ہم عالم اسلام پر اللہ کا یہ فضل ہے کہ اپنے تہذیبی وفکری وجود کا آ غاز ہم ”اسلام“ سے ہی کرتے ہیں اور اپنی تاریخی شناخت انبیاءِ کرام سے ہی وابستہ رکھتے ہیں۔ نبیِ آخر الزمان ﷺ کی بعثت سے ماقبل عرب زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف اور صرف ’زمانۂ جاہلیت‘ کے عنوان کے تحت۔
ہم اگر ہند کی اقوام ہیں تو ہندو آبا کے ساتھ ہم _ بطورِ مسلمان _ اپنا رشتۂ شناخت ہمیشہ کیلئے ختم کرچکے ہیں بلکہ ان سب ناطوں کو کالعدم کر لینے پر بے حد فخر محسوس کرتے ہیں۔ زمزم کا ایک قطرہ ہمیں گنگا وجمنا اور راوی و سندھ کے شمال تا جنوب سے عزیز تر ہے۔ خاکِ بطحا ہمیشہ کیلئے اب ہماری آنکھ کا سرمہ ہے۔ ’کاغان‘ ہو یا ’مہران‘، ہمارا ایک بے دین سے بے دین بھی خواجۂ یثرب سے تعلق رکھنے کا یہی تقاضا جانتا ہے۔
یہی حال سب کی سب مسلم اقوام کا ہے۔ مسلمانانِ مصر، فراعنہ کی تہذیب پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ اسلامیانِ عراق، بابل کی تہذیب کو کھنڈروں کی صورت میں ہی دیکھنے کے روادار ہیں۔ شام اپنے سب ماقبل اسلام رشتے یکسر بھلا چکا ہے۔ افغانستان میں بدھا کے مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑتے دیکھنا یہاں کے ’باشندوں‘ کو بہت بھلا لگا تھا! مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اسلام ہی سے رشتہ جوڑ رکھنے پر پورا پورا اتفاق پایا جاتا ہے۔ ”اسلام“ ہی اب ان سب اقوام کا باپ ہے اور اسلام ہی ان کا نسب۔
بے شک وہ یہ دیکھ کر ہم پر بے حد جلتے بھنتے ہیں اور ہمارے اندر کچھ انتھروپالوجسٹ پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں رہے ہیں جو ہمیں ایک نئے سرے سے ہمارا ’نسب‘ پڑھائیں اور ”آسمان“ سے ہمارا رشتہ کاٹ کر از سر نو ’زمین‘ کے ساتھ جوڑ دیں مگر انہیں معلوم ہے دو سو سال تک ہمیں پڑھالینے کے بعد بھی وہ ہمیں یہ سبق یاد نہ کرا سکے اور ایسے ’لائق‘ شاگرد جو انکا پڑھایا ہوا سبق یاد کرلیں ہمارے مابین حد درجہ گنے چنے ہیں اور اس قدر طاقتور ذرائعِ ابلاغ رکھنے کے باوجود انکی منحنی آواز تو اذانوں کی اس پنج وقتہ گونج میں یہاں بالکل ہی دب کر رہ جاتی ہے…. اس پر ہم جتنا بھی خدا کا شکر کرسکیں سچ یہ ہے کہ کم ہے۔
البتہ ”ملتِ روم“ کا معاملہ اس سے مختلف ہے، خصوصا آج کے دور میں جب تاریخ میں اپنی جڑیں تلاش کرنے کی ضرورت قوموں کے مابین بے حد اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ نہ اپنے وجود کا آغاز ”دین“ سے کرتے ہیں اور نہ اپنے ”دورِ ماقبل دین“ کا ذکر ’زمانۂ جاہلیت‘ کے طور پر۔ یہ اس کے متحمل ہی نہیں! بلاشبہہ ’عیسائیت‘ سے اپنی تاریخی وابستگی کو یہ اپنی پہنچان بنا کر رکھتے ہیں اور صلیبی تعصب کا جہاں موقعہ ملے وہیں اس کا بھر پور ثبوت دیتے ہیں، تاہم اپنی تاریخی شناخت کے معاملہ میں ’عیسائیت‘ ان کے ہاں ایک اضافہ addition ہے نہ کہ شناخت کی کلی بنیاد۔ اپنے تہذیبی وجود کے معاملہ میں یہ ’عیسائیت‘ کو کوئی ’نقطۂ ابتدا‘ بہر حال نہیں مانتے بلکہ اس باب میں تاریخ کے پردے ہٹاتے ہوئے ’عیسائیت‘ سے ماقبل ادوار میں بھی یہ اسی جذب و کیف کے ساتھ جاتے ہیں جس شوق و سرور کے ساتھ یہ اپنے وجود کی ’مذہبی جہتوں‘ کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں یہ اپنے تہذیبی وجود کو یونان کے کھنڈروں میں آج بھی پورے ذوق وشوق کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اپنا تاریخی آغاز قریب قریب وہیں سے کراتے ہیں۔ یونان کی دیومالا (خرافات)Greek Mythology میں یہ ’علم وحکمت‘ کے موتی عین اسی طرح تلاش کرتے ہیں جس طرح علمِ غیب کے باب میں ہمارے یہاں انبیاءکی سچی داستانیں پورے ضبط کے ساتھ نقل ہوتی ہیں! یونانی اور رومانی دیوتاؤں کے نام قریب قریب ان کو اسی طرح یاد ہوتے ہیں (بلکہ ہمارے انگلش لٹریچر ڈیپارٹمنٹوں میں ازبر کرائے جاتے ہیں!) اور پیر پےر پر ان کے حوالے اور استشہادات ان کے ہاں اسی طرح ذکر ہوتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ۔۔! ہفتے کے دن اور مہینوں کے نام ان کے ہاں آج بھی یونانی اور رومانی خداؤں سے منسوب ہیں۔ بت پرستی idolatory پر مبنی بہت سے گریک اور رومن تہوار آج بھی ان کے ہاں پورے جوش وخروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں اور ان کا ایک پوری وابستگی کے ساتھ چرچا ہوتا ہے۔
چنانچہ آج کا مغرب اپنی تاریخِ پیدائش صرف ’یسوع مسیح‘ اور ’کنواری مریم‘ اور ’روح القدس‘ وغیرہ ابواب میں نہیں ڈھونڈتا۔ ’یسوع مسیح‘ ان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ضرور ہے جس کے ساتھ رومی شہنشاہ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت نے ان کا ایک پیوند لگوا دیا تھا مگر ان کا تہذیبی و ثقافتی وجود پورے ایک تسلسل کے ساتھ بلا شبہہ اس سے پیچھے تک جاتا ہے اور ان کے فخر و اعزاز کی اکثر بنیادیں بت پرست رومن ایمپائر کے ملبے میں ہی پڑی ہیں بلکہ رومن ایمپائر کی تعمیر میں جس یونانی تہذیب کا اینٹ گارا استعمال ہوا وہ مواد بھی اپنی تہذیبی وعمرانی شناخت کروانے کیلئے ان کے ہاں اتنا ہی کارآمد ہے جتنا کہ ’مذہبی‘ پہنچان کروانے کے لئے سینٹ پال کے دئیے ہوئے چرچ اور صلیب کا مواد۔
بنیادی طور پر آج کا مغرب اپنے فکری وجود اور پہنچان کے معاملہ میں چار بنیادوں پر کھڑا ہے:
1- یونانی فلسفہ و افکار کے ساتھ انکی ایک تہذیبی نسبت، بلکہ اس پر حد درجہ فخر۔
2- رومن طنطنہ وجبروت اور شہوتِ تسلط کی ناقابلِ تسکین ذہنیت،(جبکہ مشرکانہ پس منظر رکھنے میں گریک اور رومن، دونوں کا خمیر برقرار ہے)
3- عیسائی عنصر کی آمیزش، یعنی بائبل پر دھرم اور صلیب سے وفاداری
4- جبکہ چوتھا عنصر ہے جدید الحاداور انسانی خدائی کی نئی نئی صورتوں کی دریافت۔
آئندہ صفحات میں ہم ان چار وں پہلوؤں پر ایک ایک کرکے گفتگو کریں گے….
