انبیاءؑ کی گواہی پراعتباراوراسکی معقولیت پرایک بحث

یہ تحریر مذھب پر کئے جانے والے ایک اعتراض کے استدلال کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے ہے، اس سے ہمارا مقصود کسی کی توہین نہیں بلکہ صرف بات کو سمجھانے کے لیے ایک ذاتی مسئلے کو زیر بحث لایا جارہا ہے کہ “اعتبار کرنے کے نکتہ نظر سے” سائنس کا معاملہ بھی تقریبا اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا مذھب کا۔ اس جہت کے لحاظ سے دونوں میں فرق ثابت کرکے سائنس کو مذھب پر جو ایک بہت بڑی ایج دینے کی کوشش کی جاتی ہے نیز اس بنا پر مذہب پر سوال کھڑا کیا جاتا ہے وہ فرق ہی اصولا درست نہیں۔ لہذا اس بنا پر جو سوال کھڑا کیا جاتا ہے وہ بھی غلط ہے ۔ایڈمن
٭٭٭
ملاحدہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم اہل مذہب نبی کے سچا ہونے کی بنا پر اس پر اعتماد کرکے جو سب کچھ مانتے ہو تو یہ غیر عقلی رویہ ہے۔ اس کے جواب میں اگر انہیں کہا جائے کہ یہ جسے آپ لوگ اپنا والد کہتے پھرتے ہیں (اور اس بنا پر اپنے ناموں کے ساتھ پٹھان، پنجابی، جٹ، آرائیں وغیرہم لگائے پھرتے ہیں) یہ بھی تو صرف ایک عورت ہی کی گواہی کی بنا پر ہے کہ “فلاں تمھارا باپ ہے”، وہ بھی ایسی عورت جسے کئی معاملات میں ہم خود جھوٹ بولتا دیکھتے ہیں، تو اسکے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ثابت کرسکتے ہیں۔ مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں اور نہ ھی اس سے ان ملاحدہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے کیونکہ اس معاملے میں بھی انہیں بے شمار مفاد پرست اور بسا اوقات جھوٹے و بدکردار ڈاکٹروں و نرسوں پر بھروسا کرنا ہوگا۔ مثلا:
1. خون کا سمپل جس سرنج کے ذریعے لیا جارھا ہے نیز جس بوتل میں اسے محفوظ کیا جارھا ہے وہ میڈیکلی درست حالت میں ھیں (تاکہ خون کے خلیوں کے اثرات ضائع نہ ھوں)۔ جن مشینوں کے ذریعے رپورٹ لی جارھی ھے وہ بھی بھترین، عمدہ و اپ ڈیٹڈ ھیں۔ اب کونسے میڈیکل انسٹرومنٹس و مشینیں وغیرہ واقعی درست و اپ ڈیٹڈ ھیں اسکا فیصلہ کرنے کے لئے ان مشینوں سے متعلق وسیع میڈیکل علم کی ضرورت ھے
2.کسے معلوم کہ خون کے سمپل پر واقعی ٹیسٹ اپلائی کیا گیا؛ یہ بھی تو ممکن ھے کہ یونہی رپورٹ بنا کر ان کے ھاتھ میں تھما دی گئی ہو، کونسا انکے سامنے ٹیسٹ ھوتا ھے، یہ تو سمپل دے کر گھر آجاتے ہیں۔ پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ انہی کی رپورٹ ان کو دی گئی؛ یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی اور کے ٹیسٹ کی رپورٹ پر انکا نام لکھ کر انہیں تھما دی گئی ہو وغیرھم۔
3.پھر میڈیکل سائنس و جینیٹکس کا سارا علم بھی تو ظنی ہے، اس میں کئی نظریات بیک وقت موجود ھوتے ھیں۔ اب کونسا نظریہ درست ھے اسکا فیصلہ کرنے کے لئے بھی وسیع علم کی ضرورت ھے۔
