معیار چہارم، خلافِ علم و مشاہدہ نہ ہو:
جہاں تک اس معیار کا تعلق ہے تو قرآن میں مذکور تمام معجزات انبیاء اور مابعد الطبیعات امور ، جدید سائنسی علوم یا مشاہدہ اور تجربہ کے خلاف ہیں۔ اب منکرین حدیث کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن میں مذکور تمام معجزات اور مابعد الطبیعات امور کا علی الاطلاق انکار تو نہیں کرتے، مگر ان کی نہایت بھونڈی تاویلات پیش کردیتے ہیں جن پر علم و عقل کی رو سے بھی شدید گرفت کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسے ہی واقعات حدیث میں دیکھتے ہیں تو ان احادیث کو جعلی قرار دے کر انکار کردیتے ہیں۔اس سلسلہ میں بھی چند آیات قرآنی پیش ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ } (الانبیاء)اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔
آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی۔
{ اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ } (الطلاق)اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان ہی کے مثل (سات) زمینیں۔
چونکہ زمین صرف ایک ہے اور یہ ایک کرہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرتا ہے، لہٰذا سات زمینیں مشاہدے کے خلاف ہیں
{ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ } (الصافات)اور ستاروں کو سرکش شیاطین سے بچاؤ کا سبب بنایا۔
کیا جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے:
{ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)ذوالقرنین نے سورج کو کیچڑ کے ایک چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔
سورج کیسے کیچڑ کے چشمے میں ڈوب سکتا ہے ؟
{ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ }(البقرۃ)اور بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
کیا پتھروں میں احساس ہوتا ہے، کیا پتھر کا ڈرنا علم و مشاہدے کے خلاف نہیں ہے؟
اب اگر معیار کو صحیح مانیں تو قرآنی آیات بھی بظاہرا مشکوک ٹھہرتی ہیں، اگر آیات کے ظاہری معانی کو ہی آخری سمجھنے کے بجائے انکی درست تشریح کردی جائے تو پھر یہی چیز حدیث کے سلسلہ میں بھی قابل عمل ہونی چاہیے، صرف حدیث ہی کو اپنے ان فرضی معیاروں پر کسنا کیسے درست ہے؟
معیار پنجم، خلافِ عقل نہ ہو:
یہ معیار بھی محدثین نے بھی قائم کیا ہے لیکن اس معیار پر پرکھنے کے بعد محدثین جس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں منکرین حدیث کی عقلیں انہیں بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں فرقوں کی عقل میں فرق ہے۔ محدثین اپنی عقل کو وحی الہیٰ کے تابع رکھتے اور عقل کا جائز استعمال کرتے ہیں۔ جس کی تفصیل ہم دوسرے باب میں پیش کرآئے ہیں۔ لیکن طلوع اسلام عقل کی برتری اور تفوق کا قائل ہے اور یہ چیز اسے معتزلین سے ورثہ میں ملی ہے۔ اگرچہ ” طلوع اسلام” کا بھی زبانی دعویٰ یہی ہے:”تنہا عقل انسانی زندگی کے مسائل کا حل دریافت نہین کر سکتی۔ اسے اپنی رہنمائی کے لیے اسی طرح وحی کی ضرورت ہے جس طرح آنکھ کو سورج کی روشنی کی ضرورت “ّ(طلوع اسلام کا مسلک: شق نمبر:1)
مگر عملاً وہ وحی کے سور ج کو عقل کا چراغ دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اپنی عقل کو اس قدر مقام دے دیا گیا کہ اسے وحی الہٰی کے جانچنے کا اصل معیار قرار دے دیا گیا۔ انکار حدیث کے فتنے میں عقل پرستی کا جو بھوت سوار ہے دراصل یہ بھی مغرب کی علمی مرعوبیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لیے یہاں بھی عقل ہی کو کل سمجھ لیا گیا ہے۔ اس فتنے نے سب سے بڑا گل ہی یہی کھلایا کہ اس نے ہر فرد کو اتنا تعقل پرست بنا دیا کہ ہر شخص جس آیت کو چاہتا ہے اس کی من مانی تشریح کرتا ہے اور جس حدیث کی چاہتا ہے بناوٹی تاویل دے کر اس کا رد کر دیتا ہے۔ جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ انسانوں کو عقل کے بھی بھرپور اور جائز استعمال کا بھرپور موقع دیتا ہے۔تشریحات و توجیہات ، معروضی حد بندیاں اور منطقی صغرے اور کبرے مزید فائدے کے لیے تو ہو سکتے ہیں اور اسلام میں ان کی ایک حد تک اجازت بھی ہے مگر اسلام میں جو اصل کسوٹی قرار پائی ہے وہ بنیادی طور پر وحی الہٰی قرآن و صحیح حدیث ہی ہے۔جو عقل کا استعمال اس حد تک اپنے اوپر لاگو کر دے کہ عقل کو وحی کے مقابل کھڑا دے تو یقیناً ایسی عقل ہی بے عقلی کا ثبوت مہیّا کرتی ہے۔
