جس طرح اردو کے مایۂ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر “ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے” کی مشق کی گئی، اسی طرح علامہ اقبال پر بھی اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوا جو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ اعتراضات شخصی بھی ہیں، ان کے کلام کے شعری، لسانی اور عروضی پہلوؤں سے متعلق بھی، فکر کی تشکیل اور اس کے اجزا سے متعلق بھی اور دیگر مختلف جہات پر بھی۔ان اعتراضات میں بہت سے وقیع اور صائب ہیں، جب کہ بعض اعتراضات سُوے فہم، بعض قلت فہم، بعض مخصوص ذہنی سانچوں اور بعض حسد اور عناد کے سبب ہیں۔ 1910ء میں اقبال کے سفرِ حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق اور غالب شناس سید علی حیدر نظم طباطبائی نے ان کی اردو زبان کی” عجمیت ” پر بعض تحفظات کا اظہار کیا۔1913ء میں “زمانہ” (کانپور) اور دیگر جرائد مںہ نقاد لکھنوی کے اعتراضات سامنے آئے،1935ء میں اقبال کی زندگی ہی میں حافظ آباد کے برکت علی گوشہ نشین نامی ایک شیعہ مصنف نے “مکائدِ اقبال” نامی کتاب لکھی۔اسی طرح سیماب اکبر آبادی، نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی اور دیگر لوگوں کے سوالات کا سلسلہ چل نکلا اور جہات بدل کر ہنوز جاری ہے۔جہاں تک زبان وبیاں کا تعلق ہے، یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں فاضل سے فاضل شخص کی زبان پر بھی اعتراضات ہوئے ہیں، کیوں کہ کلام میں بہتری کی گنجائش کا کوئی کنارہ شاید نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کا وہ اکمل ترین درجہ آ جاتا ہے،جسے کلامِ خداوندی کہا جاتا ہے اور جس کے ساتھ تصورِا عجاز متعلق ہے۔مرزا غالب کو شہنشاہِ سخن کہا جاتا ہے، لیکن استاد سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دیگر لوگوں نے ان کے کلام میں عروض وقوافی اور زبان کے کئی عیوب شمار کیے ہیں۔یہی معاملہ اقبال کا بھی ہے کہ ان کے کلام پر مختلف پہلوؤں سے اعتراضات کیے گئے ہیں، جن میں بہت سے درست بھی ہیں اور بہت سے غلط بھی۔
زیرِ نظر تحریر میں موجودہ فضا کےا عتبار سے ایک اعتراض ، اس کے حوالے سے خود اقبال کی اپنی تصریحات اور نامور شارحین اقبال کی وضاحت کا ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے ۔موجودہ دور کی بڑی شخصیات میں ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان کا نام معروف ہے۔ دین کی تعبیر کے حوالے سے ان کا مخصوص نقطۂ نظر ہے جو “اسلام کے انقلابی تصور” یا “دین کی سیاسی تعبیر”کے ردعمل اور نقد کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔مولانا وحید الدین خان عام طور پر مسلم دنیا کی بڑی بڑی شخصیات (بشمول “سیاسی اسلام” اور ماضی سے متعلق) پر یہ اعتراض مختلف جگہوں پر قلم بند کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگایا اور اس طرح جہاد کی تعبیر کو وہ تعذیبِ مذہبی (Religious Persecution ) کی علت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ یہ ماضی کا جبر تھا جس کے استیصال کے لیے جہاد مشروع ہوا اور چونکہ بعد کے ادوار میں یہ مسئلہ نہیں رہا، اس لیے مسلم رہ نما اس بدلتی صورتِ حال کو نہ سمجھ سکے اور مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگائے رکھا۔ مولانا کی فکر میں پائے جانے والے کئی قابلِ قدر اجزا کے باوجود ان کا یہ تصور (دیگر اور تصورات کی طرح)درست نہیں ہے اور اس سے تاریخِ اسلام کی بھی ایک عجیب تصویر سامنے آتی ہے؛ بلکہ مولانا کے اس تصورِ جہاد اور فکر کے مجموعی نتیجے کے بارے میں راقم کا تاثر یہ ہے کہ اپنے مزاج اور مقاصد میں سے یہ تقریباً وہی چیز ہے جس پر علامہ اقبال نے “اسرارِ خودی” کے پہلے ایڈیشن میں حافظِ شیراز کی شاعری کے حوالے سے “ہوشیار از حافظِ صہبا گسار” کہ کر تنقید کی تھی جس پر خواجہ حسن نظامی نے اخبارات میں ایک شور برپا کر دیا تھا۔اقبال کا مقصود صرف اتنا تھا کہ زوال کے دور کے لٹریچر نے مسلمانوں کے قواے عملیہ کو جس طرح سرد کیا ہے، حافظ کا پیغام اس حوالے سے ایک افیون کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا وحید الدین خان اس سلسلے میں اقبال پر کافی سخت نقد کرتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کو ٹکراؤاور شدت پسندی کی راہ دکھانے والے آدمی ہیں اور اس وقت مسلمانوں میں جو جگہ جگہ عسکری کارروائیاں جاری ہیں، اس کے پیچھے فکرِ اقبال کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی اعتراض کہیں دبے لفظوں میں اور کہیں صراحتاً ہمارے لبرل دانش ور( جیسے ڈاکٹر مبارک علی )دہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض Neo-Religious Liberal حلقوں میں بھی اس اعتراض کی صداے بازگشت سننے کو ملتی رہتی ہے۔
ماضی میں اقبال پر یہ اعتراض دو حلقوں کی طرف سے سامنے آیا: ایک مستشرقین اور دوسرے اردو ادب میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے افراد کی طرف سے۔مستشرقین یا مغربی مصنفین تین طرح کے ہیں جنھوں نے کلام وفکرِ اقبال سے اعتنا کیا ہے: شعری یا نثری تحریروں کے مترجمین، شعر وفکر کے ناقدین اور کتابوں کے مبصرین اور وہ جنھوں نے اقبال کے کلام کے اجزا کو اپنے انتخابی مجموعوں میں شامل کیا۔پروفیسر اے آر نکلسن نے 1919ء میں “اسرارِ خودی” (1915ء) کو انگریزی میں ڈھالااور اس پر مقدمہ بھی تحریر کیا جو اقبال کے انگریزی دنیا اور یورپ میں تعارف کا سبب بنا۔”اسرارِ خودی” کی اشاعت پر ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول پہلے اپنے ملک میں خواجہ حسن نظامی، محمد دین فوق کشمیری اور رسالہ”صوفی” منڈی بہاؤالدین کے مقالہ نگاروں نے اور پھر یورپ کے علمی حلقوں نے بحث ونظر کا بازار گرم کیا۔ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں :”جہاں اقبال کے مقامی نقادوں کا مرکزی نکتۂ بحث ،تصوف کی حمایت و مخالفت ، وحدت الوجود والشہود کی تردید وتائید اور خودی وبیخودی کی تحقیق تھی، وہاں مغرب کے ان نقادوں نے مغربی ماحول اور مغربی ذہن کے مطابق اقبال کے فلسفۂ خودی پر جرح کرتے ہوئے اسے احیائے اسلام کی ایک سعی قرار دیتے ہوئے یورپ کو آنے والے خطرے سے ڈرایا جو اسرارِ خودی کی حکمت سے (ان کی راے میں) پیدا ہو سکتا ہے۔”(ڈاکٹر سید عبداللہ، “اقبال کے غیر مسلم مداح اور نقاد” مشمولہ “اقبالیات کی مختلف جہتیں”، مرتبہ یونس جاوید، ص 2)
