نظریہ ارتقاء کو خدا کے انکار کیلئےاستعمال کیوں نہیں کیاجاسکتا؟


زندگی کے بارے میں ایک بہت ہی پرکشش تصور یہ ہے کہ ابتدا میں خدا نے کچھ مخصوص طاقتیں چند مخلوقات یا کسی ایک مخلوق کو عطا کیں۔ پھر جب زمین اپنی گردش کرتی رہی اور قدرت کے لازمی قوانین، جیسے کششِ ثقل، اپنا کام کرتے رہے تو یہ سادہ سی مخلوقات وجود میں آتی گئیں۔ ان کا آغاز تو سادگی سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ یہ مخلوقات نہایت خوبصورت اور حیرت انگیز شکلیں اختیار کرتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ (چارلس ڈارون)

خدا پر ایمان رکھنے اور ارتقاء کے سائنسی نظریے میں دراصل کوئی حقیقی اختلاف نہیں۔ اصل اختلاف تو اس اضافی فلسفیانہ سوچ یا خیالی دعوے سے ہے جو سائنس کے اصولِ ارتقاء پر تھوپ دی گئی ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ ارتقاء کا عمل بغیر کسی مقصد، بغیر کسی خدا، یا کسی راہنمائی یا ضابطے کے، بس خود بخود چلتا جا رہا ہے — یہ بات سائنسی نہیں بلکہ فلسفیانہ ہے۔ (ایلوِن پلانٹنگا، “Science, Religion and Naturalism: Where the Conflict Really Lies”)

میڈیا میں ڈارون ازم اور کریشن ازم پر روز نئی نئی بحثیں ہوتی رہتی ہیں، اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ان جذباتی تقاریر میں الجھ کر اصل بات سے دور ہو جائے۔ لیکن اگر ان لفظی گتھیوں کو چھوڑ کر ہم غور کریں، تو یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خدا کے وجود سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ میری مراد کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ارتقاء کے جس عمل میں بے ترتیب تغیر (یعنی جینیاتی تبدیلی) اور قدرتی انتخاب کام کرتے ہیں، اُسے بعض لوگ خدا کے وجود کے خلاف ایک متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریاضی دان جان لینکس اپنی کتاب “God’s Undertaker: Has Science Buried God?” میں واضح کرتے ہیں کہ یہ ایک خاص طرزِ فکر ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ بعض لوگ فطری قوتوں کو اندھا دھن یا بے مقصد سمجھنے پر مُصر ہیں۔ بظاہر دیکھیں تو واقعی فطرت کی طاقتیں، جیسے کششِ ثقل، برقی مقناطیسیت، نیوکلیئر قوتیں — ان کے پاس تو آنکھیں نہیں، نہ ہی کوئی عقل یا شعور۔ گاڑی، گھڑی، کمپیوٹر یا سی ڈی پلیئر کو دیکھیں تو وہ بھی دیکھنے، سوچنے یا سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سب چیزیں کسی ذہین انسان کی تخلیق ہیں، جو خود اندھے یا بے شعور نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ یہ سب خودکار نظاموں کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن ان کا ڈیزائن بہت ذہانت سے کیا گیا ہے۔

یہاں جان لینکس ایک دلچسپ مثال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرض کریں ایک فیکٹری ہے جہاں روبوٹس مکمل طور پر خودکار طریقے سے گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ اب اگر ہم صرف یہ دیکھ کر کہ سارا کام روبوٹس کر رہے ہیں یہ نتیجہ نکال لیں کہ گاڑی بنانے میں کسی ذہین ہستی کا کوئی دخل نہیں، تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔ کیونکہ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ روبوٹس، ان کا سافٹ ویئر اور خود وہ فیکٹری سب بھی خود سے وجود میں آ گئے — جو کہ کوئی بھی معقول شخص نہیں مانے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سب کے پیچھے انسانی ذہانت ہے۔

یہ سوال کہ زندگی کو کسی عقل رکھنے والی ہستی نے بنایا یا یہ کسی بے شعور عمل کا نتیجہ ہے — یہ سوال سائنسی نہیں بلکہ مابعد الطبیعاتی (یعنی سائنس سے ماورا) سوال ہے۔ کیونکہ سائنس کا دائرہ اُن اسباب کا مطالعہ ہے جو زندگی کو چلائے رکھتے ہیں، لیکن وہ اس “اوّلین سبب” سے بحث نہیں کرتی کہ جس سے زندگی کی ابتدا ہوئی۔

دوسرے الفاظ میں، سائنس کے ذریعے یہ جاننا ممکن نہیں کہ وہ قوانین یا قوتیں جن سے ارتقاء کا عمل ہوتا ہے، خود کیسے وجود میں آئیں۔ اس سوال کا تعلق “حقیقی آغاز” یا “اولین سبب” سے ہے، اور ایسا سوال صرف فلسفہ یا علمِ موجودات (Ontology) کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ خیال کہ ارتقاء ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی قسم کی ذہانت یا شعور سے مکمل طور پر خالی ہے — دراصل ایک فلسفیانہ مفروضہ ہے، سائنسی حقیقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والے بہت سے افراد جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مانتے ہیں، وہ اس نظریے کو سائنس سے باہر یعنی “ماورائے سائنس” (meta-scientific) سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ارتقاء کا عمل ایک برتر ذہین ہستی کی راہنمائی میں جاری رہا (بلکل جیسے روبوٹس اور فیکٹری انسان کے ذہن کی پیداوار ہیں)۔

