مذھب ِالحاد کوئی جدید شے نہیں بلکہ یہ ایک قدیم یونانی مغالطہ ہے کہ جس کی طرف خود قرآن کریم بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے
أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُوْنَ(۳۵)
کیا وہ پیدا کئے گئے ہیں بغیر کسی شے(بنانے والے) کے،یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں۔(۳۵)
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ(۳۶)
کیا انہوں نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو؟(نہیں) بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔(۳۶)
سوره طور میں یہ سوال ان لوگوں سے کیا جا رہا ہے کہ جو لا مذھب ہیں آگے پھر ان سے پوچھا جاتا ہے
أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَّسْتَمِعُوْنَ فِیْهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِيْنٍ(۳۸)
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے؟جس پر(چڑھ کر) وہ سنتے ہیں ،تو چاہئیے کہ ان کا سننے والا کوئی کھلی سند لائے۔(۳۸)
بخاری شریف میں مذکور ہے کہ جب حضرت جبیر ابن مطعم رض نے ان آیات کو سنا تو ایمان نے ان کے دل میں گھر کر لیا ….
سوال یہ ہے کہ ہر اس شے کے ہونے کا احتمال موجود رہتا ہے کہ جس کے نہ ہونے پر کوئی واضح اور صریح دلیل موجود نہ ہو جدید سائنس نہ تو خدا اور مذھب کے وجود کی موید ہے اور نہ ہی منکر سو اس کو لے مذھب کا انکار ایک انتہائی غیر منطقی اور نامناسب بات ہے …
رد الحاد یا رد لا مذہبیت کا میدان انتہائی قدیم ہے اور دور جدید میں اس کی ضرورت و اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ جتنے آج کے لوگ خاص کر جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس فتنے کی زد پر ہے قدیم لوگ نہ تھے …آج کے وہ نوجوان کہ جو مسلکی اور فرقہ وارانہ حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر اس میدان میں سر گرم عمل ہیں ان کی کاوشیں انتہائی قابل ستائش ہیں اور وہ تعریف کے حقدار بھی ہیں لیکن انکی محنت یک رخی ہے اور دعوت کے مدارج سے واقفیت کے ساتھ ساتھ رسوخ فی الدین کی بھی کمی دکھائی دیتی ہے …
سب سے پہلی اور بنیادی چیز دعوت دین کے اصول و مبادی کا سیکھنا سمجھنا اور پھر انکو بھرپور ایمانی قوت کے ساتھ سامنے والے پر پیش کرنا ہے اگر ہم قرآن کریم سے رجوع کریں تو ہمیں دعوت کے مدارج و منہج کا علم ہوتا ہے …
ادْعُ إِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ(۱۲۵)
اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ دانائی سے،اور اچھی نصیحت سے،اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو،بیشک تمہارا رب اس کو خوب جاننے والا ہے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوا،اور وہ راہ پانے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔(۱۲۵) سوره النحل
یہاں تین مختلف مدارج کا بیان ہے
١. فلسفہ و اسرار دین کہ جسے حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے .
٢. مواعظ حسنہ .
