کیونکہ ہم طبعی ماحول میں رہتے ہیں تو ہمارا طرز فکربھی طبعی عوامل سے منسلک ہوتا ہے اور ہماری سوچ بھی عموماً طبعی بنیادوں پر ہی استوار ہوتی ہے۔ خدا کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ہمارا ذہن اسی ذہنی ساخت میں رہتا ہے۔ اور خدا کو بھی محض ایک طبعی نقطہ نظر from Physical point of viewسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ ہم خدا کو بھی اس طبعی وجود پر مبنی ماحول کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ غلط نقطۂ نظر نہ صرف عوام بلکہ خواص یعنی مفکّرین اور جدید سائنسدانوں کوبھی انہی پیمانوں پر سوچتے ہوئے کنفیوژن کا شکار کر رہا ہے۔خدا کے حوالے سے بحث منکرین اوریقین کرنے والوں میں صدیوں سے جاری ہے۔ کائنات اور زندگی کی انتہائی پیچیدہ سائنس کو خودکار قرار دینے سے متعلّق جدید سائنس کے نقطۂ نظر پر تنقید سے زچ ہوکر منکرین صرف ایک ہی جوابی سوال کوپناہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ اگر سب کچھ خدا نے بنایا تواسکو کس نے بنایا؟ یہ سوال آپکو ہر فورم پر جگمگاتا ملے گا اور اسی پر آکر بحث ختم ہوجاتی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ لکھتے ہیں:
It is reasonable to ask who or what created the universe, but if the answer is God, then the question has merely been deflected to that of Who created God. In this view it is accepted that some entity exists that need no creator, and that entity is God……(Stephen Hawking, The Grand Design, Page 216)
ترجمہ :یہ پوچھنا مناسب ہے کہ کائنات کو کس نے بنایا ، لیکن اگر جواب خدا ہے تو یہ سوال مزید دوسرے سوال کی طرف جاتا ہے کہ خدا کو کس نے بنایا۔ اس نقطۂ نظر میں یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی ہے جسے تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں اور وہ خدا ہے۔ (اسٹیون ہاکنگ(
رچرڈ ڈاکنز Delusion The God میں رقم طراز ہیں:
Indeed design is not a real alternative at at all because it raises a bigger problem than it solves. Who designed the designer?Page 147, ‘The God Delusion’ Rchard Dawkins
ترجمہ : بے شک (کائنات کی) تزئین مناسب متبادل (نظریہ) بالکل نہیں ہے کیونکہ یہ بجائے حل کے اور بڑی مشکل کھڑی کرتا ہے کہ تزئین کار یا ڈیزائنر کو کس نے ڈیزائن کیا۔(رچرڈ ڈاکنز)
یہی وہ اہم موڑ ہے جہاں سے منکرین کسی بھی بحث سے نکل کر اپنے نامکمل نظریے پر ہی بات چیت کو مجبوری گردانتے ہیں۔ جبکہ اسی نکتے کی وضاحت اور تشریح میں ہی سارے مسائل کے حل ہیں۔ (ڈیزائن کی بات کو ہی لیجیےکہ)صرف کہکشاں میں تقریباً ۳۰۰ ارب ستارے ہیں اگر انمیں ۱۰ فیصد بھی سیّارے ہوں تو ۳۰ ارب سیارے مزید ہوئے۔ کائنات میں ایسی ۱۰۰ ارب کہکشائیں ہیں۔ اب ذرا ان سسٹم کا اندازہ لگائیں جو زندگی کی بے شمارشکلوں میں جاری و ساری ہیں یہ کھرب ہا کھرب طبعی اور غیر طبعی نظام ہائے کائنات کسی نظم کے بغیر کیسے ہیں جبکہ ہر ایک کی ساخت ہی نظم پر ہے۔ اور سب سے بڑی بات ان یکساں نظاموں کا آفاقی ہونا ہے۔ کائنات کے ایک دوردراز گوشے میں بھی ایٹم میں الیکٹرون electron اسی طرح کیوں گردش کرتا ہے جیسے یہاں۔
٭وجود: Existence
منکرین کے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہم وجود اور خیالات کے پیرایوں parameters کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔درحقیقت ہم اپنے حواس میں مقیّد ہوتے ہیں جو کہ وجود کے تابع ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہمارے حواس وجود کے اندر مقیّدہیں اور وجود کی وجہ ہی سے ہمارا شعور بیدار ہے۔ جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ کسی چیز کا وجود دراصل ہمارے شعور کا احساس ہے۔ گویا ہم شعور کے ایک نامعلوم بھنور میں گھومتے ہوئے ذی حیات ہیں جو صرف وجودیت کے پیرائے میں سوچنے اور عمل کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں اوراس وجود کے طبعی ماحول یا اس شعور کے بھنور سے باہریا وجود کے قفس سے باہر کا ہمیں علم نہیں ہوسکتا۔ اس مقیّد شعوری اور طبعی ماحول سے باہر جو کچھ بھی ہو وہ ناممکن نہیں بلکہ ایک Meta-Existence-Phenomenon سپروجود یت یا ماورا ء الوجود ہے۔ وہ سپر ماحول جیسا بھی ہوگا اپنے انوکھے پیرامیٹر کے ساتھ ہوگا۔انسانی عقل انسان اور کائنات کی ابتدا ء کی ماہیت کے حوالے سے ہمیشہ تذبذب میں ہی ہے۔ ہمارے پاس اس ماحول کے حوالے سے ممکنہ سوالات اور انکے جوابات ہونے تو چاہئیں لیکن جہاں جدید علوم بھی بے بس بھٹک رہے ہوں وہاں یہی قرینِ قیاس ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ہماری عقل کی پہنچ سے آگے ضرور ہے ۔
٭وجودکے رخ یا سمتیں: Dimensions of Existence
وجود کیا ہے اور کیا اسکی مختلف سمتیں یا پیرائے ہو سکتے ہیں؟کیا جو کچھ موجود ہے وہی حقیقت ہے یا حقیقتیں کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں؟
ہمارے احساس کے حوالے سے دو نظام چلتے ہیں ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ ان دونوں کی مجموعی کارکردگی ہی سے ہمیں کوئی مخصوص احساس ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارا دیکھنا ,کہ جب روشنی سات رنگوں کے ساتھ کسی چیز سے ٹکراتی ہے وہ کچھ رنگ چھوڑ کر پلٹتی ہے اور ہماری آنکھ میں داخل ہوکر پردے میں جذب ہوتی ہے یہاں سے اندرونی نظام کے ذریعے بصری اعصاب کوئی تصویردماغ تک لیجاتے ہیں۔ روشنی گلاب سے ٹکراکر سرخ رنگ لاتی ہے لیکن اگراندرونی نظام سرخ کو نیلا کردے تو ہمیں سرخ چیز نیلی ہی نظر آئیگی! گویا اگر تمام انسانوں کا بصری یا دیکھنے کا نظام ایسا ہی ہو تو پھر سب کو گلاب نیلا نظر آئیگا اور ہمارے لیئے یہی حقیقت ہوگی جبکہ ہمارے حواس سے باہر کے پیرائے کچھ اور ہونگے۔ بالکل اسی طرح کوئی بھی وجود درحقیقت ایک سہہ رخی طبعی ہیولا ‘Physical Hologram’ Three Dimentionalہے جو ہمارے اعصاب ایک نظام کے تحت تشکیل دیتے ہیں اور یہ نظام اپنے مخصوص پیرائے میں ہر انسان کے اندر جاگزیں ہے۔ ہم انہیں پیرایوں میں سمجھتے ہیں جومتعیّن ہیں۔ ہمارا تصورِ وجود یا کسی چیز کے موجود ہونے کا احساس ایک محدود صلاحیّت ہے جس کا تعلق ہمارے اندرونی نظام سے ہے۔ جس طرح بصری اعصابی نظام حقیقی سرخ کو سبز یا نیلا دکھا سکتا ہے اُسی طرح ہمارا تخیّل و تفکّر کا اندرونی نظام موجود ہونے to existکی ایک مخصوص اور غیر حقیقی کیفیت بھی دکھلاسکتا ہے یا دکھلاتا ہے کہ جس میں ہم مگن رہتے ہیں۔ کوئی اور طرزِ وجود ہمارے لیئے سمجھنا تو مشکل ہو سکتا ہے لیکن کسی اجنبی alien پیرائے وجود کو مسترد کرنا بھی غیر عقلی اور غیر منطقی ہوگا۔ دراصل ہماری روح میں موجود نامعلوم برتر سائنسی پیچیدہ نظام Para-scientific Super Mechanism اور ہمارے اعصاب ہمارے اندر ایک انتہائی زبردست تخیّلاتی نظم تشکیل دیئے رہتے ہیں جو ہمیں وجود کے ایک مخصوص طرزِ فکر میں غلطاں اور مگن رکھتے ہیں اور ہم وجود کے ایک سحر انگیز نظام میں سرگرداں رہتے ہیں۔اس روحی نظام کہ ہم جان نہیں پائے ہیں کہ خود روح کا علم بھی ایک راز ہے۔
طبعی وجود کے علاوہ کچھ اور مابعدالطبعیّاتی وجود ہیں جن کا ہم میں اکثر لوگ اپنے تجربات کے تئیں مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ مثلاً جنّات وغیرہ کا تذکرہ اکثر لو گ کرتے ہیں اور بہت سے افراد اس کا ذاتی مشاہدہ بھی کر چکے ہیں، مزید یہ کہ اب جدید سائنسداں بھی بعیدخلاء میں غیرانسانی اجنبی زندگی کی موجودگی کو رد نہیں کرتے،جدید دور کا بڑا سائنسداں اِسٹیون ہاکنگ کہتا ہے۔
“To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational,” he said. “The real challenge is to work out what aliens might actually be like.”