منکرین حدیث یہ بیان تراشتے ہیں کہ متعدد احادیث صحیحہ ہماری عقل سے بالاتر ہیں جس کی وجہ سے ہم ان احادیث کا انکار کر تے ہیں ، یہ جدید تحقیقات یا عقل عام (Common Sense) سے متصادم ہیں۔ چنانچہ جو حدیث انکے عقل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو، وہ ان کے نزدیک جعلی قرار پاتی ہے ۔ جبکہ قرآن کے معاملے میں انکا رویہ مختلف ہے۔ اس سلسلہ میں چند آیات بینات ملاحظہ ہوں:
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ } (النمل)
اس شخص نے جس کو کتاب کا کچھ علم تھا، کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت اتنی دیر میں لا دوں گا، جتنی دیر میں آپ کی نگاہ واپس آئے اور اتنی دیر میں وہ آگیا، تو اس کو اپنے پاس دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے رب کا فضل ہے۔
یہ عقل و تجربہ کے خلاف ہے کہ پلک جھپکنے میں ہزاروں میل دور سے ایک وزنی چیز منتقل ہو جائے گویا یہ آیت مجوزہ معیار پر پوری نہیں اترتی، اب اس کے متعلق کیا کہا جائے۔؟
{ وَ اِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہَ } (الانفال)
جب شیطان نے کافروں کے اعمال ان کو مزین کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور میں تمہارا ساتھی ہوں، دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہو ئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوگیا، اور کہا میں تم سے بیزار ہوں، میں وہ چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
شیطان کا سامنے آنا، اور بات کرنا ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے، پھر اس کا اللہ سے ڈرنا بھی حیرت انگیز ہے، اس کو تو قیامت تک کے لیے ازروئے قرآن مہلت دے دی گئی ہے لہٰذا اس کا خوف الٰہی سے ڈر کر بھاگنا خلاف عقل ہے اور کافروں سے اس کا بیزار ہونا بھی خلاف عقل ہے، اس کے اصلی دوست تو کافر ہی ہوتے ہیں۔
{ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ } (الانفال)
اور اگر تم دیکھو جس وقت فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جلنے کا مزہ چکھو۔
یہ آیت بھی مشاہدہ کے خلاف ہے، نہ کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہیں، نہ فرشتے دکھائی دیتے ہیں، اگر وہ مارتے تو کیا آواز نہیں آتی، مارا جائے اور آواز نہ ہو، یہ خلاف عقل و تجربہ ہے۔
حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں:
{ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا ۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ } (مریم)
میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا، اور نہ میں بدکار ہوں ، فرشتے نے کہا اسی حالت میں ہوگا، تیرے رب نے کہا ہے کہ یہ مجھ پر آسان ہے۔
بغیر باپ کے بچہ پیدا ہونا، یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔
قوم کے لوگ حضرت مریم کے پاس آئے اور انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا، حضرت مریم نے شیر خوار بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے پوچھو، قوم کہنے لگی:
{ کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ صَبِیًّا } (مریم)ہم گہوارے میں جھولنے والے بچے سے کیسے بات کرسکتے ہیں۔اس بچہ نے کہا:{ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ } (مریم)
میں اللہ کا بندہ ہوں۔نوزائیدہ بچہ کا بولنا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
اس طرح قرآن مجید کی کئی آیات عقل کے خلاف ہیں، پھر تو قرآن مجید بھی حجت نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً: ہدہد کا گفتگو کرنا (سورۃ النمل: 22تا 26) اور چونٹیوں کا بولنا (سورۃالنمل: 18) عقل کے خلاف ہے بلکہ جتنے معجزات ہوئے ہیں، وہ سب عقل کے خلاف ہیں۔
یہ قرآنی آیات ہیں، جو اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار غلط ہے نہ کہ قرآنی آیات۔ آج بذریعہ لاسلکی جوہزاروں میل کی بات ہم سن لیتے ہیں، کیا ہمارے اجداد کی عقل میں یہ بات آسکتی تھی، کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اور آج بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں، جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، نہ اس کا ہم نے کبھی مشاہدہ کیا، لیکن ہم انہیں عقل کے اور مشاہدہ کے خلاف نہیں سمجھتے ، محض چند علم والوں پر اعتبار کرکے ہم یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی ایسا ہوگا۔ اگر رسول کی کوئی بات ہماری عقل و تجربہ کے خلاف ہو، تو کیوں نہ تسلیم کریں، ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ ہم مشاہدہ کر ہی نہ سکتے ہوں، ہوسکتا ہے کہ ہمارا تجربہ غلط ہو۔
