خدا کے نشانات

فرض کریں ایک بہت بڑے صحرا کے بیچوں بیچ دو انسان موجود ہیں ۔ ایک مومن ہے دوسرا ملحد ۔ ان دونوں کو صحرا میں کسی تیسرے انسان کے قدموں کے نشان ملتے ہیں ۔مومن کہتا ہے کہ ہم دونوں کے سوا بھی کوئی تیسرا انسان اس صحرا میں موجود ہے جس کا ثبوت یہ قدموں کے نشان ہیں ۔ مگر ملحد اس بات کا انکار کر دیتا ہے یہ کہہ کر کہ یہ کسی تیسرے انسان کے قدموں کے نشان نہیں ہیں ۔ملحد کا جب یہ دعویٰ ہے کہ کوئی تیسرا انسان موجود نہیں ہے تو اس دعوے کے لئے اس کو کچھ باتوں کی وضاحت کرنی پڑے گی ۔
١ ۔ یا تو وہ جانتے بوجھتے دیکھتے اپنی آنکھیں بند کر کے کہہ دے کہ مجھے نشان نظر نہیں آرہے لہٰذا کوئی تیسرا انسان ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کو ڈھٹائی کہتے ہیں ۔
٢ ۔ یا پھر وہ ان قدموں کے نشانوں کی کوئی ایسی سائنسی توجیہ پیش کر دے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قدموں کے ہو بہو انسانی طرز کے نشان سائنس طور پر (خودبخود)بھی بن سکتے ہیں ۔
٣ ۔ یا پھر وہ پورے صحرا کی خاک چھانے ۔ ایک ایک انچ ایک ایک چپے کی تلاشی لے اور واپس آکر مومن کے سامنے ثبوت رکھ دے کہ دیکھ لو میں نے پورا صحرا چھان مارا ۔ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا انسان مجھے نہیں ملا ۔
مومن کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کچھ زیادہ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ۔ قدموں کے نشان جب تک موجود ہیں اس کا یقین پختہ ہے اس کا دعویٰ منطقی ہے ۔ مزید کسی ثبوت کی اسے حاجت ہی نہیں ۔ ملحد کا مسئلہ خراب ہے ۔ قدموں کے نشانوں کو وہ جھٹلا نہیں سکتا اور قدموں کے نشانوں کی کوئی دوسری وضاحت اس کے پاس موجود نہیں ۔ ڈھیٹ بن جائے تو اور بات ۔ ورنہ قدموں کے نشان کی جب تک کوئی دوسری وضاحت کرنے جوگا نہ ہو جائے اسے اس وقت تک یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اس صحرا میں ہم دونوں کے سوا کسی تیسرے انسان کی موجودگی کے ثبوت پائے جاتے ہیں ۔
یہی معاملہ خدا کے ساتھ ہے ۔ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں خدا کے نشان موجود ہیں جن کو جھٹلانا فی الوقت سائنس کے لئے ناممکن ہے ۔ جھٹلانے والا ڈھیٹ ہو تو لاعلاج ہے ورنہ سائنس منطق اور دلیل کے مطابق جب تک ان نشانوں کی کوئی دوسری وضاحت سامنے نہ آجائے اس وقت تک خدا کو تسلیم کرنا مذہبی تقاضا ہی نہیں بلکہ انسان کی مجبوری بھی ہے ۔
خدا کو ثابت کرنے کے لئے خدا کو مادی حالت میں پیش کرنا ضروری بھی نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ ہم مخلوق ہیں اور وہ خدا ۔
اس کی مثال کششِ ثقل سے لے لیجئے ۔ کیا سائنس کششِ ثقل کو مانتی ہے ؟ جواب ہے جی ہاں ۔ بالکل مانتی ہے ۔ تو کیا سائنسی کششِ ثقل کو مادی حالت میں پیش بھی کر سکتی ہے ؟ تو جواب ہے جی نہیں ۔ یہ ممکن نہیں ۔ سائنس صرف منطقی طور پر آپ کی عقل کو یہ بات باور کروا سکتی ہے کہ سیب اور ہر چیز چونکہ نیچے گرتی ہے لہٰذا یہ کششِ ثقل کی موجودگی کا منطقی ثبوت ہے ۔