ترجمہ :میرا حسابی دماغ کہتا ہے یہ اعداد سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اجنبی زندگی کے وجود کا خیال مکمّل عقلی ہے۔اصل میں تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟
یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ ۔۔اصل میں تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ ۔۔۔ ،
ہم عموماًکسی بھی زندگی کا تصوراپنے حواسِ خمسہ کے پیرائے میں ہی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا لازماً کیوں ہو کہ کائنات کے مختلف گوشوں میں ارتقاء کی حوالے سے اُبھرنے والی ہر زندگی کی ماہیت ہماری ہیئتِ ترکیبی کے مطابق ہو! اُنکے حواس و شعور ہماری طرح ہی ہوں۔؟!!!
اگرسائنس کسی اجنبی زندگی کے وجود کو تسلیم کرتی ہے یا اسے بعید از قیاس نہیں سمجھتی توپھر وہ زندگی صرف ہمارے شعور کے طابع اورمقامی یا محدود ہی کیوں ہو۔ وہ ماوراءِ کائناتی پیرائے میں لامحدودیت تک سرائیت کیوں نہ کرسکتی ہو۔ اس طرح سائنس بالواسطہ اور منطقی طور پر کائنات سے ماوراء زندگی سے انکار نہیں کرسکتی ہے!
اس سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جاسکتا ہے کچھ نہ کچھ تو غیب میں ہے ورنہ اس کا تذکرہ بھی کبھی نہ ہو۔ گویا اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے حوا س سے ماوراء کوئی وجود ی پیرایہ ہے ہی نہیں تو یہ بھی ایک غیر سائنسی،غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہوگی۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ کوئی ایسا ماحول ہوجہاں پر وجود ہی اجنبی ہو۔ یعنی کوئی اور اجنبی ماحول جس کی تمام جہتیں ،پیرائے یا پیرامیٹرز ہی ہمارے شعور کیلئے اجنبی یا ماوراءِ شعورِانسانی Para-Human-Conciousness-Parameters ہوں! خیال رہے کہ یہاں پر لفظ موجود اور وجود ہمارے وجود اور وقت کے پیرائے میں ہے، دراصل یہ ہمارے محدود شعورکے اندرہماری محدود لغت میں ایک ایسے ماحول کا ذکر ہے جو کہ ہمارے لیے اجنبی ہو سکتا ہے۔یعنی ہم لامحدودیت سے آگے عدم میں کسی بھی چیز یا غیر چیزیا لا شئے کے بارے میں صرف اتنا ہی بیان کر سکتے ہیں۔
شعور کے مدارج تو ہم خود بھی دیکھتے ہیں کہ ایک بچّہ کس طرح تجربات اور حصولِ علم کے ساتھ پختہ سنِ شعور کو پہنچتا ہے۔تو ظاہر ہوا کہ جب تک انسان علوم حاصل کرتا رہے گا اسکا شعور اورعقل بھی پھیلتی رہے گی۔تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ ہم کیا جان پائیں گےاور کیا نہیں!اگر انسان آئندہ کچھ ایسا جان پایا یا اسپر ایسی حقیقتیں عیاں ہوئیں جو فی الحال ناممکن نظر آتی ہیں تو کیا ہمارے طبعی پیمانے یہی رہیں گے! یا اگر انسان اپنے اندر کچھ نئی قوّتیں ڈھونڈھ لیتا ہے جو شعور کو دوچند کردے توکیا پھر بھی ہمارے موجودہ قابلِ قبول معیارِ حقیقت یہی رہیں گے؟ ذرا سوچیں!