٭1۔عنصرِ اول: تہذیبِ یونان
تہذیب یونان جس سے کہ مغرب کا اصل خمیر اٹھا ہے۔ یونانی فلسفہ و افکار کے ساتھ یہ بنی الاصفر (گوری اقوام) ایک خاص تہذیبی نسبت رکھتی ہیں بلکہ اس پر کچھ اس انداز کا فخر کرتی ہیں کہ گویا عقل و شعور اور فکر و دانائی کا استعمال تاریخِ انسانی کے اندر فلاسفۂ یونان ہی کی چھوڑی ہوئی یادگار ہے اور پوری انسانی دنیا ذہن کی غذا کے معاملہ میں صرف اور صرف اسی پہ انحصار کرنے کیلئے آخری حد تک محتاج ہے! چند صدیاں قبل مسیحؑ کے یونان کی بابت یہ تاثر دے کر کہ عقل و دانائی کا اولین گہوارہ وہی ہے، ایک طرف یہ دھاک بٹھالی جاتی ہے کہ عقل و منطق کا استعمال مغرب کے بڑوں کے سوا دنیا کے اندر آج تک کسی کے آبا نے گویا کیا ہی نہیں تو دوسری جانب جدید انسان کے تحت الشعور میں یہ بات بٹھا لی جاتی ہے کہ انسانی ترقی کی تاریخ دراصل یورپ کی تاریخ ہے!
چونکہ یونان کے فکری اثاثہ جات بعد ازاں آپ سے آپ ’رومیا‘ لئے گئے، لہٰذا اس کے ساتھ اپنا نسب جوڑنے میں ان کو کوئی بھی دقت پیش نہیں آتی، خصوصا جبکہ جغرافیائی طور پر فرزندانِ یورپ کو آبائے یونان پر ناز کرنے کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ رومن ایمپائر کے عالیشان نشاناتِ شان و شوکت پر۔
جہاں تک انکی تہذیب کے اس پہلے عنصر کا تعلق ہے، اور جوکہ اسکے چوتھے عنصر کیلئے بنیاد فراہم کرتا ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے، تو وہ در اصل دینِ انبیا کے ساتھ تعارض کی اصل اساس ہے۔ خصوصاً تنزیلِ خداوندی کو ذہنِ انسانی کے معیار سے فروتر جاننااور حقائق کے تعین کیلئے عقلی ٹامک ٹوئیوں کو صائب تر طریق ماننا۔پھر یہ کہ اسی جہالت کو تقاضائے دانش جاننا اور عالمِ غیب کو اپنے ہی محدود سے اندازوں کے اندر محصور جاننا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فلاسفۂ یونان کے ہاتھوں قوائے عقل کو ایک شدید قسم کے جمود سے آزادی ملی ہے تو یہ واقعہ یورپ کی حد تک ہی صحیح مانا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ کی توضیحات سے عیاں ہے: یونانی فلسفہ کی ترقی و افزودگی، جس پر مغرب اتراتا ہے، اس زمانہ سے تھوڑی بعد ہوتی ہے جب ارضِ شام و بیت المقدس کے اندر نبوتوں کا تانتا بندھ گیا تھا، یعنی پیدائشِ مسیحؑ سے چند صدیاں پیشتر کا زمانہ، جوکہ موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد آتا ہے ، جبکہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ ارض شام و فلسطین میں اس دور کے اندر انبیاءکی ایک بہت بڑی تعداد مبعوث کی گئی تھی۔وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِِ (البقرۃ: 87)یونان کے فلاسفہ کی ایک تعداد ایسی رہی ہے جو بحر ابیض کا حوض پار کر کے ارضِ انبیا میں آتی اور یہاں سے حکمت اور دانش کی خبر پاتی رہی۔ ان میں ایسے لوگوں کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں جو انبیا پر ایمان سے مالا مال ہو کر یونان لوٹتے رہے، جس سے علم و دانش کی کچھ روشنی ان کے ساتھ یورپ کے اس تاریک جزیرہ نما تک بھی پہنچ جاتی رہی۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ بحر ابیض کے مشرقی و جنوبی کناروں پر کئی صدیاں مسلسل نبوت کی قندیلیں جلیں اور تھوڑی بھی روشنی اس کے دوسرے پار نہ پہنچے، جبکہ تہذیب میں وہ نقطہ بہت دیر پہلے آچکا تھا جہاں قوموں کے مابین خوب آمد ورفت ہونے لگی تھی اور تبادلۂ علوم و تجارب بھی بکثرت ہونے لگا تھا؟
البتہ اس روشنی کے اندر یہ اپنی جہالت کی آمیزش بھی بہر حال کرتے رہے۔ چنانچہ جہاں تک یونانی علوم وفلسفہ جات میں کوئی ایجابی پہلو ہے اور خصوصا اگر یورپ میں عقل کے استعمال اور قوائے استدلال و استنباط کو ’پہلی بار‘ کارآمد بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش کا معاملہ ہے تو اس کا سہرا انتقالِ علم و حکمت کے اس عمل کو جاتا ہے جس کا مصدر ارضِ انبیا رہی ہے۔ البتہ جہاں تک ان فلاسفہ کا عقل کو مستقل بالذات بنا کر حدودِ انسانی سے تجاوز کر جانا ہے اور جو کہ فلاسفۂ یونان کا بالآخر امتیاز ٹھہرا ، تو یہ خدائی ہدایت کے بالمقابل وہ انسانی سرکشی ہے اور ’عقل و دانش‘ کے نام پر دینِ انبیا سے انسان کا وہ جاہلانہ تصادم ہے جو آج بھی مغربی تہذیب کا عنصر اولین مانا جاتا ہے۔
٭2۔عنصرِ دوم: رومن شہوتِ قبضہ و جبر
جہاں تک مغرب کی فکری وتہذیبی شناخت کے دوسرے عنصر کا تعلق ہے، یعنی اس کا رومن پسِ منظر…. تو تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’روم‘ Romans دنیا کی ایک ایسی قدیم ترین داستان کا نام ہے جس کو دنیا اب جا کر ’استعمار‘ colonialism کے لفظ سے تعبیر کرنے لگی ہے۔
دوسری قوموں کو اپنے زیر نگین لا کر رکھنا اور ان کو ہرگز نہ اٹھنے دینا …. انکے وسائل، انکی افواج، ان کے جوان گبھرو، ان کے کھیت کھلیان، ان کے حکمران اورا ن کے لیڈر سب کو اپنے یہاں گروی رکھنا …. ان کو اپنے تاج وتخت کا وفادار خدمتگار بنا کر رکھنا …. بلکہ اس عمل کو ایک منظم ادارے کی صورت دے رکھنا …. یہ دنیا کے اندر ’رومنز‘ ہی کی متعارف کردہ سوغات ہے۔
اس سے پہلے قومیں تاراج ہوتی رہیں مگر ’کالونیاں‘ نہ بنائی گئیں۔ ’مہذب دنیا‘ کے اندر یہ البتہ رومنز ہی کی جاری کردہ سنتِ خبیثہ ہے۔ اس استعماری عمل میں دنیا کے اندر اگر کوئی دس بارہ صدیوں کا تعطل آیا رہا تو اس کی وجہ ان کی نیکی نہیں بے بسی تھی، کیونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اس دوران اُمت محمدیہ کے زیرنگین آگیا تھا جس کے باعث یہ توحید کا گہوارہ بن گیا تھا اور عدل وانصاف اور امن کی قلمرو۔ آپ ہنسیں گے یہی وہ دور ہے جو ’اقوامِ مغرب‘ کی تاریخ میں ’دور ہائے تاریک‘ Dark Ages کے نام سے جانا جاتا ہے!
