غامدی فکر سے تعلق رکھتے ہیں ایک پوسٹ لکھی کہ اللہ نے نبی ﷺ اور اصحاب رسولﷺ سے دین کے غلبہ کا وعدہ کیا تھا سو یہی وجہ تھی تو نبی ﷺ اور ان کے بعد اصحاب رسولﷺ نے جہاد کر کے عرب میں دین کو نافذ کردیا سو یہ غلبہ دین صرف عرب سرزمین کے لئے تھا ، اب جو کوئی اسکو پوری دنیا کے لئے سمجھتا ہے وہ گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے نبیﷺ اور صحابہؓ کے ساتھ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی۔
گویا موصوف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نبیﷺ اور خلفاء اربعہ کے زمانے میں جو غیر مسلموں کے خلاف جہاد ہوئے تو وہ اتمام حجت کے تحت تھا اور اس کے بعد دین کے غلبہ کے لئے جہاد گویا منسوخ ہو چکا ہے۔ اس طرح کی ہرزو سرائی کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ کیا اس طرح کے بیانا ت دینے سے پہلے انہوں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ بھی کیا تھا یانہیں۔ گویا امیر معاویہؓ کے دور سے لیکر اموی عہد خلافت کے آخر یعنی ۱۳۴ ہجری تک کفار کے خلاف جتنے بھی جہاد ہوئے وہ سب غلط اور مال غنیمت و کشور کشائی کے لئے تھے۔ اور مقام حیرت تو یہ ہے کہ خیرالقرون کے اس دور میں جلیل القدر صحابہؓ و تابعینؒ نہ صرف زندہ تھے بلکہ وہ خود بھی ان جہادوں میں حصہ لیتے رہے سو وہ سب قرآن فہمی سے قطعی عاری تھے اور ان سب کو آکر قرآن فہمی کا درس فراہی فکر سے لینا چاہیئے۔
پھر مزید مقام حیرت تو یہ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی جس کو صلوٰۃ لمبی کرنے پر لوگ ٹوک دیتے ہیں وہ موسیٰ بن نصیر، قتیبہ بن مسلم اور طارق بن زیاد کے ذریعے ہسپانیہ پر لشکر کشی کرواتا ہے لیکن کوئی ایک عالم ، فقیہہ،محدث اٹھ کر اسکو نہیں ٹوکتا کہ بھئی یہ قتال کیوں کرنے لگے ہو۔ حجاج بن یوسف ہندوستان محمد بن قاسم کو بھیج دیتا ہے اور محمد بن قاسم دیبل فتح کرتا ہوا ملتان تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی کوئی مفسر، فقیہہ، محدث اٹھ کر یہ نہیں کہتا کہ بھئی حجاج تم نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو چھڑوالیا سو اب دیبل سے آگے لشکر کشی غلبہ اسلام کی آیات کی رو سے غلط ہے سو محمد بن قاسم کو واپس بلالو۔ یہ نکتہ اکیلا سمجھ میں آیا تو صرف غامدی صاحب کو ہی سمجھ میں آیا کیونکہ ۱۴۰۰ سالوں میں دین کی صحیح فہم فکر فراہی کی وحی کے ذریعے صرف انہی کو تو عطا ہوئی ہے۔
عبداللہ بن مبارک ؒ جو کہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ۴ مہینہ جہاد، ۴ مہینہ کاروبار اور ۴ مہینہ درس حدیث دیا کرتے تھے سو انکا یہ ۴ مہینہ کا جہاد قطعی غلط اور کشور کشائی کے لئے تھا کیونکہ قتال فی سبیل اللہ تو بقول غامدی صاحب نبی ﷺ اور ان کے اصحابؓ کے ساتھ مخصوص تھا سو تابعین و تبع تابیعین نے خیر القرون کے دور میں جو قتال فی سبیل اللہ کئے وہ سب ناجائز و باطل تھے اور اس وقت موجود کسی ایک فقیہہ قاسم بن محمد بن ابی بکر، سالم بن عبداللہ بن عمر، عبدالملک بن مروان، سعید بن المسیب وغیرہ کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگوں کو اس طرح کے قتال فی سبیل اللہ سے روک دیتے بلکہ وہ خود ان میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ۱۴۰۰ سالوں میں غلبہ اسلام کی آیات کا صحیح مفہوم سمجھ میں آیا تو صرف غامدی صاحب کو باقی خیرالقرون کے دور کے سارے کے سارے علماء دینی بصیرت سے عاری تھے اسی لئے نہ صرف وہ تابعین و تبع تابعین کو قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتے رہے بلکہ خود بھی غلبہ دین کے لئے اس میں شامل ہوتے رہے۔ اگر طوالت کو خوف نہ ہوتا تو دور معاویہؓ سے لیکر عہد اموی کے آخر تک کے جہاد کی ایک فہرست یہاں لگائی جاسکتی ہے، پھر یہ غامدی فکر ثابت کرتی رہے کہ وہ سب قتال فی سبیل اللہ غلط و باطل تھے اور غامدی دینی فہم درست و لائق۔ ۔ اللہ ہدایت دے ان لوگو ں کو۔ اگر زبان حال میں کہوں تو غامدی فکر اس وقت کچھ نہیں صرف مسلمانوں کو خصی و نامرد بنانے میں لگی ہوئی ہے جو کہ موسیقی و فنون لطیفہ کے نام پر دوسری لغویات میں پڑ کر اپنے اصل مقصد زندگی کو بھول جائیں۔
تحریر فہد حارث
جہاد | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
June 1, 2019 at 8:21 am[…] غامدی صاحب کانظریہ جہاد اور اسلامی تاریخ […]