حقیقتِ خالق : Reality of the Creator
انسان بظاہر لا محدود پیرائے میں سوچتا ہے لیکن یہ لا محدودیت بھی ذہن کا تخیّل ہے ۔ ہم کویہ سمجھنا چاہیے کہ کائنات کا خالق اس کائناتی ماحول سے باہر ہے جبکہ اس کائناتی محدودیت سے آگے انسانی ذہن کی رسائی ممکن نہیں ہے۔اسکو یوں سمجھیں کہ مخلوق وقت اور مادّہ Time & Spaceکے ماحول میں ہے جب کہ خالق منفی وقت اور منفی مادّہ کے ماحول میں ہے۔ جب ہم وقت کا منبع originہی نہیں سمجھ سکتے اور اس کی صحیح تعریف نہیں کرسکتے تو منفی وقت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔منفی وقت یا ماوراء الوقت یا عدم کے حوالے سے ہمارا ماحول ایک دھوکہ یعنی illusionہے۔
ایک اور مثال سے بھی خالق یا خدا کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ جدید سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں کہیں ایک انتہائی ترقی یافتہ مخلوق موجود ہوسکتی ہے جو زمین پر حملہ آور بھی ہوسکتی ہے۔آئیں فرض کرتے ہیں کہ وہ مخلوق کسی اجنبی ساخت جیسے توانائی سے پھوٹی ہے ،عقل و شعور رکھتی ہے لیکن بائیولوجیکل اندھی ہے یعنی وہ کسی بھی خُلیاتی زندگی یا اس سے متعلّق کسی بھی چیز کو محسوس نہیں کرسکتی۔ اگر وہ زمین پر اترتی ہے تو وہ کیا دیکھے گی اور کیا نتائج اخذ کرے گی؟ وہ یہاں ایک نظام کو جاری اور ساری دیکھے گی، انسان کی بنائی ہوئی بیشمار ایجادات کو تجسس سے مشاہدہ کرے گی لیکن حیران ہوگی کہ یہ سب کیسے ہورہا ہے۔ کیونکہ انسان اور حیوانی زندگی انکے تخیّل سے ماورا ہے لہٰذا وہ اپنے مخصوص دائرہ تفکّر میں مشینی حرکات کو ریسرچ کے ذریعے علمی جواز مہیّا کرتی جائے گی۔ انسانی تخلیقات بھی فطرت Nature کا حصّہ بن جائیں گی مثلاًکارخانے، مواصلات، کمپیوٹر ، آئی فون، خلائی سیّارے اور خلائی لیب وغیرہ وغیرہ۔ اسکے ذہین دماغ کوئی نظریۂ ارتقاء یاکوئی اچھوتا علمی مفروضہ اپنے علوم کی روشنی میں سامنے لاتے رہیں گے اور حقیقت کی تلاش جاری رہے گی لیکن وہ انسان کی ماہیت نہ سمجھ پائیں گے۔ انکے عقلمند یا دانشور اُس اجنبی زندگی کو تسلیم نہیں کرسکیں گے جو اس ماحول کے ایک حصّے پر قابض ہے اور تصرّف رکھتی ہے کیونکہ انکے لیئے یہ غیر علمی یا غیر منطقی ہوگا جبکہ انسان انکے دائرۂعلم سے باہر ایک حقیقت ہوگا۔
مابعدالطبعیّاتی ماحول: Metaphysical Era
اگر ہم زندگی اور کائناتی نظام کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کائناتی نظامِ زندگی محض ایک سپر سائنس یا ماوراءِ سائنس Para-Scienceہے اور اس میں موجود زندگی محض مختلف”حیوانی روبوٹ”ہیں جن کو اس ماحول میں رہنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ان مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ ذہانت رکھتا ہے جسے ہم عقل کہتے ہیں۔ یہی عقل ہے جو اس حیرت انگیز علوم سے لبریز کائنات میں چھُپی معلومات ڈھونڈتی ہے اور طبعئی اورغیر طبعئی قوانین پرمبنی مختلف جہتوں کو عیاں کرتی ہے ۔ہم جو کچھ بھی علم حاصل کرتے ہیں وہ دراصل وہ معلومات ہیں جن کو ہمارا ذہن حواس کے ذریعے جذب کرتا ہے اور ہم اس کو قبول کرتے ہیں۔لیکن ہمارے حواس کی کارکردگی بھی محدود ہے کیونکہ ہم الیکڑومیگنیٹک Electromagnetic لہروں کو نہیں دیکھ سکتے نہ محسوس کرتے ہیں نہ ہی ایکسرے X-Rays ہمارے حواس کی گرفت میں آتی ہیں۔ ہماری آنکھ اور ہمارے کان محدود صلاحیت رکھتے ہیں مختصراً ہمارے حواس خمسہ کی کارکردگی لا محدود نہیں ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ، سنتے اور محسوس کرتے ہیں وہ ہماری محدودذہنی استعداد پر ہی مبنی ہوتاہے۔مابعدالطبعیّاتیmetaphysicalعوامل وہ ہوتے ہیں جن کو ہمارے حواس جذب نہیں کرپاتے ،بہر حال یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سائنس کی ترقی سے غیر طبعئی عوامل طبعئی عوامل میں تبدیل بھی ہو رہے ہیں،جیسا کہ X-Raysاور دوسری لہریں waves جو ہمیشہ سے موجود ہیں لیکن انسان نے ان کو اب اپنے تجربات سے سمجھا اور قابو کیا۔ اس طرح بہت سے غیر طبعئی عَناصررفتہ رفتہ انسانی گرفت میں آتے جا رہے ہیں جنکا تصوّر بھی سوسال پہلے نہیں تھا۔ اس سے بہرحال یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ مابعدالطّبعیاتی عوامل موجود تھے اورہیں اور وہ طبعئی عوامل کی شکل بھی اختیار کرتے رہیں گے کیونکہ انسان نے ان کو دریافت کیا بھی اور کرتابھی رہے گا ۔ یہ بات بھی ہے کہ انسان بہت سے مخفی عوامل کاانکار کر تارہا ہے یہاں تک کہ سائنس اس کے حق میں ثبوت لے آئی توعوام الناس نے ان کو قبول کرلیاجیسے کہ ریڈیائی لہریں وغیرہ۔
اس بحث سے قطع نظریہ بات تو ثابت ہے کہ بہت سے انسان اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کو کچھ ایسے تجربات ہوئے جو بظاہر طبعیّاتی سائنس قبول نہیں کرتی ۔ اس سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ ہو سکتا ہے کہ بہت کچھ ہمارے طرزِ فکراور یقین پر بھی منحصر ہے کہ ہم کیا سوچتے اور ہمارا ذہن کیا قبول کرتا ہے۔ اگر کوئی مابعدالطّبعیّات metaphysics پر یقین رکھتا ہے تو اس کا دماغ وہاں سے آنے والی سر سراہٹ کو محسوس اور قبول کرنا شروع کردیتا ہے۔لیکن سب سے دلچسپ یہ نکتہ ہے کہ :
خدا اور خیال : God & Thought
اگر واقعی سائنسی طور پر یہ درست ہے کہ ما بعدا لطّبعیّات Metaphysics کا وجود نہیں ہے تو پھر انسانی اعصاب اور شعورکو کبھی بھی مابعدالطّبعیاتی تجربہ نہیں ہونا چاہیے خواہ اس شخص کا کیسا بھی عقیدہ کیوں نہ ہوکیونکہ ارتقاء کے اصول کے مطابق فطری قوانین میں ایسا کیمیائی عمل یا قانون بھی تو موجود نہیں ہونا چاہیے جو ایسے خیالات کو پیدا کرے جن کا تعلق کسی عدم وجود سے ہومثلاً خدا،کیونکہ سائنس کے مطابق خیالات کا پیدا ہونامربوط کیمیائی عمل کا نتیجہ ہی ہوتاہے۔ اب ذہنِ انسانی میں خدا کا تصّور بھی کسی نظام کے تحت ہی تو موجود ہے بلکہ یہ ایک فطری خیال ہے ۔ اگر یہ فطری نہیں تو خدا کا عقیدہ آفاقی Universalکیوں ہے؟ اور یہ ہے ہی کیوں؟
لامحدودیت : Infinity
لفظ لا محدوددراصل ایک معذرت کا نام ہے یہ ہمارے تصّور کی اُس بے چارگی کامظہر ہے کہ جب انسانی ذہن کسی نمبر کو سمجھنے اور بتانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔لفظ لامحدود مزید جستجو سے راہِ فرار کا جوازہے۔ کائنات میں ہر چیز اپنے حجم اور فاصلے کے حوالے سے لازماً ایک خاص عددرکھتی ہے،لیکن جب ہمارا ذہن اور دماغ اس کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو اس کو لا محدود کہہ دیتاہے۔ہر وہ چیز جس کو لامحدود کہا جاتا ہے یقیناًمحدود ہے کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر محسوس ہونے والی طبعئی و غیر طبعئی چیز ایک شکل اور جسم رکھتی ہے لیکن انسان خود ہی بے بس ہو کہ اس کو لامحدود کہتا ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دراصل محدودیت ہمارے دماغ کی طبعئی دسترس کی حد ہے اور لامحدودیت اس سے ماوراء۔ اسطرح منطقی طور پراس کائناتی محدودیت سے پرے اور انسانی تخیّل سے ماوراء کچھ بھی ہو سکتاہے اور اس کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے پاس کوئی منطقی جوازنہیں ہے کہ ہم اس محدودیت سے آگے کسی وجود سے انکاری ہوں۔
