دنیا کو گزشتہ چند دہائیوں سے جس نوع کی دہشت گردی کا سامنا ہےاُس کے سدِّ باب کے لیے چار بنیادی قِسم کے جوابی بیانیے تشکیل پا چکے ہیں – گو اگرچہ یکساں صراحت سے نہیں۔ کچھ پوری طرح منظم ہو چکے ہیں اور کچھ ابھی تنظیم کے محتاج۔ تاہم اِن کے خدو خال اتنے واضح ہو چکے ہیں کہ موضوعِ بحث بن سکیں۔ یہ تنوّعِ نتائج اسباب کے تعیّن میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ دہشت گردی کے عوامل کی حیثیت سے جن دو عناصر کے تناسب کا فرق اس تنوّع پر منتج ہوا ہے وہ ہیں سیاست اور مذہب۔ جن معالجین کے یہاں سیاست اصل یا حاوی عاملہ ہے وہ اصولی طور پر ایک جوابی بیانیے پر متفق نظر آتے ہیں۔ جبکہ تین طرح کے باہم دگر مختلف جوابی بیانیے مذہب کو غالب عاملہ سمجھنے والے تشکیل دے چکے ہیں۔ پس یہ چاروں ہم سے آگاہی اور تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں۔
ہمیں بھی اپنے ملک میں اسی جنس کی دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی ایک سے زیادہ ذیلی انواع قابلِ شمار ہیں۔ بلکہ شاید دنیا تو ہمیں دہشت گردی کے محضن، نرسری اور تربیت گاہ کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں دہشت گردی کے اسباب کا بیان اور پھر اس کی تشخیص کے لیے جوابی بیانیوں کی بحث اب تلک بڑی خام اور سست رہی ہے، اور بین الاقوامی مباحث کی تضمیم سے حاصل خیالات و نتائج سے ابھی تک آنکھیں موندے ہوئے ہے۔
اس مضمون کا مقصد ہمارے ملک میں ہونے والی بحثوں کے عالمی مباحث کے ساتھ انضمام سے جوابی بیانیوں کی بحث کا دائرہ کما حقہ وسیع کرنا ہے۔ تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی خام خیالی میں بہت سے موجود زاویہ ہائے نظر نظر انداز کر دیں، اور اپنی ناتمام تحقیق کو وافر اور محتوی سمجھنے کا غلطان کر بیٹھیں۔ اور اس لیے بھی کہ ہماری بدبختی سہی، پر اب بڑی حد تک مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے مغرب اور غیر مسلموں کے ہاتھوں میں جا چکے ہیں۔ اس اہم بحث کے متعلق مغرب کس بیانیے کو صائب سمجھ کر پالیسی سازی کر رہا ہے، ہم اس سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے۔
ایک اہم بات یہ عرض ہے کہ ایسا نہیں کہ جن بیانیوں کو میں نے سیاسی لکھا ہے وہ مذہب کے کسی تصرّف کو عوامل میں قبول نہیں کرتے، یا جن کو مذہبی لکھا ہے وہ سیاست کو کسی درجے میں شاملِ عوامل نہیں سمجھتے۔ تاہم حاوی اور غالب حد تک (overwhelmingly) جب کوئی ایک عاملہ کارفرما سمجھا جائے تو اُسے اُسی کے ذیل میں شمار کیا گیا ہے۔
٭پہلا بیانیہ (Political Grievances are to blame)
سب سے پہلے سیاسی بیانیے کو لیتے ہیں۔ یہاں ‘سیاسی’ کو میں ھزار بیشہ اصطلاح (catch-all)کے طور پر استعمال کر رہا ہوں۔ اس بیانیے کے مطابق شایع دہشت گردی کا اصل سبب مذہبی تعلیمات نہیں بلکہ سیاست ہے۔ یعنی عالمی قوتوں یا اسلامی دنیا کے آمروں/حکمرانوں کے تحکم و استبداد کے باعث: مسلمانوں کی معاشی بد حالی (Economic Anxiety)، یا معاشروں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم (Social Injustice)، یا شناختی بحران (Identity Crisis)، یا مسلمان خِطّوں پر غیر مسلموں کے ناحق قبضے (Colonization/Land Usurpation/Rule by Proxy) اور اس طرح کے دوسرے کارن وہ اصلی اسباب ہیں جو مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اسلحہ اٹھائیں۔
پھر مختلف ظروف میں اس اصولی بیانیے کے اپنے حسب الطلب نسخے (Customized Versions) موجود ہیں۔ جیسے مثلاً شام و عراق میں بین الاقوامی طاقتوں کی زیرِ نگرانی شیعہ سنی فساد کو قصداً ہوا دینے کا عمل ہے، جو اصلاً داعش کے ظہور و نمو کا سبب بنا۔ اسی طرح پاکستان میں ریاستی اداروں کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والا غیر ریاستی اداروں کے ذریعے جہاد کا سیاسی فلسفہ ہے، جس نے ہمارے یہاں دہشت گردی کو جنم دیا۔
اس بیانیے کے قائل حضرات زیادہ تر تو مذہب کو عاملہ ماننے ہی سے انکار کرتے ہیں۔ اور یا بتلاتے ہیں کہ ہتھیار تو یہ دہشت گرد مندرجہ بالا ناانصافیوں سے تنگ آ کر یا اُن کے ازالے کے لیے ہی اٹھاتے ہیں، پر لوگوں کے تماسک و پیوستگی کے لیے اور مسلمانوں کے لہو کو گرمانے کے لیے مذہب کے سوءِ استفادہ اور اختلاس کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک بیانیے کے تائیدی شواہد کا تعلق ہے اس طرزِ فکر کے ممسکین کا ایک استدلال یہ ہے کہ مذہبِ اسلام تو ڈیڑھ ہزار سال سے موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی کی یلغار محض چند دہائیوں، یا زیادہ سے زیادہ نصف صدی کا قصہ ہے؟ اگر مذہب عاملہ ہوتا تو دہشت گردی تاریخ کا ایک مسلسل المیہ ہوتا نہ کہ حادث۔ پھر دوسرا استدلال یہ بھی ہے کہ متداول دہشت گردی کا کوئی مخصوص لحظہ (instance) اٹھا کر دیکھ لیجیے، ہر تحریک اور گروہ کسی خاص جارحانہ واقعے یا سیاسی بحران کے دوران یا نتیجے کے طور پر نمودار ہوا ہے۔ اگر مسائل کا سر چشمہ مذہب ہوتا تو دہشت گردی کا نمو کیوں ہمیشہ ایسے مادّی واقعات کا محتاج رہا ہے؟ مزید ایک استدلال یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں ایک ارب سے اوپر ہے، جبکہ دہشت گرد شاید چند ہزاریا لاکھ۔ اگر یہ مسائل مذہب کے پیدا کردا ہوتے تو باقی کے ارب مسلمان دہشت گرد نہ ہوتے؟ یہ اعشاریہ صفر ایک فیصد کی زد کا ناقابلِ لحاظ تناسب کیا مذہب کے عاملہ ہونے کی تردید کے لیے کافی نہیں؟ پھر ایسے شواہد بھی اس مؤقف کی تائید میں استعمال کیے جاتے ہیں کہ پکڑے جانے والے اکثر دہشت گرد مذہبی علم کی حد تک نو آموز اور عمل میں دُور دُور تک ‘کردار کے سپاہی’ نہیں ہوتے۔ بادی النظر میں یہ استدلالات معقول ہیں اور حقدارِ بحث۔