٣. مجادلہ کہ جو بحث و مناظرے کے باب سے ہے
دینی عقائد ہوں احکامات ہوں معاملات ہوں یا عبادت ان سب کو سبط کرنے کے مختلف طرق سکتے ہیں چاہے وہ فلسفہ ہوں منطق ہوں علم کلام کا استعمال ہو یا جدید سائنسی علوم سے استفادہ لیکن ایک امر سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے کہ جس کی طرف اپنے دور کے ایک عبقری نے اشارہ فرمایا تھا …
اصلی علم کیا ہے؟
” اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو بآسانی واضح ہوگا کہ اصلی علوم وہی ہیں جو صرف وحی الٰہی کے ذریعہ اور انبیاء کرام کی تعلیمات کے واسطہ سے ظہور میں آتے ہیں، یہ وہ علوم ہیں جن کے ادراک سے عقلی انسانی نہ صرف قاصر ہے بلکہ عقلِ انسانی کے دائرے سے ہی یہ علوم خارج ہیں، علوم وفنون کی اصطلاح میں ان کو ماوراء الادراک اور ماوراء العقل کہا جاتا ہے۔اس لیے انبیاء کرام کا دائرہ تعلیم وتربیت انہی علوم الہٰیہ میں منحصرہوتا ہے جو عقل انسانی کی رسائی سے بالاتر ہیں، قرآن کریم اور تعلیمات نبویہ میں ان علوم طبعیہ و عقلیہ اور ان کے ذریعہ وجود میں آنے والی ایجادات واختراعات کی نہ تو تعلیم دی گئی ہے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کی گئی ہے اورنہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عقل و ادراک جیسی خود کفیل نعمت اور قوتِ اختراع جیسی خود کار طاقت انسان کو عطا فرمادی جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی و وافی ہے تو پھر کسی مزید تفصیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔چنانچہ اسلامی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ ہر دور میں عقلِ انسانی یہ خدمت انجام دیتی رہی ہے اور آج اس دورِ ترقی میں بھی جو کچھ نتائج سامنے آرہے ہیں اور آئندہ آتے رہیں گے وہ سب اسی کے کرشمے ہیں۔
اگر ہم ان گزشتہ اشارات اور گزارشات کا خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی دوقسم کی ضرورتیں تھیں۔ ایک دنیا کی اور ایک آخرت کی۔ یا یوں کہئے کہ ایک روح کی اور ایک جسد کی، علومِ الہٰیہ ربانیہ کے وہ سرچشمے جن کا تعلق وحی آسمانی سے ہے ان کا تعلق آخرت اور اصلاحِ روح سے ہے اور نفس کا تزکیہ وتہذیب ہی ان سے مقصود ہے مگر ان علوم کے حقیقی ثمرات ونتائج آخرت کی زندگی میں کماحقہ ظاہر ہوں گے اگرچہ ان کے برکات کا قدرت سے ظہور اس دنیا میں بھی ہو اور علومِ عقلیہ انسانیہ کا تعلق جسم وجسمانیات اور دنیا کی زندگی سے ہے ان کے منافع کا تعلق بھی دنیوی زندگی اور عالمِ جسمانی سے وابستہ ہے۔ ”
آگے فرماتے ہیں
سائنسی علوم کا ظاہری فائدہ
” البتہ ان علومِ طبیعیہ سائنسی علوم وفنون کا اس زندگی میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ یہ علوم اور ان کے ذریعہ حاصل ہونے والے اکتشافات حق تعالیٰ کے کمالِ قدرت، کمالِ علم اور حقائق الہٰیہ کی معرفت کا ذریعہ بنتے ہیں، اس کارخانۂ قدرت اور محیرالعقول نظامِ کائنات میں حق تعالیٰ کی قدرت کے وہ راز ہائے سربستہ ان کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں جو معجزات کا کام دیتے ہیں او ر ایمان کامل، یقین محکم، علمانیتِ دل ودماغ اور رسوخِ ایمانی جیسے عظیم اور حیرت انگیز ثمرات کی بدولت میسر آتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی حجت منکرین وکافرین پر پوری ہوجاتی ہے لیکن تجربہ اس کا شاہد ہے کہ جو حضرات پہلے سے مشرف بایمان ہیں ان کے لیے تو یہ رسوخ ایمانی کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن جو لوگ سعادتِ ایمان سے محروم ہوتے ہیں ان کے لیے نفسِ ایمان کا ذریعہ بھی نہیں بنتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ سائنسدان حق تعالیٰ کے اس کارخانۂ ملکوت میں اس حیرت انگیز نظام کے اسرار وغوامض پر مطلع ہونے کے بعد بھی ان میں سے کسی ایک کو ابھی ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، ایمان تو کیا حقیقی معنی میں وہ انسان بننا بھی نصیب نہیں ہوتا جس کے پہلو میں دل اور دل میں رحم وعاطفۂ انسانیت ہو یہی وجہ ہے کہ عہدِ حاضر کے تمام تر سائنس دانوں کی یہ گوناگوں ایجادات آج نسلِ انسانی کو تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ تمام دنیا کو تباہی کے کنارے لاکر کھڑا کردیا ہے، اس تفصیل سے یہ بات بھی خیال میں آگئی ہوگی کہ سب سے زیادہ مقدم روح کی اصلاح وتربیت ہے اس کے بعد ہی یہ جدید علومِ عصر یہ مفید ہوسکتے ہیں۔ ”