عدم یا لاشئے : Nothingness
ہم مادّے matterکے ماحول میں رہتے ہیں اس لئے فطری طور پرما دّے کی بنیادپر خالص طبعئی سوچ رکھتے ہیں لیکن ہمیں “لاشئے”nothing کی بھی تشریح کرنی چاہیے کہ وہ کیا ہوسکتی ہے۔ایسا ماحول جو منفی مادّی ہو، ایسا جداگانہ ماحول جو ہمارے ماحول کا الٹ ہو۔ گویا جو شئے نہیں وہ لا شئے یا منفی شئے No-thingہوئی۔خلا کا عمومی تصوّر یہی ہے کہ وہاں کچھ نہیں ہوتا یعنی کوئی چیز نہیں ہوتی جبکہ سائنس کے مطابق مختلف توانائیاں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں لہذاکائناتی خلاء بھی منفی مادّی ماحول نہیں ہے ۔ ہم کسی اجنبی ظہور Alien Phenomenon کوجو طبعئی نہ ہو اور جس کو ہم اپنی عقل سے نہ سمجھ سکیں منطقی طور پر لاشئے no-thing ہی کہیں گے کیونکہ ہم اُس ماحول کی ہئیت ترکیبی کو سمجھنے سے قاصر ہو نگے۔ اپنے شعور کی ان کم مائیگیوں limitations کو سمجھ کر اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔
خدا: God
جب ہم خالق، تخلیق اور مخلوق کی بات کرتے ہیں تو منطقی طور پر یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ جب سب کچھ خدا نے بنایا تو:
۱۔ خدا کو کس نے بنایا؟
۲۔ ہم خدا کو کیوں نہیں سمجھ سکتے؟
۳۔ ہم خدا کوکس طرح سمجھ سکتے ہیں؟
یہ سوالات فطری ہیں مگر انکے انسان کو مطمئن کرنے والے جوابات مخاطب کی ذہنی اُپچ، Mindset اور علمی استعداد کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ ان تناظر میں یہ سائنسدانوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ بتائیں کہ خدا کیوں نہیں ہے جبکہ مذہب بتائے گا کہ خدا کیاہے۔
خدا کو سمجھنا: Understanding God
ہر مذہب ایک خالقِ کائنات کا تصوّر دیتا ہے۔تصّورِ خدا انسان کے ذہنوں میں ایک فطری حقیقت کی طرح جا گزیں ملتا ہے۔ خالق، مخلوق اور تخلیق کا تعلّق سمجھنے کے لیئے ہم ایک حقیقی سائنسی مثال کا سہارا لیتے ہیں جس کا تعلّق جدید روبوٹ سے ہے جن کا زمانہ تیزی سے آرہا ہے اور مصنوعی ذہانت Artificial Intelligenceکابہت چرچا بھی ہے جو کہ روبوٹ کو ایک طرح کی مصنوعی عقل فراہم کرتی ہے۔ آیئے دیکھیں کہ جدید سائنس کیا کرنے جارہی ہے
The DREAM: “By mid-21st century, a team of fully autonomous humanoid robot soccer players shall win soccer game, complying with the official rule of the FIFA, against the winner of the most recent World Cup,” RoboCup organizers pledge on the competition’s official website. Federation of international Robot-Soccer Association
“اکّیسویں صدی کے وسط تک خود مُختارانسانی روبوٹ فٹبال ٹیم اُس وقت کی انسانی ورلڈ چیمپیئن ٹیم کو FIFA کے قوانین کے مطابق کھیلتے ہوئے شکست دیگی۔ روبوٹ کپ انتظامیہ کا اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ ۔
