جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ”اگر تجرباتی یا امپیریکل (حواس پر مبنی) دلیل (evidence) کی بنیاد پر وجود خداوندی ثابت نہیں کیا جا سکتا تو اسکا مطلب وجود خداوندی کا عدم وجود ھے” ایسے لوگ قابل رحم حد تک عقل کے دشمن ہیں۔ انکا یہ دعوی تہہ در تہہ فلسفیانہ اغلاط کا مجموعہ ھے، یہاں چند ایک بیان کی جاتی ھیں۔
1.ان حضرات کو اتنی بنیادی بات بھی معلوم نہیں کہ evidence کی نوعیت و ماہیت مطلوب evident یعنی subject of knowledge کا دائرہ تبدیل ھونے سے تبدیل ہوجاتی ھے، کسی ایک ہی قسم کے evidence کو حقیقت و علمیت کے تمام دائروں پر اپلائ کرنا کم عقلی کے سواء اور کچھ نہیں۔ جسے “ثبوت” کہا جاتا ہے وہ عقلی بھی ہوتا ہے، حسی بھی اور خبر پر مبنی بھی جبکہ ملحد ثبوت سے مراد صرف “حسی” لیتے ہیں۔ اب الف ب سے بڑا ہے، ب ج سے بڑا ہے، تو معلوم ہوا کہ الف ج سے بڑا ہے۔ اس کا کیا (حسی) “ثبوت” ہے؟ یا “تمام الف ب ہیں، اور ج الف ہے، معلوم ہوا کہ ج ب ہے”۔ اس استدلال کے درست ہونے کا کونسا حسی ثبوت ہے؟ ارسطو نامی شخص دنیا میں گذرا۔ اب اس کا (حسی) “ثبوت” کیا ہے؟ الغرض ثبوت کی نوعیت دعوے کی نوعیت بدلنے سے بدل جاتی ہے۔ اہل مذہب کا دعوی یہ ہے کہ یہ کائنات تقاضا کرتی ہے کہ خدا کے وجود کو ماننا ایک عقلی لازمہ ہے نہ کہ حسی۔
2. پھر یہ طے کرنا بھی ضروری ھوتا ھے کہ جس شے کی evidenceship (مثلا تجرباتی دلیل) کی بنیاد پر کسی شے کے evident ھونے یا نہ ھونے کا فیصلہ کیا جا رہا ھے کیا وہ evidence بذات خود اس لائق ھے بھی کہ اس معاملے میں اسپر اعتماد کیا جا سکے؟
3. پھر یہ طے کرنا بھی ضروری ھوتا ھے کہ کسی شے کے evidence کہلانے کیلئے اس میں کن صفات کا ھونا ضروری ھے (what is it to count as evidence) کیونکہ فی الحقیقت کسی شے کا evidence ھونا اس میں پائ جانے والی ان صفات ہی کی بنا پر ھوتا ھے جو اصلا مطلوب مانی جارہی ہوتی ہیں۔ اگر وہ صفات جنکی بنیاد پر evidence کو evidence مانا جا رہا ھے وہ ہی بدیہی اور متفق علیہ نہ ھوں تو اس شے کو ‘آفاقی عقلی evidence’ مان کر ہر شے پر اپلائ کرنا نیز ہر شے کے وجود کیلئے اس پر پورا اترنے کا مطالبہ کرنا بذات خود ایک مہمل بات بن کر رہ جاتی ھے
4. تجرباتی علم کی بنیاد پر کسی شے کا ثبوت و عدم ثبوت طے کرنا دونوں ہی ناممکن باتیں ہیں، لہذا اس علم کی بنیاد پر وجود خداوندی کو کسنا پرلے درجے کی غیر عقلی بات ھے
5.انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تجرباتی علم کسی شے کا جواز (justification) نہیں دیتا بلکہ محض اسکی ایک ممکنہ ظنی تشریح (probable explanation) بیان کرتا ھے اور بس۔ دوسرے لفظوں میں امپیریکل دلیل evidence for justification (ھونے یا نہ ھونے کا جواز و دلیل) نہیں بلکہ محض evidence for one’s created explanation (آپکی خود ساختہ بیان یا تشریح کی دلیل) کا درجہ رکھتی ھے۔اب ایسی دلیل کی بنیاد پر وجود خداوندی کو کسنا کہاں کی علمیت ھوئ؟
6. چلئے غلط طور پر ایک لمحے کیلئے مان لیتے ہیں کہ تجرباتی دلیل کسی شے کو کسی درجے میں ثابت کرسکتی ھے۔ لیکن مسئلہ استقراء (problem of induction) یہ بتاتا ھے کہ یہ کبھی حتمی، آفاقی اور کلی علم فراہم نہیں کر سکتی، یعنی جو کچھ اب تک اس کے دائرے میں نہیں آیا اس کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ھے کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ اسکا وجود ھے یا نہیں’، لیکن یہ کبھی نہیں کہا جاسکتا کہ ‘ہمیں معلوم ھے کہ اسکا وجود نہیں ھے’۔ ایسا دعوی صرف ایک نادان امپیریسسٹ ہی کر سکتا ھے جسے اپنے علم کی حدود و قیود ہی کی خبر نہ ھو۔ دوسرے لفظوں میں امپیریکل نالج کی بنیاد پر کسی بھی درجے میں عدم وجودخداوندی کا دعوی کرنا ایک مضحکہ خیز اور فاش غلطی ھے (یعنی اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ھے کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ خدا ھے یا نہیں’، مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ‘ہمیں معلوم ھے کہ خدا نہیں ھے’، چہ جائیکہ اس پر پوری جہالت اور ڈھٹائ کے ساتھ بحث بھی کی جاۓ)۔
7. یہ دلیل قائم کرنے والوں کا مفروضہ یہ ھے کہ امپیریکل نالج ‘حقیقت جیسی کہ وہ ھے’ اسے دریافت و معلوم کرنے کا نام ھے اور جو شے اس دائرہ علم کی گرفت میں نہیں آرہی وہ حقیقت ھے ہی نہیں۔ مگر یہ محض لغو مفروضہ ھے کیونکہ امپیریکل نالج ‘حقیقت جیسی کہ وہ ھے’ کی دریافت نہیں بلکہ ‘حقیقت جیسی کہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق بنانا چاہتا ھے کی تخلیق کا دائرہ ھے’، یعنی یہ اوبجیٹکو نہیں سبجیکٹو نالج ھوتی ھے۔ اب یہ عجیب تماشا ھے کہ علم کا ایک ایسا دائرہ جو میں نے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے خود سے وضع کررکھا ھے ہر وہ جو شے جو اس دائرہ علم میں فٹ نہ آۓ میں اسکے وجود ہی کا انکار کردوں، فیا للعجب (اسکی مثال تو ایسی ہی ھے کہ میں اپنی مرضی کا ایک گھر تعمیر کروں اور جو شے اس گھر میں فٹ نہ آۓ اسکے وجود ہی کا انکارکردوں)۔ خود اپنے نفس کے اظہار کیلئے تعمیر کردہ علم کی بنیاد پر کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ وجود خداونددی کو جانچ کر رد کرنا کیا کوئ علمی دعوی ھے؟ درحقیقت اس قسم کے دعوں کی علم کی دنیا میں کوئ وقعت نہیں ھوتی۔
اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ایک اور تحریر دیکھیے۔منطق کے قضایااور الہیات