منطق کےقضایااور الہیات

منطق اور الہیات کے حوالے سے دو باتیں ہیں۔
ایک تو الہیات پر انہی قوانین کا اطلاق کر لیجیے جن قوانینِ منطق کا آپ یہاں اس دنیا میں مشاہدہ کرتے ہیں۔
دوسری یہ کہ مطمئن ہو کر یہ تسلیم کرلیجیے کہ الہیات کی حقیقت ماورائی ہے جسے اس دنیا کے مقبول قضایا (Axioms) پر نہیں ناپا جاسکتا۔
انسان نے ایک بہت لمبا عرصہ انہی بکواسیات میں گزارا ہے کہ جب “سوال” کی بہترین مثال یہ تھی کہ “ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے ناچ سکتے ہیں؟”
اب بھلا جس نقیضین اور ضدین کو آپ الہیات پر لاگو کرتے ہیں وہاں اس کا کیا کام؟
میں ایک بات بار بار کہتا رہا ہوں کہ منطق کے قضایا چاہے کتنے قطعی کیوں نہ ہوں، اپنے آپ میں ہمیشہ اضافی ہی ہوتے ہیں۔
کیونکہ ان کا اطلاق ایک خاص حدود میں ہی ممکن ہوتا ہے، جس کے بعد وہ مہمل اور بے معنی ہوجاتے ہیں۔
میں زیادہ گہری اصطلاحات میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن سمجھنے کی خاطر مثال لے لیجیے۔
“دن اور رات ضدین ہیں”۔ (یعنی یہ دونوں عام گفتگو کی سطح پر ایک دوسرے کی ضد ہیں(
یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اپنی تمام حقانیت کے باوجود اضافی ہے۔ کیونکہ دن اور رات نظامِ شمسی سے متعلق ہیں۔ اگر نظامِ شمسی کا کوئی وجود نہ ہو، یا اگر اس نظامِ شمسی کے دوائر سے باہر نکلا جائے تو کونسا دن ہوگا اور کیسی رات؟
یہ بھی سمجھ لیجیے کہ منطق کے تمام قضایا آپ کے مشاہدات اور حافظے کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی مشاہدہ نہ ہو، اور وہ مشاہدہ محفوظ نہ کرلیا گیا ہو تب تک منطق کا کوئی قضیہ قائم نہیں ہوسکتا۔ اور جب تک قضیے قائم نہیں ہونگے تب تک بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ نقیضین یا ضدین کا معاملہ تو بہت بعد میں آئے گا۔
تو بات یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، اور یاد رکھتے ہیں اس سے منطق کا کوئی قضیہ قائم ہوتا ہے۔ اور پہلو بہ پہلو کہانی استخراج سے ہو کر استنتاج تک پہنچتی ہے۔ ہم ایک مشاہدہ سے شروع کرکے پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ اور پیشگوئیاں ہماری توقعات کے مطابق سچ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً آگ کو دیکھ کر اس کی حرارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گرم شئے ہے۔ اس حرارت کی پہچان ہمیں اپنے پچھلے مشاہدے کو حافظے میں محفوظ کرلینے کے بعد حاصل ہوئی۔ اور اب کی پیشگوئی یہ ہے کہ اگر اس آگ میں ہاتھ ڈالا گیا تو ہاتھ جل جائے گا۔ چنانچہ ایسا واقعتاً ہو بھی جاتا ہے۔ پھر جلنا ایک اکیلی پیشگوئی نہیں ہے۔ اگلی پیشگوئی جلنے کا درد بھی ہے جو حافظے میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔ تو حرارت ایک قضیہ (مشاہدہ) اور جلنا دوسرا قضیہ (مشاہدہ) اور اس سے حاصل ہونے والا درد ایک نتیجے کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ منطق کے بنیادی ترین اطلاقات میں سے ہے جس کا استعمال ایک دوسری اور تیسری جماعت کا بچہ بھی ہر لمحے کر رہا ہوتا ہے۔