گویا آئندہ چند دہائیوں میں ایسا ہونے جارہا ہے۔ذرا تصوّر کریں کہ انسانوں سے مقابلے کے دوران اُن خود مُختار روبوٹ کھلاڑیوں کی ذہنی کیفیّت کیا ہوگی۔ انسانوں سے مقابلے میں وہ ایک الیکٹرانک حصار میں ہی قید ہونگے، اُنکا سارا کھیل ایک خاص دائرے کے اندر ہی گردش کریگا جو گراؤنڈ تک محدود ہوگا۔ وہ انسانوں کی طرح کھیلیں گے، فاؤل بھی کریں گے اور گول بھی، انسانوں کی طرح خوش اور غمگین ہونگے وغیرہ وغیرہ، لیکن ارادے اور عمل کی آزادی کے باوجود وہ اپنی محدودیت کے ایک حصار میں ہی مقیّد رہینگے جسکا تعیّن انکا پروگرامر کریگا۔ وہ صرف اُس کھیل کے ماحول کی حد تک ہر فیصلہ کر نے میں آزاد ہونگے! اب یہ پروگرامرز کا کمال ہوگا کہ وہ ان روبوٹ کے دماغ brain chipمیں کس طرح کے خیالات کو جنم دیتے ہیں کہ وہ کامیابی و ناکامی اورجزا اور سزاکے معافی سمجھتے ہوئے جیت کو ایک مقصد بناتے ہوئے اور جائز اور ناجائز fair & foulکی گرہوں میں الجھتے ہوئے جیت کے متلاشی ہونگے۔ ذرا غور کریں کہ حالانکہ یہ محض ایک کھیل ہوگایا محض ایک دھوکہ لیکن ان روبوٹ کے لیے ہر گز نہیں کیونکہ وہ جس ذہنی الیکٹرونک سانچے Electronic Mindsetمیں سوچ رہے ہیں ان کیلئے وہی حقیقت ہے۔ انکے مقابل انسان تو ہونگے لیکن کھیل کے محدود دائرے میں روبوٹ انکے ہم پلّہ ہونگے۔ہر روبوٹ ایک شخص person کی حیثیت سے مقابل ہوگا۔ اسطرح روبوٹ جن کو ایک خاص مصنوعی ذہانت دی گئی وہ اپنے ذہنی سانچے میں خودمختار ہو گئے ،کہ وہ جو چاہیں کریں کیونکہ وہ اپنی عقل کے ذریعے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔وہ اپنے تئیں ایک وجود رکھتے ہیں۔ یعنی ان کا ذہنbrain یہ تصوّر لیے ہوئے ہے کہ وہ متحرک ہستی ہیں اور وجود رکھتے ہیں۔
تصوّرِ خداکی تشریح: Explaining God
آئیے اِس مجوزّہ فٹبال کے کھیل کو بنیاد بناکر آگے بڑھتے ہیں۔ اس کھیل میں حصہ لینے والا روبوٹ گراؤنڈ کے اندرمقابل انسانی کھلاڑیوں کے حوالے سے کھیل میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھے گالیکن اس گراؤنڈ کے باہر کے ماحول سے قطعاً بے خبر ہوگاکیونکہ وہ ماحول اُس کیلئے عدم Nonexistence ہے جسکااُس کو علم نہیں دیا جا رہا لیکن بہرحال ان کے پاس ایک طرح کی محدود سوچ اور اُس حوالے سے عمل کا اختیار تو ایک حقیقت ہی ہوگا۔اب غور کریں کہ وہ روبوٹ کھلاڑی جو کہ ایک کمپیوٹر ہی ہے لیکن اس کے پاس دانش اورارادہ،خواہ مصنوعی ہو،بالکل اسی طرح ہے جس طرح پروگرامر کے پاس، لیکن دونوں کے ارادے کے تناسب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یعنی انسان کی قوّت روبوٹ کے مقابلے میں ہمیشہ لا محدود ہی رہے گی۔
خیال کی حقیت : Reality of Thoughts
انسان روبوٹ کو جومصنوعی ذہانت Artificial Intelligence فراہم کرتاہے وہ بھی سوفٹ وئر کا بھنور یامدارہے کہ روبوٹ کی یادداشت Memory او ر مصنوعی ذہانت انسان کی متعیّن کی ہوئی لہروں میں گردش کرتی ہے۔ روبوٹ کو کسی صورتِحال میں فیصلہ کرنیکی محدودآزادی ہوتی ہے ، وہ “صحیح یا غلط” True or False کی منطق پہ ماحول کا تجزیہ کرکے ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے،کیونکہ پروگرام میں اسکی گُنجائش رکھی جاتی ہے۔ ہاں، لیکن پروگرامر کسی بھی مخصوص صورتِحال میں روبوٹ کے متوقّع عمل کو جان سکتا ہے کیونکہ اُسکا علم حاوی اور بہ نسبت روبوٹ کے لامحدود ہے، اسکو اپنے مرتّب کردہ پروگرام کے حوالے سے یہ معلوم رہے گا کہ کس عمل کے بعد کونسے اعمال یقینی، متوقّع یا غیر متوقّع Random ہونگے اور اسکا انحصار اُسکے علم کی قوّت و وسعت اور پروگرام پر گرفت پر ہی ہوگا۔ مصنوعی ذہانت روبوٹ کا محدود شعور ہے اُنکے لئے اُن کا ماحول اور وجود حقیقت ہے جبکہ انسانی دنیامیں وہ ماحول ایک فریبillusion ہی ہے۔ ان روبوٹ کے لئے ان کی سو چ سے باہر کی ہر چیز ان کے لیے Infinity یا لامحدودیت ہے۔ دراصل وہ ایک ذہنی قید خانہ میں ہیں جسکو ہم مشین لینگویج میں مرتّب پروگرام بھی کہہ سکتے ہیں یعنی پروگرامر نے ان کو ایک ماحول میں مقیّدکردیا ہے اور وہ اس سوفٹ وئیر سے باہر کچھ جان نہیں سکتے۔ وہ اپنے Time and spaceمیں زندہ ہیں۔ مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ روبوٹ اس پوزیشن میں ہونگے کہ جان سکیں کہ انکا تخلیق کار کون ہے اور “در حقیقت” کیا ہے؟ کیا الیکٹرونک وجود سے اوپر کوئی طبعی وجود انکے خیال میں سرائیت کر سکتا ہے؟ فیصلہ آپ خود کرلیں۔ ہاں، یہ اسی وقت ممکن ہے جب پروگرامر اس ڈیٹا میں یہ اشارہ دے کہ میں تمہارا خالق ہوں۔
خدا اور انسان:God & Human
آئیے خدا اور انسان کے تعلّق کو ایک اور حسابی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ انتہائی ذہین سُپر روبوٹ کے پاس مصنوعی ذہانت اگر ایک درجہ ہے تو اس کے پروگرامر انسان کی ذہانت 10کروڑ ہے اس طرح نسبت 1:100Mکی بنے گی۔اگر ہم ریاضی کا اصول تناسب یہاں پر لاگوکریں اور روبوٹ کی ذہانت بڑھا کر 2درجے کردی جائے تو پروگرامر کی ذہانت بھی بڑھ کر 20 کروڑہو جائے گی۔ یعنی ہر دو صورتوں میں روبوٹ کے لیے انسانی ذہانت لامحدود ہے ۔اس تناسب کو اگر ہم بڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ روبوٹ کا ذہنی معیاردس کروڑ یعنی انسان کے برابر کردیا جائے تو اصول تناسب سے انسان کا معیار لامحدود ہوجائے گا یعنی 100M : (100M x 100M)= infinity اس طرح اگر روبوٹ انسانی معیارِ ذہانت پر پہنچ بھی جائے پھر بھی وہ اپنے خالق پروگرامرکی ذہنی قوّت تک نہیں پہنچ سکے گا۔کیونکہ اگر انسانی تخلیق یعنی روبوٹ انسانی عقل کا خوگر بنتا ہے تو پھرانسان بھی اس کے لیے لا محدود ہو کر اس کا خدا بنتا ہے،
بالکل اسی طرح انسان کے ذہن میں کسی خیال کی آمد یا اُسکا اُبھرنا ایک پُر اسرارنظام Mysterious Phenomenonہے جسکو سائنس نے کیمیکل ری ایکشن کا شاخسانہ قرار دیا ہے، لیکن یہ خیالات پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں اور اچھے یا بُرے خیال کیوں آتے ہیں اسکا جواب سائنس کے پاس نہیں۔ انسان متواتر آتے ہوئے مختلف خیالات اور ان سے منسلک حالات کی وجہ سے ہی مسلسل زندگی کے معاملات میں مصروف رہتا ہے۔یہ گزرتا ہواوقت ایک غیر طبعی مدار یا بھنوَرہے جس میں دن اور رات کے چکّر میں انسان گھومتاہے با لکل اسی طرح جیسے روبوٹ اپنے الیکٹرونک مدار میں۔ اس مثال سے واضح ہو تا ہے کہ انسان جو خود ایک مخلوق ہے کسی طور پر بھی اپنے خالق کی حقیقت نہیں جان سکتاکہ جس طرح روبوٹ اتنا ہی جان سکتا ہے کہ جتنا اس کو علم دیا جائے۔
خدا کا تصوّر ایک مربوط پلاننگ کے تحت ہی انسان کے خیال میں پیوست ہے ورنہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کی رُو سے جہاں فطرت ایک خود کار نظام! کے تحت رواں ہے اس خیال کا آنا ہی غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے۔ ۔ کیا ہم ایک ایسی ہستی کا تصوّر کرسکتے ہیں کہ جو کائنات سے بھی کھرب ہا کھرب وسیع ہو۔ کیا ہم یہ یقین نہیں کرسکتے کہ انسانی شعور اور ارادے سے کھرب ہا کھرب وسیع کوئی ارادہ ہو؟ ہم کن بنیادوں پر ان مفروضات کو رد کریں گے؟
مجیب الحق حقی کی کتاب “Understanding The Divine Whispers”کےغیر مطبوعہ اردوورژن “خدائی سرگوشیاں”سے اقتباس