البتہ اس امت کے اپنے فرض سے غافل پڑنے کی دیر تھی کہ ’وارثانِ روم‘ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ’تیسری‘ دنیا میں تبدیل کر دینے کیلئے پھر اس پر چڑھ دوڑے اور آج تک اس میں اودھم مچاتے پھر رہے ہیں۔
دنیا میں افراد کو غلام بنا رکھنے کا رواج تو واقعی بہت پرانا ہے اور شاید ہر جگہ رائج رہا ہے مگر قوموں کی قومیں غلام بنا رکھنا ایک باقاعدہ نظام کی صورت میں اس بڑی سطح پر ’رومن ایمپائر‘ ہی کی یادگار ہے خواہ وہ عیسائیت قبول کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ اپنی یہ یادگار، ’آزادی‘ کے مجسمے جگہ جگہ نصب کرنے والی ان اقوام کو آج بھی بہت عزیز ہے!
٭3۔عنصرِ سوم: شرک اور عیسائیت کا مسخ
اب آئیے بنی الاصفر کے فکری وجود کے تیسرے عنصر کی طرف…
دین اور تہذیب کی تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’رومنز‘ ایک مذہبی شب خون کا بھی عنوان رہا ہے اور یہ ہے دینِ مسیح ؑکا، جو کہ توحید کا ایک خوبصورت درس تھا، بت پرستی کے ہاتھوں یرغمال کر لیا جانا۔ دینِ توحید میں فاتحانہ بلکہ شہنشاہانہ داخل ہونا بلکہ شرک کے پلید جوتوں سمیت داخل ہونا اور پھر اس پر بھی ’تیسری دنیا‘ سمجھ کر قابض ہو جانا …. یہاں تک کہ دینِ توحید سے توحید اور موحدین ہی کو بے دخل کر دینا اور شرک کو بالآخر ایک آسمانی شریعت کا باقاعدہ عنوان ٹھہرا دینا …. ’رومنز‘ کی تاریخ کا یہ بھی ایک بے حد تاریک مگر نمایاں پہلو ہے۔
عیسائیت کا یورپ میں غلغلہ ہونا چنانچہ دین مسیح ؑسے اتنا تعلق نہیں رکھتا جتنا کہ سینٹ پال کے دین سے جو کہ یہودی پس منظر اور رومی اثر ورسوخ رکھنے والی ایک پراسرار تاریخی شخصیت ہے۔ رہا سہا کام پھر رومی شہنشاہ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت نے کیا جس نے عیسائی عقائد کے اندر ’بحقِ سرکار‘ مداخلت کی کمال مثالیں قائم کیں۔ یہاں تک کہ عیسائیت کا عقیدہ تو کیا زبان تک اپنی نہ رہی۔ سب کچھ ’رومیا‘ لیا گیا۔ آج جب آپ دیکھتے ہیں تو گویا یہ دین نازل ہی کہیں یورپ میں ہوا تھا۔ بت پرست رومی تہواروں کو ہی بڑے آرام کے ساتھ عیسائی تقدس دے دیا گیا!
عیسائیت کی یورپی پہچان اور یورپ کی عیسائی پہچان چنانچہ آج سیکولرزم کے دور میں بھی قریب قریب ایک مسلمہ جانی جاتی ہے۔ نومنتخب پاپائے روم جوزف ریٹزنگر بینی ڈکٹ آج اسی وجہ سے یورپی یونین کے آئین پر معترض ہیں کہ یونین کا باقاعدہ مذہب اس میں عیسائیت کیوں درج نہیں کر دیا گیا۔ ترکی کے یورپی یونین کی رکنیت پانے کے بھی وہ اسی وجہ سے خلاف رہے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ’یورپ‘ اور ’نصرانیت‘ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ یعنی یورپ میں سینٹ پال کے دین کے سوا کسی کیلئے کوئی گنجائش نہ ہونی چاہیے!
بوسنیا اور کوسووا میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے بھی شاید یہی سمجھتے ہیں کہ براعظم یورپ میں عیسائیت کے سوا کسی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں!
بہرحال عیسوی شریعت کا رومیا لیا جانا تاریخ کا ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ بعض مورخین کو یہ کہے بغیر چارہ نہ رہا: ”رومن دراصل عیسائی نہیں ہوئے بلکہ عیسائیت کو رومن کیا گیا“۔ پاپائے روم کا ادارہ اسی واردات کا ایک تاریخی تسلسل ہے۔
رومنز کا سرخ ارغوانی رنگ آپ پوپ کے چغے اور کلاہ میں دیکھ سکتے ہیں اور یہی سرخ رنگ کسی نہ کسی ڈیزائن کے ساتھ ہر مغربی ملک کے پرچم میں!
٭٭٭٭٭
طبعی بات تھی کہ محمد ﷺ کی لائی ہوئی آخری آسمانی رسالت کے ساتھ سب سے گھمبیر اور کانٹے دار مقابلے کیلئے وہی قوم اور وہی تہذیب پیش پیش ہوتی جو اس سے پہلے دینِ مسیح ؑکی صورت مسخ کر چکی تھی اور قریب قریب ایک پوری آسمانی اُمت کا گھونٹ بھر چکی تھی …. اور جس کے ہاتھوں مسیح ؑکا نام، جو کہ خدا کا بندہ خدا کا رسول اور خدا کا کلمہ تھا، شرک کا عنوان بنا دیا گیا اور رومی دیوتاؤں کا ’شرعی‘ متبادل۔
رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے وقت جس جہادی مہم کی تیاری کروا رہے تھے اور جس کی تاخیر پر آپ بیماریِ مرگ میں بھی برہم ہوئے تھے اور جس کو روانہ کرنے میں خلیفۂ اول ابو بکرؓ نے بھی بے حد مستعدی سے کام لیا، یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نبوت کی جانب سے بھجی جانے والی آخری فوجی مہم تھی تو خلافت کی جانب سے روانہ کی جانے والی پہلی فوجی مہم، یعنی جیشِ اسامہؓ…. یہ ’ملتِ روم‘ کی جانب سے اٹھنے والے خطرات کے سد باب کیلئے ہی بھیجی جانے والی ایک مہم تھی۔
علاوہ ازیں، نبی آخر الزمان کی زندگی کی سب سے بڑی اور بلحاظِ مسافت سب سے طویل و پرمشقت فوجی مہم جو کہ آپ نے وفات سے تھوڑی دیر پہلے ایک عظیم الشان اور عدیم المثال تیاری کے ساتھ برپا کی تھی اور بنفسِ نفیس اس کی قیادت فرمائی تھی، اور جس میں امکان تھا کہ قیصرِ روم خود آپ کے مقابلہ میں آئے گا یوں دنیا شاید یہ موقعہ پاتی کہ ایک نبی اور ایک قیصر کو اس رزمِ جہاد کے اندر آمنے سامنے دیکھے، لیکن آسمانی صحیفوں کا علم رکھنے والا یہ رومن ایمپرر جو کہ فارس پر فتح پانے کی عظیم شہرت رکھتا تھا مگر جانتا تھا کہ نبی سے مقابلہ کی صورت میں اس کا ابرہہ سے بھی برا حشر ہو سکتا تھا، لاکھوں کی فوج رکھنے کے باوجود اپنے بالکل قریب آئے ہوئے اس تیس ہزار کے لشکر کو بڑی بزدلی کے ساتھ طرح دے گیا …. رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا یہ سب سے بھاری بھرکم غزوہ، جو تبوک کے نام سے جانا جاتا ہے اور جوکہ آپ کی زندگی کے بالکل آخر میں جا کر لڑا گیا، ’ملتِ روم‘ ہی کے خلاف تھا۔
اس لحاظ سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے کسی بھی نبی کا سب سے آخری معرکہ اسی شرک کے خلاف لڑا گیا جسے ہم ’ملتِ روم‘ کہتے ہیں اور یہ کہ نبوت کی تلوار کا رخ عین آخری دم اسی ’مغربی‘ خطرے کی سمت تھا۔
اس امر نے پیروانِ رُسُل اور مخالفینِ رُسُل کی اس لامتناہی کشمکش کو قیامت تک کیلئے شاید اب یہی جہت دے دی ہے کہ حق اور باطل کا معرکہ اب زمانۂ آخر تک انہی دو کیمپوں کے مابین لڑا جاتا رہے۔ پچھلی چودہ صدیوں کا واقعہ بہر حال اسی بات کی توثیق کر رہا ہے۔
چنانچہ جتنی طویل جنگ ہمارے خلاف ”ملتِ روم“ نے کھڑی کی ہے بلکہ آج تک یہ ہمارے خلاف بر سر جنگ ہے ویسی جنگ ہمارے خلاف دنیا کی کسی قوم نے کھڑی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کہیں امکان نظر آتا ہے۔ ”اقوامِ روم“ جنہیں اب ہم ”مغرب“ بھی کہنے لگے ہیں اور جوکہ کئی بر اعظموں کے اندر اب بیک وقت پائی جاتی ہیں.. پچھلے چودہ سو سال سے ہمیں ہی اپنی جنگ کا سب سے بڑا محاذ جانے ہوئے ہیں۔
کمیونزم وغیرہ کے خلاف برسرِ عمل رہنے کے دوران بے شک اس جنگ کی شدت میں قابلِ لحاظ حد تک کمی آئی رہی مگر یہ جنگ اس سے کہیں بڑی ہے کہ یہ کسی چھوٹے موٹے عمل کے نتیجے میں ماضی کا ایک واقعہ بن رہے اور حال سے روپوش ہو جائے۔ پس آج جو ہم دیکھ رہے ہیں ہرگز کوئی حیران کن واقعہ نہ ہونا چاہیے!
