ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب مغرب سے آنے والی خام سائنسی معلومات سے مرعوب ہو کر بعض لوگوں نے قرآن مجید کی واضح اور صریح تعلیمات کو ایسی ایسی تاویلات کی خراد پر چڑھا یا کہ خدا کی پناہ۔ چنانچہ جس زمانے میں نیوٹن کے ’میکانکی نظریہ کائینات‘ [Mechanical world view]کا غلغلہ عام ہوا جس کے مطابق پوری کائینات علت ومعلول کے قانون میں اسطرح جکڑی ہوئی ہے کہ اس سے سر مو تجاوز نہیں کرسکتی تو لوگوں نے مافوق الفطرت حقائق کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اب بعض مسلمان مفکرین کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ قرآن میں بیان کردہ معجزات [مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا اثر نہ کرنا،آپ ﷺکا بحالت بیداری آناًفاناًمعراج کا سفر کرناوغیرہ]تو اس سائنسی نظرئیے سے میل نہیں کھاتے ،لہذا انھوں نے اسلام کی عافیت اسی میں جانی کہ قرآن مجید کے الفاظ میں کسی طرح کھینچا تانی کرکے یہ ثابت کردیا جائے ان معجزات کی کوئی مافوق الفطرت [super natural]حقیقت نہیں بلکہ یہ عادی اسباب کے تحت ہی رونما ہوئے تھے۔ پھر بات صرف معجزات پر ہی ختم نہیں ہوئی، بلکہ جب آدم علیہ السلا م کی پیدائش،شیطان کا انہیں سجدہ نہ کرنا،فرشتوں کا وجود اور انکا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا،جنت دوزخ کا وجود وغیرہ حقائق بھی سائنسی نظریات سے ٹکراتے نظر آئے تو انہیں بھی تمثیلات کہہ کر انکی الٹی سیدھی تاویلات کردی گئیں۔
اگر کوئی ان تاویلات فاسدہ کی تفصیلات جاننا چاہتا ہو توصرف [سر]سید احمد خان کی تفسیرالقرآن دیکھ لے کہ جس میں فرشتوں کو انسان کی مثبت صلاحتیں، جن اور شیاطین کو منفی جذبات، آدم علیہ السلام کو فرد کے بجائے نوع انسانی، جنت اور جہنم کو مقامات کے بجائے راحت وخوشی اور تکلیف و مصیبت کی انسانی کیفیات سے تعبیر کر کے ان اسلامی تصورات کی سائنسی نظریات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ الغر ض یہ کہ سائنسی علم کو معیار بنا کر قرآنی تعلیمات کو اس پر پرکھنا قرآن کے واضح اور صریح احکامات و تعلیمات کے انکار کا راستہ کھولتا ہے۔خطبات اقبال میں جنت و جہنم کو مقامات کے بجائے کیفیات قرار دیا گیا ہے یہی نقطۂ نظر غلام احمد پرویز نے اختیار کیا۔ یہ نقطہ نظر نیا نہیں مسلم فلاسفہ کی تاریخ میں مل جاتا ہے۔
کیا دل بھی سوچتا ہے؟
آج کے دور میں اس رویے کی جھلک دیکھنا ہو تو قلب کی حقیقت پر مختلف مفکرین کی آراء پر غور کرلیجئے ۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ بد کردار لوگوں کے قلوب پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ چونکہ موجودہ سائنس یہ دعوی کرتی ہے کہ سوچنے کا عمل تو ذہن سر انجام دیتا ہے جبکہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کی ایک مشین ہے، لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کی ان آیات کا مطلب کیا ہوگا جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ہے؟
جب لوگوں سے اس بات کا کوئی سائنسی جواب نہ بن پایا تو انھوں نے اس اعتراض کا حل نکالنے کی راہ یہ نکالی کہ عر بی زبان میں قلب کا ترجمہ صرف دل ہی نہیں بلکہ ’ذہانت‘ [intellect] بھی ہوتا ہے۔ لہذا قرآن کی آیا ت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی ذہانت پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ اس انوکھی تفسیر پر ایک اشکال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں تو کہا گیا ہے کہ قلب ’صدر ‘ میں ہے [فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور: حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں] اور صدر کا معنی سینہ یا چھاتی ہوتا ہے۔ تواگر قلب سے مراد ذہانت ہے [جس کا منبع ذہن ہوتا ہے ]، اور ذہن سینے میں نہیں ہوتا، تو پھر قلب کے صدر میں ہونے کے کیا معنی ہونگے؟ اس کے جواب میں یہ کہہ دیا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسکا مطلب ’وسط‘ [centre] بھی ہوتا ہے، لہذا اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تمہاری ذہانت [قلب] جو تمہارے وسط [صدر]میں ہے۔
