اہل علم جانتے ہیں کہ صحیحین، سنن اور دیگرمفصل کتب حدیث نہ تو عوام الناس کیلئے لکھی گئی ہیں اورنہ ہی عوام کو پڑھائی جاتی تھیں۔یہ مجموعات مختلف اصولوں کے پیش نظرمختلف مقاصد کے لئے مرتب کیئے گئے۔بعض کی ترتیب میں صرف سند کی مضبوطی کا اہتمام کیا گیا تو سخت شرائط کے التزام کی وجہ سے متن کامل نہ ہوئے ۔صحیح بخاری کو اصح الکتب سند کے اسی عالی معیار کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور اس التزام کی وجہ سے اس میں متن اور ترتیب ایسی ہے جو عامی آدمی تو کجا عام عالم کیلئے بھی استفادے سے مانع بن جاتی ہے۔امام بخاری کی بعض دیگر کتب مثلا الادب المفرد اور دیگرمصنفین کی صحاح مثلا صحیح مسلم وغیرہ اس اعتبار سے صحیح بخاری سے زیادہ نافع ہیں۔
امام بخاریؒ کا ذوق یہ ہے کہ وہ ’’الجامع الصحیح‘‘ میں صرف احادیث بیان نہیں کرتے بلکہ ان سے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ بلکہ پہلے وہ مسئلہ بیان کرتے ہیں جو ان کے نزدیک اس حدیث سے قائم ہو رہا ہے اور مسئلہ بیان کرنے کے بعد اس سے متعلقہ حدیث بیان کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو مسئلہ وہ قائم کرتے ہیں اس کے بارے میں اکثر مقامات پر پوری حدیث بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ حدیث کا صرف اتنا حصہ بیان کر دیتے ہیں جو اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔اس بات کا علم نا ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ کنفیوز ہوجاتے ہیں جیسے چند ہی دن پہلے ایک ‘فیس بکی مفکر’ نےحضورﷺ کے جونیہ کے ساتھ نکاح کے سلسلے میں بخاری کی حدیث سے مرضی کے استدلالات کیے اور انتہائی غلط انداز میں منظری کشی کی۔ غلط فہمی کی وجہ صرف امام بخاری کی اس ترتیب سے لاعلمی تھی ۔امام بخاری نے اسی ترتیب سے سارا واقعہ بیان کرنے کے بجائے اپنے قائم کیے گئے باب کے حساب سے حدیث کا صرف مخصوص حصہ نقل کیا ہوا تھا اور معترض اسی ہی کو ساری تفصیل سمجھ کے حدیث اور امام بخاری پر چڑھ دوڑے۔ معترض خود کو ایک دینی مدرستے سے فارغ التحصیل عالم کہتے ہیں لیکن اتنی بنیادی بات سے بھی لاعلم نکلے۔
اسی طرح بعض محدثین نے اپنی کتابوں کے متون مکمل کیے ،بعض نے اطراف ومتابعات پر کام کیا جبکہ بعض محدثین نے یہ کیا کہ ہر روایت بلا شرط جمع کردی۔ اس طرح یہ مجموعات وجود میں آئے ۔ عظیم محدث امام مسلم رحمہ اللہ نے اصول حدیث کے شہرہ آفاق اصول ماخذ مقدمہ مسلم میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ ان مجموعات کے مقاصد مختلف تھے کوئی سند محفوظ کرنے کیلئے وجود میں آیا، کوئی متون اور کوئی تمام روایات۔اب جو عام علماء ہیں وہ صرف ان مجموعات سے استفادہ کریں جو صحیح ہیں اور جو راسخین فی العلم ہیں وہ ہر طرح کے مجموعات دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ حقائق روایت سے واقف ہیں اسلئے انکی گمراہی کا خطرہ نہیں۔