مغربی نقادوں میں دو نے اقبال کے افکار پر “اسرارِ خودی” کا ترجمہ سامنے آنے کے بعد تنقید کی:پروفیسر ڈکنسن اور ایم فارسٹر؛اقبال نے مترجم پروفیسر نکلسن کو خط لکھا جس میں ان تینوں کے نکات پر تنقید کی۔ (ان تنقیدوں اور اقبال کے خط کے اردو تراجم دارالمصنفین اعظم گڑھ کے معروف جریدے” معارف” کے شماروں جون، ستمبر اور اکتوبر 1921ء میں شائع ہوئے۔)نکلسن نے لکھا:”اقبال مذہب کے بارے میں بہت پرجوش ہے۔وہ ایک نئے حرم کی تعمیر میں مصروف ہے۔اس نئی بستی سے مراد ایک عالم گیر مذہبی ریاست ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان نسل ووطن کی قید سے بے نیازایک ہو جائیں گے۔وہ جس ریاست کی بات کرتا ہے، اس میں دین کی بادشاہت ہو گی۔میکیاولی کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔” ڈکنسن کے اعتراضات میں یہ بنیادی بات تھی کہ اقبال جہاد کی بات کرتا ہے اس لیے اسے اس تصورِ پیکارسے خوف محسوس ہوتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اقبال مسلمانوں کو اسلحہ کے زور سے متحد کرنا چاہتا ہے، وہ ایک خونیں ستارہ ہے، امن کا ستارہ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ :”مشرق اگر مسلح ہو گیا تو ممکن ہے کہ مغرب کو تسخیر کر ڈالے، لیکن کیا اس سے وہ فساد وہلاکت کی قوت کو بھی مسخر کر لے گا؟نہیں؛ بلکہ قدیم خون ریزیاں رہ رہ کر برابر ابھرتی رہیں گی اور ساری دنیا کو مبتلائے مصائب رکھیں گی۔ بس اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں، کیا اقبال کا یہی اختتامی پیغام ہے۔؟”(مرجعِ مذکور، ص 5)۔
دوسرے جس حلقے کی طرف سے اقبال پر شدت پسندی کے پرچارک کا اعتراض ہوا، وہ ترقی پسند ادیبوں کا حلقہ ہے۔ترقی پسند تحریک میں ڈاکٹر اخترحسین راے پوری کا مقالہ “ادب اور زندگی” اکتوبر 1934ء میں ہندی میں اور جولائی 1935ء میں اردو میں شائع ہوا(ڈاکٹرا نور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، ص 436) اور یہ وہ مقالہ ہے جواس تحریک کی ’بائبل‘ ثابت ہوا۔پروفیسر آل احمد سرور اس مقالے کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اقبال فاشسطیت کا ترجمان ہے اور یہ حقیقت زمانۂ حال کی جدید سرمایہ داری کے سواے کچھ نہیں۔تاریخِ اسلام کا ماضی اقبال کو بہت شاندار معلوم ہوتا ہے، اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا دورِ فتوحات اسلام کے عروج کی دلیل ہے اور ان کا زوال یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، حالانکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی اسلامی تصورِ زندگی پر عمل بھی ہوا تھا۔بہرحال وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبال قومیت کا اسی طرح قائل ہے جس طرح مسولینی۔اگر فرق ہے تو اتنا کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی۔ فاشسٹوں کی طرح وہ بھی جمہور کوحقیر سمجھتا ہے۔فاشزم کا ہمنوا ہو کر وہ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ملوکیت وسرمایہ داری کا وہ اس حد تک دشمن ہے جس تک متوسط طبقہ کا آدمی ہو سکتا ہے۔ اقبال مزدوروں کی حکومت کو چنداں پسند نہیں کرتا۔ وہ اسلامی فاشسٹ ہے۔” (آل احمد سرور، اقبال اور ان کا فلسفہ ، ص 91، 92)کچھ اسی قسم کے اعتراضات مجنوں گورکھ پوری کی طرف سے سامنے آئے۔ (اے ایم خالد، “اقبال کا خصوصی مطالعہ”(ایم اے اردو ادب سیریز)، ص310 )