جب رسول ہی پر اترے ایک کلام میں موجود باتوں کو باوجود اپنے مشاہدے کے خلاف ہونے کے حق مانتے ہیں تو اسی رسول کے اپنے کلام میں موجود ایسی باتوں کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟ کیوں اس کی بات کو عقل و تجربہ کی میزان میں رکھ کر تولنے لگیں، کیا یہ انصاف ہے؟
منکرین حدیث کے معیار ردوقبول حدیث -آخری بات :
عجیب بات ہے کہ جنہیں حدیثوں پر غیرت آتی ہے اور اس غیرت کے سبب حدیثوں کا انکار شروع کر دیتے ہیں، انہیں آیتوں پر غیرت نہیں آتی بلکہ وہاں ایمان یاد آ جاتا ہے۔ یہ وہ تذبذب ہے کہ جس کا شکار آج کے منکرین حدیث اور متجددین ہیں۔
عرض یہ ہے کہ محض اعتراض وارد کر دینے سے اگر کوئی کلام مشکوک ٹھہرتا تو سب سے پہلے اللہ کی کتاب مشکوک قرار پاتی ہے ۔اگر منکر حدیث کو حدیث پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج اللہ کے عرش کے نیچے جا کر کیسے سجدہ کر سکتا ہے؟ تو ملحد کو قرآن مجید پر یہ اعتراض ہے کہ قرآن کا سورج ایک گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے؟ اگر منکر حدیث کو یہ اعتراض ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے سامنے بے لباس ہو گئے تھے تو ملحد کو قرآن پر یہ اعتراض ہے کہ آدم اور حوا علیہھما السلام اپنے دشمن کے سامنے بے لباس ہو گئے؟اگر منکر حدیث کو یہ شبہہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمر کی لڑکی سے کیسے نکاح کر سکتے ہیں؟ تو ملحد کو یہ شبہہ ہے کہ خدا چھوٹے بچے کے قتل کا حکم خضر علیہ السلام کو کیسے دے سکتا ہے؟ اگر منکر حدیث کو یہ اعتراض ہے کہ مرتد کی سزا قتل کیسے ہو سکتی ہے؟ تو ملحد کو قرآن مجید یہ اعتراض ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے پر توبہ کی یہ صورت کہ آپس میں ہی ایک دوسرے کی گردنیں اڑائیں؟ وعلی ھذا القیاس، حدیث پر کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید پر بھی وارد نہ ہوتا ہو۔ ایسے قرآنی واقعات میں منکرین حدیث و ماڈرنسٹوں کو توہین، عقل، منطق سب بھول جاتا ہے، صرف ایمان یاد رہ جاتا ہے۔تو غیرت، عقل اور منطق کے جس ترازو سے حدیث کو تول رہے ہو، اسی ترازو سے اگر قرآن مجید کو بھی تولو گے تو تمہارے بوجھے میں کچھ نہیں بچے گا سوائے الحاد کے۔
اور حقیقت یہی ہے کہ رویے اصل میں دو ہی ہیں یا ایمان یا الحاد۔ اور جو ان کے بیچ کا ہے تو وہ سراسر منافقت ہے۔ قرآن بھی خبر ہے اور حدیث بھی خبر ہے۔ خبر کے اصولوں پر دونوں کو پرکھ لو۔اگر حدیث کو اپنے مخصوص غیرت اور عقل کے اصولوں پر پرکھو گے اور اپنے اس رویے میں مخلص ہوئے تو ضرور بالضرور قرآن کا بھی انکار کرو گے کہ قرآن میں وہ باتیں زیادہ صراحت سے موجود ہیں کہ جن کا تم احادیث میں انکار کر چکے ہو۔
اس تحریری سلسلے میں کچھ لوگوں نے ہمیں طعنہ دیا کہ ہم قرآن کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں حالانکہ ہمارا ایسا کوئی مقصد نہیں ہے نا ہماری تحاریر سے ایسا کچھ ظاہر ہوتا ہے ، ہم نے اس سلسلے میں منکرین حدیث و متجددین کے ان دوررخے اور منافقانہ اصولوں کی پردہ دری کی ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ منکرین حدیث میں سے کتنے ہیں جنہوں نے مستشرقین و ملحدین کے اعتراضات کے جواب میں قرآن مجید کا دفاع کیا ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ملحدین اور مستشرقین نے قرآن مجید پر جو کیچڑ اچھالا ہے، اس کا بھی علمی وتحقیقی جواب سینکڑوں کتب ومقالات کی صورت میں اگر کسی نے دیا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو حدیثوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ ہم حدیث کے اس سلسلے سے پہلے قرآن کے موضوع پر مستشرقین و ملحدین کے تمام بڑے اعتراضات کا جواب دے چکے ہیں ، وہ سب تحاریر ہماری سائیٹ پر یہاں موجود ہیں۔ حال ہی میں ملحدین نے ‘قرآن کے مصنفین ‘نام کی ایک کتاب پبلش کی اسکا جواب بھی کسی منکر حدیث نام نہاد اہل قرآن کو دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اسکا جواب بھی اگر کسی نے دیا ہے تویہی لوگ ہیں جو حدیث کا بھی دفاع کررہے ہیں ۔۔
معیارِقبولِ حدیث:حدیث قرآن اورنبیؐ وصحابہ کی شان کیخلاف ناہو | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 10, 2017 at 7:31 am[…] دوسری قسط :معیارِقبولِ حدیث:خلاف علم/عقل/مشاہدہ ناہو […]