’’مسلمان مغرب کے وسائل اور فراہم کردہ سہولتیں استعمال بھی کرتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں‘‘
یہ جملہ نہ صرف سچ بلکہ پہلی نظرمیں تو واقعی میں زوردار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس نادر نکتے پر ذرا گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔پہلے تو ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے یہ وسائل مانگ کر نہیں لئے۔ بلکہ ہمیں اگر کچھ بھی ملتا ہے تو وہ مغرب کے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے کہ ان کو مستقل طور پر نئی مارکٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کونے کونے میں اپنی منڈیاں کھولے ہوئے بیٹھے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مغرب ہمیں جو کچھ دے رہا ہے ہم سے اس کی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس لئے ہم پر احسان جتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد بڑی حد تک استعماری دور میں پڑی ہے جس میں واقعتاً مسلمانوں کی زمینوں سے لوٹے ہوئے وسائل نے ہی مغرب کی مادی ترقی کو مہمیز دی۔ اگر مغرب اپنی کامیابیوں کو مفت بھی ہم سے شیر کرتا ہے تو بھی کسی حد تک ہمارا یہ حق تھا چہ جائیکہ ہم سے پورا معاوضہ وصول کر کے اپنی پراڈکٹ اور خدمات ہمیں بیچ کر ہم پر اپنا احسان جتانے لگے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جب مسلمان مغرب کے وسائل استعمال کرنے سے قاصر تھا اور نہ ہی استعمال کرنا چاہتا تھا اور ان وسائل کے استعمال سے معاشرے میں جو تبدیلیاں پیدا ہورہی تھیں اس کا سامنا کرنے کی اس میں استعداد ہی نہیں تھی ایسے میں مغرب نے اپنی سیاسی قوت اور معاشی قوت کو بروئے کار لاکر ہم پر بزور ان وسائل کو مسلط کیا۔ ایسے میں ان وسائل کے لئے ہم پر احسانات جتانامغرب کو تو زیب دیتا ہی نہیں لیکن یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہمارے یہ نابغۂ روزگار دانشور جو کہ مغرب کی نمائندگی کرتے ہیں کس درجے میں ذہنی دیولیہ پن کے شکار ہیں۔ آج بھی جب ہم مغربی وسائل کا استعمال کرتے ہیں تو ایک مسلسل جدوجہد سے گذرتے ہیں اور مستقل طور پر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان وسائل کے استعمال کرنے کی وجہ سے ہماری تہذیب اور اقدار پر جو منفی اثرات پڑتے ہیں ان سے خود کو اور ہماری نئی نسل کو بچائیں۔
تعجب ہے کہ جب دیندار طبقہ ریڈیواور ٹیلیوژن کی مخالفت میں فتوی دیتا ہے تو وہ تنگ نظر اور جب ان کو سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت مجبور ہوکر استعمال کرتا ہے تو پھر لازم ہے مغرب کی بے بنیاد تہذیبی اقدار کو بھی جوں کا توں تسلیم کرلیں۔
اصل بات ہے کچھ اور۔ مغربی وسائل میں جو ترقی ہورہی ہے اسکے نتیجے میں آج ہماری تعلیم یافتہ نسل اس قابل ہوچکی ہے کہ انہی وسائل کو اسلام کیلئے بروئے کار لاسکے بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر قسم کی اسلامی تحریکیں انہیں وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مغرب کے خلاف ایک باقاعدہ مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش میں کامیاب نظر آتی ہیں۔
یہی جدت پسند طبقہ تھا جو ان مغربی “وسائل” کو کبھی ہم پر مسلط کرنے کے لئے بے تاب تھا اور آج بھی ان علماء کو گالیاں دینے میں خاص قسم کی لذت محسوس کرتا ہے جنہوں نے ریڈیو کو حرام قرار دیا تھا۔ لیکن آج یہ وسائل ریڈیو سے ہوتے ہوئےٹی وی، انٹرنیٹ اور فیس بک کو پہونچنے تک اُمت مسلمہ بھی تیار ہوچکی ہے ۔ پس انہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو ان وسائل کے استعمال کرنے اور نہ کرنے سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ ان وسائل کو مغرب کے خلاف استعمال کرنے سے ہے۔ پہلے وسائل کا استعمال نہ کرنا ان کی پریشانی تھی کہ مغرب کے ملحدانہ اقدار کو پھیلانے میں رکاوٹ تھے اور اب کوئی پریشانی ہے تو وہ یہ ہےکہ انہیں وسائل کو مغرب کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے! ایسی بے چینی اور پریشانی ایک ہارتے ہوئے فریق کو ہی لاحق ہوسکتی ہے۔
دراصل مغرب کے جدید وسائل کو اسلام کی حفاظت، اشاعت اور اقامت کےلئے استعمال ہونا ایک زبردست پیش رفت۔ اس کو آپ مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں یا جدید زبان میں بقائے اصلح بھی۔ مغرب کے اپنے ایجاد کردہ وسائل کا اسی کے خلاف استعمال ہونا اور مغرب کا اس معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ دھیرے دھیرے مغرب وقت کے رفتار میں پیچھے پڑ رہا ہے۔ ایسی تہذیب جو ان جدید وسائل کو جھوٹ پھیلانے، منطقی انداز میں ڈائیلاگ کے بجائے کارٹون بنانے، آزادی کے نام پر بدگوئی کرنے، فحش نگاری (pornography) پھیلانے، وغیرہ میں استعمال کرنے میں ہی پرجوش ہو اور دوسری طرف مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادمسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کو اسلامی معلومات فراہم کرنے، شرق تا غرب اسلامی اتحاد کا جال (network) پھیلانے، مغربی اقوام کے خلاف ایک معروضی اور منطقی مقدمہ کھڑا کرنے، توحید کے شفاف چشمے سے نکلے ہوئے اسلامی علوم کی ترویج کرنے میں استعمال کر رہے ہوں(۱) تو مغرب اور ان کے پروردہ دانشوروں کو جو پریشانی لاحق ہے وہ تو ہوگی ہی۔
الغرض مغرب کے وسائل کا مغرب کے خلاف استعمال ہونا ان کی اپنی ناکامی ہے۔ مغرب اور مغرب کے پروردہ دانشور ان وسائل کی وجہ سے ہم پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ یہ ہم پر زبردستی مسلط کئے گئے تھے اور پھر نہ صرف معاشی اعتبار سے اس کی پوری قیمت وصول کی گئی بلکہ ان وسائل کی ترقی میں ہمارا ہی لوٹا ہوا مال استعمال کیا گیا۔ ان مسلط کردہ وسائل کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی نظام کو شدید صدمہ بھی پہونچایا گیا ہے اور اب جبکہ ہم کسی طرح سے اس صدمہ کو جھیل کے پھر سےکھڑے ہونے کے قابل ہورہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی مظلومیت کا واویلا کرنے کے بجائے کسی کونے میں جاکر سینہ کوبی کریں۔
ابوزید، سہ ماہی ایقاظ
یوشع قاسمی
December 11, 2022 at 2:55 pmواہ واہ کیا خوب، دل روشن کر دیا،
اللہ جزائے خیر دے، مسکت جواب ہے۔