یعنی سائنس کو کششِ ثقل کے وجود کا یقین محض اس کی خصوصیات کی بناء پر ہے ۔
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کششِ ثقل کو ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟ سائنس کہتی ہے کہ کششِ ثقل زمین کے بیچوں بیچ ہے ۔ تو کیا خیال ہے آپ کا کہ اگر میں زمین کھودتا ہوا زمین کے بیچ میں پہنچ جاؤں تو کششِ ثقل مل جائے گی ؟ ایک ایک ذرہ زمین کا الگ الگ کر دیجئے ۔ کششِ ثقل نہیں ملے گی ۔ وہاں بھی نہیں ملے گی جہاں سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہیں ہے ۔یہی ہے مرکز کششِ ثقل کا ۔ تو پھر کیا کششِ ثقل کا انکار کر دیا جائے گا ؟ جی نہیں ۔ ماننا پھر بھی پڑے گا ۔ جب تک زمین کی کشش ختم نہیں ہو جاتی آپ کو کششِ ثقل کو اس کی صفات کی بنیاد پر ماننا پڑے گا ۔ چاہے وہ آپ کو ملے یا نہ ملے ۔
اب فرض کریں میں کہوں کہ کششِ ثقل کو ثابت کرو تو یقیناً سائنسدان میرے سامنے چیزوں کے گرنے کی عقلی توجیہ ہی ثبوت کے طور پر پیش کریں گے ۔ پھر بھی اگر میں کمال ڈھٹائی سے انکار کر ڈالوں کہ میں کششِ ثقل کو نہیں مانوں گا اس وقت تک جب تک وہ میرے سامنے نہ آجائے تو مجھ سے چیزوں کے گرنے کی متبادل توجیہ مانگی جائے گی ۔ جو مجھے دینی ہی پڑے گی ورنہ اقرار لازم ہے ۔
یہی معاملہ خدا کا بھی ہے ۔
تحریر محمد سلیم

میں خدا کو کیوں مانتا ہوں اس کا تعلق میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات سے ہے ۔
یہ سوالات اسی نوعیت کے ہیں جس نوعیت کے سوالات نے نیوٹن کو گریویٹی کا تصور دیا ۔کیا اس نے گریویٹی کو دیکھ لیا تھا ؟ یا پا لیا تھا ؟
جی نہیں ۔اس نے گریویٹی کو نہیں سیب کو دیکھا تھا ۔ سیب کے نیچے گرنے سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ کوئی نادیدہ قوت ہے جو اشیاء کو زمین کی طرف کھینچتی ہے ۔
اس کو منطقی استدلال کہتے ہیں ۔یعنی بغیر دیکھے محض صفات کی بناء پر کسی کے وجود کا یقین کر لینا ۔
سوال ہر انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ سوچنا انسان کا خاصہ ہے ۔ اسی سوچ کی بنیاد پر وہ تصورات قائم کرتا ہے ۔کسی کی سوچ اور سوالات اسے خدا کے وجود کا یقین دلا دیتے ہیں ۔ کسی کی سوچ اور سوالات اسے ملحد بنا دیتے ہیں ۔
میرے سوالات جو پہلے تھے وہی آج بھی ہیں ۔
میں اشیاء کے رویئے کو بغیر خدا کے وجود کے سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں خدا کو مانتا ہوں ۔جو لوگ ملحد ہو جاتے ہیں وہ یقیناً اشیاء کے رویئے کو خدا کے وجود کے بغیر سمجھ لیتے ہوں گے ۔ اسی لیئے وہ ملحد ہو جاتے ہوں گے ۔
