معترضین کے خیال میں ایسی روایات جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات زن وشو کا ذکر ہے (جنہیں یہ اپنی خبیث اصطلاح میں نعوذباللہ جنسی روایات کا نام دیتے ہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہیں اسلئے ناقابل قبول ہیں اور انکا روایت کرنا امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی شان کے بھی خلاف ہے کہ ایسی عفت مآب خواتین ایسی باتیں کس طرح نقل کرسکتی ہیں۔اسی خودساختہ اصول کے تحت انہوں نے ان روایات کا انکار کردیا جن میں مثلا ایک برتن سے غسل،روزے اورحالت حیض میں بوس وکنار،ازواج مطہرات کی خانگی معاملات میں کچھ سخت باتیں وغیرہ شامل ہیں۔ان روایات کے علمی جوابات ہم پہلے دے چکے ہیں ۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ منکرین کا یہ اعتراض انکے سوئے فہم کا شاہکار ہے۔اور انکی یہ بات حب رسول کی بناء پر نہیں جیسا کہ بعض خوش گمان حضرات باور کرارہے ہیں بلکہ یہ مقام نبوت سے ناآشنائی ہے۔
1۔کسی بھی معاشرے کیلئے معلم اور اسوہء حسنہ وہ ذات ہوسکتی ہے جو ان کی ہم جنس ہو،انہی کے فطری اوصاف سے مالامال ہو،تقاضوں میں ہم آہنگ ہو،اسکی بھی معاشرتی ضروریات یکساں ہوں اور پھر وہ ان تمام امور کو حکم خداوندی کے تحت ایسا چلا کر اور ان تقاضوں سے اس طرح نمٹ کر دکھائے کہ اسکا طرزعمل قیامت تک معیار اور اسوہ قرار دےدیا جائے۔ایسا شخص کس طرح ان معاملات میں معلم و اسوہ بن سکتاہے جو نہ عملی طور پر ان سے گذرے اور نہ ان فطری تقاضوں کی ادائیگی پر مجبور ہو۔
2۔بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام فطری خصائص میں اعلی ترین درجے پر پیدا کیئے گئے۔جسمانی قوت میں ساری قوم میں ممتاز تھے حسن وملاحت میں بے نظیر تھے،رحمت اور غضب دونوں مادے طبیعت میں فراواں تھے۔اسلام دین فطرت ہے وہ ان فطری خصائل کو دبانے کا حکم نہیں کرتا بلکہ استعمال کا حکم کرتا ہے لیکن حدود میں۔اور یہی کمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی فطرت کے مطابق ان تمام خصائص کو اعلی ترین درجے پر نبھایا لیکن غالب رہ کر نہ کہ مغلوب ہوکر۔اور یہ سب ہمیں پتا چلتا ہے انہی روایات سے۔سوچئے اگر ہمیں یہ دونوں روایات نہ پہنچی ہوتیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں اپنی کئی ازواج سے ملاقات فرمالیتے تھے ،اکثر اسفار میں بھی ازواج ساتھ ہوتی تھیں اوریہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پورے مہینے کیلئے ازواج سے کنارہ کشی اختیار فرمالی تھی کیونکہ آپ ایک دینی وجہ سے ناراض ہوگئے تھے تو ضبط نفس کا یہ کمال کیسے آشکار ہوتا کہ اللہ نے جسے 11بیویاں رکھنے کی قوت عطاء فرمائی ہے وہ اللہ کی خاطر ان سے یوں بھی بے تعلق ہوسکتا ہے۔یہ اسوہ حسنہ ہے ان لوگوں کیلئے جو ایک بیوی کے سامنے ہار مان جاتے ہیں اگرچہ اللہ کا حکم پامال ہورہا ہو۔
اس ہرشادی شدہ امتی کو گھر میں حیض ونفاس کے ایام کی مشکل کا سامنا ہے۔ اس دوران ضبط نفس کتنا مشکل کام ہے سب جانتے ہیں ۔اگر یہ روایات نہ پہنچی ہوتیں جن میں ان حالات میں استمتاع کی حدود کا ذکر ہے تو اسوہ حسنہ کہاں ملتا؟۔اسی طرح روزے کی حالت میں کئی بار ضبط نہیں رہتا۔امت کیسے فیصلہ کرتی کہ کس حد تک معاملہ ہوتو کیا حکم ہے؟۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج امہات المومنین رضی اللہ عنہن انسان تھیں۔۔خواتین تھیں۔۔آپس میں سوکنیں تھیں۔اسلئے وہ تمام حالات پیش آئے جو سوکنوں میں ہوتے ہیں۔جھگڑے ہوئے،برتن بجے،طعنے ہوئے اسکے باوجود انہی کو مثالی نمونہ اور مائیں کہا گیا تاکہ سب سمجھ لیں کہ بڑے انسان انہی فطری تقاضوں اور حالات کے ساتھ ہی بڑے ہوتے ہیں۔اب ان امہات کا احسان اورایمانداری ملاحظہ ہو کہ اپنے یہ سارے فطری احوال چھپائے نہیں بلکہ بیان فرمائے تاکہ امت کو علم ہوکہ بڑاانسان اپنے گھر میں کیسے رہتا ہے؟اختلاف اور جھگڑے کیسے برداشت کرتا ہے؟سوکنوں سے کیسے نمٹتا ہے؟انصاف کیسے کرتا ہے؟تحمل کسے کہتے ہیں؟۔