٭عنصرِ چہارم: الحاد.. اور قدروں کی پائمالی
مغرب کے فکری وجود کا چوتھا عنصر جدید الحاد ہے….
یقینا دنیا کے اندر ایسی ملتیں موجود ہیں جن کو نبوتوں کی ہوا تک نہ لگی ہو اور نہ ہی وہ آسمانی ہدایت سے آشنا ہوں۔ یہاں چین، جاپان اور ہندو ایسی کئی ایک امتیں ہیں جو اصولاً مغرب کی نسبت ہم سے فکری و نظریاتی طور پر کہیں زیادہ دور ہیں، کیونکہ اپنے عیسائی ہونے اور بائبل پر ایمان رکھنے کی بدولت کئی ایک حوالے یہ فرزندانِ مغرب ایسے رکھتے ہیں جنہیں یہ ہمارے اور اپنے مابین قدرِ مشترک پاتے ہیں، جبکہ دوسری اقوام کے ساتھ ہمیں ایسی کوئی مشترک زمین سرے سے دستیاب نہیں۔
اس کے باوجود پچھلی کئی صدیوں سے دنیا کے اندر الحاد پھیلانے کا مصدر نہ تو چین رہا ہے اور نہ جاپان، نہ کوریا اور نہ ہندوستان۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے یہ روسیاہی یہاں کی دو اہل کتاب ملتوں کے نصیب میں آئی: ایک یہود اور دوسرے نصرانی معاشرے! غیبیات کے ساتھ جنگ کا علم انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے۔
وہ سب کی سب قدریں جو دنیا کی مختلف ملتوں کے مابین ہزاروں سال متفق علیہ چلی آئی ہیں اور انسانیت کی بقا کی ضمانت رہی ہیں، جبکہ شرم وحیا پر مبنی یہ وہ قدریں ہیں جو دنیا کے اندر انبیا کی باقیاتِ صالحات رہی ہیں.. پوری ڈھٹائی اور بے دردی کے ساتھ ان اقدار کے بخیے ادھیڑنے کا عمل یہاں کی اہل کتاب قوموں کے ہاں ہی پروان چڑھا ہے۔ لادینینت کی پوری دنیا کو برآمد ان کے ہاں سے ہی ہوتی رہی اور آج تک برابر ہورہی ہے۔ ”ایمان“ کے خلاف ’دلائل‘ لے کر آنے کا اس سے بڑھ کر زعم شاید ہی کسی کو ہوا ہو۔ الحاد کا اس سے بڑا مظاہرہ تاریخ میں شاید کبھی کہیں نہیں ہوا۔ تاریخ کے بدترین ملحد آج کے مغرب نے ہی پیدا کئے ہیں۔ ڈارونزم، مارکسزم، کمیونزم، کیپیٹل زم، ریلیٹوزم، لبرلزم، فیمنزم، سلطانیِ جمہوراور نجانے کیا کیا کفر انہی کی سوغات ہیں، جوکہ ایسے بڑے بڑے کفر تھے کہ کرۂ ارض کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچے اور یہاں بسنے والے ہر انسان کو متاثر کرنے کی برابر کوشش میں رہے۔
چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صرف ایک محمد ﷺ نہیں بلکہ سب کے سب انبیاءکے دین کے خلاف جنگ کا علم آج اگر کسی نے اٹھا رکھا ہے تو وہ یہی ’وارثانِ یونان و روم‘ ہیں۔ باقی سب دنیا اگر ان کفریات کی متبع ہے تو وہ ایک حاشیائی حیثیت اور ایک پیروکارانہ انداز میں ہی۔ رسولوں کے دین کے خلاف جنگ کے باقاعدہ علم بردار البتہ یہی ہیں۔ خدائی شریعتوں کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی مہم انہی کی برپا کردہ ہے۔ رسولوں کے ساتھ ٹھٹھہ اور مذاق انہی کا دیا ہوا فیشن ہے۔ ”دین“ پر لطیفے گھڑنے، ”ایمانیات“ پر فقرے چست کرنے اور ”دینی مظاہر“ پر قہقہے لگانے کے رجحانات دنیا میں اگر اور کہیں ہیں بھی تو وہ انہی کے ہاں سے درآمد ہوئے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ کہنا ہرگز خلافِ واقعہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ جنگ کرنے والے، خصوصا اس جنگ میں آگے لگنے والے، آج یہی لوگ ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی اتنا ہی واضح ہے کہ انبیا کی وارث، اور سب کی سب آسمانی شریعتوں اور رسالتوں کی امین، قیامت تک کیلئے اب کوئی ہے تو وہ ہماری ہی یہ امتِ بیضا، جو روز پانچ بار دنیا میں بآوازِ بلند وحدانیتِ خداوندی کی شہادت دیتی ہے۔ خدا کے مرتبہ و مقام کیلئے یہی امت ہمیشہ غیرت میں آتی دیکھی گئی ہے اور ایک نہیں سب کے سب انبیا کی ناموس کیلئے بے چینی بھی ہمیشہ اسی کے ہاں پائی گئی ہے۔
پس لازمی تھا کہ باقی سب اقوام یہاں حاشیائی ہوکر رہیں اور ’میدان‘ کے اندر یہی دو ملتیں باقی رہ جائیں۔ ایک ہم اور ایک وہ۔ داعیانِ ایمان اور داعیانِ الحاد۔ اندازہ کرلیجئے کتنی ہی قومیں ترقی، ٹیکنالوجی اور معیشت وغیرہ میں ہم سے آگے ہیں۔ چین، جاپان اور بھارت وغیرہ سے ہمارا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پسماندگی میں آج ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ تیل اور ایندھن حاصل کرنے کی دوڑ ضرور ایک سچ ہوگامگر یہ دوڑ ان اقوام کے مابین زیادہ ہونی چاہیے جو اپنے پہیے کوحرکت دینے کیلئے زیادہ ایندھن کی ضرورتمند ہیں۔ اس کے باوجود مغرب اپنی ٹکر کیلئے ہمارا ہی انتخاب کرتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ایسا کرنے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں کررہا۔ خود ان کے دانشوروں کی زبان سے یہ بات سنی جارہی ہے کہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔
سوال جب ’تہذیبوں کی کشمکش‘ کا ہو جائے تو افق پر پھر ”اسلام“ کے سوا کیا کہیں کوئی خطرہ دکھائی دے سکتا ہے؟!! چین اور جاپان کی تب بھلا یہاں کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ’موت‘ صرف ایک جگہ سے آتی نظر آرہی ہے اور وہ ہے ’عالمِ اسلام‘!!! اِس ’دشمن‘ کے پاس ہتھیار ہیں یا نہیں، اِس میں جان ہے یا نہیں، اِس کو اٹھنے سے پہلے مار دیا جائے اور جاگنے سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا جائے!!! تصور کیجئے قرآن پڑھنے والی امت صحیح معنیٰ میں اگر کسی وقت جاگ اٹھے، کیا الحاد کے رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے یہ اتنی سی بات کافی نہیں؟!!
