” دہریت ایک نظریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے .ایک ملحد نرگسیت کا شکار ہوتا ہے ماہرین نفسیات کے نزدیک نرگسیت ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خود سے محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نرگسیت عجیب تماشے دکھاتی ہے۔امریکہ میں تو ایک خاتون نے حد ہی کر دی ،بتایا گیا ہے کہ 36سالہ ندینہ شیوگرٹ کو خود سے ا تنی محبت تھی کہ اس نے خود سے ہی شادی کر لی،اس سلسلے میں شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میں ندینہ نے نیلے رنگ کا لباس پہنا اور ہاتھوں میں روایتی گلدستہ بھی اٹھایا تاہم اس شادی میں کوئی دولہا موجود نہیں تھااور 45 کے قریب مہمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ندینہ نے کہا کہ برسوں کسی موزوں انسان کے انتظارکے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تنہائی میں اور اپنے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے ، اسے خود سے محبت ہے اور وہ خود سے شادی کر رہی ہے ، ندینہ نے اپنے آپ کو خود ہی
انگوٹھی پہنائی اور شادی کے بعد اکیلے ہی ہنی مون پر بھی روانہ ہو گئی۔
دہریت کا یہ سفر شروع کیسے ہوتا اگر اسکو ابتدا سے دیکھا جائے تو داستان کچھ اسطرح بنتی ہے۔۔
یہ ایک موروثی مسلمان ہیں (مسیحی ،سکھ یا ہندو بھی ہو سکتے ہیں ) لیکن دینی تعلیمات سے نابلد،کمزور یقین کا شکار ہیں انکے نزدیک حقائق صرف وہ ہیں جو ان کی عقل شریف میں سما جائیں۔۔۔ابتدا مجہول قسم کے سوالات سے ہوتی ہے بنیادی دینی تعلیمات سے ناواقف ہونے کے باوجود یہ خود کو ایک عظیم عالم سمجھتے ہیں ، رہتے یہ طالب علم کے بھیس میں ہیں ……
کسی کی ذہنی اور فکری تشنگی دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہاں یہ سوالات اٹھائینگے اور بیشمار اٹھائینگے لیکن ان تمام سوالات کے جوابات صرف وہی ہونگے جو انکو قبول ہوں …..
یہ سائل کے بھیس میں چھپے ممتحن ہیں جوخود باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر آپ کا امتحان لے رہے ہیں اور نتیجہ صرف اور صرف آپ کی ناکامی ہے۔۔۔
ابتدا میں یہ ایک چھوٹی بیماری ہوتی ہے یہ مذہب کی تعلیمات میں اہل علم اور اکابرین کی چھوڑ کر حریت فکر کا نعرہ بلند کرینگے، پچھلے آثار و قرائن اور اور نظائر سے بالاتر ہوکر مذہب کے بنیادی ماخذ سے لینے کے دعویدار ہونگے ……سلف کی تحقیق کو پرِکاہ کی اہمیت نہیں بلکہ سلف ان کی عدالت میں سر جھکانے کھڑے ہیں اور یہ فیصلے پر فیصلے سنا رہے ہیں …….
لیکن یہ صرف ابتدا ہے ……
اب انکو بنیادی ماخذات پر ہی اشکال ہوگا، اعترضات اٹھاۓ جائینگے، کہیں مذہبی قانون (فقہ ) پر سوال اٹھے گا اور پھر براہ راست شارح(حدیث ) پر انگلیاں اٹھ جائینگی …گو ابھی تقدس باقی ہے اسلئے براہ راست پیغمبر پر انگلی نہیں اٹھائی گئی مگر کتنی دیر پہلے تعلیمات پیغمبر کے واسطوں کو غلط قرار دیا جاۓ گا تاکہ (کتاب ) سے من مانی تعبیرات نکالی جا سکیں اور اپنی ضرورت اور نفسانی خواہشات کو دین کا نام دیا جا سکے …..