اگر تفسیر کا معیار عربی لغت ہی ٹھہرے، ، پھر تو ہر باطل سے باطل نظریہ بھی لوگوں نے اسی قرآن سے ثابت کردکھایا ہے۔ اہل علم پر اس آیت میں صدر کے معنی وسط لینے کی معنوی بے ڈھنگی عین واضح ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمیں قرآن کی ایسی تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو احادیث، پوری اسلامی تاریخ ،اسلامی علمیت اور روایت کو رد کرتی ہو؟ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی تضیع اوقات ہے ، البتہ چند اصولی باتیں ذیل میں بیان کردی گئی ہیں:
- کیا سائنس کے پاس اس بات کا کوئی حتمی ثبوت ہے کہ سوچنے کا کام صرف ذہن ہی کرتا ہے؟ اگر کوئی کہے ہاں، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اسے سائنس کا کچھ علم ہی نہیں ، وہ اسلیے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی کہ سائنس کے پاس علم حاصل کرنے کا ایسا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جس کے ذریعہ انسان کسی بات کو ثابت کرسکے۔
- یہ دعوی بھی اپنی جگہ غلط ہے کہ دل کا سوچنے کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، وہ س لیے کہ علم نفسیات اور حیاتیات کی جدید تحقیقات کے مطابق دماغ اور دل میں ایک خاص نوعیت کا تعلق بہر حال موجو د ہے ۔ فرض کریں کل کو یہ تحقیقات مزید آگے بڑھ کر یہ ثابت کردیں کہ سوچنے کے عمل میں دل کا بھی کچھ عمل دخل ہے تو ہمارے مفکرین کیا کریں گے؟ کیا پھر قرآنی الفاظ کی نئی تفسیر کریں گے؟ کیا اس سے لوگوں کا ایمان قرآن پر سے متزلزل نہیں ہوگا؟
- اگر تفسیر کے لیے سائنس ہی معیار و منہاج ہو تو پھر دل ہی کیا ، سائنس تو روح کا بھی انکار کرتی ہے جبکہ قرآن و احادیث تو اس کے اثبات سے بھرے پڑے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اب اس روح کے بارے میں ہمارے مفکرین کیا کہیں گے؟ انہیں چاہئے کہ یا تو اسکا انکار کردیں یا پھر اس کی بھی کوئی نئی سائنسی توجیہہ کردیں [جیسے ایک صاحب نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے روح سے مراد وہی شے ہو جسے سائنس توانائی [energy]کہتی ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون]۔ حق بات یہی ہے کہ جو لوگ سائنس کو بنیاد بنا کر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں وہ اسی قسم کی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں جن کا اسلامی علمیت اور عقل و خرد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
- لفظ قلب کی تعبیر ذہانت اور صدر کی وسط کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اس تعبیر کے بعد ان احادیث نبوی ﷺ کا کیا بنے گا جن میں قلب کو دل ہی کہا گیا ہے ؟ مثلاً ایک مشہور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں روایت ہوا ہے :
ان فی الجسد مضغضۃاذاصلحت، صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی القلب
ترجمہ: بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سار جسم صالح ہوتا ہے، اگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہوجائے تو سارا جسم مفسد ہوجا تا ہے۔ جان لو وہ قلب ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں قلب کے لیے لفظ مضغضۃاستعمال کیا گیا ہے جسکا معنی قریب قریب ’گوشت کا لوتھڑا ‘ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذہانت کو مضغۃ یعنی گوشت کا لوتھڑا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ مضغۃ تو دل ہی ہو سکتا ہے۔ نیز یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ ذہن، جس سے صاف معلوم ہوا کہ اس حدیث میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے تقوے کے مقام کے بارے میں اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ التقوی ھھنا ،تقوی یہاں ہوتا ہے [یعنی دل میں ]۔ ایسے ہی ایک اورروایت میں بیان ہوا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان آپﷺ سے زیادہ عزیز محسوس ہوتی ہے تو آپﷺ نے انکے سینہ مبارک پر ہلکا سا ہاتھ سے جھٹکا دیا جس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب یہ کیفیت بدل گئی ہے اور آپﷺ کی محبت اپنی جان سے بھی بڑھ گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ کیوں مارا؟ اگر قلب سے مراد ذہانت ہوتی تو سر پر ہاتھ مارنا چاہئے تھا۔ اسی طرح ایک حدیث میں بیان ہو ا ہے کہ جب کوئی مومن ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نشان ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر تو وہ توبہ کرلے تو وہ سیاہ نشان مٹا دیا جاتا ہے، اور اگر وہ مزید گناہ کرتا ہی چلا جائے تو وہ سیاہ نشان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسکا پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قلب سے مراد ذہن ہے تو اس پر سیاہ نشان کے کیا معنی ہوئے؟
کیا سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ کہ گناہ کے کام کرنے سے کسی شخص کی ذہانت یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ کافر، گناہ گار اور فاسق وفاجر قسم کے لوگوں کی ذہانت کے چرچے بھی چہار دنگ عالم میں عام ہیں۔ مثلاً آئن سٹائن مشہور سائنس دان ہے جس کی ذہانت بھرے سائنسی نظریات نے فزکس کی دنیا میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے، لیکن اسکا کردار اورزندگی کس قدر غیر اخلاقی تھی اسکا اندازہ اس کے ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس کی پوتی نے شائع کیے [انہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی بیوی کے سوا تمام عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا] اسی طرح کانٹ اتنا ذہین آدمی تھا کہ پچھلے تین سو سال میں پورے مغربی فکر و فلسفے میں اس پائے کا فلسفی آج تک پیدا نہیں ہوا، لیکن وہ اغلام باز تھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کا مشہور ترین فلسفی فوکو [Focault]ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوا۔ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ اگر آپ دنیا کے اکثر وبیشتر ’ذہین‘ ترین سائنسدانوں وغیرہ کی زندگی کا مطالعہ کرکے دیکھیں گے ، تو اکثر و بیشتر کی زندگیاں اخلاق رزیلہ نجاست اور تعفن سے بھری ہوئی دکھائی دے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گناہ گار لوگ پھر اتنے ذہین کیوں ہیں؟
یہ چند احادیث تو بر جستہ ہی بیان کردی گئی ہیں ورنہ اگر کتب احادیث کو بغور پڑھا جائے تو اس موضوع پر دسیوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں۔ اب ایک طرف یہ احادیث ہیں جو در حقیقت قرآن مجید کی اصل شارح ہیں، دوسری طرف وہ الل ٹپ لغوی تاویلات ہیں جو ہمارے مفکرین حضرات بیا ن کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی بات مانی جائے ؟ ظاہر بات ہے کہ احادیث کے سامنے ایسی لغوی بحثوں اور ظنی [speculative]سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔ - فرض کریں کہ ہم ایک لمحے کے لیے یہ دعوی مان لیتے ہیں کہ سوچنے کا کام ذہن ہی کرتا ہے دل نہیں کرتا، تب بھی قرآنی اصطلاح ’قلب‘ کی کوئی نئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ اس لیے کہ حقیقت کا ادراک عقل کے بس کی بات ہی نہیں [اس بات کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں]۔ عقل کی پرواز تو صرف وہاں تک ہے جہاں تک حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات و تجربات اسے لے جاسکتے ہیں، اور اس دنیامیں مابعد الطبعیاتی حقائق [مثلاً ذات باری تعالی، مقصد انسانی، زندگی بعد الموت وغیرہ ] پر کوئی مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ جس کے ذریعے ان حقائق کے حوالے سے عقل کوئی رائے قائم کرسکے۔ لہذا حقیقت کا ادراک سرے سے عقل کے ذریعے ممکن ہی نہیں، بلکہ اسکا ذریعہ تو قلب ہے ۔ قرآن و حدیث نے حقیقت کے ادراک کے لیے اسی قلب کی پاکیزگی اور تطہیر کی جانب اصل توجہ دلائی ہے اور اگر کسی کو قلب کی دنیا کے حالات جاننے کا شوق ہو تو حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ کی کتاب احیاء العلوم الدین کی تیسری اور چوتھی جلد پڑھ لے۔