یہ در اصل ایک خدائی انتظام ہے کہ وہ انسانی دنیا کے اندر تصادم اور کشمکش کا عنوان ہمیشہ کی طرح آج بھی مسئلۂ حق و باطل کو ہی رہنے دے اور ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ کو دنیا کے ایجنڈے سے آج بھی محو نہ ہونے دے۔ ورنہ ’شہباز اور ممولے‘ کا بھلا کیا مقابلہ؟؟!وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ!!!( یوسف: 21 ”اور اللہ غالب ہے اوپر کام اپنے کے ولیکن بہت لوگ نہیں جانتے“ (ترجمہ شاہ رفیع الدین))
چنانچہ یہ جنگ اگر ہماری چھیڑی ہوئی ہے اور نہ اُن کی _ بلکہ یہ جس چیز کی چھیڑی ہوئی ہے وہ ہے حق کی اپنی ہی اصیل خاصیت جس کا کہ ہمیں امین بنا دیا گیا ہے، اور باطل کی اپنی ہی ازلی سرشت جس کے کہ وہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں_ پس یہ جنگ اگر ہمارا اپنا فیصلہ نہیں بلکہ ُاس ذات کا اپنا ہی کوئی منصوبہ ہے جسے اپنی مخلوق کو مؤمن اور کافر میں تقسیم کرکے دیکھنا بے حد پسند ہے اور اسی مقصد کیلئے وہ دنیا کے اندر کتابیں اور رسول بھیجتی ہے اور جسے کہ یہ پسند نہیں کہ انسانوں کے مابین امتیاز کا یہ عنوان، یعنی ”کفر و اسلام“، ناپید یا حتیٰ کہ حاشیائی ہوجائے، جبکہ نظر یہی آتا ہے کہ یہ جنگ ”ایمان و کفر“ کی اپنی ہی ازلی مخاصمت کی انگیخت کردہ ہے نہ کہ ہمارے اپنے کسی منصوبے کا نتیجہ…. تو پھر اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی بھی بات نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں جس وقت ایک ایسی زبردست جنگ کا غبار اٹھا، جوکہ اپنی فطرت اور حقیقت میں عین وہی جنگ ہے جو پیروانِ رُسُل اور معاندینِ رُسُل کے مابین ہوا کرتی ہے، تو اس وقت ہم نبی آخر الزمان ﷺ کے کیمپ میں تھے اور ہمارے گھروں پر چڑھ آنے والے، شرک اور الحاد کے سب سے بڑے داعی اور دنیا کے اندر رسولوں کے خلاف جنگ روا رکھنے کے اپنے اس دور کے سب سے بڑے علمبردار!
ایسی جنگ کا تو ’نتیجہ‘ اس قدر دلچسپ نہ ہونا چاہیے جس قدر کہ خود اس جنگ کے ’دواعی اور محرکات‘! پس اس ’جنگی سلسلہ‘ warfare کا نتیجہ دیکھنے کیلئے ہم زندہ رہتے ہیں یا نہیں، بلکہ تو یوں کہیے اس جنگ کا نتیجہ چاہے کچھ بھی رہے، اس کے تو ’غبار‘ سے کچھ حصہ پا لینا ہی ہمارے لئے کسی سعادت سے کم نہیں! پس آج کا ہر موحد جو اس جنگ میں شعوری طور پر شریک ہے اس جنگ سے وہ بہترین حصہ پورے طور پر پا چکا ہے جس کا دینا کسی جنگ کے بس میں ہو۔ اہل ایمان کا جو کوئی مطلوب ہوسکتا ہے، ہم سمجھیں تو یہ جنگ ہمیں وہ چیز درحقیقت دے چکی ہے!!! اس میں فخر کی کوئی بنیاد ہے تو بس یہی!!!
آج اس وقت، اور تاریخ کے عین اس موڑ پرجب دنیا ایک ہونے جارہی ہے اور نظریات کی حکمرانی دنیا کے اندر ازسر نو بحال ہونے کو ہے، شرک اور الحاد کے بدترین جھکڑوں کے بالمقابل ”ایمان“ کے قلعوں کا پاسبان ہونے سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے اور _ بطورِ امت اور بطور کیمپ _ رسالتوں کا امین ہونے سے بڑھ کر فخر و اعزاز کی یہاں کیا بات ہوسکتی ہے؟!!
چنانچہ فکرِ مغرب کا یہ چوتھا عنصر، یعنی مغرب کا فکری و تہذیبی الحاد اور رسولوں کی تکذیب پر مبنی رجحانات صادر کرنے کے معاملہ میں مغرب کا پوری دنیا کے اندر ایک قوی ترین منبع اور ایک مقبول ترین حوالہ کی حیثیت اختیار کر جانا_ کم از کم اپنی اس حالیہ شکل اور اپنے اس بھاری بھر کم حجم میں _ ملتِ روم میں در آنے والا ایک بالکل نیا عنصرہے، جس کی تاریخ چند صدیاں پیچھے تک ہی جاتی ہے۔ گو اس کی بنیاد اپنے وجود کے پہلے عنصر یعنی فکرِ یونان میں یہ بڑی واضح پاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک اضافی سبب ہوگا کہ مغرب ہمارے ساتھ ایک ایسی مخاصمت محسوس کرے جو اس سے پہلے اسکے ہاں کبھی نہ پائی گئی ہو۔
باطل اپنے اندر بطلان کے جتنے پہلو جمع کرلے گا وہ حق کے ہاتھوں ختم ہونے کے اتنے ہی اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرے گا اور بے شک اہل حق کی جانب سے پہل نہ ہو وہ حق کے اندر اپنے لئے اتنے ہی خطرات بڑھتے ہوئے آپ سے آپ محسوس کرلے گا۔چنانچہ ’جنگ‘ کا پیغام باطل کے اپنے ہی اندر سے اٹھتا ہے، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر گھمنڈ اس کا صرف ایک اضافی پہلو ہے!
البتہ ’بڑھاپا‘ انسانی دنیا کے اندر ایک خدائی سنت ہے، جسکی زد، بقول ابن خلدون، جماعتوں، معاشروں اور تہذیبوں پر بھی اسی طرح پڑتی ہے جس طرح کہ افراد پر۔ بڑھاپے کا، وقت سے ذرا پہلے آجانا یا عام معمول کی نسبت کچھ موخر ہو جانا، گو ایک انسانی واقعہ ہے مگر اسکے آنے سے بہر حال کوئی مفر نہیں۔ گو اس بات کی تفصیل کا یہ مقام نہیں مگر بوجوہ مغرب کے الحادی و مادی وجود پر بڑھاپے کے آثار نمایاں سے نمایاں تر ہوتے جارہے ہیں۔ چہرے پر جھریاں صاف محسوس کی جانے لگی ہیں اور ’آئینے‘ کا استعمال اسکے ہاں کچھ ایسا مفقود نہیں! وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ !!! ( اس کو بڑھاپے نے آ لیا ہو، اولاد (چھوٹی چھوٹی) بے آسرا ہو، (اس کا یہ باغ) طوفانی آندھی کی نذر ہو جائے، جس میں آگ ہو، اور وہ جل کر راکھ ہو جائے“) ..ایسے میں ’دشمن‘ کے نونہالوں کو گبھرو ہوتے دیکھنا بطور خاص اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے!