ابتدائی طور پر میں کچھ مسائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ جن کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ انہیں خدا کے وجود کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا ۔اگر میں خدا کے وجود کا انکار کر دوں تو پھر یہ دنیا میرے نزدیک اتفاقی حادثات سے بھری پڑی ہے ۔یعنی اس دنیا کا پیدا ہونا, اس میں انسان کا پیدا ہونا, جانوروں کا وجود, کیڑے مکوڑے, پیڑ پودے سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ یعنی نہ کوئی خدا نہ کسی خدا کا وجود۔ یہ سارا نظام بغیر کسی خدا کے چلائے چل رہا ہے۔خدا کے انکار کی صورت میں جو سوال کھڑے ہو جاتے ہیں ان کی تعداد نا قابلِ بیان حد تک زیادہ ہے۔
اتنے خوبصورت جاندار ہمارے اطراف میں بھرے پڑے ہیں ۔ انہیں یہ خوبصورتیاں عنایت کرنے والا کون ہے ؟
پھولوں کے اندر خوبصورتی اور خوشبو کا حسین امتزاج کیا بغیر کسی خدا کے موجود ہے ؟
پھلوں کے اندر لذت اور خوشبو بے سبب ہے یا اتفاق ؟
انسان پانی اور آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ دونوں چیزیں نہ ختم ہونے والے نظاموں کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہیں ۔
پانی کا پورا واٹر سائیکل ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ اس کے پیچھے کسی ذہین دماغ کا گمان ہوتا ہے ۔ یہ پانی ہم بار بار استعمال کرتے ہیں مگر ختم نہیں ہوتا ۔ بس اس کا سرکل گھومتا رہتا ہے ۔
ہم سانس لیتے ہیں جس میں ہم آکسیجن کشید کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں ۔
تو کیا آکسیجن ختم ہو جائے گی اور ساری آکسیجن کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بدل جائے گی ؟
جی نہیں ۔ اس کا بھی سرکل موجود ہے ۔ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ ہم خارج کرتے ہیں اسے پودے کشید کر لیتے ہیں اور بدلے میں آکسیجن خارج کر دیتے ہیں ۔
یعنی جو ہمیں چاہیئے وہ پودے پیدا کر رہے ہیں اور جو پودوں کو چاہیئے وہ ہم ۔ اس پر سائنس کے کیا کہنے کہ ان کے خیال میں ہم خود کبھی پودے تھے ۔ سبحان ﷲ ۔
ایک مضبوط ربط میں سب بندھے ہیں ۔
اس دنیا کی ہر چیز آپس میں ایک گہرا ربط اور تعلق رکھتی ہے ۔
خوراک کی موجودگی بھی اتفاق ؟ جانوروں کی موجودگی بھی اتفاق ؟ جانوروں کا خوراک کے بڑھنے کے سائیکل سے تعلق بھی اتفاق ؟ سورج کی موجودگی اتفاق ؟ چاند کی موجودگی اتفاق ؟
خوراک کا منہ میں ڈالنا ؟ چبانے کے لیئے دانتوں کی موجودگی ؟ نرم کرنے کے لیئے لعابِ دہن ؟ ہضم کرنے کے لیئے نظامِ ہاضمہ ؟ ہضم شدہ خوراک کا جسم سے خارج ہو جانا ۔ اس خارج شدہ فضلے کا پھر خوراک کو پیدا کرنے والی فصلوں سے تعلق ۔ سب اتفاقی حادثات ہیں ؟
پھر خوراک کے مختلف ذائقے۔ گندم کا ذائقہ اور ہے جو کا اور۔ سیب کا ذائقہ اور ہے آم کا اور۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے ؟
