سائنس کی ترقّی کے ساتھ ساتھ مذہبی تشکیک میں اضافے کا عمل بھی تیز ہوتا نظر آرہا ہےاور مذہب پر اعتراض گویا فیشن بن گیا ہے۔سوشل میڈیا پر خدا کا انکار اور دہریت و مادیّت پرستی کا پرچار کھلے عام ہورہا ہے۔دہریت اور مادیّت پرستی سے مختصراً مراد یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے بس وہی ہے ۔اسلام پر رکیک حملے ہورہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں کہ اسلام ، قرآن اور نبی ﷺ کی تعلیمات نعوذ باللہ غیر سائنسی اور دقیانوسی ہیں۔یہ محاذ آرائی ایک سوچی سمجھی اور منظّم سازش نظر آتی ہے تاکہ نوجوانوں کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے۔اصول وہی پرانا ہے کہ کسی کو اپنے نظریئے کا قائل نہ کرسکو تو اُسے اسکے نقطہ نظر میں کنفیوز ڈ کردو یعنی وسوسوں یا مغالطوں میں اُلجھادو۔آیئے ، ہم اختصار سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ،مادیّت پرستی اور دہریت کے منطقی پیرائے کیا ہیں اور کتنے مضبوط ہیں۔
اس سلسلے میں ہم ایک بنیادی نکتے سے بات آگے بڑھاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کوئی بھی نظریہ حیات اپنی ایک بنیاد رکھتا ہے۔وہ بنیاد کائنات اور انسان کے وجود کے حوالے سے ایک معیّن فلسفہ ہوتا ہے، جو انسان اور کائنات کے موجود ہونے کی ایک تشریح رکھتا ہے۔مذہبی فلسفہ َحیات خدا کو ہر چیز کا خالق کہتا ہے۔خدا کی صفات یہ بتلاتا ہے کہ وہ ذات کُل کائنات پر حاوی ہے، کائنات کی حاکم ہے۔ہر چیز اسکی دسترس میں ہے۔ وہ ہر شئے پر غالب ہے۔ ہر علم کا منبع اسکی ذات ہے۔خدا کے وجود اور ذات کے پیرائے انسانی علم اور تخیّل سے ماوراء ہیں اور ہم اسکو نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔ بالکل اُسی طرح ۔۔۔جس طرح ایک سوپر روبوٹ جو انسان کی دی ہوئی مصنوعی عقل کا خوگر ہوکر اور بہت سے کام کرنے کے باوجود انسان کے وجود کے پیرائے نہیں سمجھ سکتا کیونکہ انسان نےروبوٹ کے سوفٹ ویئر میں وہ کمانڈ یا احکامات دیئے ہی نہیں کہ وہ انسانی وجود کی تشریح مشینی زبان میں سمجھ سکے!مزید یہ کہ خدا پر یقین انسان کا قلبی اور ایمانی فیصلہ ہوتا ہے جو بغیر ثبوت طلب کیئے ہوتا ہے۔یہ تو رہا مختصراً مذہبی نقطہ نظر اب ذرا انکا رِ خدا کی ماہیّت اور مادّہ پرست نظریات کی عقلی بنیادوں کی جانچ کرلیں۔
انسان ملحد کیوں بنتا ہے؟
جب کوئی خدا کے وجود کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا تشفّی بخش جواب نہیں پاتا تو شک میں مبتلا ہوتاہے اور عقل پر انحصار کرتا ہے،اور جیسا کہ اوپر تشریح کی گئی کہ کیونکہ انسان کی معیّن و محدود عقل خدا کو مکمل سمجھنے میں عاجز ہے تو انسان خدا کا انکار کرتا ہے۔گویا خدا سے انکار دراصل تشکیک کے غلبے میں ایک غیر عقلی اور جبری زاویہ نظر ہے ۔ اوراسی لیئے دہریت ہمیشہ سے نظریاتی طور پر یتیم ہی رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں الحاد اپنی بقاء کے لیئے کوئی بھی نظریہ مستعار ہی لیتا ہے۔