جبکہ عالم اسلام کے حالات سے باخبر ہر شخص آج یہ دیکھ رہا ہے کہ یہاں ”ایمان“ اور ”اللہ کی طرف لوٹنے“ کا عمل ایک زور دار کروٹ لے رہا ہے جس کے پیچھے اُن تحریکوں کی دو سو سالہ محنت پڑی ہے جن کے کام کی بابت لوگوں کا تبصرہ ہوا کرتا تھا کہ ’اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا‘!!!حالانکہ اللہ کے ہاں تو اس کے حق میں بولا گیا ایک کلمہ ضائع ہوتا ہے اور نہ اس کے راستے میں چلائی جانے والی کوئی ایک گولی، ’ولکنکم قوم تستعجلون‘!!! (”مگر تم لوگ بہت جلدی کرتے ہو“– اشارہ ہے رسول اللہ ﷺ کے اس جواب کی طرف جو آپ نے اپنے کچھ صحابہ کے اپنی حالتِ زار کہنے پر ارشاد فرمایا تھا۔)
پس یہ ایک زبردست co-incidence ہے کہ ایک ملحد تہذیب بڑھاپے سے دوچار ہے تو عین دوسری طرف خدا آشنائی پر مبنی ایک جاندار اور نوخیز تہذیبی عمل آہستہ مگر تسلسل کے ساتھ رونما اور روز بروز نمایاں تر ہو رہا ہے، یہاں تک کہ خود ان کے اپنے گھروں میں مقبول ہورہا ہے۔ ڈیموگرافی کے کئی سارے بم الگ پھٹنے والے ہیں اور آبادیوں کی کثرت آئندہ سالوں میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے والی ہے!
یہ حقائق تو اس قدر عظیم الشان اور غیر معمولی ہیں کہ اسلام اور مغرب کی اس کشمکش میں اس سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس سے پہلے شاید کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی! مغرب زیادہ سے زیادہ اس وقت کچھ اپنے پاس رکھتا ہے تو وہ ہے موت کا سامان، خود اپنے لئے کسی انداز میں تو اوروں کیلئے کسی اور انداز میں۔ البتہ زندگی کا سامان آج صرف ہمارے پاس ہے خود ہمارے لئے اور دنیا بھر میں جو جو زندگی پانے کی خواہش رکھتا ہو اُس کے لئے! دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں روشنی مسلسل بڑھ رہی ہے اور سائے مسلسل سمٹ رہے ہیں۔
یہ نوشتۂ دیوار تو قریب قریب ہر شخص ہی آج پڑھ رہا ہے کہ موجودہ صدی صرف اور صرف اسلام کی صدی ہے، البتہ جو بات اس سے بھی بڑھ کر سوچنے کی ہے وہ یہ کہ اپنے مرنے کا انتظام جس وسیع انداز میں مغرب نے اس دور میں کیا ہے اور خدائی سنتوں کی رو سے اپنے مٹ جانے کے اسباب جس کثرت اور شدت کے ساتھ اس نے اس بار مہیا کئے ہیں، دوسری جانب کئی سو سال بعد اسلام کی حقیقت ایک اجلے نکھرے انداز میں جس طرح اس بار سامنے آنے لگی ہے اور جس بڑے انداز کی کروٹ بیداری کے معاملے میں آج عالم اسلام لینے لگا ہے، تیسری جانب دنیا کا ایک بستی ہو جانے کا وقوعہ جس بے مثال unprecidented انداز میں اب آج رونما ہونے کو ہے… کیا ایسا تو نہیں اس ساری کشمکش کا فیصلہ ہی ہو جانے کو ہو جب ”اللہ روئے زمین پر کوئی گھر اور کوئی جھونپڑا ایسا نہ رہنے دے گا جہاں اسلام کا بول بالا ہو کر داخل نہ ہو، عزت والے کو عزت دے کر اور ذلت والے کو ذلت دے کر ، عزت جو کہ اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جو کہ اللہ کفر کو دے گا“!!!
سب کچھ اللہ کے علم میں ہے، البتہ امکانی اشارات اس حد تک یقینا ہورہے ہیں!
چنانچہ آج ہم تاریخ کے ایک ایسے منفرد موڑ پر کھڑے ہیں جہاں زمانے کی گردش دیکھنے سے تعلق رکھنے لگی ہے۔ ملت کا ہر فردآج جس قدر اہم ہوگیا ہے شاید وہ ہمارے اندازے سے باہر ہو۔ سب سے بڑھ کر گلہ ہمیں اپنے اس فرد سے ہوگا جو ’فیصلے کی اس گھڑی‘ کو قریب لانے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کر رہا ہو، جبکہ یہ کردار ادا کرنے کی اس وقت ایک نہیں ہزاروں صورتیں ممکن العمل ہیں۔
عالم اسلام کی ساری ہی مٹی اس وقت بے حد زرخیز ہو چکی ہے، اور ’نم‘ کی بھی اس وقت، خدا کا فضل ہے، کوئی ایسی کمی نہیں!!!
تحریر حامد کمال الدین، مدیر سہ ماہی ایقاظ
٭عنصرِ چہارم: الحاد.. اور قدروں کی پائمالی
مغرب کے فکری وجود کا چوتھا عنصر جدید الحاد ہے….
یقینا دنیا کے اندر ایسی ملتیں موجود ہیں جن کو نبوتوں کی ہوا تک نہ لگی ہو اور نہ ہی وہ آسمانی ہدایت سے آشنا ہوں۔ یہاں چین، جاپان اور ہندو ایسی کئی ایک امتیں ہیں جو اصولاً مغرب کی نسبت ہم سے فکری و نظریاتی طور پر کہیں زیادہ دور ہیں، کیونکہ اپنے عیسائی ہونے اور بائبل پر ایمان رکھنے کی بدولت کئی ایک حوالے یہ فرزندانِ مغرب ایسے رکھتے ہیں جنہیں یہ ہمارے اور اپنے مابین قدرِ مشترک پاتے ہیں، جبکہ دوسری اقوام کے ساتھ ہمیں ایسی کوئی مشترک زمین سرے سے دستیاب نہیں۔
اس کے باوجود پچھلی کئی صدیوں سے دنیا کے اندر الحاد پھیلانے کا مصدر نہ تو چین رہا ہے اور نہ جاپان، نہ کوریا اور نہ ہندوستان۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے یہ روسیاہی یہاں کی دو اہل کتاب ملتوں کے نصیب میں آئی: ایک یہود اور دوسرے نصرانی معاشرے! غیبیات کے ساتھ جنگ کا علم انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے۔
وہ سب کی سب قدریں جو دنیا کی مختلف ملتوں کے مابین ہزاروں سال متفق علیہ چلی آئی ہیں اور انسانیت کی بقا کی ضمانت رہی ہیں، جبکہ شرم وحیا پر مبنی یہ وہ قدریں ہیں جو دنیا کے اندر انبیا کی باقیاتِ صالحات رہی ہیں.. پوری ڈھٹائی اور بے دردی کے ساتھ ان اقدار کے بخیے ادھیڑنے کا عمل یہاں کی اہل کتاب قوموں کے ہاں ہی پروان چڑھا ہے۔ لادینینت کی پوری دنیا کو برآمد ان کے ہاں سے ہی ہوتی رہی اور آج تک برابر ہورہی ہے۔ ”ایمان“ کے خلاف ’دلائل‘ لے کر آنے کا اس سے بڑھ کر زعم شاید ہی کسی کو ہوا ہو۔ الحاد کا اس سے بڑا مظاہرہ تاریخ میں شاید کبھی کہیں نہیں ہوا۔ تاریخ کے بدترین ملحد آج کے مغرب نے ہی پیدا کئے ہیں۔ ڈارونزم، مارکسزم، کمیونزم، کیپیٹل زم، ریلیٹوزم، لبرلزم، فیمنزم، سلطانیِ جمہوراور نجانے کیا کیا کفر انہی کی سوغات ہیں، جوکہ ایسے بڑے بڑے کفر تھے کہ کرۂ ارض کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچے اور یہاں بسنے والے ہر انسان کو متاثر کرنے کی برابر کوشش میں رہے۔
چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صرف ایک محمد ﷺ نہیں بلکہ سب کے سب انبیاءکے دین کے خلاف جنگ کا علم آج اگر کسی نے اٹھا رکھا ہے تو وہ یہی ’وارثانِ یونان و روم‘ ہیں۔ باقی سب دنیا اگر ان کفریات کی متبع ہے تو وہ ایک حاشیائی حیثیت اور ایک پیروکارانہ انداز میں ہی۔ رسولوں کے دین کے خلاف جنگ کے باقاعدہ علم بردار البتہ یہی ہیں۔ خدائی شریعتوں کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی مہم انہی کی برپا کردہ ہے۔ رسولوں کے ساتھ ٹھٹھہ اور مذاق انہی کا دیا ہوا فیشن ہے۔ ”دین“ پر لطیفے گھڑنے، ”ایمانیات“ پر فقرے چست کرنے اور ”دینی مظاہر“ پر قہقہے لگانے کے رجحانات دنیا میں اگر اور کہیں ہیں بھی تو وہ انہی کے ہاں سے درآمد ہوئے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ کہنا ہرگز خلافِ واقعہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ جنگ کرنے والے، خصوصا اس جنگ میں آگے لگنے والے، آج یہی لوگ ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی اتنا ہی واضح ہے کہ انبیا کی وارث، اور سب کی سب آسمانی شریعتوں اور رسالتوں کی امین، قیامت تک کیلئے اب کوئی ہے تو وہ ہماری ہی یہ امتِ بیضا، جو روز پانچ بار دنیا میں بآوازِ بلند وحدانیتِ خداوندی کی شہادت دیتی ہے۔ خدا کے مرتبہ و مقام کیلئے یہی امت ہمیشہ غیرت میں آتی دیکھی گئی ہے اور ایک نہیں سب کے سب انبیا کی ناموس کیلئے بے چینی بھی ہمیشہ اسی کے ہاں پائی گئی ہے۔
پس لازمی تھا کہ باقی سب اقوام یہاں حاشیائی ہوکر رہیں اور ’میدان‘ کے اندر یہی دو ملتیں باقی رہ جائیں۔ ایک ہم اور ایک وہ۔ داعیانِ ایمان اور داعیانِ الحاد۔ اندازہ کرلیجئے کتنی ہی قومیں ترقی، ٹیکنالوجی اور معیشت وغیرہ میں ہم سے آگے ہیں۔ چین، جاپان اور بھارت وغیرہ سے ہمارا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پسماندگی میں آج ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ تیل اور ایندھن حاصل کرنے کی دوڑ ضرور ایک سچ ہوگامگر یہ دوڑ ان اقوام کے مابین زیادہ ہونی چاہیے جو اپنے پہیے کوحرکت دینے کیلئے زیادہ ایندھن کی ضرورتمند ہیں۔ اس کے باوجود مغرب اپنی ٹکر کیلئے ہمارا ہی انتخاب کرتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ایسا کرنے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں کررہا۔ خود ان کے دانشوروں کی زبان سے یہ بات سنی جارہی ہے کہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔
سوال جب ’تہذیبوں کی کشمکش‘ کا ہو جائے تو افق پر پھر ”اسلام“ کے سوا کیا کہیں کوئی خطرہ دکھائی دے سکتا ہے؟!! چین اور جاپان کی تب بھلا یہاں کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ’موت‘ صرف ایک جگہ سے آتی نظر آرہی ہے اور وہ ہے ’عالمِ اسلام‘!!! اِس ’دشمن‘ کے پاس ہتھیار ہیں یا نہیں، اِس میں جان ہے یا نہیں، اِس کو اٹھنے سے پہلے مار دیا جائے اور جاگنے سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا جائے!!! تصور کیجئے قرآن پڑھنے والی امت صحیح معنیٰ میں اگر کسی وقت جاگ اٹھے، کیا الحاد کے رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے یہ اتنی سی بات کافی نہیں؟!!
یہ در اصل ایک خدائی انتظام ہے کہ وہ انسانی دنیا کے اندر تصادم اور کشمکش کا عنوان ہمیشہ کی طرح آج بھی مسئلۂ حق و باطل کو ہی رہنے دے اور ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ کو دنیا کے ایجنڈے سے آج بھی محو نہ ہونے دے۔ ورنہ ’شہباز اور ممولے‘ کا بھلا کیا مقابلہ؟؟!وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ!!!( یوسف: 21 ”اور اللہ غالب ہے اوپر کام اپنے کے ولیکن بہت لوگ نہیں جانتے“ (ترجمہ شاہ رفیع الدین))
چنانچہ یہ جنگ اگر ہماری چھیڑی ہوئی ہے اور نہ اُن کی _ بلکہ یہ جس چیز کی چھیڑی ہوئی ہے وہ ہے حق کی اپنی ہی اصیل خاصیت جس کا کہ ہمیں امین بنا دیا گیا ہے، اور باطل کی اپنی ہی ازلی سرشت جس کے کہ وہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں_ پس یہ جنگ اگر ہمارا اپنا فیصلہ نہیں بلکہ ُاس ذات کا اپنا ہی کوئی منصوبہ ہے جسے اپنی مخلوق کو مؤمن اور کافر میں تقسیم کرکے دیکھنا بے حد پسند ہے اور اسی مقصد کیلئے وہ دنیا کے اندر کتابیں اور رسول بھیجتی ہے اور جسے کہ یہ پسند نہیں کہ انسانوں کے مابین امتیاز کا یہ عنوان، یعنی ”کفر و اسلام“، ناپید یا حتیٰ کہ حاشیائی ہوجائے، جبکہ نظر یہی آتا ہے کہ یہ جنگ ”ایمان و کفر“ کی اپنی ہی ازلی مخاصمت کی انگیخت کردہ ہے نہ کہ ہمارے اپنے کسی منصوبے کا نتیجہ…. تو پھر اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی بھی بات نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں جس وقت ایک ایسی زبردست جنگ کا غبار اٹھا، جوکہ اپنی فطرت اور حقیقت میں عین وہی جنگ ہے جو پیروانِ رُسُل اور معاندینِ رُسُل کے مابین ہوا کرتی ہے، تو اس وقت ہم نبی آخر الزمان ﷺ کے کیمپ میں تھے اور ہمارے گھروں پر چڑھ آنے والے، شرک اور الحاد کے سب سے بڑے داعی اور دنیا کے اندر رسولوں کے خلاف جنگ روا رکھنے کے اپنے اس دور کے سب سے بڑے علمبردار!
ایسی جنگ کا تو ’نتیجہ‘ اس قدر دلچسپ نہ ہونا چاہیے جس قدر کہ خود اس جنگ کے ’دواعی اور محرکات‘! پس اس ’جنگی سلسلہ‘ warfare کا نتیجہ دیکھنے کیلئے ہم زندہ رہتے ہیں یا نہیں، بلکہ تو یوں کہیے اس جنگ کا نتیجہ چاہے کچھ بھی رہے، اس کے تو ’غبار‘ سے کچھ حصہ پا لینا ہی ہمارے لئے کسی سعادت سے کم نہیں! پس آج کا ہر موحد جو اس جنگ میں شعوری طور پر شریک ہے اس جنگ سے وہ بہترین حصہ پورے طور پر پا چکا ہے جس کا دینا کسی جنگ کے بس میں ہو۔ اہل ایمان کا جو کوئی مطلوب ہوسکتا ہے، ہم سمجھیں تو یہ جنگ ہمیں وہ چیز درحقیقت دے چکی ہے!!! اس میں فخر کی کوئی بنیاد ہے تو بس یہی!!!
آج اس وقت، اور تاریخ کے عین اس موڑ پرجب دنیا ایک ہونے جارہی ہے اور نظریات کی حکمرانی دنیا کے اندر ازسر نو بحال ہونے کو ہے، شرک اور الحاد کے بدترین جھکڑوں کے بالمقابل ”ایمان“ کے قلعوں کا پاسبان ہونے سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے اور _ بطورِ امت اور بطور کیمپ _ رسالتوں کا امین ہونے سے بڑھ کر فخر و اعزاز کی یہاں کیا بات ہوسکتی ہے؟!!