دوسری طرف، جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں (یعنی دہریے یا ملحدین)، ان کے لیے یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ تمام پیچیدہ قوانین اور فطری عمل بس خود بخود اور بغیر کسی ذہانت کے چل رہے ہیں۔

جان لینکس نے اپنی کتاب میں بہت سے معروف سائنس دانوں کا ذکر کیا ہے جو ارتقاء کو مانتے ہیں اور خدا پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں مشہور کیو گارڈنز کے سابق ڈائریکٹر سر گِلین پرانس، رائل سوسائٹی کے سابق نائب صدر سر برائن ہیپ، کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر باب وہائٹ، سائمن کانوے مورس، سام بیری، اور فراڈے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈینس الیگزینڈر — یہ سب ارتقائی بایولوجی کے ماہر ہیں اور دیندار بھی ہیں۔

امریکہ میں انسانی جینوم پراجیکٹ کے سربراہ فرانسز کولنز اس ارتقائی عمل کو “بائیولوگوس” (Biologos) کہتے ہیں، یعنی ارتقاء جو خدا کی رہنمائی میں ہو رہا ہے۔ یہ سب علماء اس بات کو پوری شدت سے رد کرتے ہیں کہ ارتقاء الحاد یا خدا کے انکار کی کوئی دلیل ہے۔

خود چارلس ڈارون نے بھی اس موضوع پر گہرے جذبات کے ساتھ اپنے خیالات ظاہر کیے۔ اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں:

“خدا پر ایمان کی ایک دلیل ایسی بھی ہے جو صرف جذبات پر نہیں بلکہ عقل پر مبنی ہے۔ میرے لیے یہ ماننا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہے کہ یہ عظیم کائنات، اور انسان جیسی مخلوق — جو دور دراز ماضی اور مستقبل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے — محض اندھی قوتوں یا اتفاق کی پیداوار ہو۔ جب میں اس پہلو پر غور کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ذہانت ضرور تھی جس نے یہ سب بنایا، ایک ایسی ذہانت جو کسی حد تک انسانی عقل سے مشابہ ہے۔ اس لحاظ سے، میں اپنے آپ کو خدا پر ایمان رکھنے والوں میں شمار کرتا ہوں۔”

فزکس کے ماہر اسٹیفن بار بھی اپنی کتاب “Modern Physics and Ancient Faith” میں اسی قسم کی دلیل دیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے جان لینکس نے۔ وہ رچرڈ ڈاکنز کی کتاب “The Blind Watchmaker” پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جب ہم قدرتی عوامل کا سائنسی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ کہیں نہیں ملتا کہ مکمل بدنظمی سے اچانک نظم و ضبط پیدا ہو جائے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر بے ترتیبی کے پیچھے بھی ایک نظم چھپا ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے — چاہے وہ نظر نہ آئے، پھر بھی موجود ہوتا ہے۔

جب ڈاکنز کہتے ہیں کہ گھڑیاں بنانے والا ایک اندھا کارخانہ موجود ہے، تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس طرح “پالے” (Paley) کے سوال کا جواب دے دیا ہے۔ پالے نے یہ کہا تھا کہ اگر زمین پر ایک گھڑی پڑی ملے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود بخود وہاں آ گئی ہو؟

لیکن اسٹیفن بار کہتے ہیں کہ اگر ایک گھڑی کی موجودگی کی وضاحت درکار ہے، تو ایک ایسی فیکٹری جو گھڑیاں بناتی ہے، اس کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ کیونکہ فیکٹری گھڑی سے کہیں زیادہ پیچیدہ چیز ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ گھڑی خود بخود نہیں بن سکتی لیکن گھڑیاں بنانے والی فیکٹری خود بخود بن گئی — یہ بات عقل سے میل نہیں کھاتی۔

جو حضرات اس موضوع پر مزید گہرائی میں جانا چاہیں ، وہ یہ مکالمہ دیکھ لیں Does Evolution Undermine God? – Professor Pritchard & Subboor Ahmad پروفیسر پریچرڈ یونیورسٹی آف برمنگھم میں لائف سائنس کے پروفیسر ہیں اور خود کو card-carrying Darwinist کہتے ہیں ۔ صبور احمد حمزہ اینڈرئیس کے دعوت پروجیکٹ کے ممبر ہیں ، بیالوجی میں سپیشلسٹ اور فلاسفی میں پوسٹ گریجویشن کررہے ہیں۔ اس مکالمہ میں خالص  سائنسی حوالے سے ایوولوشن  پر    بحث کی گئی ہے اور یہ اتقاء کے متعلق  عوامی سوچ اور اصل علمی حقیقت  میں فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔ ایک اوراہم ویڈیو مکالمہ نظریہ ارتقاء کے الحاد کیساتھ تعلق اور نظریہ ارتقاء کے ذریعے انکار خدا کی معقولیت پر ہے جو صبور احمد کا  ایتھیس الائنس آف امریکہ کے سابق صدر کیساتھ ہوا ۔ اس لنک سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مزید صبور احمد کی ہی ایک تقریر  نظریہ ارتقاء ، ڈارون ازم اور اسلام کے موضوع پر ہے یہ بھی نظریہ ارتقاء کے متعلق جدید ذہن کے بہت سے اشکالات کو دور کرنے میں معاون ہے۔
تحریر سکاٹ ینگرن ترجمہ احسان محمدی، علی حارث


  • یوشع شاد خان
    November 12, 2020 at 3:34 pm

    آپکا زبردست کام قابل تحسین ہے
    اللہ قبول فرماے۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password