4.اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈی این اے رپورٹ واقعی آپ کی ہوئی تو اپنے مرے ہوئے دادا نانا کی نسبت کا کیا کریں گے؟
الغرض ان ملاحدہ کے پاس اپنی حلت نسلی کو ثابت کرنے کا “سوائے اعتبار کرنے” کے کوئی چارہ نہیں۔ دوسرا راستہ یہ ھے کہ سب ملحدین بذات خود یہ تمام متعلقہ علم سیکھ کر، تمام انسٹرومنٹس خود ایجاد کرکے اور اپنی ھی زیر نگرانی یہ ٹیسٹ کروا کر اپنی اپنی رپورٹس پیش کریں۔

٭اعتبار کرنا پڑتا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تقریبا ساری زندگی اعتبار کی بنیاد پر قائم ہے، یہ سمجھنا کہ جدید انسان تو اپنی زندگی کا ہر فیصلہ سائنسی شواھد کی بنیاد پر کرتا ہے، محض ایک افسانہ ہے۔
1.ایک میڈیکل سٹور سے دوا خرید کر اس پر ایکسپائری ڈیٹ دیکھی اور بغیر میڈیکل ٹیسٹ کئے کھا لی، کیوں؟ دوا بنانے والی کمپنی اور بیچنے والے دکاندار پر “اعتبار”؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایکسپائری ڈیٹ غلط لکھی ہو؟
2.ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانے کا آرڈر کیا اور سرو ہونے پر کھانے کی سائنسی رپورٹ کے بغیر فورا اندر انڈیل لیا، کیوں؟ ریسٹورنٹ والوں پر “اعتبار”، کیا یہ ممکن نہیں کہ کھانے میں غیر صحت بخش اجزاء شامل ہوں؟
3.سپر سٹور سے کھانے کی چیز کا ڈبہ خریدا، اس پر اجزاء پڑھے اور بغیر لیبارٹری ٹیسٹ استعمال کرلیا، کیوں؟ کمپنی پر “اعتبار”، کیا یہ ممکن نہیں کہ ڈبے پر اجزاء غلط لکھے ہوں؟
4.ڈرائیور کا لائسنس چیک کئے نیز اس لائسنس کے درست ہونے کی تصدیق کئے نیز تصدیق کرنے والے ادارے کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کئے بغیر بس پر سوار ہوجاتے ہیں، کیوں؟ بس کمپنی پر “اعتبار”
درج بالا سب پر اعتبار کیونکہ یہ “اعتبار” ہے کہ ریاست سب پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ گویا ایک “اعتبار” کے پیچھے دوسرا “اعتبار”۔الغرض صبح سے لے کر شام تک اپنے روز مرہ کے فیصلوں کے بارے میں سوچتے جائیں، ان میں 95 فیصد سے زائد کام ایسے ہونگے جہاں 99 فیصد سے زیادہ انسان کسی نہ کسی پر اعتبار ہی کررہے ہوتے ہیں، وہ بھی ایسے افراد اور اداروں پر جن کے بارے میں انہیں آئے روز جھوٹ و فراڈ میں ملوث ہونے کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ تو اگر ایک سچے شخص (نبی) پر اعتبار کر کے کچھ مزید حقائق کا اعتراف کرلیا جائے تو اس “اعتبار” میں فی نفسہ اعتبار ہونے کے لحاظ سے عقلا کیا مسئلہ ہے؟

٭سائنسی علم پر “اعتبار”
بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ روز مرہ زندگی کے جن امور پر ہم اعتبار کررہے ہیں انہیں اصولا ہر شخص سائنسی علوم کے پیمانے پر جانچ کر سمجھ سکتا ہے۔ یہ دعوی بھی محض ایک “اعتبار” ہی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی علوم میں کسی نظرئیے و دعوے کا اثبات جن علمی ظروف (مثلا میتھمیٹکس وغیرہ) کے ذریعے اور جس اعلی علمی سطح پر کیا جاتا ہے انہیں سمجھنا عام آدمی تو درکنار متعلقہ مضمون کے اچھے خاصے ماہر و استاد کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر سائنسی مضمون کے اعلی سطح کے ماہرین آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی تبادلہ خیال (communicate) کررہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ باتیں صرف وہی محدود سے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ پھر بعد میں اس مضمون کا کوئی ماہر ان تمام مباحث کو کم تر درجے والے ماہرین کے تعارف کے لئے سادہ سی زبان میں لکھ دیتا ہے کہ ماہرین کے درمیان اب یہ بحث چل رہی ہے۔ پھر یہ کم تر درجے والے اساتذہ ان تعارفی مقالوں کے ذریعے انہیں اپنے طلباء کو سکھا دیتے ہیں اور کچھ لوگ انہیں دلچسپ جان کر اخباری کالمز یا ٹی وی پروگرامز کی زینت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے لگتے ہیں کہ “سائنس دانوں یا سائنس کے مطابق فلاں فلاں ۔۔۔۔۔” جبکہ یہ دعوے کرنے والوں کی 99.99 فیصد اکثریت میں یہ علمی لیاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ متعلقہ ماہرین کے اصل ماخذات (پیپرز یا مقالہ جات) کو سمجھ بھی سکیں۔ بس سب کچھ اعتبار پر چل رہا ہوتا ہے کہ “اتنا بڑا ماہر علم ہے، پوری زندگی لگا دی اس نے، تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا”۔
یہ حال تقریبا ہر پختہ سائنسی علم کا ہے، تو اب جن لوگوں کو اعتبار کے اصول پر اعتراض ہے انہیں چاھئے کہ پہلے تمام سائنسی علوم کے ماھر بنیں اور پھر زندگی کے فیصلے کرنا شروع کریں۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس “سنہرے اصول” کے سہارے ایک بھی فیصلہ نہ کرپائیں گے کیونکہ ان علوم میں مہارت سے قبل ہی موت واقع ہوجائے گی۔ الغرض خود تو ساری زندگی اعتبار کے سہارے گزارتے ہیں اور اھل مذھب کو طعنہ دیتے ہیں کہ “تم نبی پر اعتبار کرتے ہو”۔ تو بھائی تم اس کے سواء کیا کررہے ہو؟
٭ حیلہ: “سائنسی علم کی جانچ تو کوئی بھی کرسکتا ہے نا”
جب ملاحدہ کو کہا جائے کہ “عملی زندگی میں آپ سب بھی بس اعتبار ہی کرتے ہیں” تو اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم سائنس دانوں کی بات پر اعتبار کرتے ہیں البتہ ہمارے اور اھل مذھب کے اعتبار میں ایک جوھری فرق ہے اور وہ یہ کہ سائنسی علم کو ہر شخص جانچ (reproduce) سکتا ہے، یعنی سائنسی علوم کے تجربے میں شامل ہونا ممکن ہے۔ اس کے برعکس وحی صرف ایک نبی کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے اور پوری دنیا کا کوئی بھی انسان اسے جانچ نہیں سکتا۔ یوں ان دونوں قسم کے اعتبار میں بہت فرق ہے، ایک کو جانچنا “ہر کسی” کے لئے ممکن ہے جبکہ دوسرے کو جانچنا “کسی کے لئے بھی” ممکن نہیں۔ چنانچہ اس لحاظ سے سائنسی علم پر اعتبار زیادہ علمی و قابل توجیہہ ہے۔