آم کی ضرورت گرمیوں میں ہے تو وہ گرمیوں میں ہی آتا ہے۔ اونٹ صحرا کا جانور ہے اور حیرت انگیز طور پہ صحرا میں پیش آ سکنے والی ہر مصیبت سے بچنے کے لئے اس کے جسم میں قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ پانی اور خوراک ذخیرہ کرنے کا نظام ۔ ریت پر بھاگنا جہاں کسی دوسرے جاندار کا چلنا محال ہو اور ریت کا طوفان برداشت کرنے کے لئے مخصوص کھال۔ کیا یہ سب اتفاق ہے ؟
گرگٹ کا اپنے دشمن سے بچنے کے لئے رنگ بدلنا اور اس قسم کے تمام جانوروں کے دفاعی نظام کیا ان کے اندر حادثاتی طور پر آ گئے ہیں ؟ پھولوں کے مختلف رنگ ان کی خوشبوئیں سب اتفاق ہے ؟
انسان کے گردوں کا نظام, پھیپھڑوں کا نظام, بالیدگی کا نظام, بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے سینے میں دودھ کا اتر آنا, یہ سب ایک اتفاقی حادثے کے سبب ہے؟ مرد اور عورت کے باہمی تعلق میں انتہا درجے کی لذت جو آبادی بڑھانے کی ترغیب دلاتی ہے, محض ایک اتفاق ہے ؟
پھر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جس سائنس سے ہمیں امیدیں ہیں کہ کبھی نہ کبھی ہمارے سوالوں کا جواب دے گی ۔ وہ ہمیں صرف طریقۂ کار کی وضاحت کر کے مطمئین کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ توجیہات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ۔
انسانی عقل محض اس بات پر مطمئین نہیں ہوتی کہ یہ کیا ہے کیسے ہے ۔ بلکہ وہ اس بات کو بھی کھوجتی ہے کہ یہ کیوں ہے ؟ اور جب انسان “کیوں” کے جواب کو کھوجنے نکلتا ہے تو اس کی تلاش اس کے خالق پہ ختم ہوتی ہے ۔ ہدایت اسی کو کہتے ہیں ۔
ملحد اور مسلمان کی سوچ میں بھی اس “کیسے” اور “کیوں” کا ہی فرق ہے ۔
مثلاً ہم کھانا کیسے کھاتے ہیں ؟ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے ؟ پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ کیسے پینا ہے ؟ اس علم میں تمام مخلوقات برابر ہیں ۔ کیا جانور, کیا ملحد اور کیا مسلمان ۔ مگر “کیوں” کی کھوج صرف مسلمانوں کا ہی وصف ہے ۔
ہم کھانا کیوں کھاتے ہیں ؟ بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتی میں دودھ کیوں تلاش کرتا ہے ؟
پھلوں میں انہی کی افزائش نسل کے لیئے بیج کیوں موجود ہوتے ہیں ؟
ان سوالات کا تعلق خالصاً مذہب سے ہے ۔ کیوں کہ اس تلاش کا دوسرا سرا خدا کی ذات ہے ۔
سائنس صرف طریقۂ کار کی وضاحت کرتی ہے ۔ وجوہات کا تعین کرنا سائنس کا دائرہ کار نہیں ۔ یہ مذہب کا دائرہ کار ہے ۔
عموماً الحاد میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذہبی لوگ جب کسی معاملے کو سمجھ نہیں پاتے تو اس کو خدا پر ڈال کر مطمئین ہو جاتے ہیں جبکہ غیر مذہبی لوگوں کی جستجو ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ حقائق کی تلاش میں سرکرداں رہتے ہیں ۔