یہاں آنے تک یہ بات تو واضح ہے کہ منطق میں استخراج کی شروعات کے لیے پہلا سرا آپ کو مشاہدے سے لینا پڑے گا۔ اور جہاں مشاہدہ ہوگا، اصول بھی وہیں کے لیے طے کیے جاسکیں گے، اور پیشگوئیاں بھی وہیں سچی ہو سکیں گی۔
اب ایک ایسی ماورائی دنیا جس کا پہلا سرا بھی اب تک ہاتھ میں نہیں، جہاں کے اصول تو خیر چھوڑیے، فروع تک کی خبر نہیں، اس پر اپنی موجودہ مشاہدات کی دنیا سے قائم شدہ قضیے لے کر ان کا اطلاق الہیات پر کرنا کہاں کی دانشمندی ہوئی؟
اور یہی سب سے بڑی پریشانی تھی جو الہیات میں خصوصاً مذہبی متکلمین کو رہی جب انہوں نے اپنی الہیات کے معموں کو ارسطوئیت کا لباس پہنا کر حل کرنا شروع کیا۔ اس روندن میں بڑے بڑے لوگ بھی الہیات میں اتنے بھونڈے انداز میں ٹامک ٹوئیاں کرتے رہے ہیں کہ کچھ کہنے کا مقام نہیں۔

یعنی جب تک وہاں کے مشاہدات نہ لائیں جاسکیں، تب تک وہاں کے قضیے قائم نہیں ہو سکتے، اور جب تک قضیے قائم نہ ہوسکیں تب تک نتائج ممکن نہیں ہونگے۔ جب بھی یہاں کے قضیوں پر وہاں کے نتائج نکالنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر تضادات ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اگر آپ نے قضیے بھی یہیں سے لیے ہیں اور تضاد بھی نہیں ہے تو سمجھیے کہ آپ نے الہیات نہیں، بلکہ اپنی موجودہ دنیا ہی کو بیان کردیا ہے۔
اگلی اور اہم بات (تھوڑی غیر متعلق ہے لیکن بہتر ہے سمجھ لیا جائے) کہ تضادات اپنے آپ میں کوئی خامی نہیں بلکہ کسی بھی مربوط منطقی نظام (Consistent Logical System) کا انتہائی لازم نتیجہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اپنی بنیاد میں کوئی بھی نظام جو مربوط ہو وہ تضادات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ بحث کے دوران کوئی وکیل کسی مقدمے کو لڑتے وقت لاکھ اپنے حریف کے تضادات گنواتا رہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ مربوط منطقی نظام تضاد سے پاک ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی بھی نظام جو اپنے اندر ایک بھی تضاد نہ رکھتا ہو، کبھی مربوط نہیں ہوسکتا۔ اس بات کو میں ایک عام سی مثال دے کر سمجھایا کرتا ہوں:
ایک مرغی ہمیشہ انڈے سے نکلتی ہے۔
ایک انڈہ ہمیشہ مرغی سے نکلتا ہے۔
اگر اوپر کے دونوں جملوں کو درست اور مربوط (Consistent) مان لیا جائے تو نتیجہ یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا میں کوئی پہلی مرغی نہیں تھی۔ کیونکہ اگر مرغی کا انڈے سے نکلنا اور انڈے کا مرغی سے نکلنا مربوط ہے تو پہلی مرغی کون تھی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس مربوط منطقی نظام میں تضاد ایک لازمی نتیجہ بن کر ابھرے گا۔ اور اگر پہلی مرغی کا اثبات ہوگیا تو تضاد مٹ جائے گا لیکن نظام مربوط نہیں رہے گا۔ یعنی یہ اصول، کہ مرغی انڈے سے اور انڈہ مرغی سے نکلتا ہے، ٹوٹ جائے گا۔اس پر قیاس کرکے دنیا کے ہر مربوط منطقی نظام کو پرکھا جاسکتا ہے۔ جہاں بھی ربط ہوگا وہاں تضاد بھی ساتھ ہوگا، اور جہاں تضاد نہیں وہاں ربط بھی ٹوٹ جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ منطقی قضیے مشاہدے سے قائم ہوتے ہیں اور جس دنیا کے مشاہدے سے یہ قضیے قائم ہونگے، ان کا اطلاق بھی صرف اسی دنیا میں ممکن ہوسکتا ہے۔ ماورائی دنیا پر ان کا اطلاق ممکن نہیں، جب تک کہ اس کا مشاہدہ نہ ہو۔ پھر الہیات پر انہی قضیوں کے احکام جاری کرنا اور اسی کی بنیاد پر الہیات کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا بے معنی بات ہے۔
