مذہبی ایمان، سائنسی ایمان اور منطق

یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہوتا ہے کہ ہم معروضی حقائق کو پوری صراحت کے ساتھ جانتے ہیں، خاص طور پر جب کہ ہم نے مادی سائنسز کا خاصہ علم حاصل کیا ہوا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ہرمعروضی حقیقت کو براہ راست جانتے نہیں ہیں۔ بلکہ سائنس کے معاملے میں تو ہمیں مدعین سائنس کی انتہائی قلیل تعداد کے بیانات کو حقیقت ماننا پڑتا ہے۔ سائنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تجربے کی ریپیٹیشن سے ہر بار درست ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں سوائے ھائی سکول لیول کی سائنس کے ، باقی تجربات لیبارٹری صورتحال میں کئیے ہی نہیں جاسکتے خاص طور پر آسٹروفزکس، نینو فزکس، کوانٹم فزکس اور جینیٹکس انجینئیرنگ کے۔ اور پاکستان ہی کیا، ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتہائی محدود تعداد کے سکالرز کو پارٹیکل ایکسلیریٹرز یا ھبل جیسی ٹیلیسکوپس سے ملنے والے تمام ڈیٹا تک رسائی ہے۔ ساری دنیا کے سکالرزکی ایک عظیم تعداد کو ان سائنسی دعووں کو کنفرم کرنے کے نہ مواقع میسر ہیں اور نہ ہی ان کو اس بات کی کوئی اجازت دینے کو تیار ہے کہ آئیں اور ہماری فیسیلیٹی میں آکر ہمارے دعوے کو ٹسٹ کرلیں۔
سائنسی نظریہ پر ایمان لانا، کسی مذہبی نقطہ نظر پر ایمان لانے سے کس طرح مختلف ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں اندھا ایمان “blind faith ” نہیں ہیں؟ بگ بینگ کو ہی دیکھ لیں یہ ابھی نظریہ (theory) ہے نہ کہ مشاہدہ (observation) یا تجربہ (experiment)۔ اس کے حق میں جو سائنسی دلائل بیان کیے جاتے ہیں تو ان کی تصدیق کتنوں کو نصیب ہے؟ ہبل (Hubble) سے پھیلتی ہوئی کائنات کا مشاہدہ کتنوں کو نصیب ہے؟ یا سرخ تغیر (Red Shift) اور کائناتی پس پردہ شعاع ریزی (Cosmic Background Radiation) کو کتنے لوگ سمجھ سکتے ہیں؟ ایک بدو کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے نزول او ر کائنات کے پھیلاؤ پر ایمان لانے میں کیا فرق ہے؟ اور ایک دیہاتی کے لیے واقعہ معراج کو مان لینے اور چاند پر انسان کی لینڈنگ پر ایمان لانے میں کیا فرق ہے؟ ایک عام شخص کے پاس وہ اہلیت وصلاحیت اور آلات و سازوسامان (Tools and Resources) نہیں ہے کہ جن کی مدد سے وہ سائنسدانوں کے کسی دعوی کی تصدیق کر سکے۔ وہ صرف ایک ہی رستے سے سائنسدانوں کی بات مان سکتا ہے اور وہ ان پر ایمان اور یقین کا رستہ ہے
اگر کائنات کی ابتدا کے بارے کوئی سائنسی نظریہ، مشاہدہ یا تجربہ (observation or experiment) سے ثابت ہو بھی جائے تو دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو سائنسی مشاہدے یا تجربات کو متعلقہ علوم کی اصطلاحی زبان میں (in terms of concerned sciences) سمجھنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں؟ “ایم –تھیوری” سے اگر آپ کائنات کی تشریح کر دیں تو اس تھیوری کو دنیا میں سمجھنے والے کتنے لوگ ہوں گے؟ اپنی اہلیت اور علم دونوں پہلوؤں سے؟ “ایم -تھیو ری”، ماہرین فزکس کی سمجھ میں جتنی آئے سو آئے، بقیہ دنیا کے لیے یہ سائنس نہیں بلکہ سائنسدانوں پر ایمان بالغیب کا سوال ہی رہے گا۔
ہم جس شے کوتجربی سائنس کہتے ہیں اور جسے اپنے فلسفہ سائنس میں دلیل کے طور پر لاتے ہیں وہ سائنس نہیں ٹیکنالوجی ہے۔ ہم اس ٹیکنالوجی میں ریسرچ وغیرہ کے حوالے کو سائنس کے عمومی طریقہ کار کی سچائی کو ثابت کرنے کیلئیے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ یہ محض مغالطہ ہے۔ وہ سائنس جس نے ہماری فلسفیانہ فہم میں ہلچل مچائی ہوئی ہے اس تک تو دنیا کی زیادہ تر تعلیم گاہوں اور انسانیت کی عظیم تعداد کی رسائی ہی نہیں۔ سو، لے دے کے انسانیت کے پاس جو حل پچتا ہے وہ یہ کہ ان سائنسی دعوے کرنے والوں کی بات مان لیں اور اسے سائنس تسلیم کرکے اس کائنات کے بارے میں اپنی فہم کی، بلا اپنی تجربی گواہی کے، تعمیر کریں اور اس کو اپنے سائنسی ایمان کا حصہ بنائیں۔ آج کی سائنس کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ انسانوں کی عظیم تعداد سے، سائنسی اصولوں کے مطابق، یہ منوالے کہ سائنس کے وہ سارے دعوے بھی درست ہیں جن کے حواسی تجربے تک عام انسان کی رسائی نہیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا کی عظیم آبادی اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ سائنسدان اس کائنات، اس میں موجود مادے اور طاقتوں اور اس کے ازل اور ابد کے بارے میں جو دعوے کررہے ہیں وہ درست ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بغیر تجربے کے بغیر کسی آبزرویشن کے، یہ تمام انسان، آخر کس منطق کی بنا پر سائنسدانوں کے دعووں کو سچا مانتے ہیں؟ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے۔ سب انسان سائنسدانوں کے تمام دعووں کو بلا تجربہ، بغیر سوال اٹھائے اسی منطق کی بنا پر حق تسلیم کرتے ہیں جس منطق کے ذریعے وہ مذہبی دعووں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر فلاسفہ کے نزدیک ان کا مذہب کے دعاوی پر ایمان غیر منطقی ہے تو پھر سائنس کے دعاوی کی حقانیت پر ایمان کی بھی کوئی منطق نہیں رہ جاتی۔ لہٰذا مذہب کی منطق پر سوال اٹھانا اور اس کا تمسخر اڑانا اورعام اعلیٰ علمی انسانی سطح پرسائنس کے تجرباتی طور پر غیر ثابت شدہ دعووں پر بلا چوں و چرا ایمان رکھنا، دانشوروں کے فکری بحران سے زیادہ کچھ نہیں۔
استفادہ تحریر نعمان علی خان، حافظ زبیر

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password