مذکورہ سطور سے یہ واضح ہوا کہ مستشرقین، ترقی پسند ادیبوں اور ہمارے ہاں کے Liberals اور Neo-Religious Liberals کے نزدیک اقبال دہشت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ہاں مرنا مارنا اور ٹکراؤ اصل فلسفہ ہے، وہ صرف “برہم زن” کے اصول کو جانتا ہے، وغیرہ؛ تاہم جب علامہ اقبال کی جملہ نثری تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس اعتراض کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے اور فکرِ اقبال سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اقبال نے اسلام کو ایک پرامن مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور ان پر یہ اعتراض ان کی فکر کی جملہ جہات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراض کا ایک بڑا منشا علامہ اقبال کی سیاسی فکرکی جملہ جہات کو نظر انداز کرنا بھی ہے جو ان کی نثری تحریروں میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔اقبال کو بحیثیتِ کل دیکھنے کا مسئلہ آج تک کے اقبال شناسوں میں ایک کافی مشکل علمی مسئلے کے حیثیت سے موجود ہے اور خود اقبال کے الفاظ میں اس “مجموعۂ اضداد” کی کڑیوں میں ایک “نظم”تلاش کرنا اقبال کی صحیح تفہیم کا ایک بنیادی پتھر ہے۔اقبال کی سیاسی فکر کے بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ماضی قریب کے معروف دانش ور اور مصنف جناب مظہر الدین صدیقی نے بجا طور پر لکھا ہے:
Iqbal’s political philosophy has been grossly misinterpreted. By some he has been held us as the champion of Fascist dictatorship, others have tried to discover in his writings leanings towards Communism. Very few have tried to view as a whole the political ideas of Iqbal which lie scattered in his writings and therefrom to build up a consistent political theory which might fit in with the general framework of his philosophical ideas. It is often overlooked by the critics as well as the admirers of Iqbal that a man’s political ideas cannot be isolated from the general system of his thought, because both spring from the depth of his personality, which is a unified whole. (Mazheruddin Siddiqi, Concept of Muslim Culture in Iqbal, 69)
(اقبال کی سیاسی فکر کی بری طرح غلط انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔بعض نے اسے فاشزم کی ڈکٹیٹرشپ کے رہ نماکے طور پر پیش کیا، جب کہ بعض نے اس کی تحریروں میں کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والا باور کیا۔بہت تھوڑے لوگوں نے اقبال کے سیاسی تصورات کو ان کی منتشر تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ایک ایسا مربوط سیاسی نظریہ کشید کیا جا سکے جو اقبال کے فلسفیانہ افکار کے عمومی فریم سے لگا کھاتا ہو۔اقبال کے مادحین اور ناقدین ، دونوں ہی سے یہ بات عام طور پر نظر انداز ہوئی ہے کہ انسان کے سیاسی افکار اس کی فکر کے عمومی نظام سے جدا نہیں کیے جا سکتے، کیوں کہ دونوں ہی اس کی شخصیت کے مربوط کل کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ )
یہاں اقبال کی اپنی تحریروں اور اقبالیات کے ماہرین کی آرا کی روشنی میں اقبال کی مذکورہ بالا شناخت کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ڈکنسن کے مذکورہ بالا اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے لکھا :”میں جس شے کا قائل ہوں وہ روحانی قوت ہے نہ کہ جسمانی طاقت۔