خدا کے وجود کے متبادل مضبوط عقلی نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے منکر عموماً ایک منفی ذہنی حالت میں ہی رہتا ہے ۔اس منفی کیفیت کے زیر ِ اثر اکثر ملحد ترقّی پسند بن کر ہر مذہب پر تنقید کرتےاور انکی تعلیمات میں کیڑے نکالتےہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منفی طرز عمل لاشعور میں پیوست کسی بے چینی یا احساس کمتری کا پرتو ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ خدا کے وجود کا اقرار انسانی فطرت کا لازمی تقاضہ ہے لیکن کیونکہ منکر اس کے خلاف رائے رکھتا ہے اس لیئے اس کے اندر قلبی و ذہنی کشمکش جاری رہتی ہے۔کوئی متبادل نظریہ پاس نہ ہونے اور اپنے اس قلبی و ذہنی تنازعے میں مقیّد ہونے کی وجہ سے اطراف کے تمام مذاہب میں غلطیاں نکال کر ہی ایک ملحد اپنے نفس اور قلب کو مطمئن کرتا ہے۔
سائنس کا سہارا:
حالیہ دور میں سائنس نے اپنی تحقیقات میں کائنات کی ابتداء کے حوالے سے بے مثال دریافتیں کی ہیں ۔سائنس جب بہت سے پیچیدہ عوامل جیسے کائنات کی تخلیق، زندگی کا ظہور وغیرو کی سائنسی تشریح کرنے کے قابل ہوئی ۔۔تو کسی بھی فلسفہ حیات سے محروم تشکیک میں مبتلا منکرین خدا کو سائنس کی شکل میں نظریاتی مسیحا مل گیا۔بگ بینگ، نظریہ ارتقاء ، ڈی این اے ،جدید خلائی دریافتیں، پارٹیکل فزکس اور کائنات اور زندگی کی ابتدا اور ارتقاء کی سائنسی تشریحات نے گویا منکرین کو وہ ہتھیار دے دیئے جن کے بغیر یہ مذہب سے مقابلے میں معذور تھے۔انہی سائنسی تشریحات کا سہارا لیکر منکرین خدا تازہ دم ہوکر مذہب پر حملہ آور ہوئے۔لیکن مذہب پر دقیانوسیت کی پھبتی کسنے والے کن سائنسی نظریات کو صحیح مانتے ہیں انکی ایک جھلک آپکو ضرورمحظوظ کرے گی۔
مذہب کے مطابق خدا کی قدرت اور رسائی ہر جگہ ہے، لیکن خدا ہمیں نظر نہیں آتا۔دوسری طرف سائنس کی حالیہ دریافت ہگز فیلڈ جوکہ ایک ایسی اندیکھی توانائی ہے جو کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور جس سے مَس ہوکر ہی ہر ایٹم میں وزن آتا ہے۔ہگز فیلڈ گویا ایک سمندر ہے جس میں کائنات کی ہر چیز تیر رہی ہے۔ کیا کسی نے اس فیلڈ کا دیکھا یا محسوس کی؟مزید یہ کہ سائنس کے مطابق کائنات طبعی قوانین کے طابع ہے اور کائنات میں چار قوّتیں ہیں جنکی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہے۔
اب سادہ سی منطق سے جائزہ لیں تو نہ خدا کوکسی نے دیکھا نہ ہگز فیلڈ کو نہ قوانین نظر آتے ہیں اور نہ ہی قوّتیں!
ہگز فیلڈ کو چند سائنسدانوں نے دریافت کیا اور ہمیں آگاہ کیا تو انکے علم پر یقین کی وجہ سے سب انسانوں نے اسکو قبول کیا۔(ہگز فیلڈ کو کس نے تخلیق کیا یہ سوال الگ ہے)
دوسری طرف نبیوں نے خدا سے تعلّق کا تجربہ ہونے کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا تو عام لوگوں نے انکے اقوال پر یقین کیا کیونکہ انسانوں کا تجربہ ان نبیوں کے بارے میں یہی تھا کہ یہ سچّے ہیں۔اب فیصلہ خود کریں کہ ان دونوں نقطہ نظر میں کتنا فرق رہ گیا ہےَ؟
اسی طرح نبیوں نے کہا کہ فرشتے اور جنّات ہوتے ہیں جو ایک مخفی نظام کے طابع اور اسکا حصہ ہیں،تو عام لوگوں نے یقین کیا، لیکن سائنس نے انکار کیا ۔گویا سائنس کے مطابق ایسی مخلوقات کا وجود ثابت نہیں ہے اور یہ سب تخیّلات ہیں۔ منکرین بھی یہی استدلال لاتے ہیں تو چلیئے اسے مان لیا کہ یہ درست ہونگے۔لیکن آپکو تعجّب ہوگا کہ خلائی مخلوق کی موجودگی جو اب تک ایک سائنس فکشن ہی سمجھی جاتی رہی ہے اسے بڑے سائنسدان نہ صرف قرین قیاس قرار دے رہے ہیں بلکہ اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ نے ایک سو ملین ڈالر کے فنڈ سے ان خلائی مخلوق کی تلاش میں مدد بھی شروع کردی ہے۔