چنانچہ اس بیانیے کے حاملین کے مطابق جب مذہب سِرے سے مسئلے کا حصہ ہی نہیں، اور بیانیہ سر تا سر سیاسی ہے، تو ظاہر ہے اِن کا جوابی بیانیہ بھی سیاسی نطاق کے عناصر کو ہی موضوع بناتا ہے۔ پس اس طرح کے جوابی بیانیوں کے مندرجات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں: امریکہ اور مغربی اقوام کو مسلمانوں کے خلاف ناانصافی پر مبنی پالیسیوں سے باز آنا ہو گا؛ استعماری اور سامراجی نظام کے قلع قمع کی ضرورت ہے؛ مشرقِ وسطٰی میں امن کے بغیر دنیا سے بے امنی کا خاتمہ ناممکن ہے؛ ناجائز طور پر مقبوض مسلمان ممالک اور خطوں جیسے کشمیر فلسطین چنچنیا وغیرہ کی آزادی سے پہلے دہشت گردی کا خاتمہ دیوانے کا خواب ہے؛ شام، عراق، افغانستان وغیرہ پر امریکی بمباری ختم کرنی ہو گی؛ مغربی دنیا نے جس طرح سازشوں اور جنگ ہائے نیابتی (proxy wars) کے ذریعے مسلم ممالک کو جان بوجھ کر بے امنی کی آگ میں جھونک رکھا ہے تا کہ وہ تیل اور دوسرے وسائل پر تعدی اور استحصال کر سکیں، اس پالیسی کو مسمار کرنا بھی لازمی ہے؛ شیعہ سنی فساد کو شعلہ دینے سے اسرائیل اور مغربی ممالک کو توبہ کرنی ہو گی؛ اسلام کے خلاف یہود و ہنود کی ریشہ دوانیاں بھی تھمنی ہوں گی؛ مسلم حکمرانوں کو مغرب کی باج گزاری ترک کرنی ہو گی؛ یا اگر خاص پاکستان کی بات کریں تو مثلاً یہ کہ تعلیم اور انصاف کے نظام کو بہتر کریں؛ غریبوں اور امیروں کی وسائل اور ترقی تک دسترس کے درمیان امتیاز کو گھٹائیں؛ اپنی تزویراتی ترجیحات اور خارجہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کیجیے؛ وغیرہ وغیرہ۔
اس بیانیے کے حاملین دو ایسےمغائر گروہ ہیں جنہیں ہر اعتبار سے غیرمانوس ہمبستر (Strange Bedfellows) کہا جا سکتا ہے، جو منطق کی دنیا میں آپ سے آپ کسی نقطۂِ نظر کی تقویت کا ایک اہم مظہر شمار ہوتا ہے۔ یعنی پہلا گروہ عالمِ اسلام کے اکثر علما، اور دوسرا مغربی تعلیم یافتہ خردمند و دانشور مسلم شخصیات، جنہیں مسلمان بالعموم اپنے ترجمان کے طور پر تسلیم (own) کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ نامور غیر مسلم نظریہ ساز بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہیں۔ پس تعداد کے اعتبار سے اس بیانیے کو کثیر حاملین میسر ہیں۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے یہ مؤقف اگرچہ صراحتاًتو علما سے منقول شاید نہ مل پائے، یا پورے اطمینان سے اس کی نسبت ان کی طرف نہ کی جا سکے، پر عمومی طور پر یہی تاثر قائم ہے کہ روایتی علما اسی بیانیے پر متمکن ہیں۔ اور پھر حال ہی میں مفتی منیب الرّحمٰن کی وساطت سے جو قومی بیانیہ منظرِ عام پر آیا ہے اس سے بھی اسی تاثر کی تائید ہوتی ہے۔ ہمارے دانشوروں میں سے اوریا مقبول جان کی پائے کےتجزیہ نگار بھی اسی زمرہ کے پیشواؤں میں سے ہیں۔ جہاں تک اہم مغربی مسلمان دانشوروں کا تعلق ہے، تو جن حضرات کے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر لاکھوں پیرو ہیں، اور جن کو مغرب عموماً دہشت گردی پر بحث کے ایکسپرٹس کی حیثیت سے تبصروں کے لائق سمجھتا ہے، انمیں سے مہدی حسن، رضا اصلان، مرتضی حسین، عمران صدیقی، لنڈا سرسور وغیرہ قابلِ ذکر ہیں جو اپنے رجحان میں کلّیۃً یا کسی حد تک اسی مؤقف کے قائل ہیں۔ بلکہ اس فہرست میں فرید زکریا جیسے عالمی شہرت یافتہ جرنلسٹ کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ کچھ قابلِ بحث ہے۔ غیر مسلم نظریہ سازوں میں سی جے ورلیمین تو مکمل طور پر اور یہاں تک کہ نوم چومسکی کے پائے کے دانشور بھی تقریباً اسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
پس دکھائی یہ دیتا ہے کہ یہ بیانیہ نہ رطب و یابس کی نوعیت کا ہے اور نہ ہماشما قسم کے لوگوں کا، بلکہ اس کے پیچھے افراد و استدلال کی بظاہر قابلِ لحاظ قوت موجود ہے۔
٭دوسرا بیانیہ (Islam is Evil/Outdated)
یہ بیانیہ مذہبِ اسلام کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق خالص اسلام معاصر دہشت گردی کا اصل اور واحد رحمِ مادر ہے۔ اپنے غیر معذرت خواہانہ اور سیدھے سادے بیان کے مطابق یہ بیانیہ نفسِ اسلام، نہ کہ اسلام کی شدّت پسندانہ تعبیر کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اور ‘Political Correctness’ جیسے کلام کے عام آداب و تکلفات کا خیال کرتے ہوئے بہت سوں کی طرح جذری اسلام (Radical Islam) جیسی شائع و زائع اصطلاحات کا استعمال کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ تاہم، کچھ حضرات ہیں جو سیاسی لفّاظی کرتے ہوئے موقع کی مناسبت سے جذری اسلام جیسے الفاظ زبانی بیان بازی کی حد تک استعمال کر لیتے ہیں، پر اُن کا تحریر کردہ کام اٹھا کر دیکھیں تو وہ اسی بیانیے کے حامل پائے جاتے ہیں۔
