جہاد کی فرضیت اسلام کے جاری کردہ احکام میں سے نہیں ہے بلکہ کلمہ حق کی سربلندی اور انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے جہاد اس سے قبل بھی ہوتا رہا ہے اور قرآن کریم نے اس جہاد کے مختلف مراحل کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ جہاد کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے، چنانچہ کتاب استثنا ۱۰:۲۰ میں جہاد کا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جوا ب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں کو اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال کو اپنے لیے رکھ لینا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم ﷺ کی اس ہدایت کو بھی دیکھ لیا جائے جو انہوں نے اپنے متعدد کمانڈروں کو جہاد کے لیے بھیجتے وقت دی ہے کہ جب تم (رکاوٹ بننے والے )دشمن کے سامنے جاؤ تو پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو، اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر وہ یہ دعوت قبول نہ کریں تو جزیہ دے کر اسلام کی بالادستی قبول کر لیں۔ اس صورت میں انہیں جان ومال اور آبرو کا تحفظ حاصل ہوگا، اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تعلیم دینے اور اپنی عبادت گاہوں کو قائم وآباد رکھنے کا حق حاصل ہوگا اور مسلمان ان کی جان ومال کے تحفظ کے ضامن ہوں گے۔ اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا مقصد کافروں کو زبردستی اسلام قبول کرانا نہیں بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بے شک اپنے مذہب پر قائم رہیں، اس پر آزادی کے ساتھ عمل کریں اور اپنے دائرے میں اس کی تعلیم بھی دیں، لیکن انسانی سوسائٹی پر ’’آسمانی تعلیمات‘‘ کی بالادستی اور فروغ میں رکاوٹ نہ بنیں اور ان کے مقابل نہ ہوں، کیونکہ آسمانی تعلیمات کا یہ حق ہے کہ ان کا انسانی آبادی میں کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ ہو اور ان کی دعوت وتعلیم کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہو۔ البتہ بائبل کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ہدایات میں چند فرق ضرور موجود ہیں جن کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
صلح کی صورت میں بائبل کا حکم یہ ہے کہ مقامی آبادی باج گزار بن کر فاتحین کی خدمت کرے جبکہ نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی رو سے انہیں صرف ’’جزیہ‘‘ دینا ہوگا اور انہیں اس کے عوض جان ومال کا تحفظ، مذہبی آزادی اور دیگر تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے اور انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا۔فتح کی صورت میں بائبل نے دشمن کے تمام مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے مگر اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کے سارے مال کو غنیمت بنانے کا حکم بائبل میں تو موجود ہے جبکہ اسلام میں غنیمت صرف وہی ہے جو میدان جنگ میں حاصل ہو۔ شہروں کی لوٹ مار کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر بائبل کا حوالہ دینے سے میری غرض یہ ہے کہ جہا دکا حکم اسلام کا کوئی امتیازی حکم نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ آسمانی مذاہب کے احکام کا تسلسل ہے جسے اسلام نے بھی باقی اور اس پر پہلے سے بہتر انداز میں عمل جاری رکھا ہے۔
مذہب کے لیے تلوار اٹھانے اور قوت استعمال کرنے کا یہ حکم مسیحیوں اور مسلمانوں میں موجود رہا ہے۔ مسیحیوں نے اسے لوگوں کو زبردستی اپنے مذہب میں لانے کے لیے صدیوں تک استعمال کیا ہے جیساکہ سپین میں مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے اور یورپ کے مختلف ملکوں میں یہودیوں کو ان کے مذہب سے دست بردار کرانے کے لیے لاکھوں افراد کا قتل عام تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے، مگر مسلمانوں نے اسلام قبول کرانے کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا اور کسی سے اسلحہ کی نوک پر کلمہ نہیں پڑھایا۔ البتہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے ضرور جنگ کی ہے اور اسی کا نام جہاد ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔اس صورت حال میں تبدیلی اس وقت آئی جب یورپ نے اپنے مذہب کے جمود، مذہبی قیادت کی تنگ نظری اور چرچ کی ظالمانہ روش سے بے بس ہو کر مذہب سے بغاوت کر دی اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کو بے دخل کر دیا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا اور سوسائٹی کے ساتھ اس کے تعلق کو منقطع کر دیا تو اس کے باعث ان کے نزدیک مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانا ممنوع قرار پایا اور ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور ان کے ہاں ختم ہو گیا، مگر انہوں نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر جس چیز کو مذہب کے متبادل کا درجہ دیا، ا س کے لیے طاقت اور ہتھیار کے استعمال کا جواز ان کے ہاں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں روز بروز ترقی اور پیش رفت ہو رہی ہے۔
