ہر فعّال زندگی تخلیق کی قوّت رکھتی ہے۔ ایک پرندے کا گھونسلہ، ایک مصوّر کی تصویر، ادیب کی تحریر، شاعر کے اشعار، آرکیٹیکٹ کا ڈیزائن، انجینیئرز کی بنائی ہوئی عمارتیں، کارخانے، سائنسدان کا روبوٹ، پروگرامر کا سوفٹ وئیر وغیرہ وغیرہ سب تخلیقات ہیں۔ غرض ہمیں اپنے اطراف تخلیقات کا اژدہام نظر آتا ہے۔ انسان ہر لمحے اپنے عمل کے ذریعے دیدہ اور نادیدہ تخلیقات میں محَو ہے۔ ہر خالق کا اپنی تخلیق سے ایک تعلّق بن جاتا ہے کہ وہ تخلیق اسی سے منسوب ہوجاتی ہے۔ مگر یہ تعلّق یک طرفہ ہوتا ہے، یعنی خالق جانتا ہے کہ یہ میری تخلیق ہے لیکن تخلیق نہیں جانتی کہ اس کا خالق کون ہے، کیونکہ ظاہراً سب بےجان ہیں۔ اس میں انسان کا قصور ہے کہ وہ اپنی تخلیق میں اپنی ذات کا شعور منتقل کرنے سے قاصر ہے۔
لیکن کیا انسان اس بات پر قادر ہوسکتا ہے کہ اس کی تخلیقات اسے پہچان سکیں؟
بظاہر یہ ناممکن ہے کیونکہ انسان کی علمی دسترس میں مادّہ ہے جو کہ طبعی ہے۔ انسان اسی طبعی رخ پر تخلیقات کا علم رکھتا ہے اور طبعی پیرایوں میں ہی تخلیق کرتا ہے۔ ذات کا شعور ایک غیر طبعی وصف ہے جو غیر طبعی بنیاد رکھتا ہے اور وہ ہے روح۔ اب اگر انسان اس بات پر قادر ہوجائے کہ اپنی ذات کا کوئی طبعی یا روحی پیرایہ اپنی تخلیق میں ایسے منتقل کردے کہ اس میں یہ صلاحیت بیدار ہوجائے کہ وہ اپنی ذات کا شعور حاصل کر لے تو ایسی صورت میں ذات کی یہ ہم آہنگی اس تخلیق کو اپنے خالق کا شعور دے سکے گی اور انسان کی تخلیقات اپنے خالق کو جان کر اپنا خدا مانیں گی۔
اس کی مثال اور دلیل یہ ہے کہ انسان خود ایک تخلیق ہے جسے لامحدود جہت والی زندگی نے تخلیق کیا۔ اس قادر مطلق زندگی نے انسان کے طبعی جسم میں اپنی ذات کے کسی گوشے کا عکس ڈال کر انسان کو اپنی ذات سے ہم آہنگ کر دیا۔ یعنی انسان کے خالق نے اپنی ذات کا شعور دینے کے لیے انسان میں اپنی ایک نامعلوم جہت جسے روح کا نام دیا گیا داخل کر دی۔ اسی کے بموجب انسان اپنے خالق کو نظرانداز نہیں کر پاتا، ہر انسان خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک رائے رکھتا ہے، مانتا ہے یا انکار کرتا ہے، لیکن لاتعلّق نہیں رہ پاتا۔ اسی بحث میں انسان ہر دور میں الجھا رہتا ہے اور فلاسفر اپنا دماغ کھپاتے رہتے ہیں۔
کیا جدید دریافتیں اور علوم کی بلندی انسان کو اس قابل بناسکتی ہیں کہ انسان اپنی تخلیقات کا خدا بن جائے؟
اس بات کے قرائن ہمیں جدید روبوٹ کی انسانی تخلیق میں نظر آتے ہیں کہ شاید انسان کبھی اس قابل ہو جائے کہ روبوٹ کی برین چپ میں انسانی دماغ کے اعصابی سرکٹ کو اس طرح پیوست کرسکے کہ اس کی پروگرامنگ میں انسان کی ذات کا شعور ایک الیکٹرانک منطق کی طرح جذب ہوجائے۔ کیونکہ آخر کو انسان نائب بھی تو ہے، ایک عظیم الشّان خالق کا۔انسان اسی ہم آہنگ compatible روحی شعور کے بموجب اس قابل ہے کہ اپنے خالق اور رب کو پہچان سکے۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خالق نے اس شعور کے ساتھ انسان کو عقل بھی دی جو دلیل سے نتائج اخذ کرتی ہے۔ اس طرح انسان کے لیے ایک امتحان ترتیب پایا کہ دلیل سے خالق کو پہچانو یا رد کرو! پھرانسان کو دلیل میں گمراہ کرنے والا بھی انسان کے ساتھ کر دیا اور دلیل سے خالق کی پہچان کرانے والے بھی بھیجے۔
ایک تمثیل :
ایک ماں کے رحم میں دو بچے تھے ۔ دونوں گفتگو کرنے لگے.