عوام کیلئے یہ مجموعے نہ تھے نہ ہیں کیونکہ بغیر مبادیات جانے کوئی شخص صرف حدیث ہی نہیں کسی بھی فن کی اونچے درجے کی کتب پڑھے تو گمراہ ہوتا ہے۔عوام کیلئے علماء نے وہ احادیث جمع کردیں جنکا تعلق ترغیب وترہیب اور تاثرات سے تھا اور احکام سے متعلق احادیث سے استنباط واستخراج کرکے مسائل کے مجموعات بعنوان علم فقہ مرتب کردئے۔عوام نہ تو احادیث سے مسائل خود سمجھ سکتے تھے نہ اب ایسا ہے۔حدیث کو فقہ میں ڈھالنا علماء امت کا وہ کارنامہ تھا جس پر محدثین کو فقہاء کے سامنے معترف ہونا پڑا کہ”ہماری مثال پنساری کی ہے اور آپ طبیب ہیں”آپ جملے کا مطلب اور دونوں کا فرق خوب سمجھتے ہوں گے۔
امام بخاری ؒ نے حضرت علیؓ کا یہ قول تعلیقاًنقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ (عام) لوگوں کے سامنے وہ حدیث بیان کرو جو لوگوں کے معروفات ومسلمات کے دائرے میں ہو۔ ایسی بات مت کرو جس سے ان کے ذہن میں نفرت پیدا ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی منزل پر چلے جائیں۔ یعنی معروفات کو سامنے رکھو اور اس کے مطابق حدیث کی بات کرو۔ ایک قول امام مسلم ؒ نے مقدمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: ما انت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ۔ اگر تم لوگوں کے سامنے کسی گروہ کے سامنے ایسی حدیث بیان کروگے یا ایسے انداز سے بیان کروگے کہ ان کی عقلوں کی جہاں تک رسائی نہیں ہے تو تمہارا یہ بیان کرنا ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنہ اور آزمائش بن جائے گا۔ ان ارشاد ات سے یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ حدیث کو بیان کرنے میں اور اس کے انداز میں مخاطبین کے فہم کو اور اس دور کے معروفات ومسلمات کو سامنے رکھناضروری ہوتا ہے تاکہ حدیث لوگوں کے ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بنے نا کہ انکی کم علمی کی وجہ سے تشکیک وشبہات کا۔
جب تک حدیث سمجھنے سمجھانے کا یہ کام علماء کے ہاتھ میں رہا۔ عوام اسی طریقے سے دین سمجھتے رہے گمراہی سے بچے رہے۔کسی عالم نے دین پر عمل اور اسکی فہم کیلئے مطولات حدیث عوام کے ہاتھ میں نہیں دیں بلکہ انہیں ان احادیث سے اخذ کرکے دین سمجھایا ۔ اس طرح گمراہی کا دروازہ بند رہا اور علمی مباحث علماء کے مابین رہے۔جب پوری کتب حدیث کے تراجم کرکے عوام کے ہاتھ میں دے دئے گئے تو شروع ہوا یہ دور جسکی بھیانک ترین شکل اب سامنے آگئی۔لوگوں کو احادیث کے نہ تو مطالب سمجھ آسکے نہ مفاہیم،نہ وہ تعارض کو سمجھ سکے نہ تطبیق،نہ انہیں ناسخ کا علم نہ منسوخ کا۔اذہان انکے البتہ ضرور الجھ گئے۔ حدیث پر بحث وتنقید اور ایسی احادیث جو انکی سمجھ سے بالاتر تھیں ان پر مطلع ہونےکا دروازہ انکے لئےکھول دیا گیا جسکا بند رہنا ہی انکے لئے نافع تھا۔انکے لئے نفع مند تھا تو صرف ان احادیث پر مطلع ہونا تھا جنکا تعلق اخلاق اور رقاق کے موضوعات سے تھا ۔ یہ غلط روش ہمارے ہاں فتنہ انکار حدیث کے دور اول کا سبب بنی۔
عصری تعلیم یافتگان نے احادیث کے ظاہر کو پکڑا اور اول اول کچھ باتوں کو خلاف عقل قرار دے کر انکا انکار کیا کچھ میں انہیں مخالفت قرآن نظر آئی اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے مطلق انکار تک جاپہنچا۔یہ لوگ نہ اصول حدیث سے واقف تھے نہ عربیت سے اور نہ عرب معاشرے سے۔بس اپنے دماغ سے پڑھتے گئے اور اور انکار کرتے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عوام اور فیسبکی طبقہ مبادیات علم حدیث سے قطعا ناواقف ہے۔جو لوگ حدیث کی موٹی موٹی اصطلاحات نہیں جانتے۔امر نہی وقائع سنت عادیہ اور شرعیہ جیسے بنیادی امور سے نا آشنا ہیں انکے سامنے دقیق مسائل رکھ کر انہیں جج بھی بنا دیا گیا ہے۔گویا بندر کے ہاتھ میں ماچس دیدی گئی ہے ۔اب جو طوفان بدتمیزی برپا ہے وہ سب کے سامنےہے۔