اس جواب پر مختلف سطحوں پر گفتگو کرنا ممکن ہے، سردست اس میں پیوست ایک غیر ثابت شدہ مفروضے کی نشاندہی کرنا مقصود ہے۔ اصلا اس جواب میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ “سائنس میں اپنے مخصوص ایریا آف سیشلائزیشن سے باہر دیگر سائنسی علوم کو جانچنے کے پیمانے موجود ہیں، چنانچہ ‘ہر سائنس دان’ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ چاہے تو ان کی جانچ کرلے۔”یہ دعوی صرف ایک فرضی قضیہ ہے جو خود سائنسی علمی پیمانے پر پورا نہیں اترتا۔ دیکھئے جب آج تک ایسا کوئی انسان گزرا ہی نہیں کہ جس نے تمام علوم میں شمولیت کے بعد انکی سچائی کو جان لیا ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فرضی قضئیے کی سچائی کی کیا دلیل ہے کہ “سائنس دان بغیر جانے جن حقیقتوں کو مان رہا ہے اگر کوئی چاہے تو اسے پرکھ سکتا ہے؟” آخر بذات خود یہ قضیہ آج تک کس انسان نے verify کرکے ثابت کیا کہ ‘میرے محدود سے علم کے باہر جو کچھ سائنسی علم ہے وہ سائنسی پیمانوں پر ثابت شدہ ہی ایک سچائی ہے اور میں نے اسے verify کرلیا ہے، لہذا اب کوئی بھی ایسا کرسکتا ہے؟” تو جو قضیہ آج تک کسی انسان نے verify کیا ہی نہیں اور نہ ہی اس کا امکان ہے اس کی بنا پر یہ کیسے مان لیا جائے کہ “ہر انسان کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے؟” آخر کسی شخص کو یہ کیسے پتہ چلا کہ جس علم کا وہ ماہر نہیں اسے پرکھا جاسکتا ہے جبکہ اس نے ابھی اسے پرکھا ہی نہیں؟!
اتنا ہی نہیں، بلکہ اپنے محدود سے سائنسی علم کے باھر جو بے انتہاء علم موجود ہے اس کے بارے میں یہ کون کہہ سکتا ہے اور کس نے ایسا کیا؟ دیکھئے کسی دعوے کو جانچنے کا سائنسی پیمانہ یہی ہے نا کہ یا تو وہ تجرباتی مشاھدے میں آیا ہو اور یا منطقی طور پر قابل مشاھدہ ہو۔ تو یہ دعوی کہ “سائنسی علوم کی سائنسیت کو کوئی بھی انسان جانچ سکتا ہے” ان دونوں پیمانوں پر پورا نہیں اترتا، ایسا انسان نہ تو کبھی گزرا اور نہ گزرے گا جو یہ کہہ سکے کہ “تمام سائنسی علوم reproducible ہیں اور میں نے یہ verify کرلیا ہے”۔ چنانچہ جانچ کئے بغیر یہ صرف “اعتبار” پر مبنی ایک مفروضہ ہی ہے کہ میرے محدود سے علم کے باہر جو دیگر سائنسی علوم ہیں وہ سب بھی reproducible ہیں کیونکہ اس دعوے کی جانچ آج تک کسی نے نہیں کی اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ پس یہ دعوی صرف ایک فرضی قضیہ ہے، اس کی بنیاد پر اعتراض تب درست ہے جب پہلے اسے ثابت کردیا جائے۔ تو یہ کیونکر مان لیا جائے کہ “سائنسی علوم کو ہر شخص reproduce کرسکتا ہے؟” ہمارا کہنا یہ ہے کہ نہیں کرسکتا، ہر سائنسی علم کے حقائق و تجربات نہایت ہی محدود لوگوں کے ذاتی تجربات ہی تھے اور رہیں گے، اپنے ان محدود تجربات سے باہر ہر کسی کو بس یہ “اعتبار” ہی ہے کہ دوسرے سب لوگوں کا علم بھی اسی طرح جانچ کے لائق ہی ہوگا۔!