ایک نے دوسرے سے پوچھا ” کیا تم اس زچگی کی ذندگی کے بعد بھی کسی زندگی پر یقین رکھتے ہو ؟ ”
دوسرے نے کہا ” یقیناً ۔ زچگی کے بعد بھی کوئی نہ کوئی ذندگی تو ہوگی ، ممکن ہے کہ ہم یہاں اس لیے ہوں کہ خود کو آنے والی زندگی کے لیے تیار کر لیں ”
“میرا نہیں خیال” پہلا بولا ، بھلا وہ کس قسم کی زندگی ہو سکتی ہے؟
دوسرے نے کہا ” مجھے نہیں معلوم، لیکن وہاں ، یہاں سے زیادہ روشنی ہو گی ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم وہاں اپنے پیروں سے چلیں اور اپنے مونہہ سے کھائیں ۔ ممکن ہے وہاں ہمارے پاس ایسے حواس ہوں جن کے بارے میں ہمیں ابھی کچھ سمجھ نہیں ہے ”
پہلے نے مذاق اڑایا ” کیا بے وقوفی ہے ۔ پیروں سے چلنا ممکن ہی نہیں۔ اور اپنے مونہہ سے کھانا ؟ مضحکہ خیز! ۔ ناف سے جڑی نالی سے ہمیں ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ نالی چھوٹی سی ہے ۔ جب یہ نالی ساتھ نہ ہو گی تب زندگی کا تصور بھی محال ہے ”
دوسرے نے کہا ” بہرحال ! میرا خیال ہے کہ وہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے اور شاید یہاں سے مختلف۔ ممکن ہے کہ وہاں ہمیں خوراک کی اس نالی کی ضرورت ہی نہ ہو اور ہو سکتا ہے ہم وہاں ہوا میں سانس لیں ؟
پہلے نے کہا ” بالکل فضول ! بھلا ہم تو پانی میں ڈوبے ہوئے ہی سانس لے سکتے ہیں۔ پانی کی تھوڑی سی بھی کمی ہو تو ہماری زندگی خطرے میں ہوتی ہے اور تم ہوا میں سانس لینے کی بات کر رہے ہو ”
اچھا چلو ! اگر اس کے باہر بھی زندگی ہے تو کوئی کبھی وہاں سے واپس کیوں نہیں آیا ؟ سمجھ لو کہ بس یہی زندگی ہے اس کے بعد کچھ نہیں” ۔
دوسرا بولا ” خیر میں یہ سب نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں کی ذندگی ختم ہونے کے بعد ہماری ملاقات ہماری ماں سے ہوگی۔ اور وہی ہماری دیکھ بھال کرے گی ”
پہلا حیران ہوا ” ماں ؟؟ کیا تم واقعی ماں کے وجود پر یقین رکھتے ہو ؟ ارے اگر ماں وجود رکھتی ہے تو ابھی وہ کہاں ہے؟ ”
دوسرا بولا ” مجھے لگتا ہے کہ ماں ہمارے چاروں طرف ہے ۔ ہر جانب۔ ہم بھی اسی کی وجہ سے ہیں۔ اس کے بغیر یہ دنیا جہاں ہم موجود ہیں ، وجود نہیں رکھ سکتی ”
پہلے نے اعتراض کیا ” اگر ماں کا وجود ہوتا تو وہ مجھے نظر بھی آتی ۔ مجھ سے بات بھی کرتی ۔ اتنی چھپ کے نہ بیٹھی رہتی ۔ اگر وہ ہم سے اتنا ہی پیار کرتی تو ہم کو ایسے نہ چھوڑتی ۔ لہذا ! عقل یہی کہتی ہے کہ ماں کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ سب ہمارے دماغ کی پیداوار ہے ۔ اور کچھ بھی نہیں ہے “دوسرے نے جواب دیا ” کبھی کبھی جب ہم خاموش ہوتے ہیں۔ توجہ دیتے ہیں اور سننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے ۔ کہیں اوپر سے اس کی محبت بھری آواز سنائی دیتی ہے ۔ ہم کو اپنی دھڑکنوں کے ساتھ اس کی دھڑکن بھی محسوس ہوتی ہے ۔ وہی ہماری ماں ہے ۔ بات صرف محسوس کرنے کی ہے “!
استفادہ تحریرمجیب الحق حقی، آصف وڑائچ