بے شبہہ جب کسی قوم کو جہاد کی دعوت دی جائے تو اس صدا پر لبیک کہنا میرے عقیدے میں اس کا فرض ہونا چاہیے ، لیکن جوع الارض (تسخیرِ ممالک) کے لیے جنگ وجدل کرنا میں نے حرام قرار دیا ہے۔” چناں چہ “اسرارِ خودی” میں ایک جگہ عنوان اسی طرح باندھا ہے:”دربیان ایں کہ مقصدِ حیات ِ مسلم اعلاے کلمۃ اللہ است وجہاد اگر محرکِ او جوع الارض باشد، درمذہب اسلام حرام است”؛اقبال کے عربی ترجمان شیخ عبدالوہاب عزام نے اس کا عربی ترجمہ خوب صورت الفاظ میں کیا ہے جو مقصودکو عمدہ طور پر واضح کرتا ہے یعنی:”مقصد حياة المسلم إعلاء كلمة الله، والجهاد للاستيلاء على الأرض حرام”(عبدالوہاب عزام، محمد إقبال سيرته وفلسفته وشعره، 86) یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے اور زمین پر محض غلبہ پانے کی خاطر جہاد کرنا حرام ہے۔اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے توواضح ہے کہ اہلِ مغرب نے آج تک دنیا میں جو فساد مچایا ہے، وہ” جوع الارض”کے مرض کی وجہ سے برپا کیا ہے۔کہیں اقوام کے وسائل کی لوٹ، کہیں توسیعی عزائم ، کہیں حقیقی یا مفروضہ دشمن کو پامال کرنا، لیکن ان کا اعتراض صرف اسلام اور مسلم شخصیات پر ہے :
اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے
غلط الزام بھی اوروں پہ لگا رکھا ہے
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے!
اسی طرح اقبال نے کشمکش کے تصور پر لکھا:”میں کش مکش کا جو مفہوم لیتا ہوں، وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی، درآں حالیکہ نطشے کے پیشِ نظر غالباً اس کا صرف سیاسی مفہوم تھا۔۔۔میں نے جنگ وتنازع کی صورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے، وہ اصلاً اخلاقی ہی ہے۔ ڈکنسن نے افسوس کہ میری تعلیمِ مردانگی وسختی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔” اسی طرح اقبال نے ڈکنسن کے مخصوص استشراقی پس منظر پر نقد کرتے ہوئے لکھا:”میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو ایک خون ریز مذہب سمجھنے کا جو متعصبانہ خیال یورپ میں قدیم سے چلا آتا ہے، وہ ڈکنسن صاحب کے سر پر بھی سوار ہے۔حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف مسلمان، بلکہ کافۂ انام اسلامی عقیدے کی رو سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے، بشرطیکہ نسل وقوم کے اصنام کو توڑ دیا جائے اور ایک دوسرے کی خودی یا انا کو تسلیم کیا جائے۔”(ڈاکٹر سید عبداللہ، حوالۂ سابق، ص 8، 9)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اقبال کے بارے میں مغربی مصنفین میں سے پروفیسر آربری کی آرا نقل کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے پیغام کو جن مستشرقین نے سنجیدگی سے دیکھا، ان کی راے کس طرح ڈکنسن کی راے سے مختلف ہے۔آربری نے لکھا:”یورپ صدیوں سے اسلام کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے،ان معنوں میں کہ اسلامی تہذیب وتمدن کے واضح کارناموں کو نظرانداز کرتارہا، کیوں کہ یورپ کے فضلا علمی طریقہ کار اپنانے کے بجائے مذہبی عصبیتوں میں پھنسے رہے۔۔۔اس لیے اگر اقبال نے اپنی نظم ونثر میں یہ دعویٰ کیا کہ یورپ انسانی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ یورپ کے فضلاے سابق کے تعصبات کا قدرتی ردعمل ہے۔۔۔اب جب کہ تعصبات کے بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جا رہے ہیں، یورپ کو واقعی یہ سوچنا چاہیے کہ اس نے مشرق سے کیا کیا لیا اور اب بھی تہذیب کی ترقی کے لیے مشرق سے کیا کچھ لے سکتا ہے۔ اسی صورت میں تعمیرِ انسانیت کے مقصد میں وسیع تر اشتراکِ عمل ہو سکتا ہے۔”
(جاری ہے)