اس بیانیے کے حاملین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کا سر چشمہ سمجھتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ان کی مراد اسلام کی قدیم اور مشہور ترین تعبیرہوتی ہے جس کا پیمانہ دین کے ماخذوں، جمہور علما اور اسلاف کی کتابوں سے حاصل متفقہ خیالات ہوتے ہیں، جو عموماً مسلم عوام میں مشہور بھی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ باقاعدہ دینی علوم کے ماہرین نہیں ہوتے اس لیے مذہبی تفہیم کے لیے چوڑے برش (Broad brush) کے استعمال کے قائل ہوتے ہوئے دینِ اسلام اور علما کی اخذ کردہ مذہبی فکر میں کسی تمیز کے روادار نہیں ہوتے۔ یہ حضرات یہ بات گو مانتے ہیں کہ علما اگرچہ صراحتاً اس ظلم و بربریت کا درس نہیں دیتے جو بپا ہے، پر اُن کے مطابق جو احکامات دینِ اسلام دیتا ہے اُن کا واضح، منطقی اور لازمی نتیجہ وہی نکل سکتا اور نکلتا ہے جو قتل و غارت گری پر منتج ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دہشت گرد جن ثقہ احکامات کو بوساطتِ قرآن، حدیث، سیرت اور فقہ کی کتابوں سے اپنے بہیمانہ اقدامات کی توجیہ کے لیے پیش کرتے ہیں اُن کے معقول، قرینِ قیاس اور قابلِ یقین ترین مفاہیم و نتائج وہی ہیں جو یہ دہشت گرد بیان کرتے ہیں۔ اس لیے وہ دہشت گردی کی مذمت کرنے والے علما کو دھوکہ باز، دوغلے، بزدل یا مصلحت پسند، اور کثیر مسلمانوں کو اپنے دین کے مطالبات سے نابلد یا تجاہلِ عارفانہ برتنے والے قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس فساد کے تدارک کے لیے ‘Protestant Reformation’ کی طرز کی مذہبِ اسلام کی تشکیلِ نو تجویز کرتے ہیں، اور صاف کہتے ہیں کہ بصورتِ دیگر دنیا کے پاس اسلام کو شکستِ فاش دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا۔ اور اس تشکیلِ نو کے لیے اُن کے تیار کردہ خاکے میں اصلاحِ کلیسا کی طرح اسلام کے اجتماعی قوانین، سزاؤں اور جہاد – جسے وہ تقریباً ‘Holy War’ ہی کے قائم مقام گردانتے ہیں – سے مکمل دستبرداری بھی شامل سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق دہشت گردوں کے قبیح ترین افعال کے لیے، جن کی مذمت مسلم و غیر مسلم یکساں شدّ و مدّسے کرتے ہیں، اُن کے لیے صریح خدائی یا نبوی یا فقہی پروانے مذہبِ اسلام کی تعلیمات میں موجود ہیں۔ اسی لیے دہشت گردوں کی جاری کردہ توجیہات پر یقین کرتے اور انہیں درست سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات چونکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا تعلق ناقابلِ انکار سمجھتے ہیں، اس لیے اُن تمام اسلامی تعلیمات کو بھی مسئلے کا حصہ قرار دیتے ہیں جو اگرچہ براہِ راست دہشت گردی سے متصل تو نہیں مگر جو ‘مہذّب دنیا’ کے نزدیک وحشیانہ یا کم سے کم غیر مہذّب اقدامات کا تقاضا ہر مسلمان سے کرتی ہیں، اور جن کے نتیجے میں ایک سچے مسلمان کے شدّت و انتہاپسند بنے بغیر اسلام کے اُس سے تقاضے ہی پورے نہیں ہوتے۔ پس اِن لوگوں کے یہاں ایسی ‘ضرر رساں’ تعلیمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
چنانچہ داعش و طالبان وغیرہ جیسے گروہوں کے جن اقدامات کے غیر مہذّب ہونے پر مغربی دنیا کا اتفاق ہے، ان کی ماخذ تعلیمات کا تذکرہ برائے سدِّباب ہی اِس گروہ کا جوابی بیانیہ ہے۔ پس اس کے مندرجات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں: ارتداد کی سزا اسلام میں موت ہی ہے، اس لیے مسلمانوں کو اپنے مذہب کے اس ‘انسانوں کے بنیادی حق کے خلاف’ حکم کی پیروی سے دستبردار ہونا پڑے گا؛ کفار یعنی غیر مسلموں کی حیثیت اسلام میں چوپایوں بلکہ اس سے بھی کم ہے، اس لیے ان کی جانوں کو بذاتہ کوئی حرمت حاصل نہیں۔ پس اس طرح کی تعلیمات غیر مسلموں کی جانوں کو غیر محفوظ بناتی اور مسلمانوں کو ان کے بے دریغ قتل پر دلیر کرتی ہیں؛ اسلام غلام بنانے، بلکہ باندیوں سے ہمبستری کرنے کو بھی بالکل شادی کرنے کی طرح جائز سمجھتا ہے۔ اجازت کا یہ پروانہ تو مسلمانوں کی ثقہ ترین کتاب میں ابدی حکم کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس لیے داعش جو کر رہے ہیں وہ عین اسلام ہے۔ اس تعلیم سے بھی دستبرداری ضروری ہے؛ قرآن یا محمدؐ پر تنقید کو قابلِ قتل جرم سمجھنا، چوروں کے ہاتھ کاٹنا، زانیوں کو سنگسار کرنا اور کوڑے مارنا، ہم جنس پرستوں کو عمارتوں کی چھتوں سے پھینک کر یا جلا کر ہلاک کرنا، دشمنوں/باغیوں کو وحشیانہ طریقوں سے قتل کرنا، بیویوں کو پیٹنا، عورتوں کی وراثت و گواہی کو مردوں کے مقابلے میں آدھا سمجھنا وغیرہ ایسی اسلامی تعلیمات ہیں جو مسلمانوں کو آپ سے آپ شدّت پسند بناتی ہیں، اس لیے ان سے توبہ بھی ناگزیر ہے؛ کافروں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے یا مسلمانوں کو جزیہ دیکر چھوٹے بنا کر رکھنے کے لیے دنیا بھر میں جہاد جاری رکھنے کا اسلامی حکم ہی تو ہے جو داعش، القاعدہ، طالبان وغیرہ جیسے گروہوں کو مکمل مذہبی استناد بخشتا ہے، اس لیے جہاد کے فلسفے کی تنقیح ضروری ہے؛ بنو قریظہ جیسے واقعات سے کوئی نسل کشی اور بچوں عورتوں بوڑھوں وغیرہ کے قتلِ عام کی دلیل کیوں نہ پکڑے؛ اِن دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر مسلموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خون خود مسلمانوں کا بہتا ہے، پر اس کی وجہ بھی دینِ اسلام کی تکفیر و ارتداد جیسی تعلیمات ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے؛’تقیہ’ مسلمانوں کے دین کا حصہ ہے، اس لیے ان کی باتوں کا اعتبار ہم سے جاتا رہا ہے۔ اس لیے ہم اب خود اِن کے ماخذوں سے استنباط کر کے بتائیں گے کہ یہ کہاں کہاں متعمّداً ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں، اور جن کے تحت یہ مفسدین اسلام کے سچے اور دلیر ترین متبعین قرار پاتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔ الغرض اسلام کی مکمل تہدیم ہی اِن کے نزدیک عالمی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے، تاہم چونکہ ایک ارب سے زیادہ لوگوں سے نبٹنا آسان نہیں اس لیے اسلام کی تشکیلِ نو یا تعلیمات کے منتخب دستبرداری (selective abandonment) پہ اکتفا کرنے پر ہی انہوں نے جبراً خود کو آمادہ کر لیا ہے۔
اس بیانیے کے عمائدین میں تین مختلف مگر نظریاتی الحاق کے حامل گروہ شامل ہیں۔ ایک گروہ تائب مسلم انتہاپسندوں اور مرتدینِ اسلام کا ہے۔ ان میں ماضی کے حزب التحریرکے کارکن ماجد نواز (کتاب ریڈیکل کے مصنف، اور مسلم انتہا پسندی کے سدّباب کے لیے قائم کردہ قویلیم فاؤنڈیشن کے بانی ہیں، جو برطانوی حکومت کو پالیسی سازی میں مدد دیتی رہتی ہے)سرِ خیل ہیں۔ ایان حرسی علی (جو ‘زندیق – کیوں اسلام کی فوری تجدیدِ نو درکار ہے’ کی جیسی کتابوں کی مصنّفہ ہیں، مسلمانوں کو مکّی اور مدنی مسلمانوں میں تقسیم کرنے والی، اور جب ایک انٹرویو میں اُن کے بیان ‘اسلام کو شکست دینی ہوگی’ کی وضاحت میں اینکر نے پوچھا کہ ‘آپ کی مراد یقیناً ریڈیکل اسلام ہو گی’ تو انہوں نے فرمایا ‘نہیں! اسلام، اور بس’)، مرتدین میں سرِ فہرست ہیں۔ دوسرا گروہ جارحانہ مگر سنجیدہ علمی رویّے کے حامل ملحدین کا ہے، جس کے پیشوا کی حیثیت سَیم ہیرس (‘ایمان کا اختتام’ کے مصنف، اور ‘Islam is a mother lode of bad ideas’ کے کہنے والے) کو حاصل ہے۔ سیم ہیرس اور ماجد نواز ‘اسلام اور بردباری کا مستقبل’ (Islam and the Future of Tolerance) کے عنوان سے اسی موضوع پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ تیسرا گروہ اُن غیر مسلموں کا ہے جو مذہبِ اسلام اور شرعی قوانین (Sharia Law) سے کھلم کھلا عناد رکھتے ہیں مگر اِسے مذکورہ بالا دو گروہوں کے علمی مباحث کے سائے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس گروہ کے عمائدین میں فرانس کی مارین لی پین، نیدرلینڈ کے جیرٹ وائلڈرز، امریکہ کی پیم گیلر اور رابرٹ سپینسر اور ڈینیل پائپس، اور برطانیہ کے ڈگلس مرَّے وغیرہ شامل ہیں – جن میں سے مؤخّر الذّکر تینوں حضرات باقاعدہ علمی مقدرت کے حامل دانشور شمار ہوتے ہیں۔ مغرب میں بڑھتے ہوئے دائیں بازو کی سیاست کے ارتفاع سے اِن لوگوں کے خیالات کو بہت شیوع و ترویج حاصل ہو رہی ہے۔ اور اس بیانیے کے دانشور مناظروں میں مسلمانوں اور اُن کے مدافعین کو شکست دیتے پھر رہے ہیں۔
اس بیانیے کو تیزی سے شہرت مل رہی ہے، غیر مسلم اس کے قائل ہوتے جا رہے ہیں، اور بعض مغربی حکومتیں اسی بیانیے کو بنیاد بنا کر پالیسی سازی کا – گو محدود – آغاز بھی کر چکی ہیں۔
٭تیسرا بیانیہ (Apocryphal/Fringe/Radical Interpretations of Islam are to blame)
یہ بیانیہ بھی اپنی نوعیت میں ہے تو مذہبی، مگر یہ نہ تو عین دینِ اسلام اور نہ ہی روایتی مذہبی فکر کو متداول دہشت گردی و انتہاپسندی کا باعث قرار دیتا ہے۔ اس بیانیے کے مطابق دہشت گرد براہِ راست دین کے اصلی ماخذوں یعنی قرآن و حدیث سے خود اپنی سوفسطائیت، جذباتیت اور/یا نری جہالت و کم علمی میں سوءِ استنباط کرتے ہیں۔
پس اِس بیانیے کے حاملین کے نزدیک دینِ اسلام کی نہ کوئی تشکیلِ نو درکار ہے اور نہ ہی اس کی گنجائش۔ روایتی مذہبی فکر کو بھی یہ حضرات کسی طور شر کا باعث نہیں سمجھتے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اُس کے ضرررساں مبیّنہ نتائج اُن کے نزدیک شواہد سے متبادر نہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اس روایتی مذہبی فکر میں فنی اعتبار سے کوئی خامی نہیں سمجھتے، اور اسے دینِ اسلام کا بالکل صحیح مظہر و تفصیل سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، یہ حضرات کسی عمومی جوابی بیانیے کے حق میں نہیں۔ بلکہ اس کے مقابلے میں یہ دہشت گردوں کی انفرادی جماعتوں، گروہوں یا تحریکوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب بنانے اور اُن میں سے ہر ایک کے خاص عقائد و استدلالات کی غلطی واضح کرنے کے قائل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالمِ عرب اور مغربی علما نے داعش، القاعدہ، بوکو حرام وغیرہ کو علیحدہ علیحدہ مخاطب بنا کر سوالات و استدلالات کے متعدد کتابچے ارسال کیے۔ ان رسائل میں اس طرح کے استدلالات ملتے ہیں:خلافت کا اعلان کوئی غیر معروف شخص علما و عوام کی تائید کے بغیر کر ہی نہیں سکتا؛ کوئی ایک گروہ خود کو حق کا معیار بنا کر اپنے سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کو کافر و مرتد یا سزاءً واجب القتل قرار نہیں دے سکتا؛ تکفیر ایک بہت پیچیدہ قانون ہے، اس کا بے دریغ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا؛ خلافت کا قیام مطلوب، پر اس کے اعلان کے لیے جس قسم کی ‘قوت’ اور جس قسم کی ‘ریاست’ فقہ میں درکار ہے وہ فلاں اور فلاں گروہ کے پاس ہے ہی نہیں؛عورتوں، بچوں، بوڑھوں وغیرہ کو اسلام قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا؛ غلام بنانے کی اجازت اب باقی نہیں رہی، اور نہ ہی باندیوں سے ہمبستری کی؛ مسلمانوں کی مساجد، یہودیوں عیسائیوں وغیرہ کی عبادتگاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا؛ غیر مسلموں کو اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا؛دشمنوں کی جسمانی تعذیب یا مرُدوں کی بے حرمتی یا قطع و برید جیسے قبیح افعال کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں؛ حدود اور شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے جس احتیاط، فقہی بصیرت، قانونِ شہادت اور اس کے معیارات سے واقفیت بلکہ مہارت درکار ہے وہ اِن گروہوں کے ہاتھوں اطلاقات میں مفقود ہے، جس سے غیر مسلموں کو اسلام کا مذاق اڑانے اور اسے ایک بے رحم مذہب کے طور پر دنیا کو باور کرانے کا موقع ملتا ہے؛ بغاوت کی شرائط بہت سخت ہیں جن کا فلاں گروہ کے بیان کے مطابق پورا ہونا درست نہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔ پس اکثر اہداف سے کوئی اختلاف نہ کرتے ہوئےاس کے فہم اور اطلاق میں غلطیوں کی نشاندہی اس مؤقف کے حاملین کا جوابی بیانیہ ہے۔ تاہم پاکستان کی حد تک اس نوعیت کا کوئی منظم و متفقہ جوابی بیانیہ ابھی تک شرمندۂِ تعبیر ہے۔
اس بیانیے کے قائلین میں دو گروہ شامل ہیں، جن کے بارے میں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ یہ دونوں گروہ زیادہ تر سرکاری سطح پر آپریٹ کرتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک تو عالمِ عرب کے نسبتاً کم قدامت پسند علما، مغرب کے اکثر علما اور اسلامی تنظیمیں اسی بیانیے کی حامل ہیں۔ اس کے لیے کسی فہرست مہیا کرنے سے میں اجتناب ہی کروں گا کیونکہ ایک تو یہ فہرست بہت طویل ہے، اور دوسرے یہ بآسانی گوُگل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی متعدد دردمند علما و دانشور اسی نقظۂِ نظر کے حامل ہیں۔ ان کا تذکرہ مناسب معلوم پڑتا ہے۔ اس زمرہ کے نمایاں خردمندوں میں علامہ طاہر القادری، ڈاکٹر مشتاق احمد، زاہد صدیق مغل، حافظ محمد زبیر، سید متین احمد وغیرہ شامل ہیں۔ (شاید بہت سے بڑے علما و قلم کاروں کے نام میں نے نظر انداز کر دیے ہیں، پر اس کی وجہ میرا عدم اطمینان ہے کہ وہ اسی بیانیے کے حاملین ہیں کہ کسی دوسرے، یا بیک وقت ایک سے زیادہ کے۔ اس کے لیے معافی کا خواستگار)۔ دوسرا گروہ مغربی ممالک کے اربابِ حلّ و عقد اور سرکاری عہدیدار ہیں جو اکثر و بیشتر اسی بیانیے کے حاملین دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے متعلق یہ اعتماد سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ پورے یقین سے یہ اسی بیانیے کو درست سمجھتے ہیں، یا پھر محض مسلم دنیا کی تالیف اور بصورتِ دیگر سیاسی نتائج سے پیش بندی کے طور پر ایسا کہہ رہے ہوں، تاہم فی الحال یہی مؤقف ان کے یہاں مقبول ہے۔ اسی زمرے میں مغرب کے کچھ نامور محقق بھی شامل ہیں، جیسے مثلاً وِل میک کانٹس، جن کی حال ہی میں ‘The ISIS Apocalypse’ بھی اسی مؤقف کی تائید میں چھپ چکی ہے۔ البتہ اس دوسرے گروہ کے متعلق یہ جان لینا چاہیےکہ بیانیہ نمبر 2 بھی اب تیزی سے انہیں متاثر کرتا جا رہا ہے، اور کسی کسی جگہ اس کے اثرات مغربی پالیسیوں میں بھی نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
جو زمینی شواہد پہلے بیانیے کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں وہ کچھ مناسبِ حال تبدیلیوں کے ساتھ اِس بیانیے کے لیے بھی استعمال ہو جاتے ہیں، اور اوپر مذکور ہو چکے ہیں۔ مزید اس طرح کے ناقابلِ تردید شواہد بھی اِن کی بظاہر تائید ہی میں شمار ہوتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوّث ایسے مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنہوں نے باقاعدہ کسی مدرسے میں تعلیم مکمل کی ہو۔ بلکہ مغرب میں چھپنے والی بعض تحقیقوں کے مطابق تو باقاعدہ مذہبی تعلیم کا حصول دہشت گردی کی طرف میلان کے خلاف ایک اہم ہتھیار قرار پاتا ہے۔ پھر یہ حقیقت کہ اس طرح کے گمراہ دہشت گردوں کے گروہ اوائلِ اسلام سے متناوباً عالمِ اسلام میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔ تو کیا خوارج کی طرح کے گروہ کسی ایسی مذہبی فکر سے متاثر تھے جو بہت بعد میں امت کے علما نے تیار کی۔ بھی اِن کی تائید میں ایک قابلِ لحاظ ثبوت ہے۔
ممکن ہے اس تفصیل سے بعض لوگوں کو یہ گمان گزرے کہ یہ تیسرا بیانیہ پہلے بیانیے سے بہت مماثل یا دونوں باہم متراکب ہیں، اور شاید یہ گمان کسی حد تک درست بھی ہو۔ پراِن دونوں بیانیوں کی علیحدہ زمرہ بندی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ پہلا بیانیہ سیاست کو حاوی عاملہ قرار دیتا ہے، جبکہ یہ بیانیہ دہشت گردوں کے غلط اجتہادات کو بنیادی سبب۔ اس اختلاف سے سوچ و نتائج میں بہت بنیادی نوعیت کے فرق واقع ہو جاتے ہیں، اس لیے انہیں علیحدہ شمار کرنا ہی تدبر کا تقاضا ہے۔
جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا ہو گا، اس بیانیے کی وقعت بھی کسی طور ناقابلِ التفات نہیں۔
٭چوتھا بیانیہ (A Few Traditional Religious Thoughts of Islam, and Not Islam Itself, are to blame)
یہ بیانیہ بھی مذہبی ہے، پر اللہ اور رسولؐ کے بیان کردہ دینِ اسلام کو نہیں بلکہ اُن کے فہم پر مبنی علما کے تعمیر کردہ مذہبی فکر کے بعض نتائج کو قصور وار ٹھہراتا ہے۔ بلکہ اِن دونوں میں تمیز، یعنی دین اور مذہبی فکر میں، اس بیانیے کا منفرد اور اہم ترین جزو ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق یہ روایتی مذہبی فکر ہی ہے جو اس جاری فساد کا مولد ہے۔
جہاں تک اس تمیز کا تعلق ہے تو اسے اگر عقلی معیارات پر پرکھ کر باور کر لیا جائے تو اس کی دریافت یا بیان فکری میدان میں ایک بہت اہم فاصلِ آب کو جنم دیتی ہے۔ ایک ایسے خطِ فاصل کی جو صرف مذہبِ اسلام ہی نہیں بلکہ یہودیت و نصرانیت کے بہت سے اختلافات، اور قرآن میں وارد اُن پر اعتراضات باحسن و خوبی سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس خیال کی آبیاری کے لیے گنجائش نظر آنے لگتی ہے کہ جتنے بھی مسائل ابراہیمی ادیان (یہ جمع میں نے محض عالمی طور پر مستعمل ترکیب کی پیروی میں استعمال کی ہے)میں لوگ بیان کرتے ہیں، وہ اصل دین میں تھے ہی نہیں، بلکہ انسانوں کے سوءِ فہم سے مذہبی فکر میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ ایسے خیالات کہ اسلام کو بھی پھر شاید اسی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہو۔ کی نازبرداری (indulgence) کے لیے یہ بیانیہ موقع فراہم کرتا ہے۔
اپنے مؤقف کے تائیدی شواہد کے لیے یہ بیانیہ علّیّت (causality) پر انحصار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بعض عقائد ایسے ہیں جو اپنے وجود ہی سے فساد کی رگِ معدن بننے کے پوری طرح اہل ہوتے ہیں، قطعِ نظر اس سے کہ فساد اُن سے بالفعل ہر وقت پیدا ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ اسلام کے روایتی مذہبی فکر میں ایسے کچھ خیالات در آئے ہیں جنہیں اگر صدقِ دل سے اللہ اور رسولؐ کے مسلمانوں سے مطالبے کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے تو ان کے نتیجے میں فساد پیدا ہو جانا ‘اگر’ کا نہیں بلکہ ‘کب’ کا مسئلہ، اور انسانوں کے مختلف رجحانات کے پیشِ نظر جہاں تبلیغی نوعیت کی تحریکوں کے باعث بن سکتے ہیں، وہیں پُر تشدّد تحریکوں کے موجب بھی۔ یعنی پھر فساد وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہے گا، کبھی ایک کارن اور کبھی دوسرے کارن۔ پس اگر تو یہ احکامات واقعی خدا نے دیے ہیں تو قطعِ نظر اس سے کہ انہیں ماننے کے نتیجے میں دینِ اسلام پر کوئی حرف آتا ہے کہ نہیں، یا فہمی بےآہنگی (cognitive dissonance) کا تقاضا مسلمانوں نے لازم ہوتا ہے کہ نہیں، پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ احکامات اسلام نے دیے بھی ہیں کہ نہیں۔
لہٰذا اس کا جوابی بیانیہ بتاتا ہے کہ ایسے سب نظریات جو موجودہ دہشت گردی کا باعث بن رہے یا اُن کے لیے بیج کا کردار ادا کر رہے ہیں روایتی مذہبی فکر میں تو موجود ہیں، پر دینِ اسلام کی بعض تعلیمات کے غلط فہم پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ دس نکات میں پوری طرح مرتّب کر کے یہ جوابی بیانیہ اِن نظریات کی جڑوں پر مدلّل وار کرتا ہے۔ اس کے مندرجات کا خلاصہ میرے الفاظ میں یہ ہے: اسلام ریاست کے متعلق کوئی احکامات نہیں دیتا۔ اس کے سب احکامات افراد ہی کے لیے ہیں جو اپنی مختلف حیثیتوں (جیسے اربابِ حلّ و عقد، شہری، شوہر، بیوی، استاد، دکاندار، سپاہی وغیرہ) کے لحاظ سے ان احکامات کے مخاطب ٹھہرتے ہیں۔ اس لیے نہ تو ریاست کا تعلق مذہب سے جوڑنا اسلام کا تقاضا ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں مسلم و غیر مسلم کے مابین درجات کی تفریق کوئی دینی مطالبہ۔ چنانچہ مسلمانوں کی مزعومہ ریاست ہائے متحدہ کے برخلاف موجودہ دور کی متفرق قومی ریاستیں، ان میں بٹ جانے والے مسلمان، اور ان میں برابری کی سطح پر حقوق پانے والے شہریت کے نظام میں سے کسی ایک پر بھی اسلام کو کوئی اعتراض نہیں؛ نظامِ حکومت کے اعتبار سے نظریۂِ ‘خلافت’ اگرچہ مسلمانوں میں مشہور تو بہت ہے مگر دراصل یہ نہ کوئی دینی اصطلاح ہے، نہ اسے قائم کرنا کوئی دینی حکم، اور نہ ہی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسرے مشترکات کو بنیاد بنانے کی کوئی ممانعت۔ حکم ہے تو بس اتنا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی رہیں اپنے دین کی پابندی کریں، اگر حکومت میں ہوں تو جمہوریت کے اصولی طریقے پر نظام بنائیں اور چلائیں اور اجتماعی دینی احکام کی پاسداری کریں، اور دنیا کے سب مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھیں؛ اور مسلمان ہر وہ شخص ہے جو مسلمان ہونے کا اقرار کرے قطعِ نظر اس سے کہ ہمارے خیالات کے مطابق اس کے عقائد و افعال میں کوئی ضلالت ہو۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ اختیار یہ ہے کہ ہم میں سے علم والے لوگ اُن کو اس گمراہی پر مطلع کریں، مگر ہم میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اُن کے خلاف کوئی اقدام کریں یا اُن کو اسلام کے دائرے سے باہر قرار دیں، کیونکہ یہ حق خدا ہی کے دینے سے مل سکتا تھا جو اُس نے کسی کو نہیں دیا؛ پھر وہ افراد و اقوام جو اپنے اقرار کے مطابق بھی شرک، کفر اور ارتداد کا ارتکاب کریں تواُخروی اعتبار سے یقیناًیہ سنگین جرائم ہیں، لیکن اِن کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا ہی کا حق ہے جسے اگر اس نے استعمال کرنا ہوتا ہے تو رسولوں کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد کرتا ہے۔ تاہم ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے؛ جہاد بیشک اللہ کا حکم ہے مگر اس حکم کا مخاطب صرف مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ہے، اس کا جواز صرف فتنے (persecution)کا استیصال، اور اس جواز کا استعمال بھی تمام اخلاقی قیودات کے ساتھ صرف مقاتلین (combatants) کے خلاف ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں میں کا کوئی گروہ اس کا مجاز نہیں کہ جہاد کا اعلان کرے یا اُس اعلان پر لبیک نہ کہنے والوں کے خلاف اقدام کرے؛ اور رہی نفاذِ شریعت تو یہ تعبیر بھی مغالطہ انگیز ہے۔ دین کے ایجابی احکامات میں سے تو صرف نماز اور زکوٰۃ کا تقاضا کوئی ریاست قانون کی طاقت سے مسلمانوں سے کر سکتی ہے۔ اس کے ماسوا جو ایجابی تقاضے یا قرآن و سنت میں غیر مذکور سزائیں بھی قوانین کے ذریعے نافذ کرنی ہوں اُن کے لیے عوام کی رضامندی لازمی ہے۔ ہاں جو احکامات مسلمانوں کو بحیثیتِ معاشرہ دیے گئے ہیں اُن پر عمل کا مطالبہ حکمرانوں سے کیا جائے تو یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذِ شریعت کی تعبیر اس کے لیے بھی موزوں نہیں۔ تاہم مسلمانوں کے اربابِ حلّ و عقد اگر اِس کے باوجود اِس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے یا سرکشی اختیار کر لیتے ہیں تو علما و مصلحین کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اُنھیں دنیا اور آخرت میں اِس کے نتائج سے خبردار کریں۔ اُنھیں حکمت کے ساتھ اور موعظۂ حسنہ کے اسلوب میں صحیح رویہ اختیار کرنے کی دعوت دیں۔ داروغہ بننے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔
یہ جوابی بیانیہ پاکستان کے ایک دینی محقق جاوید احمد غامدی نے تیار کیا ہے۔ اور میرے علم کی حد تک اُن کا یہ بیانیہ دنیا بھر میں منفرد نوعیت کا ہے، اس لیے علیحدہ قسم بندی کا حقدار۔ اس کے علی وجہ البصیرۃ موئّیدین میں خورشید احمد ندیم جیسے مفکر و کالم نگار سمیت غامدی صاحب کی تنطیم المورِد کے فاضل کارکن، محقق اور عہدیدار اور کچھ غیر منسلک محققین اور کالم نگار بھی شامل ہیں۔ عوام و حکومت کے بہت سے لوگ بھی اس کے قائل ہوتے چلے جا رہے ہیں، تاہم یہ غیر واضح ہے کہ ایسے غیرِ عالم اور غیرِ محقق حضرات کہیں اِس بیانیے کی تکنیکی اور فنّی درستگی و خطا سے بے پرواہ محض اِس کے نتائج کو پسند کر کے تو نہیں اسے اپنا رہے۔
یہ چار بنیادی نوعیت کے بیانیے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بیانیے بھی موجود ہیں۔ تاہم وہ زیادہ تر انہی کے اختلاط (mix & match) سے عبارت، غیر معروف اور غیر منظّم ہیں۔ اس لیے ان کا تذکرہ میرے نزدیک فی الحال ضروری نہیں۔
اب آئیے پانچویں بیانیے کی طرف – جی ہاں پانچویں۔ اسے میں نے ایک اہم وجہ کے باعث عنوان یا بنیادی تقسیم کا حصہ نہیں بنایا۔ اس لیے کہ یہ سرخِ زیریں (infrared) قسم کا ہے۔ یعنی یہ وجود تو رکھتا ہے، پر مخفی اور بصارتوں سے دُور ہے، اور اس پر ایسے یقین رکھنے والوں کو تلاش کرنا جو بغیر لگی لپٹی کے اس کا علی الاعلان اقرار کریں، جوئے شیِر لانے کے مترادف ہے۔
پانچواں بیانیہ (The Terrorists are Right)
یہ بیانیہ بھی مذہبی ہے، مگر دہشت گردوں کے اقدامات کی توثیق کرتا ہے۔ اس بیانیے کے مطابق جو متشدد تحریکیں فاسق و فاجر مسلم حکمرانوں کو مساند اقتدار سے بے دخل کرنے، یا کفر و شرک کے خلاف، یا خلافت کے قیام کے لیے برسرِ پیکار ہیں وہ اصولی طور پر دینی مطالبوں کی تکمیل کی جاں گداز سعی کے باعث مبارکباد اور قدم چومنے کی مستحق ہیں۔
ممکن ہے کسی کو اس بیانیے سے کچھ توحش محسوس ہو کہ یہ تو دہشت گردوں کا بیانیہ ہے، اسے بیان کرنے کی کیا ضرورت۔ تو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ صرف دہشت گردوں کا بیانیہ نہیں۔ یہ متعدد علما و مفتیان کا بھی بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے حاملین آپکو کچھ مساجد میں بھی مل جائیں گے اور دارالافتاء میں بھی۔ پر ایسے علما اور مفتیان بہت محتاط ہیں۔ اوّل تو وہ کسی سائل کو زبانی مسئلہ اسی بیانیے کے مطابق بتا دیں گے۔ پر اگر کوئی اُن سے لکھ کے فتویٰ دینے کا مطالبہ کرے تو وہ اس سے انکار کر دیں گے۔ پھر سائل کی بھی اچھی جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی اُن کو اپنے تئیں ‘حق’ پر مبنی فتویٰ دیں گے۔ اگر اُنہیں شائبہ بھی گزر جائے کہ سائل کوئی حکومت کا کارندہ یا اُنہیں جھانسہ دیکر دام میں لینے کی کوشش کرنے آیا ہے، یا محض تفننِ طبع کے لیے فتویٰ مانگ رہا ہے اور بالفعل ایسی کسی تحریک میں شمولیت کا ارادہ نہیں رکھتا، تو وہ اپنے تئیں ‘باطل’ پر فتویٰ دے دیں گے—گو کسی قدر ‘توریہ’ اور کسی قدر ‘تقیہ’ سے کام لیتے ہوئے، تا کہ قیامت کے دن اللہ کے آگے اپنی صفائی اور کمزوری کے لیے کوئی حجّت تو پیش کر سکیں۔