چنانچہ فکرِ مغرب کا یہ چوتھا عنصر، یعنی مغرب کا فکری و تہذیبی الحاد اور رسولوں کی تکذیب پر مبنی رجحانات صادر کرنے کے معاملہ میں مغرب کا پوری دنیا کے اندر ایک قوی ترین منبع اور ایک مقبول ترین حوالہ کی حیثیت اختیار کر جانا_ کم از کم اپنی اس حالیہ شکل اور اپنے اس بھاری بھر کم حجم میں _ ملتِ روم میں در آنے والا ایک بالکل نیا عنصرہے، جس کی تاریخ چند صدیاں پیچھے تک ہی جاتی ہے۔ گو اس کی بنیاد اپنے وجود کے پہلے عنصر یعنی فکرِ یونان میں یہ بڑی واضح پاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک اضافی سبب ہوگا کہ مغرب ہمارے ساتھ ایک ایسی مخاصمت محسوس کرے جو اس سے پہلے اسکے ہاں کبھی نہ پائی گئی ہو۔
باطل اپنے اندر بطلان کے جتنے پہلو جمع کرلے گا وہ حق کے ہاتھوں ختم ہونے کے اتنے ہی اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرے گا اور بے شک اہل حق کی جانب سے پہل نہ ہو وہ حق کے اندر اپنے لئے اتنے ہی خطرات بڑھتے ہوئے آپ سے آپ محسوس کرلے گا۔چنانچہ ’جنگ‘ کا پیغام باطل کے اپنے ہی اندر سے اٹھتا ہے، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر گھمنڈ اس کا صرف ایک اضافی پہلو ہے!
البتہ ’بڑھاپا‘ انسانی دنیا کے اندر ایک خدائی سنت ہے، جسکی زد، بقول ابن خلدون، جماعتوں، معاشروں اور تہذیبوں پر بھی اسی طرح پڑتی ہے جس طرح کہ افراد پر۔ بڑھاپے کا، وقت سے ذرا پہلے آجانا یا عام معمول کی نسبت کچھ موخر ہو جانا، گو ایک انسانی واقعہ ہے مگر اسکے آنے سے بہر حال کوئی مفر نہیں۔ گو اس بات کی تفصیل کا یہ مقام نہیں مگر بوجوہ مغرب کے الحادی و مادی وجود پر بڑھاپے کے آثار نمایاں سے نمایاں تر ہوتے جارہے ہیں۔ چہرے پر جھریاں صاف محسوس کی جانے لگی ہیں اور ’آئینے‘ کا استعمال اسکے ہاں کچھ ایسا مفقود نہیں! وَأَصَابَهُ الْکِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ !!! ( اس کو بڑھاپے نے آ لیا ہو، اولاد (چھوٹی چھوٹی) بے آسرا ہو، (اس کا یہ باغ) طوفانی آندھی کی نذر ہو جائے، جس میں آگ ہو، اور وہ جل کر راکھ ہو جائے“) ..ایسے میں ’دشمن‘ کے نونہالوں کو گبھرو ہوتے دیکھنا بطور خاص اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے!
جبکہ عالم اسلام کے حالات سے باخبر ہر شخص آج یہ دیکھ رہا ہے کہ یہاں ”ایمان“ اور ”اللہ کی طرف لوٹنے“ کا عمل ایک زور دار کروٹ لے رہا ہے جس کے پیچھے اُن تحریکوں کی دو سو سالہ محنت پڑی ہے جن کے کام کی بابت لوگوں کا تبصرہ ہوا کرتا تھا کہ ’اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا‘!!!حالانکہ اللہ کے ہاں تو اس کے حق میں بولا گیا ایک کلمہ ضائع ہوتا ہے اور نہ اس کے راستے میں چلائی جانے والی کوئی ایک گولی، ’ولکنکم قوم تستعجلون‘!!! (”مگر تم لوگ بہت جلدی کرتے ہو“– اشارہ ہے رسول اللہ ﷺ کے اس جواب کی طرف جو آپ نے اپنے کچھ صحابہ کے اپنی حالتِ زار کہنے پر ارشاد فرمایا تھا۔)
پس یہ ایک زبردست co-incidence ہے کہ ایک ملحد تہذیب بڑھاپے سے دوچار ہے تو عین دوسری طرف خدا آشنائی پر مبنی ایک جاندار اور نوخیز تہذیبی عمل آہستہ مگر تسلسل کے ساتھ رونما اور روز بروز نمایاں تر ہو رہا ہے، یہاں تک کہ خود ان کے اپنے گھروں میں مقبول ہورہا ہے۔ ڈیموگرافی کے کئی سارے بم الگ پھٹنے والے ہیں اور آبادیوں کی کثرت آئندہ سالوں میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے والی ہے!
یہ حقائق تو اس قدر عظیم الشان اور غیر معمولی ہیں کہ اسلام اور مغرب کی اس کشمکش میں اس سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس سے پہلے شاید کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی! مغرب زیادہ سے زیادہ اس وقت کچھ اپنے پاس رکھتا ہے تو وہ ہے موت کا سامان، خود اپنے لئے کسی انداز میں تو اوروں کیلئے کسی اور انداز میں۔ البتہ زندگی کا سامان آج صرف ہمارے پاس ہے خود ہمارے لئے اور دنیا بھر میں جو جو زندگی پانے کی خواہش رکھتا ہو اُس کے لئے! دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں روشنی مسلسل بڑھ رہی ہے اور سائے مسلسل سمٹ رہے ہیں۔
یہ نوشتۂ دیوار تو قریب قریب ہر شخص ہی آج پڑھ رہا ہے کہ موجودہ صدی صرف اور صرف اسلام کی صدی ہے، البتہ جو بات اس سے بھی بڑھ کر سوچنے کی ہے وہ یہ کہ اپنے مرنے کا انتظام جس وسیع انداز میں مغرب نے اس دور میں کیا ہے اور خدائی سنتوں کی رو سے اپنے مٹ جانے کے اسباب جس کثرت اور شدت کے ساتھ اس نے اس بار مہیا کئے ہیں، دوسری جانب کئی سو سال بعد اسلام کی حقیقت ایک اجلے نکھرے انداز میں جس طرح اس بار سامنے آنے لگی ہے اور جس بڑے انداز کی کروٹ بیداری کے معاملے میں آج عالم اسلام لینے لگا ہے، تیسری جانب دنیا کا ایک بستی ہو جانے کا وقوعہ جس بے مثال unprecidented انداز میں اب آج رونما ہونے کو ہے… کیا ایسا تو نہیں اس ساری کشمکش کا فیصلہ ہی ہو جانے کو ہو جب ”اللہ روئے زمین پر کوئی گھر اور کوئی جھونپڑا ایسا نہ رہنے دے گا جہاں اسلام کا بول بالا ہو کر داخل نہ ہو، عزت والے کو عزت دے کر اور ذلت والے کو ذلت دے کر ، عزت جو کہ اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جو کہ اللہ کفر کو دے گا“!!!
سب کچھ اللہ کے علم میں ہے، البتہ امکانی اشارات اس حد تک یقینا ہورہے ہیں!
چنانچہ آج ہم تاریخ کے ایک ایسے منفرد موڑ پر کھڑے ہیں جہاں زمانے کی گردش دیکھنے سے تعلق رکھنے لگی ہے۔ ملت کا ہر فردآج جس قدر اہم ہوگیا ہے شاید وہ ہمارے اندازے سے باہر ہو۔ سب سے بڑھ کر گلہ ہمیں اپنے اس فرد سے ہوگا جو ’فیصلے کی اس گھڑی‘ کو قریب لانے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کر رہا ہو، جبکہ یہ کردار ادا کرنے کی اس وقت ایک نہیں ہزاروں صورتیں ممکن العمل ہیں۔
عالم اسلام کی ساری ہی مٹی اس وقت بے حد زرخیز ہو چکی ہے، اور ’نم‘ کی بھی اس وقت، خدا کا فضل ہے، کوئی ایسی کمی نہیں!!!
تحریر حامد کمال الدین، مدیر سہ ماہی ایقاظ