اس تلاش کی یقیناً کوئی علمی اور سائنسی بنیاد ہوگی لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی ہی ہو جیسی ہم سمجھتے ہیں؟جب خلاء کے دور دراز کسی گوشے میں کوئی اجنبی زندگی موجود ہوسکتی ہے تو ہمارے اطراف کسی اور پیرائے کی ناقابل شناخت زندگی بھی ہوسکتی ہے۔لیکن سائنسدانوں کی اس سوچ سے ظاہر یہی ہوا کہ انسان کا علم ایک ترقّی کرتا عنصر ہے جس کی آئندہ عیاں ہونے والی جہتیں انسانی پہنچ سے فی الوقت باہر ہیں۔گویا سائنسدان تنگ نظری یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر میٹا فزکس کا پہلے انکار کرتے ہیں پھر جب کوئی میٹا فزکس کا عنصر تجربات اور علم کے تئیں ثابت ہوتا ہے تب اسےمانتے ہیں۔
اب ایک دوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ کائنات اللہ کے ارادے سے وجود میں آئی یعنی کائنات کے وجود سے قبل کچھ نہیں تھا اور اللہ نے نیست سے اسے تخلیق کیا۔جدید سائنسداں کائنات کی تخلیق میں خدا کا کردار ماننے کو تیّار نہیں لیکن جدید سائنسدان جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ بھی عجیب ہے۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ ایک تحریر میں تفصیلی تذکرہ کیا کہ اسٹیون ہاکنگ جو دہریت کے بڑے علمبردار اور جدید سائنسدانوں میں بڑے قد آور ہیں بلکہ سب سائنسدان انکی رہنما کی طرح عزّت کرتے ہیں،انکی کائنات کی خود بخود تخلیق کی مضحکہ خیز تشریح پڑھ کر سر دُھنیے! اپنی نئی کتاب ” دی گرینڈ ڈِیزائن ” میں فرماتے ہیں کہ کائنات کی تشریح کے لیئے خدا کی ضرورت نہیں اور مزید یہ بھی فرماتے ہیں:” کشش ِثقل کے قانون کی موجودگی میں کائنات خود کو نیست سے (یعنی کچھ بھی نہ ہونے ) بنا سکتی ہے بلکہ بنائے گی”(دی گرینڈ ڈیزائن، صفحہ 227)
یہ کسی عام انسان کی تحریر ہوتی تو اب تک قیامت سر پر اُٹھ چکی ہوتی، لیکن کیونکہ یہ ایک انتہائی قابل سائنسدان نے کہی ہے تو ترقّی پسند اور روشن خیال لوگ سوچ میں پڑے ہیں کہ شاید ایسا ہو سکتا ہو یا شاید ایسا ہی ہوا ہو!لیکن اس میں سب سے مضحکہ خیز یہ مفروضہ ہے کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے قانون ِ کشش ثقل موجود تھا۔یہ بات عقل کی کس کسوٹی پر پوری اُترتی ہے ؟ کوئی منکر ِ خدا سمجھائے تو۔جناب ، جب کچھ تھا ہی نہیں تو بگ بینگ سے ‘باہر’ کوئی اثر انداز ہونے والی قوّت کا اقرار کیا ظاہر کرتا ہے؟
کیا یہ خدا نہیں ہے؟اسلام اسی تخلیق کو خالق اور اللہ کا اذن کہتا ہے، جبکہ سائنس مخمصوں میں ہے!
اس سے اندازہ لگائیں کہ محض خدا کو جھٹلانے کے لیئے کیا سب سے قابل اور علم والا ‘ ملحد ‘ ایسی لایعنی بات کہہ کر خود کو اور دوسرے منکرین اور ملحدین کو جان بوجھ کر گمراہ نہیں کر رہا۔الحاد کا فلسفہ َحیات تو ریت کا گھروندا نکلا!کیا یہ حماقت نہیں جس پر الحاد کی بنیاد ہے اسکے حمائتی ذرا توجّہ کریں کہیں قرآن کے مطابق اسی کو قلوب پر قفل اور مُہر تو نہیں کہتے۔
ذرا سوچیئے !