کچھ عرصہ قبل تک یہ بیانیہ کچھ مسالک میں ‘استثناء’ (exception) نہیں ‘اصول’ (rule) تھا۔ پاکستان میں لال مسجد کا اندوہ ناک واقعہ اسی بیانیے کانقطۂِ عروج تھا، جس کے ارد گرد پاکستانی فوجی شہیدوں تک کے جنازوں کو حرام قرار دینے والے فتووں پر سینکڑوں علما کے دستخط ہوا کرتے تھے۔ پر اُس کے بعد 2010، 2011 تک پہنچتے پہنچتے یہ بیانیہ ‘استثناء’ کے درجے میں عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس مجبوری کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو حکومت، عوام الناس اور کچھ دلیر علما کی طاقتور مزاحمت (pushback)کے باعث اُن کی فکری پوزیشن چونکہ ناقابلِ مدافعت (untenable) ہو گئی، اس لیے انہیں ‘زیرِ زمیں’ جانا پڑا۔ اور دوسرے اس لیے بھی کہ بہت سی ایسی تحریکوں کے کارندوں کے ہاتھوں کچھ اِس درجے کے وحشیانہ امور سامنے آئے کہ جنہیں ہضم کرنا اِن کے لیے بھی ناممکن ہو گیا۔ پس بعض اقدامات کی اپنے قابلِ قبول سطح (threshold) – جو عوام الناس کی قابلِ قبول سطح سے بہر حال بہت بلند تھی – سے اوپر گزر جانے پر، نہ کہ کسی اصولی ہدفی اختلاف پر، یہ حاملینِ بیانیہ دہشت گردوں کی حکمتِ عملی سے کچھ بیزار ہوئے۔ چنانچہ اب بھی کہیں کہیں اِن کا وجود باقی ہے۔ پر جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اِن کو تلاش کرنا یا اِن سے قابلِ مواخذہ انداز میں یہ اگلوانا بہت مشکل کام ہے۔
اس بیانیے کے نکات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں: خلافت کے ملک گیر یا عالمگیر قیام کے لیے جدوجہد کرنا واجب اور ایک مبارک سعی ہے۔ اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانے پڑیں تو اس پر بھی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں۔ بلکہ چاہے انبیا ہوں (جیسے یوشع ابن نون، داوٗد و سلیمان علیھم السلام، محمد ﷺ) اور چاہے امت کے جلیل القدر مصلحین (عبداللہ بن زبیر، امام حسینؓ وغیرہ)، جنگ و جدل ہی کے ذریعے تو اُنہوں نے اس کی سعی کی؛ فاسق و فاجر مسلم حکمرانوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرنا بھی دینی ذمہ داری ہے، جس کے لیے حضورؐ نے باقاعدہ نشانیاں اور اجازت مرحمت فرمائی ہے؛ امن پسند تحریکوں کا حال ہم پاکستان اور مصر وغیرہ میں دیکھ ہی چکے ہیں۔ ان کو شکست بعد شکست کے سوا کچھ نہیں ملا، اور یہی اِن کا آگے بھی مقدر ہے۔ اس لیے شریعت کا نفاذ اب متشدد تحریکوں ہی سے عمل میں لانے کی کوشش کرنا عین تجربے کا تقاضا؛ کوئی مسلم فوج جب غیر مسلموں کی آلۂِ کار بن جائے اور شریعت کا نفاذ چاہنے والے مسلمانوں ہی کے خلاف برسرِ پیکار، تو پھر اُسے بھی غیر مسلموں میں سے ہی شمار کرنا خدا کا حکم ہے؛ زمین کو ہر کافر، مشرک، ملحد کی حکمرانی سے پاک کرنے تک رسول اللہؐ کا مشن مکمل تصور نہیں کیا جا سکتا؛ حضرت عیسیٰؑ کا زمانہ آیا چاہتا ہے، جب اسلام ہر کچے اور پکے گھر میں داخل ہو گا۔ اس کے لیے، کفار و منافقین سے جنگ شروع کر کے زمین تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے؛ جو گردن کشُ حالات ریاستی طاقت کے استیلا کے باعث ‘مجاہدین’ (یعنی دہشت گردوں) کو درپیش ہیں، ان میں غیر رسمی (unconventional) اور گوریلا (guerilla) جنگیں برپا کرنا ہی حکمت کا تقاضا ہے، جس کے تحت تنہا بھیڑیے (lone wolf) کی نوعیت کے حملے زیادہ موزوں ہیں، اور شریعت میں اِن کی اور ضمنی نقصانات (collateral damage) کی اجازت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ وغیرہ وغیرہ۔
یہ بیانیہ آج بھی موجود ہے۔ اور اس کے بڑے ترین شواہد میں سے یہ ہے کہ جب کبھی علما کی جانب سے اس کا ابطال کیا جاتا ہے، تو مخالف سمت کے علما ہی اس کے جواب مرتب کر کے پیش کرتے ہیں، ورنہ عامیوں میں یہ صلاحیت کہاں۔ تاہم یہ جاننا کہ اس بیانیے کے حاملین علما کا صحیح تناسب کتنا ہے، تحقیق کا محتاج ہے۔
یہ بیانیہ کتنا صحیح ہے اور کتنا نہیں، اس پر تو بحث ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ تاہم یہ کتنا مؤثر ہے، اس کو ماپنے کے لیے پاکستان ہی کی سیکیورٹی فورسز کو ایک مراسلہ بھیج کر معلوم کر لیجیے۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ پکڑے جانے والے دہشت گرد، اُن کے سہولت کار، یا اُن کے لیے خود کو بیویوں کے طور پر ہبہ کر دینے والی لڑکیاں/عورتیں، ان نظریات پر ‘اُشرِبُوا فی قلوبِھمُ العِجل’ کے درجے کا یقین اور اخلاص رکھتے/رکھتی ہیں کہ نہیں۔
آخر میں ایک بار پھر میں بہت سے نامور مفکروں – جو دہشت گردی کے سدِّ باب کے لیے فکرمند اور سرگرداں ہیں – کو اِن میں سے کسی بیانیے کی فہرست میں بیان نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ یہ یقیناً میرے قلتِ تدبر یا قلتِ مطالعہ ہی کے باعث ہے۔ تاہم اِن گراں قدر مفکروں میں سے کچھ اہم نام دیے دیتا ہوں تا کہ قارئین خود اُن کی رشحاتِ فکر سے مستفید ہو سکیں: کیرن آرمسٹرانگ، طارق رمضان، شادی حامد، حمزہ یوسف، شیخ اتابک شکروو النسفی؛ اور پاکستان میں مفتی رفیع و تقی عثمانی، مولانا زاہد الراشدی، حامد کمال الدین، محمد دین جوہر، عمار خان ناصر وغیرہ۔
تحریر عدنان اعجاز بشکریہ دلیل ڈاٹ پی کے