یہ تو تھا اس جواب کا ایک منطقی تجزیہ۔ اب آئیے عملی پہلو کی طرف۔ عملا ملاحدہ بھی وہی کررھے ہیں جس کا وہ اھل مذھب کو طعنہ دیتے ہیں۔ کسی ایک علم میں شریک ہوکر حقائق معلوم کرنے والا سائنسدان بھی اس نہایت ہی محدود سے علم سے باھر دیگر تمام سائنسی علوم میں ایک اعتبار کرنے والا بے بس مقلد ہی ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے ہی مضمون کے ایک چھوٹے سے ایریا کا ماھر ہوتا ہے، خود اس کے مضمون میں بھی اس کے ایریا آف سپیشلائزیشن سے باھر کا علم نہایت وسیع ہوتا ہے۔ گویا یوں سمجھئے کہ ایک بڑے سے بڑے سائنسدان کی زندگی کا بھی 99 فیصد حصہ دوسرے ماھرین پر اعتبار کے سہارے قائم ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسا سائنسدان ہے جس نے تمام سائنسی علوم کے حقائق میں شمولیت اختیار کرکے زندگی گزاری ہو؟ ایسا نہ تو کوئی تھا اور نہ ہی ہوگا۔
یہ جواب کسی بھی طرح ملاحدہ کا مسئلہ حل نہیں کرتا کیونکہ وہ علمی منزل جس پہ پہنچ کے کوئی شخص اس علم کو reproduce کرسکتا ہے ننانوے اعشاریہ نناوے فیصد اکثریت کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتی، گویا یہ تمام اکثریت ہمیشہ ایک نہایت ہی چھوٹی سی اشرافیہ کی بات ماننے اور ان پر اعتبار کرنے پر مجبور ہے کہ “انکی بات ٹھیک ہی ہوگی”۔دوسری طرف وحی کے تجربے کی گواھی کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ھزار انسانوں نے دی جنہیں انکے معاشرے کے ھزاروں لاکھوں انسانوں نے صادق و امین پایا۔ لہذا “عملی زندگی” میں صورت حال ایک ہی رھتی ہے۔
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ “سائنسی علوم کم ازکم ان لوگوں پر تو ثابت ہیں جو انہیں پڑھتے ہیں جبکہ وحی کا علم کسی پر بھی ثابت نہیں” تو یہ دعوی اپنی نوعیت میں بذات خود ایک ذاتی تجربے جیسا ہے۔ مثلا میرے والد کے لئے فزکس کی سائنسی جانچ ثابت نہیں اور عمر کے جس حصے میں وہ پہنچ چکے اب انکے لئے یہ کرنا ممکن بھی نہیں۔ بتائیے اب وہ کسی ماھر فزکس کے ذاتی تجربے پر کیوں اعتبار کریں؟ اور اگر اعتبار کریں تو اس اعتبار میں جوھری طور پر کیا فرق ہے؟
رہی یہ بات کہ “علمی و منطقی اعتبار سے علمی معیار کے قریب کونسا علم ہے” تو اس کا جواب تو اس پر منحصر ہے کہ “علمی معیار” کسے مانا جارھا ھے؟ ھر معلومات کو جانچنے کا علمی معیار الگ الگ ہے۔ ٹماٹر لال ہے کو جانچنے کا معیار بصارت صحیحہ ہے، دو جمع دو چار ہوتے ہیں کو جانچنے کا معیار منطق صحیحہ ہے، اور ماضی کے کسی واقعے کی سچائی کو جانچنے کا معیار مخبر کے کردار پر ہے۔ اگر مخبر سچا ہے اور اسکی بات ایسی ہے کہ جس کو عقل ناممکن نہ کہے بلکہ اسکی ضرورت کی قائل ہو تو ایسی بات کو ماننا ہی علمی معیار کے مطابق ہے۔یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ وحی کو تجرباتی علوم کے پیمانوں پر جانچ کر اس کی تصدیق کا مطالبہ کرنا بذات خود حماقت انگیز استدلال ہے کیونکہ وحی خبر ہے اور خبر ان پیمانوں پر قابل جانچ نہیں ہوتی جن پیمانوں ہر حواس کا علم قابل جانچ ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ “نیوٹن نامی ایک انسان گزرا ہے” اس دعوے کو میں تب مانوں گا جب کوئی مجھے کسی دوربین میں نیوٹن دکھا دے یا کسی تجربے سے اسے ثابت کردے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہر دعوے کے اثبات کے لئے دلیل دعوے کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے۔

مزید : مذہبی اور سائنسی ایمان میں فرق کی منطق

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password