اور ایسے ایسے واقعات ثابت ہوتے ہیں جن کی مثالیں دنیا کی اقوام میں ملنا مشکل ہیں تو ایک سطحی نظر رکھنے والے مسلمان کو بھی اس جگہ قرآن وسنت کے احکام و ارشادات میں باہم تعارض وتصادم محسوس ہونے لگتا ہے، مگر یہ دونوں خیال قرآن کی حقیقی تعلیمات پر طائرانہ نظر اور ناقص تحقیق کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔۔۔ “اس موالات کی بعض ناجائز صورتیں لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: “دوسرا درجہ مواسات کا ہے جس کے معنیٰ ہیں ہمدردی وخیر خواہی اور نفع رسانی کے، یہ بجز کفار اہلِ حرب کے جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں ، باقی سب غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ ۔تیسر ا درجہ مدارات کا ہے، جس کا معنی ہے ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ کے ، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ مقصود ان کو دینی نفع پہنچانا ہو، یا وہ اپنے مہمان ہوں یا ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو۔۔ چوتھا درجہ معاملات کا ہے، ان سے تجارت یا اجرت وملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات کیے جائیں، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔، بجز ایسی حالت کے کہ ان سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ ” اسی طرح مولانا عثمانی نے “معاہدات اور ان پر پابندی”، “غیر مسلموں کےساتھ غمخواری” وغیرہ عنوانات پر بھی گفتگو کی ہے، تاہم شدت پسندی کے بیانیے کو یہ ساری چیزیں سخت ناگوار گزری ہیں۔ مفتی شفیع صاحب پر نقد کرنا تو ممکن نہ تھا کہ اپنے “اکابر” پر زد پڑ سکتی تھی، لیکن مولانا تقی عثمانی چوں کہ ان کے نزدیک “درباری” عالم ہیں،ا س لیے ان پر سخت نقد کیا گیا ہے۔اس بیانیے کے اثبات کے لیے امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کی مثال دی گئی ہے کہ انھیں “ظالم حکمرانوں” نے “چیف جسٹس ” کے منصب کی پیش کش کی، مگر انھوں نے سزابرداشت کرنے پر عمل کیا۔”چیف جسٹس” کے الفاظ سے شاید مولانا عثمانی پر طنز کرنا مقصود تھا کہ آپ بھی “ظالم حکمرانوں” کے سائے میں یہ منصب قبول کر چکے ہیں، لیکن اس اعتراض کے وقت انھیں امام ابویوسف یاد نہیں رہے، جو اپنے وقت کے قاضی القضاۃ رہے۔ اس مثال سے “مجھے ہے حکمِ اذاں” میں صرفِ نظر کیا گیا ہے۔
اس کتاب پر “شدت پسند بیانیے” کے ردعمل پر اتنا عرض کرنا کافی ہے۔اب اس کتاب پر “جوابی بیانیے ” کے حامل حضرات کا ردِ عمل دیکھیے کہ کس طرح اس کو “شدت پسندانہ بیانیے” کا معاون ہتھیار بنا کر پیش کیا گیا۔ ایک صاحبِ علم لکھتے ہیں: ” مولانا تقی عثمانی دور حاضر کے معتدل ترین علما میں سے ہیں، لکھتے ہیں:”جمہوریت میں عوام خود حاکم ہوتے ہیں، کسی الہی قانون کے پابند نہیں تو وہ خود فیصلہ کریں گے کیا چیز اچھی ہے یا بری۔۔۔ “جمہوریت سیکولرازم کے بغیر نہیں چل سکتی۔” (اسلام اور سیاسی نظریات، مولانا تقی عثمانی، ص 146)
اب جب طلبہ کو یہ بتایا جائے گا کہ جمہوریت غیر اسلامی نظام ہے تو وہ اس نظام حکومت اور آئین کے بارے میں کیا موقف اپنائیں گے، ظاہر ہے۔ علما تو اپنی دو عملی کے لیے گنجائش نکال لیتے ہیں یعنی ایک طرف وہ جمہوریت کو بھی غلط کہتے ہیں لیکن آئین سے وفاداری کا اعلان بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے سادہ مزاج طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین بھی انسانوں نے جمہوریت کے اکثریتی رائے کے اصول پر نہیں بنایا ہے؟ کل اگر اکثریتی رائے سے اس میں غیر اسلامی شقیں ڈال دی جائیں یا پورے آئین کو ہی سیکولر بنا دیا جائے تو کیا جمہوری اصولوں پر اسے بھی مان لیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر آج اس کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ اس لیے نہ جمہوریت درست ہے نہ انسانوں کا بنایا ہوا آئین۔”۔۔۔۔۔۔ اس بات کو مولانا عثمانی کی پوری کتاب میں پیش کی گئی فکر کو کمالِ خیانت کے ساتھ یک رخے انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس طرح “شدت پسند بیانیے” نے پیش کیا ہے۔ مولانا عثمانی نے اس کتاب میں جمہوریت کے ناقص پہلوؤں پر نقد ضرور کیا ہے، لیکن خصوصا پاکستان کے تناظر میں آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی کی بات بھی کی ہے۔ یعنی وہ جمہوری حکومتوں کو ایک وجودی حقیقت کے طور پر مانتے ہیں، لیکن مسلم ملکوں کے تناظر میں آئین میں قرآن وسنت کی بالا دستی کو بھی مانتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں انھوں نے اقبال کے الفاظ میں “مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر” والی صورت پیش کی ہے کہ اگر جدید ریاست کے ادارے ہمارے ہاں موجود ہیں تو کس طرح ہم ان کو مسلم تہذیبی شرائط کی بنیاد پر “خذ ما صفا و دع ما کدر” کا اصول اپنا کر استعمال کریں۔ اب ایک طریقہ تو شدت پسند بیانیے کا ہے کہ یہ سب کچھ کافرانہ ہے، اس سے وابستگی بھی کفر ہے، وغیرہ اور دوسری طرف یہ انتہا ہے کہ مغرب کی طرف سے جو کچھ بھی آیا ہے، اس پر کسی نقدونظر کے ذریعے صحیح وسقیم کو بھی واضح نہ کیا جائے، دینی نقطۂ نظر سے عوام کی رہ نمائی نہ کیا جائے اور سر جھکا کر سب کچھ تسلیم کر لیا جائے۔ یہ اپروچ کسی عاجلہ پسند مزاج کو عزیز ہو تو ہو، مسلم تہذیبی روایت اس کو قبول نہیں کر سکتی۔
ہماری ضرورت اس وقت مسلم تہذیبی روایت کے ساتھ تمسک کے ساتھ جدید چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ نہ تو یہ کہ اپنے اردگرد کے خلاف نفرتوں اور ٹکراؤ کا ماحول جاری رکھا جائے اور نہ یہ کہ جو بھی شر جس شکل میں آئے، اسے کسی نقدونظر کے بغیر قبول کر لیا جائے۔ علما نے اللہ کے فضل سے ہر دور میں اس توازن کو باقی رکھا ہے اور مولانا عثمانی کی مذکورہ کتاب اس بصیرت کی آئینہ دار ہیں، لیکن اس اعتدال کے ساتھ چلنے کی سزا بڑی سخت ہے۔ اس میں “زاہدِ تنگ نظر” آدمی کو “کافر” اور “کافر” اسے مسلمان سمجھنے لگتا ہے۔
تحریر سید متین احمد