تحریر ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل

  • تجرباتی علم پروجودخداکوپرکھنےوالوں کی بنیادی اغلاط | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    September 25, 2018 at 9:46 am

    […] جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ”اگر تجرباتی یا امپیریکل (حواس پر مبنی) دلیل (evidence) کی بنیاد پر وجود خداوندی ثابت نہیں کیا جا سکتا تو اسکا مطلب وجود خداوندی کا عدم وجود ھے” ایسے لوگ قابل رحم حد تک عقل کے دشمن ہیں۔ انکا یہ دعوی تہہ در تہہ فلسفیانہ اغلاط کا مجموعہ ھے، یہاں چند ایک بیان کی جاتی ھیں۔ 1.ان حضرات کو اتنی بنیادی بات بھی معلوم نہیں کہ evidence کی نوعیت و ماہیت مطلوب evident یعنی subject of knowledge کا دائرہ تبدیل ھونے سے تبدیل ہوجاتی ھے، کسی ایک ہی قسم کے evidence کو حقیقت و علمیت کے تمام دائروں پر اپلائ کرنا کم عقلی کے سواء اور کچھ نہیں۔ جسے “ثبوت” کہا جاتا ہے وہ عقلی بھی ہوتا ہے، حسی بھی اور خبر پر مبنی بھی جبکہ ملحد ثبوت سے مراد صرف “حسی” لیتے ہیں۔ اب الف ب سے بڑا ہے، ب ج سے بڑا ہے، تو معلوم ہوا کہ الف ج سے بڑا ہے۔ اس کا کیا (حسی) “ثبوت” ہے؟ یا “تمام الف ب ہیں، اور ج الف ہے، معلوم ہوا کہ ج ب ہے”۔ اس استدلال کے درست ہونے کا کونسا حسی ثبوت ہے؟ ارسطو نامی شخص دنیا میں گذرا۔ اب اس کا (حسی) “ثبوت” کیا ہے؟ الغرض ثبوت کی نوعیت دعوے کی نوعیت بدلنے سے بدل جاتی ہے۔ اہل مذہب کا دعوی یہ ہے کہ یہ کائنات تقاضا کرتی ہے کہ خدا کے وجود کو ماننا ایک عقلی لازمہ ہے نہ کہ حسی۔ 2. پھر یہ طے کرنا بھی ضروری ھوتا ھے کہ جس شے کی evidenceship (مثلا تجرباتی دلیل) کی بنیاد پر کسی شے کے evident ھونے یا نہ ھونے کا فیصلہ کیا جا رہا ھے کیا وہ evidence بذات خود اس لائق ھے بھی کہ اس معاملے میں اسپر اعتماد کیا جا سکے؟ 3. پھر یہ طے کرنا بھی ضروری ھوتا ھے کہ کسی شے کے evidence کہلانے کیلئے اس میں کن صفات کا ھونا ضروری ھے (what is it to count as evidence) کیونکہ فی الحقیقت کسی شے کا evidence ھونا اس میں پائ جانے والی ان صفات ہی کی بنا پر ھوتا ھے جو اصلا مطلوب مانی جارہی ہوتی ہیں۔ اگر وہ صفات جنکی بنیاد پر evidence کو evidence مانا جا رہا ھے وہ ہی بدیہی اور متفق علیہ نہ ھوں تو اس شے کو ‘آفاقی عقلی evidence’ مان کر ہر شے پر اپلائ کرنا نیز ہر شے کے وجود کیلئے اس پر پورا اترنے کا مطالبہ کرنا بذات خود ایک مہمل بات بن کر رہ جاتی ھے 4.  تجرباتی علم کی بنیاد پر کسی شے کا ثبوت و عدم ثبوت طے کرنا دونوں ہی ناممکن باتیں ہیں، لہذا اس علم کی بنیاد پر وجود خداوندی کو کسنا پرلے درجے کی غیر عقلی بات ھے 5.انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تجرباتی علم کسی شے کا جواز (justification) نہیں دیتا بلکہ محض اسکی ایک ممکنہ ظنی تشریح (probable explanation) بیان کرتا ھے اور بس۔ دوسرے لفظوں میں امپیریکل دلیل evidence for justification (ھونے یا نہ ھونے کا جواز و دلیل) نہیں بلکہ محض evidence for one’s created explanation (آپکی خود ساختہ بیان یا تشریح کی دلیل) کا درجہ رکھتی ھے۔اب ایسی دلیل کی بنیاد پر وجود خداوندی کو کسنا کہاں کی علمیت ھوئ؟ 6. چلئے غلط طور پر ایک لمحے کیلئے مان لیتے ہیں کہ تجرباتی دلیل کسی شے کو کسی درجے میں ثابت کرسکتی ھے۔ لیکن مسئلہ استقراء (problem of induction) یہ بتاتا ھے کہ یہ کبھی حتمی، آفاقی اور کلی علم فراہم نہیں کر سکتی، یعنی جو کچھ اب تک اس کے دائرے میں نہیں آیا اس کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ھے کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ اسکا وجود ھے یا نہیں’، لیکن یہ کبھی نہیں کہا جاسکتا کہ ‘ہمیں معلوم ھے کہ اسکا وجود نہیں ھے’۔ ایسا دعوی صرف ایک نادان امپیریسسٹ ہی کر سکتا ھے جسے اپنے علم کی حدود و قیود ہی کی خبر نہ ھو۔ دوسرے لفظوں میں امپیریکل نالج کی بنیاد پر کسی بھی درجے میں عدم وجودخداوندی کا دعوی کرنا ایک مضحکہ خیز اور فاش غلطی ھے (یعنی اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ھے کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ خدا ھے یا نہیں’، مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ‘ہمیں معلوم ھے کہ خدا نہیں ھے’، چہ جائیکہ اس پر پوری جہالت اور ڈھٹائ کے ساتھ بحث بھی کی جاۓ)۔ 7. یہ دلیل قائم کرنے والوں کا مفروضہ یہ ھے کہ امپیریکل نالج ‘حقیقت جیسی کہ وہ ھے’ اسے دریافت و معلوم کرنے کا نام ھے اور جو شے اس دائرہ علم کی گرفت میں نہیں آرہی وہ حقیقت ھے ہی نہیں۔ مگر یہ محض لغو مفروضہ ھے کیونکہ امپیریکل نالج ‘حقیقت جیسی کہ وہ ھے’ کی دریافت نہیں بلکہ ‘حقیقت جیسی کہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق بنانا چاہتا ھے کی تخلیق کا دائرہ ھے’، یعنی یہ اوبجیٹکو نہیں سبجیکٹو نالج ھوتی ھے۔ اب یہ عجیب تماشا ھے کہ علم کا ایک ایسا دائرہ جو میں نے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے خود سے وضع کررکھا ھے ہر وہ جو شے جو اس دائرہ علم میں فٹ نہ آۓ میں اسکے وجود ہی کا انکار کردوں، فیا للعجب (اسکی مثال تو ایسی ہی ھے کہ میں اپنی مرضی کا ایک گھر تعمیر کروں اور جو شے اس گھر میں فٹ نہ آۓ اسکے وجود ہی کا انکارکردوں)۔ خود اپنے نفس کے اظہار کیلئے تعمیر کردہ علم کی بنیاد پر کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ وجود خداونددی کو جانچ کر رد کرنا کیا کوئ علمی دعوی ھے؟ درحقیقت اس قسم کے دعوں کی علم کی دنیا میں کوئ وقعت نہیں ھوتی۔ اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ایک اور تحریر دیکھیے۔منطق کے قضایااور الہیات […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password