یہاں یہ بات سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے کہ دعوت دین میں قوت اس ایمان کے بقدر پیدا ہوگے کہ جو آپ کے اندر ہے اگر آپ کا اپنا ایمان مستحکم نہیں ہے تو آپ کی دعوت بھی اس درجے قوی نہ ہوگی …
پھر مزید اس بات کا سمجھ لینا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ایمان صرف منطقی استدلال کے واقع ہونے کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس کیفیت کا جو آپ کے قلب سے نکل کر براہ راست دوسروں کے قلوب کو متاثر کرے …درس و تدریس کے شعبے خاص کر اسلامیات کے مضمون کی تدریس کے دوران ایک عمومی تجربہ یہ ہوا کہ جن جن محاضرات کے دوران میری اپنی ایمانی کیفیت بلند تھی انکا اثر انتہائی بہتر اور دیر پا ہوا اور جب جب اپنی ایمانی کیفیت میں کمی محسوس کی تب وہ افادہ نہ ہو سکا کہ جو مقصود و مطلوب تھا جبکہ اکثر دلائل بعد کی کیفیت کے زیادہ قوی تھے …
لوگوں تک دین کو صاف اور سیدھے انداز میں پہنچا دینا اور پورے تیقن کے ساتھ اسلام کو ان کے سامنے پیش کر دینا ہی مطلوب ہے لیکن اس میں تنافر اور تحقیر کا عنصر شامل نہ ورنہ وہ دعوت نہیں رہتی بلکہ مجادلہ و مناظرہ بن جاتی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہدایت کا عام ہونا ممکن نہیں رہتا …
قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر مجادلے کی ضرورت پیش بھی آ جاوے تو احسن انداز میں کیا جاوے ورنہ وہ صرف نفس پرستی اور ہار جیت کے کھیل سے بڑھ کر اور کچھ نہیں رہ جاتا …
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
’’علم میں جدال اور جھگڑا نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سُنّت کا علم ہو گیا وہ حفاظت سُنّت کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے، پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کر لے۔ (اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک ، جلد اوّل، صفحہ۱۵)
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’حکمت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ معانی کو مخاطب کی زبان میں ایسے موثراور آسان اسلوب میں بیان کیا جائے جسے مخاطب بخوبی سمجھ جائے ، نہ تواس کے دل میں اس معانی سے متعلق کوئی بھی شبہ باقی رہ جائے، نہ بیان کی کمزوری ،زبان کے فرق ،بعض دلائل کے باہم متعارض ہونے ،اور راجح قول بیان نہ کرنے کی وجہ سے حق پوشیدہ رہ جائے۔اور اگر کسی وقت مدعو کو متنبہ کرنے ، اس کا دل نرم کرنے اور اسے قبول حق پر آمادہ کرنے کے لئے ڈرانے و دھمکانے والی آیات اورترغیب و ترہیب کی احادیث کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرنا ضروری ہو جائے تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی نصیحت مدعو کے حسب حال ہونی چاہیئے، کیونکہ کبھی مدعو قبول حق کے لئے تیار ہوتا ہے جوتھوڑی سی تنبیہ کے ذریعہ ہی حق قبول کر لیتا ہے اور اس کے لئے حکمت ہی کافی ہوتی ہے۔اور بعض دفعہ مدعو کے قبول حق کی راہ میں کچھ دشواریاں اور رکا وٹیں بھی درپیش ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی آیات قر آنیہ کے ذریعہ نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ مدعو کے سامنے ان دشواریوں اور رکاوٹوں کا مناسب حل بھی پیش کرنا چاہیئے ۔[الدعوۃ لابن باز ؒ ص:۶۴]
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ اپنی تفسیر میں دعوت کے حوالے سے مذکورہ بالا آیت(ادْعُ إِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ) کو لیکر مختلف نکات بیان فرماتے ہیں ..
آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے، اول حکمت۔دوسرے موعظت حسنہ۔ تیسرا مجادلہ باللتی ہی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بنا پر ہیں ۔دعوت بالحکمة اہل علم و فہم کے لیے۔دعوت بالموعظت عوام کے لیے۔مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکو ک و شبہات ہوں۔یا جو عناد اور ہٹ دھری کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔
سیدی حضرت حکیم الاُمت تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ ان تین چیزوں کے مخاطب الگ الگ تین قسم کی جماعتیں ہونا سباق آیت کے لحاظ سے بعید معلوم ہوتا ہے ۔انتہی۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لیے استعمال کرنا ہے کہ دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائز ہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے ۔پھر اس کلام میں خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شوابد اور دلائل سامنے لانا ہے جس سے مخاطب مطمئن ہو سکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہو جائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں۔
البتہ صاحب روح المعانی نے اس جگہ ایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ دعوت اصل میں دو ہی چیزیں ہیں ۔ حکمت اور موعظت ۔تیسری چیز اصول مجادلہ اصول دعوت میں داخل نہیں ۔ہاں! طریق دعوت میں کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔صاحب روح المعانی کا استد لال اس پر یہ ہے کہ اگر یہ تینوں چیزیں اصول دعوت ہوتیں تو مقتضائے مقام یہ تھا کہ تینوں چیزوں کو عطف کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا بالحکمة و المواعظة الحسنہ والجدال الاحسن مگر قرآن کریم نے حکمت و موعظت کو تو عظف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لیے الگ جملہ جادلہم باللتی ہی احسن اختیار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ فی العلم دراصل دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں، بلکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنا ناگزیر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اصولِ دعوت دو چیزیں ہیں، حکمت اور موعظت، جن سے کوئی دعوت خالی نہیں ہونی چاہیے ،خواہ علماء و خواص کو ہو یا عوام الناس کو البتہ دعوت میں کسی وقت ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑ جاتا ہے جو شکوک واوہام میں مبتلا اور داعی کے ساتھ بحث و مباحثہ پر آمادہ ہیں ۔تو ایسی حالت میں مجادلہ کی تعلیم دی گئی ،مگر اس کے ساتھ باللتی ہی احسن کی قید لگا کر بتلا دیا کہ جو مجادلہ اس شرط سے خالی ہو اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
پھر آگے حضرت مجادلے کے باب کو مزید واضح کرتے ہیں
وجادلھم باللتی ہی احسن لفظ جادل سے مشتق ہے ۔اس جگہ مجادلہ سے مرادبحث و مناظرہ ہے اور باللتی ہی احسن سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث و مناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثہ بھی اچھے طریقے سے ہونا چاہیے۔روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے ۔دلائل ایسے پیش کیے جائیں جو مشہور معروف ہوں ،تا کہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ پڑ جائے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ۔اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے ۔ولا تجادلوا اہل الکتاب الا باللتی ہی احسن اور دوسری آیات میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام کو قولالہ قولالیناکی ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا فرعون سے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہے۔
(دعوت و تبلیغ کے آداب،مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ)
غور کیجئے کہ محنت کس انداز میں کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا رخ کیا ہے کیونکہ اگر محنت کا رخ درست نہ ہو تو نتیجہ بھی غلط ہی نکلتا ہے .
تحریر حسیب احمد حسیب