جو لوگ فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں انہوں نے بھی یہ آسان میدان چن لیا ہے۔یہ اس کام کیلئے منبرومحراب استعمال کرتے تو نمازیوں سے جوتے کھاتے۔ اسلئے اب بھی ان میں جو صاحبان منبر ہیں مسجد میں نفاق اوڑھے رہتے ہیں۔اگر کتاب لکھتے تو تحقیق کا جوکھم بھی اٹھانا پڑتا اور ایک ایڈیشن مشکل سے نکلتا وہ دستخطوں کے ساتھ مفت بٹتا ۔ اس لیے فیس بک پر آبیٹھےیہاں بات کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ۔جو جواب مانگے بلاک کردو۔جو بحث چھیڑے جواب میں بکواس چھیڑدو جسے جومرضی کہہ دو آزادی ہے ۔اور پڑھنے والا طبقہ وہ ہے جو باقی ہرمعاملے میں عقل و تحقیق کے اصولوں پر قائم ہے سوائے دین کے معاملے کے۔یہاں اسکی سوچ الگ ہے۔آپ مجھے بتائیے کیا فیس بک پر کوئی ایساآدمی جو علم طب اور سائنس کے مبادیات سے ناآشنا ہو’ ان علوم کی باریکیوں اور انتہائی درجے کے مسائل پر بحث یا رائے زنی کرتا ہے؟اور اگر کرتا ہوتو اسے کیا کہا جاتا ہے؟اللہ تعالی نے کتاب کو ذریعہ علم اور استاذ کو معلم بنایا ہے جبکہ یہاں اصرار ہے دونوں کے بغیر علم کی منتہاء کو پہنچنا ہے۔ یہی کمی فتنے اور کنفیوزین کی بنیاد ہے جنہوں نے علم حدیث کا نورانی قاعدہ نہیں پڑھا وہ بخاری شریف کے بارے میں آراء دیتے ہیں۔فیسبک ضرورذریعہ علم ہے مگر ضابطے سے یہاں عامی اپنی ضرورت کے مسائل معلوم کرے اور علماء اپنے دائرے میں مباحثہ کریں، ہر علم وفن کا مبتدی ابتداء سے ارتقاء کا آغاز کرے اور منتہی ہر ایک کو اسکی استعداد کے مطابق سیراب کریں تو تب ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔
وہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہیں امت کے جو وضواور نماز کے بنیادی مسائل سے ناآشنا نوجوانوں کو علم کے متنازعہ پہلو دکھا کر انکا ایمان لوٹ رہے ہیں۔اور وہ نوجوان کتنے نادان ہیں جو علم کے اس مسلم اصول کونظرانداز کرکے گمراہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔اگر کوئی واقعی شوق رکھتا ہے کہ ان دقیق مسائل میں رائے زنی کریں تو بسم اللہ آئے مبادیات سیکھے اصول جانے اور بات کرے اور اگر انہی مفکرین کے پیچھے چل کر اسلاف امت پر بکواس بازی کرنی ہے تو شوق سے کرے لیکن اس میں دین و دنیا دونوں کا نقصان ہے۔اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
استفادہ تحریر مولانا طلحہ السیف
آرٹیکل لسٹ (حدیث) | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 24, 2017 at 4:16 am[…] 14. حدیث اورعوامی اشکالات کی بنیادی وجوہات […]
Naeem Mustafai
February 29, 2020 at 8:46 amالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ..!
ماشاءاللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ….
مجھے کچھ آج کے دور کے منکرین حدیث کے نام اور انکی کتب کے نام درکار ہیں…
مہربانی فرما کر رہنمائی فرما دیجئے
جزاک اللہ خیرا…