مغرب نے سوسائٹی کی بنیاد نیشنلزم، سولائزیشن اور تہذیب وثقافت کو قرار دیا جو مذہب کا متبادل ہیں اور قوم و ملک اور سولائزیشن کے لیے طاقت کے استعمال کو نہ صرف مغرب نے جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی بار اس کا خوف ناک مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے قوانین میں نیشنلزم کی بنیاد پر سرحدوں کو جائز قرار دے کر ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے روکا ہے مگر کسی ایک طرف سے طاقت کے استعمال کی صورت میں دوسرے کو دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا حق دیا ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ (۱) امن کو لاحق خطرہ (۲) امن وامان کو توڑنے اور (۳) ظلم وتعدی کے کسی واقعہ کی صورت میں وہ کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے اور اگر ان پابندیوں سے کام نہ چلے تو سلامتی کونسل کو فوج کشی کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ فوج کشی سلامتی کونسل کا حق ہے اور سلامتی کونسل کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نمائندہ کہلاتی ہے لیکن پانچ ملکوں کے ویٹو پاور کے حق نے اسے عملاً صرف پانچ ملکوں کی اجارہ داری کی علامت بنا دیا ہے۔
چنانچہ اقوام متحدہ کی اجازت سے امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو فوج کشی کی اور عراق پر امریکی اتحاد کا پہلا حملہ بھی سلامتی کونسل کی اجازت سے ہوا تھا، ان حملوں کے جواز کے بارے میں مغربی لیڈروں نے جو کچھ کہا، وہ تاریخ کے ریکارڈ میں ثبت ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف دو باتوں پر غور کر لیجیے۔ ایک یہ کہ افغانستان اور عراق اقوام متحدہ کے طے کردہ نظام سے بغاوت کر رہے ہیں اور اس کی پابندیوں سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ جمہوریت اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام اور مغرب کی سولائزیشن دنیا بھر سے خود کو منوانے کے لیے بغیر کسی اخلاقی و قانونی جواز کے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے، یہ ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن دونو ں یک طرفہ اور جانب دارانہ ہیں جن کی تشکیل اور کنٹرول میں مسلمانوں کو کوئی قابل ذکر حیثیت حاصل نہیں ہے، کیا اس نظام اور ثقافت کے فروغ اور تسلط کے لیے طاقت کا استعمال فکر اور عقیدے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں ہے؟
عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کی ، اس رپورٹ کے اہم نکات کچھ یوں ہیں: ۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔ ۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔ ۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔ جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔ ۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔ ۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔ ۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔‘ ۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
یہ تھی اس اخلاقی و قانونی جواز کی حقیقت جس کی بناء پر انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنز نے ایک ہنستے بستے ملک کو تباہ برباد کیا ، لاکھوں بے گناہوں کو صرف سونے اور تیل پر قبضے کے لیے قتل کردیا اور پھر اس پر منہ ٹیڑھا کرکے معافی مانگ لی گئی لیکن ملک اور انکے باشندوں کی تباہی بربادی کے ازالے کی ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئ۔
مختصر یہ کہ فرق صرف تعبیر اور مقاصد کا ہے۔ ہم سے مذہب کے لیے قوت کا استعمال ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والا مغرب خود مذہب کے اس متبادل کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کر رہا ہے جسے اس نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر مذہب سے دست برداری کے بعد اختیار کر رکھا ہے مگر ہم سے مغرب کا تقاضا کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک یورپین مستشرق اینڈرسن کی اس گفتگو میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا ذکر عرب دنیا کے معروف عالم دین اور دانش ور استاذ وہبہ زحیلی نے اپنے ایک مقالے میں کیا ہے اور جس میں اینڈرسن نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ جہاد کو اسلامی احکام کی فہرست سے نکال دیں اس لیے کہ جہاد آج کے عالمی نظام اور بین الاقوامی اداروں کے قوانین وضوابط سے ہم آہنگ نہیں ہے اور فکر وعقیدے کو طاقت کے زور سے فروغ دینے کا وسیلہ ہے جو حریت اور عقلی ارتقا کے عالمی ماحول کے منافی ہے۔ لیکن جس عالمی نظام اور عقلی ارتقا کو مغرب نے مذہب کے لیے طاقت کے استعمال سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے، وہ دونوں آج پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے افغانستان، عراق اور دوسرے متعدد ممالک پر امریکہ کی فوج کشی کو جواز کی سند دے کر ان کی اخلاقی حیثیت ختم کر دی ہے۔ مغرب اپنے اس عقیدے سے منحرف ہو گیا ہے کہ طاقت کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہو سکتا ہے، فکر وعقیدے کے لیے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔ یہ صرف نظری بات ہے اور خوشنما فکری دھوکہ ہے جبکہ امریکہ کے دفاع کے لیے سات سمندر پار پیشگی فوجی حملوں اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے عسکری قوت کے بے محابا استعمال نے اس کو صرف ایک کھوکھلے نعرے کی حیثیت دے دی ہے۔ بلکہ مغرب نے اسلام کے اس فلسفے کو عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ قوت کا استعمال صرف دفاع کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کسی عقیدے اور تہذیب کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جایا کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ آج کے دور میں اسلام کی اخلاقی فتح ہے۔
ہمارے بعض حلقوں میں بھی اسلام کے نام پر جہاد کے بارے میں گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران جو فکری تبدیلی رونما ہوئی ہے، جب مغرب نے مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہو کر مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کو ممنوع قرار دے دیا تو ہمارے بعض دانش وروں کے ذہنوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوا، مرزا غلام احمد قادیانی طرز کے بعض لوگوں نے جہاد کو سرے سے منسوخ قرار دینے میں ہی عافیت سمجھی اور ذہنی طور پر اس مقام پر نہ پہنچنے والے بعض دانش وروں نے جہاد کے احکام اور فرضیت میں ایسی تاویلات کو ضروری قرار دیا جن سے جہاد کے تصور کو مغرب کے جدید فکر کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جا سکے اور مغرب کو مطمئن کیا جا سکے کہ ہم بھی مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم ا س سلسلے میں سب کو ایک درجے میں نہیں سمجھتے اس لیے کہ بہت سے حضرات مرعوبیت کا شکار ہوئے اور شعوری طور پر ان کی کوشش رہی کہ جہاد کے حکم کو اسلامی تعلیمات کی فہرست سے نکال دیا جائے مگر بعض ایسے حضرات بھی ہیں جو لاشعوری طور پر اس فریب کا شکار ہیں اور بڑے خلوص کے ساتھ اسلام کی تصویر کو آج کے عالمی منظر میں درست اور قابل قبول بنانے کے لیے جہاد کو ایسے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے مغرب کو تعرض نہ ہو۔حالانکہ اب اس تکلف کی ضرورت نہیں رہی۔ مغرب نے صرف دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کے نام نہاد فلسفے کا بھانڈا خود ہی بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں کسی معذرت خواہی کی ضرورت نہیں ہے اور بحمد اللہ ہم نے کبھی اس معذرت خواہی کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ جس طرح مغرب اپنی سولائزیشن کے فروغ اور اپنے قائم کردہ یک طرفہ ورلڈ سسٹم کے تحفظ کے لیے خود اپنے لیے طاقت کے پیشگی استعمال کا حق مانگتا ہے، اسی طرح اسلام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے سسٹم کو سوسائٹی میں بروئے کار لانے اور اپنے عقیدہ وثقافت کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔
باقی رہی ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن کی بات تو ہم کسی جھجھک کے بغیر یہ کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ یک طرفہ، جانب دارانہ، استحصالی، ظالمانہ اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے اور ہمارے لیے کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں اور اسے جائز اور حق تصور کرتے ہیں، وہ اس کا دفاع کریں اور اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اسلامی احکام میں تاویلات کا شوق بھی پورا کرتے رہیں، مگر ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔
استفادہ تحریر مولانا زاہد الراشدی
نوٹ : اس بحث کا تعلق ایک اسلامی ریاست سے ہے۔ آج ایسی کسی اسلامی ریاست /خلافت کا وجود نہیں لیکن اسلامی نظریے کی معقولیت کا چیلنج ضرور موجود ہے۔ اس تحریر کا مقصد اسلامی نظریہ جہاد اور ایک اسلامی ریاست کی طرف سے اپنے دعوتی نظریے کی اشاعت اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے قانونی و اخلاقی جواز کا جدید تناظر میں جائزہ لینا ہے۔