مگر میرے الحاد سے ٹکراؤ کے بے شمار تجربوں کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ بات اس دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ میں نے جب بھی کسی ملحد سے “کیوں” کا سوال اٹھایا ہے اسے بھاگتے ہی پایا ہے ۔ بہت کم ملحد ایسے ٹکرے جنہوں نے جواب دینے کی ناکام کوششیں کیں ۔ مگر حقیقی معنوں میں کسی بھی کام کے ہونے کی وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش نہ ملحد کرتے ہیں نہ سائنس دان ۔ کیوں کہ عقل بتاتی ہے کہ یہ تلاش خدا پر ایمان پہ جا کر ختم ہوتی ہے ۔
میں نے کئی مرتبہ ملحدوں سے یہ سوال پوچھا کہ پھلوں کے ذائقے مختلف کیوں ہوتے ہیں ؟ پھل اتنے لذیذ اور ذائقے دار کیوں ہوتے ہیں ؟ کیا قدرتی انتخاب میں یہ ممکن نہ تھا کہ ہر پھل کا ذائقہ گندم جیسا ہی ہوتا ؟ یا ذائقہ سرے سے ہوتا ہی نہ ؟ ضرورت کیا تھی ذائقے کی ؟ جانوروں کے جسموں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار ۔ پھولوں کے رنگ ان کی خوشبو ۔ کیا یہ سب زندہ رہنے کے لئے ضروری تھا ؟
فطری انتخاب لیجئے یا بقائے اصلاح, صرف ضروریات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ آپ کو بس یہی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ جس چیز کی ضرورت پڑتی چلی گئی وہ خودبخود اگتی چلی گئی اور جو چیز غیر ضروری تھی وہ ختم ہوتی چلی گئی ۔ 
اگر سوال پوچھا جائے کہ ڈائناسارز کیوں ختم ہو گئے ؟
تو جواب ملتا ہے کہ وہ اپنے ماحول سے مطابقت نہ رکھ پائے اس لئے ناپید ہو گئے ۔
اب اگر پوچھا جائے کہ اونٹ کے اندر صحرا میں پیش آنے والی مشکلات کے لئے خصوصی صلاحیتیں کس نے ڈالیں ؟
تو جواب آتا ہے کہ چونکہ وہ صحرا میں پیدا ہوا لہٰذا اس ماحول میں زندہ رہنے کے لئے ازخود اس کے اندر یہ صلاحیتیں پیدا ہوتی چلی گئیں ۔
یعنی ایک طرف ایک جانور جو ماحول سے مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ناپبد ہو گیا اور دوسری طرف ایک جانور جس نے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو برقرار رکھا ۔ بلکہ اس کے اندر خود بخود ایسے اعضاء پیدا ہو گئے کہ وہ صحرا میں زندہ رہ سکے ۔
کیا کہئے اس کو کہ ایک جاندار فطری انتخاب کی بھینٹ چڑھ گیا دوسرا بقائے اصلاح کا منظورِ نظر ٹہرا ؟
مجھے تو آج تک یہ بھی نہ سمجھ آیا کہ فطری انتخاب میں فطرت سے کون مراد ہے ؟ انتخاب کے لفظ سے لگتا ہے کہ یہ کوئی رینڈم سلیکشن نہیں بلکہ سوچا سمجھا انتخاب تھا ۔ کس نے سوچا کہ اونٹ کو باقی رہنا چاہئے اور ڈائناسارز کو ناپید ہو جانا چاہئے ؟
صرف ان دو جانوروں کی مثالوں سے کئی سوال جنم لیتے ہیں ۔ مگر جواب دینے والا کوئی نہیں ۔
سائنس جو کہ عقل سے تعلق رکھتی ہے وہ میرے ایک ہی نوعیت کے پوچھے گئے سوالوں کے دو مختلف اور متضاد جواب کیسے دے سکتی ہے ۔
ڈائنوسارز کیوں ناپید ہو گئے ؟
کیوں کہ وہ ماحول سے مطابقت نہ رکھ پائے ۔