لیکن کتنی ہی تاویل کیوں نہ کرلی جاۓ انکی جدید و عجیب تعبیرات مقبول نہیں انکو ہر جگہ ذلت کا سامنے ہے انکی ہر جگہ سبکی ہوتی ہے ….یہاں سے رد عمل کی نفسیات کا آغاز ہوگا، کتاب کی صحت پر شک ہوگا، صاحب کتاب کی شخصیت پر الزامات لگیں گے…..
لیجئے ایک پکا پکایا ملحد تیار ہے …..
ہم کون ہیں ؟کہاں سے آے؟کس لئیے آے ؟ہماری ابتدا کیا ہے ؟اور انتہا کیا ہے ؟ان تمام سوالات کا جواب داستان دہریت میں کہیں نہیں ملتا ……….اسکی ابتدا شک ہے ۔۔اسکی انتہا ریب ہے۔۔اور یہ انجام ہے ایسے شخص کا جو لاریب کا منکر ہے۔۔یہ سوالات اٹھاتا ہے جواب کوئی نہیں ۔یہ مسائل کھڑے کرتا ہے حل کوئی نہیں ۔یہ ایک ایسی مادی مشین ہے جو حواس خمسہ میں مقید ہو کر کائناتی حقائق کو کھولنے کا دعوے دار ہے ..
ایک بیماری جسے علم نفسیات میں وسواسی اجباری اضطراب (Obsessive-compulsive disorder) کہتے ہیں ۔ اس سے مراد ایسے خلل الدماغ یا مرضِ نفسی کی ہوتی ہے جس میں خصوصیاتِ وسواس (obsession) و اجبار (compulsion) دونوں پائی جاتی ہوں۔ یہ مرض فی الحقیقت دماغ میں موجود فطرتی افعال کے میانہ روی سے تجاوز کر جانے کے باعث واقع ہوتا ہے؛ انسانی فطرت کے مطابق جب اسے کسی بات پر شک و شبہ محسوس ہو تو وہ اس کی یقین دہانی کے ليے اس کو ایک بار لوٹ کر اپنی تسلی کرتا ہے کہ کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ مثال کے طور پر رات سوتے وقت اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس نے دورازہ اندر سے مقفل نہیں کیا تو وہ بستر پر لیٹنے سے قبل ایک بار جاکر دروازہ دیکھ کر اسکے بند ہونے کا یقین کرتا ہے؛ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اگر یہی شک و شبہ کی کیفیت حد سے تجاوز کر جائے اور ایک بار دیکھ کر واپس بستر تک آنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مشکوک ہو جائے کہ ؛ آیا دروازہ واقعی بند تھا یا اندھیرے کی وجہ سے وہ درست دیکھ نہیں پایا؟ اور پھر دوبارہ دروازہ بند ہونے کی تصدیق کرنے جائے ، واپس آئے اور پھر شبے میں مبتلا ہو جائے کہ؛ آیا دروازہ میں کنڈی درست بند ہوئی تھی یا ڈھیلی رہ گئی؟ اور پھر دوبارہ تصدیق کرنے کو جائے تو اس قسم کے بیجا اور حد سے بڑھے ہوئے شک و شبہ کو وسوسہ (obsession) کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس وسواس یا وسوسے کی وجہ سے وہ شخص بار بار اسی کام کی تکرار پر نفسیاتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے ، حتیٰ کہ اگر وہ خود بھی اس بار بار دہرانے کے عمل سے پریشان ہو جائے مگر اسکے باوجود وہ اس تکرار پر خود کو مجبور پاتا ہے اور وسوسے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اسی مجبوری کی کیفیت کی وجہ سے اسے اجباری (compulsive) کہا جاتا ہے یعنی وسوسہ اور پھر اس وسوسے سے ہونے والی مجبوری (جبر ، اجبار) کے باھم پائے جانے کی وجہ سے ان اضطرابات کو وسواسی اجباری اضطرابات کہا جاتا ہے۔ایسی ہی مثال ایک ملحد کی ہے ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہریت کوئی علمی یا فکری چیز نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے ۔اور یہ لوگ فتوی کے نہیں علاج کے مستحق ہیں …….
حسیب احمد حسیب