انہوں نے بہت اچھا کہلوانے کیلئے یہ سب چھپایا نہیں خود بتا دیا کہ ہم سے اس طرح کی سخت باتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں آقا برداشت فرماتے تھے۔یہ سب چھپا لیا جاتا اور ہماری مزعومہ تصویر ہمارے سامنے رکھ دی جاتی تو کس بڑے انسان کے سامنے برتن پھینک دینے والی کس بیوی کا منہ اپنی جگہ سلامت رہتا؟۔اور ہم اس احسان کو کیا سمجھ بیٹھے۔۔افسوس۔
بات مختصر کرتا ہوں۔مقام نبوت اور شان نبوت کی یہ مزعومہ تصویر صرف ہم نے نہیں بنا رکھی بات پرانی ہے۔اسی زمانے میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے پہلے کئی لوگوں کے ذہن میں نبوت کی اپنی بنائی ہوئی ایک تصویر تھی۔صحیح مسلم کی روایت ہے تین شخص دور سے آئے۔آکر صحابہ کرام سے حضور کی زندگی کے بارے میں پوچھا۔انہوں نے بتایا کہ آپکی اتنی ازواج ہیں اور یہ یہ معمولات ہیں۔الفاظ پڑھئے گا
“کأنہم تقالوھا”۔انہیں یہ سب کم لگا۔انکے خیال میں نبی کا نقشہ شاید ایک مافوق البشر شخصیت یا ایک تارک الدنیا راہب مردم بیزار خدامست درویش مجرد بے نکاح
گھربار سے فارغ بسم اللہ کے گنبد کی اسیر شخصیت کا تھا جسکی کوئی دنیوی زندگی نہ ہو۔لوگ اس سے بات نہ کرسکتے ہوں۔گپ شپ اور بےتکلفی کا کوئی گذر نہ ہو مگر یہاں وہ سب تصورات چکنا چور ہوگئے۔انہوں نے اپنے لئے اپنےگمان کی بلند معیار زندگی اپنانے کے عہد شروع کردئے ۔ ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا۔۔ حضور نے سنا اور انکی اصلاح فرمائی
أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني ۔ ترجمہ: کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، پھر روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 57 )
اب بتائیے آجکا انسان کیا طے کرے گا کہ شان نبوت کیا ہے؟۔
نظر کا فرق ہے اور زاویہ فکر کا۔ایک شخص کے لئے نبی علیہ السلام کا زوجہ کے ساتھ ایک برتن سے نہانا ایسی روایت ہے جس سے درجنوں مسائل کا استنباط ہورہا ہے۔نبی علیہ السلام کی ازواج کا سامنے بات کرلینا اسکے لئے انسانی فطرت کی پیچیدگیوں اور ان میں اسوہ مبارکہ پر غور وفکر کا باب عظیم کھول دیتا اور دوسرے کیلئے یہ صرف اعتراض ہیں اور گستاخیاں۔اب قصور کس کا ہے؟۔یہ اس طبیعت کا قصور ہے جو مکھی اور شہد کی مکھی کا فرق واضح کرتی ہے۔
ان اعتراضات کی پہلی وجہ ہوئی یہ۔اور دوسری وجہ ہے عرب کے عرف ،مزاج اور عادات سے ناواقفیت۔کسی عرف میں کیا مناسب ہوتا کیا نامناسب؟ ادب اور بےادبی کی حد کیا ہوتی ہے؟یہ وہی عرف اور معاشرہ طے کرتا ہے نہ کہ دوسرے معاشرے کا فرد۔
ایک موٹی سی مثال ہمارے برصغیر کے معاشرے میں کسی تھوڑے سے بڑے کو بھی صیغہ واحد سے پکارنا شدید درجے کی بےادبی شمار ہوتا ہے اور خانقاہی آداب میں تو سامنے بیٹھے حضرت کو صیغہ جمع سے خطاب کرنا بھی۔بلکہ انہیں صیغہ غائب سے مدعا پیش کیا جاتا ہے۔اس تناظر میں پلنے والا آدمی صحابہ کے بچوں کا بھی حضور کو واحد سے مخاطب کرنا گستاخی پرمحمول کرنے لگے تو کیا کہیں گے؟۔
اسی طرح سمجھئے ہر ماحول کے حیائے عرفی میں بھی فرق ہوتا ہے۔عرب میں آج بھی دیندار باپ یا بھائی رشتہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی بہن کے اوصاف اس طرح ذکر کرتے ہیں جسکا ہمارےہاں بے دین لوگوں میں تحمل نہیں۔۔اس زمانے میں باندیاں خریدی جاتی تھیں ۔باندیوں کی خرید فروخت میں بھی یہ معاملہ عام بات تھی۔اب عرب کے عرف سےناواقف آدمی (بفرض ثبوت)”یہ نہیں تو اس سے اچھی” جیسے الفاظ پر اعتراض کرے تو اسکی جہالت دور کرنی چاہئے نہ کہ بات کا انکار۔
تحریر طلحہ سیف