آج کے اس تحقیقی اور سائنسی دور میں جب انٹرنیٹ معاشرے کا جزو لا ینفک بنتا جا رہا ہے ,
ایک صاحب نے مشہور فلسفی کانٹ کے حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اعتراض کے حوالے سے پوسٹ لگائی ہے کہ
دورِ نزول قرآن سے لے کر اب تک عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی، اُمت مسلمہ میں ایک مجمع علیہ اور
جہاں تک قربانی کے سنت اور مشروع ہونے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ ابتدا سے اُمت میں متفق علیہ ہے
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کو رؤیتِ ہلال پر منحصر نہیں رکھا، اور اس لیے
وہ سچا عظیم معبود۔ کائنات کا حقیقی مالک اور خالق! اُس کی صفات کا احاطہ کون کر سکتا ہے! اور
ایک ایسا انسان ہونے کے ناتے جو خدا سے اپنے تعلق کی الجھنوں میں گھرا ہے، میں نے قرآن کریم
ہمارا حج… عشرہ ذوالحج، قربانی اور ایامِ تشریق کی ہماری یہ تکبیریں… ملتِ ابراہیمؑ کی یاد آوری کا یہ پورا
بات یہ نہیں کہ دور گذشتہ میں اسلامی تہذیب کوکوئی چیلنج درپیش نہیں ہوا، لاریب کہ ہوا، ایک سے زیادہ
مشہور مفکر و فلاسفر احمد جاوید صاحب کی ایک قیمتی تحریر پیش ہے، اس میں احمد صاحب نے ناصرف مغرب
نظام تعلیم کی دینی بنیاد: ہمیں جو چیزیں فوری طور پر علمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیے لیے سیکھنی چاہیے
اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل
پچھلے وقتوں کے سیدھے سادے ایمان والے جو بہت تھوڑی معلومات مگر بہت راسخ ایمان رکھتے تھے آج کی دنیا
مغربی تہذیب نے جس فلسفہ اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘
جہاد جو آج کے دور کا سب سے ہاٹ ٹاپک ہے، اپنوں اور غیروں نے اسلام سے لوگوں کو بدظن
جہاد جاھد یجاھد سے فعال کے وزن پر مصدر ہے۔ اس فعل کا دوسرا مصدر مفاعلۃ کے وزن ہر مجاھدۃ
عصر حاضر میں جہادکے موضوع پر کام کرنے والوں میں بہت سے اہل علم نے اس سوال سے صرف نظر
۔ 4۔لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کے لیے ان پر ظلم٭ ظلم اور فساد کی ایک اور
یہ مکالمہ ڈاکٹر مشتاق صاحب چیئرمین شعبہ قانون اسلامی یونیورسٹی، ڈاکٹر شہباز ، پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی، ڈاکٹر زاہد مغل صاحب
اسلامی تاریخ کے سرسری مطالعے کی بنیاد پر یہ رائے قائم کیا گیا ہے کہ جب مسلمانوں کو قدرت و
جہاد کی فرضیت اسلام کے جاری کردہ احکام میں سے نہیں ہے بلکہ کلمہ حق کی سربلندی اور انسانی سوسائٹی
لفظ ’جہاد‘ کا استعمال آئے دن سیاست دانوں،نشریاتی ایجنسیوں اور صحافتی اداروں کے ذریعے ہوتارہتاہے۔ اکثر موقعوں پر اِس کااستعمال
حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ‘ دوسرا سیاسی اور مادی
مغربی تصورات کے پیدا ہوئے فتنہ ارتداد کے خلاف ہمارا (دیندار طبقے کا) ردِ عمل اگرچہ کئی طرح کا ہے
جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں پر الفاظ
معروضیت : بعض مسلم دانش وروں کے تاثرات کی روشنی میں ایک جائزہ : اصولِ تحقیق پر جدید دور میں
عصرِ حاضر میں جہاد پر لکھنے والے کئی اہلِ علم نے فقہائے کرام کے کام کو ان کے زمانے اور
اتمامِ حجت جسے “قانون” کہا جاتا ہے اور اسکو قرآن کے سمجھنے کے لیے بنیادی اور مسلمہ حقیقت کے طور
جناب غامدی صاحب “قانونِ دعوت “میں لکھتے ہیں : “اللہ کے جو پیغمبر بھی اس دنیا میں آئے ، قرآن
غامدی صاحب بڑے دلچسپ مفکرھیں، جب اور جہاں چاھتے ہیں اپنے مطلب کے نتائج نکالنے کیلئے ایک اصول وضع کرلیتے