اونٹ کیوں نہ ناپید ہوئے ؟
کیوں کہ اونٹوں نے ماحول کی مطابقت سے اپنے اعضاء کو ڈھال لیا ۔
او بھائی پھر ڈائنوسارز نے کیوں نہ اپنے آپ کو ماحول میں ڈھال لیا ؟
اونٹ صحرا کا جانور ہے جس کو کئی کئی روز بغیر غذا اور پانی کے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ قدرت نے اس میں ایسی صلاحیت پیدا کر دی کہ وہ اپنے کوہان میں غذا اور پانی کو اسٹور کر لیتا ہے ۔
یہ قدرت کون ہے ؟
کسی کو نہیں پتہ ۔
یہ کیوں سے متعلق کوئی ایک سوال تھوڑی ہے ۔ نہ ہی ہر جانور اپنی پیٹھ پر کوہان لیئے گھوم رہا ہے ۔
جتنی مخلوقات ہیں اس سے کئی گنا زیادہ سوال ۔ ہر جانور ایک مختلف صلاحیت لیئے گھوم رہا ہے ۔
گرگٹ رنگ بدلتا ہے ۔ یہ اس کے دفاعی نظام کا حصہ ہے ۔ جس چیز پر وہ موجود ہوتا ہے اس کا رنگ اسی جیسا ہو جاتا ہے ۔ اس کے دشمن اسے دیکھ نہیں پاتے ۔
گرگٹ کے اندر رنگ بدلنے کا یہ نظام کسی انتہائی ذہین دماغ کی فنکاری ہے ۔
مگر کس کی ؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ گرگٹ اتنا ذہین جانور ہے کہ اس نے خودبخود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر لی ؟
یا یہ بھی قدرت کا کارنامہ ہے ؟
اس کا مطلب قدرت اپنے پاس ایک عدد ذہین دماغ بھی رکھتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر جانور رنگ بدلتا ہے ؟
نہیں ۔
جتنے جانور اتنے ہی زیادہ دفاعی نظام ۔
ایک سے بڑھ کر ایک نظام ۔
دریا میں کی ایک مچھلی جس کا نام “ایل” رکھا گیا ہے وہ کسی بیرونی لمس پر اپنے جسم میں کرنٹ پیدا کرتی ہے ۔
وہی کرنٹ جسے ایجاد کرنے میں انسان کو نہ جانے کتنے عرصے دماغ کھپانا پڑا ۔
وہ مچھلی اس کرنٹ کو پیدا کرنے کے لئے کوئی دماغ استعمال نہیں کرتی ۔ ایک خودکار نظام ہے ۔ آپ بس مچھلی کو چھو لیں وہ کرنٹ پیدا کرنا شروع کر دے گی ۔ کرنٹ بھی تھوڑا بہت نہیں بلکہ ہلاکت خیز کرنٹ ۔
سانپ کے منہ میں زہر ہوتا ہے جو دشمن کے خلاف بہترین ہتھیار ہے ۔
یہ زہر اس کے منہ میں کیسے آیا یہ سائنس کا موضوع ہے ۔
مگر کیوں آیا ؟
تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے ۔
مگر وہ کون ہستی ہے جو ہر ایک مخلوق کو ایک مختلف نوعیت کے دفاعی نظام کے ساتھ پیدا کر رہی ہے ؟
سانپ کے پاس تو اتنی عقل نہیں ہوتی کہ وہ اپنے دفاع کے لئے اپنے اندر کوئی نظام ازخود پیدا کر لے ۔
یقیناً کسی بیرونی قوت کا دخل ہے ۔
مگر وہ قوت ہے کون ؟
قدرت ؟ ارتقاء ؟ یا خدا ؟
قدرت بقول ملحدین کے خودبخود کا ہی دوسرا نام ہے ۔
اگر یہ سارے دفاعی نظام خودبخود پیدا ہو رہے ہوتے تو ان میں اتنی ورائٹی کیوں ہے ؟
سانپ میں بھی زہر ہوتا ۔ گرگٹ میں بھی زہر ہوتا اور ایل میں بھی ۔
یا
سانپ بھی رنگ بدلتا ۔ گرگٹ بھی اور ایل بھی ۔
یا
سانپ بھی کرنٹ مارتا گرگٹ بھی اور ایل بھی ۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password