پس جاننا چاہئے کہ درست طریقہ تفسیر یہی ہے کہ ہم قرآن مجیدکو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کریں کیونکہ قرآن ہی اصل ’معیار اور علمیت [episteme] ہے اور اس حقیقت کو قرآن نے اپنے لیے فرقان [حق و باطل میں فرق کرنے کامعیارو میزان ]اور الحق [واحد اور اصل حقیقت]کے الفاظ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔یعنی قرآن خود آخری اور حتمی معیار اور میزان علم ہے جسمیں تول کر ہر نظرئیے کی حقانیت کو جانچا جانا چاہیے۔ بھلا ہو مولانا احمد رضا خانؒ ، مولانا اشراف علی تھانویؒ ، مولانا قاسم نانوتویؒ ، پیر مہر علی شاہؒ ، سید جماعت علی شاہؒ ، مولانا محمود الحسنؒ ، سید احمد سعیدکاظمیؒ ، مولانا شفیع عثمانیؒ ، پیر کرم شاہ الازہری [رحمہم اللہ اجمعین] اور ان جیسے اور علما ء اور صوفیاء کرام کا جنہوں نے زمانے کے عام چلن سے مرعوب نہ ہو کر حق کی وہی تعبیر اختیا ر کیے رکھی جو صحیح روایات کے ساتھ اسلاف سے ثابت ہے۔ اگر یہ حضرات نے بھی زمانے کے عام چلن کے مطابق خام سائنس سے مرعوب ہو کر قرآن کی غلط سلط تاویلات عوام میں عام کر دیتے تو سائنس کی دنیا میں نیوٹن کے نظرئیے کے ابطال کے بعد عوام الناس کا قرآن مجید کی حقانیت سے ایمان جاتارہتا[اس کی ایک مثال آگے آئے گی]۔
قرآن کی سائنسی تفاسیر :قرآن کے موضوع کو خلط ملط کردینا
قرآن کی سائنسی تفسیر ات کے ضمن میں ایک عام گمراہی الفاظ قرآنی کی دور ازکار تاویلات کرکے فی زمانہ مروج سائنس کے ہر مشہور نظرئیے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی شامل ہے ۔ اس سعی کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ قرآن مجید سے کسی سائنسی نظرئیے کا ثابت نہ ہوسکنا گویا قرآن کے لیے ایک قسم کا عیب ہے۔لہذا ڈارون کے حیات انسانی کے نظریہ ارتقاء، کائنات کی ابتداء کی بگ بینگ تھیوری [Big Bang Theory]، نیز زمین کی حرکت وسورج کی مرکزیت سے لیکر ایٹم بم تک کے نظریات قرآن سے نکالے جارہے ہیں اور ایسا کرنے میں ہی اسلام کا بھلا سمجھا جارہا ہے۔اس قسم کے تفسیری شاہکار خصوصاً مصر کے علامہ طنطاوی کی تفسیرا لجواہر میں دیکھے جاسکتے ہیں، جس کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں سوائے قرآن کی تفسیر کے اور سب کچھ ہے۔
اس طرز تفسیر کے مضمرات و نقصانات کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایا جاسکتاہے کہ جس وقت دنیا میں یہ نظریہ عام تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے تو چرچ نے اس عقیدے کو عیسائی ایمانیات کا لازمی حصہ بنا کر اسے بائبل کے ساتھ منسوب کردیا۔اس عقیدے کو اپنانے کی وجہ یہ نہ تھی کہ بائبل میں اس کے بارے میں کوئی واضح تعلیم دی گئی تھی ،بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عقیدہ چرچ کے اس تصور کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا کہ چونکہ خدا کا بیٹا اس زمین پر تشریف لایا، لہذا زمین ہی کائنات کامرکز بھی ہونی چاہئے۔ البتہ جب سائنس کی دنیا میں کو پرنیکس [Copernicus]کے اس نظرئیے کو مقبولیت حاصل ہوئی کہ کائنا ت کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے تو عیسائی دنیا کا ایمان بائبل سے جاتا رہا۔اس ناقابل تلافی نقصان کی اصل ذمہ دار بائبل نہیں بلکہ چرچ کا ناعاقبت اندیشانہ رویہ تھا جس نے ایک ایسی بات کو بائبل کی طرف منسوب کیا جس کی اس میں کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی اور اس رویے کا نقصان سائنس کو نہیں بلکہ عیسائیت کو ہوا۔جلتی پر تیل ڈالنے کا کام چرچ کے ان مظالم نے کیا جو بعض ملحد قسم کے سائنس دانواں پر توڑے گئے ۔اس رد عمل کے بجائے اگر چرچ اپنی علمی غلطی کا اعتراف کرکے یہ اعلان کردیتا کہ بائبل کے ساتھ مرکزیت زمین کے نظرئیے کومنسوب کرنا غلط ہے تو شاید نا عیسائی مذہب کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچتا اور نہ چرچ اور پوپ کے کردار کو تاریخ میں محض ایک برائی کے طور پر رقم کرکے مسخ کیا جاتا۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ قرآن کی سائنسی تفسیر کے پیچھے یہ غلط مفروضہ کار فرما ہے کہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن سے ثابت نہ ہونا قرآن کے لیے ایک عیب ہے۔ درحقیقت یہ مفروضہ قرآن کے اصل موضوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں کہ جسمیں فزکس، کیمسٹری، حیاتیات وغیرہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں بلکہ قرآن کا اصل موضوع نوع انسانیت کی اس راستے کی طرف ہدایت کرنا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے رب کے حضور سر خرو ہوسکے۔چنانچہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن میں نا ہونا کوئی عیب نہیں کیونکہ یہ قرآن کا موضوع ہی نہیں۔اگر کوئی شخص قانون کی کسی کتاب میں کسی سائنسی ایجاد کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کی تفصیلات دیکھ کر یہ طے کرلے کہ وہ سائنس کا ہر نظریہ اس کتاب سے نکالے گا تو ایسے شخص کی عقل پر ہر شخص ماتم کرے گااور اس سے یہی کہے گا کہ بھائی یہ قانون کی کتاب ہے نا کہ سائنس کی نیز اس میں اگر کوئی سائنسی بات زیر بحث لائی بھی گئی ہے تواسے قانون ہی کے موضوع کے تحت سمجھنا چاہئے۔جس طرح قانون کی کتاب میں طب،فزکس ،کیمسٹری کی تفصیلات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں ایسے ہی قرآن میں سائنسی بیانات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں۔نیز جس طرح کسی قانون کی کتا ب میں کسی سائنسی ایجاد یا تاریخی واقعے کے درج ہونے سے وہ سائنس یا تاریخ کی کتاب نہیں بن جاتی ،بالکل اسی طرح قرآن میں کسی سائنسی حقیقت کی طرف ضمناًاشارہ آجانے سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں بن جاتی بلکہ اس بیان کی صحیح تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے قرآن کے عمومی موضوع کے تحت ہی سمجھا جائے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے قرآن میں ماضی کی کئی امتوں کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ،اب اگر کوئی شخص قرآن کو تاریخ کی کتاب سمجھ لے اور اس میں ساری انسانیت کے تاریخی واقعات تلاش کرنا شروع کردے تو وہ سخت غلطی کا مرتکب ہوگاکیونکہ قرآن جب کسی ماضی کے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو بطور تاریخی حوالے کے نہیں بلکہ بطورہدایت [نصیحت،عبرت،ہمت و صبر پیدا کرنا وغیرہم] کرتا ہے اور اسی پس منظر میں رہ کر ہی ان واقعات کی درست تفہیم ممکن ہے۔مثلاًحضرت یوسف علیہ السلام کا طویل قصہ بیان کرنے کے بعد سورہ یوسف کی آخری آیت میں قرآن کہتا ہے :لقد کا ن فی قصصھم عبرۃ لاولی الباب [اگلے لوگوں کے ان واقعات میں ہوش مندوں کے لیے عبرت ہے]
ایسے ہی کسی سائنسی بیان کے بعد قرآن کہتا ہے کہ اس میں عقل اور ایمان والوں کے لیے اللہ کی نشانیاں ہیں یا اس میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کا کسی سائنسی حقیقت کوبیان کرنے کا مقصد ہرگزکسی سائنسی نظرئیے کی داغ بیل ڈالنا ، لوگوں کو سائنس سکھانا یا انسانوں کو تسخیر کائنات پر ابھارنا نہیں ہوتا، بلکہ ہدایت انسانی کی خاطر اسے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جس پر غور کرکے وہ اصل حقیقت تک پہنچ کر خود کو اپنے رب کے حضور جھکا دے۔
یہ چند باتیں اختصار کے ساتھ اہل علم کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں۔کوئی ہرگز اس احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ سائنس کو قرآن سے علیحدہ کرنے سے خدا نا خواستہ معجز نما قرآن کی شان کم ہوجائے گی، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علم کی حقیقت سے ناوقفیت کی بنا پر ہمارے مفکرین نے سائنس کو اسلامیانے کی خاطر جودعوے تراش رکھے ہیں وہ مغربی سائنس کی تاریخ سے تو میل کھاتے ہیں، مگر تاریخ انبیاء اور قرآن کی بنیادی تعلیمات سے ہرگزمطابقت نہیں رکھتے ۔ ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے مفکرین کی ایسی تمام سعی اورکوششیں خلوص نیت پر ہی مبنی ہیں، لیکن صرف خلوص نیت کسی بات کے صحیح ہونے کا معیار نہیں بن سکتا ، جیسے کسی ماں کا کتنے ہی خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے بچے کو زہر پلادینا بچے کے لیے تریاق نہیں بن سکتا۔
سائنسی علمیت کو اسلام پر منطبق کرنے کے نتائج:
اسلامی تعلیمات قابل رد ہیں:
اس کوشش کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اسلام کی تمام تعلیمات،بشمول اس کے عقائد،احکامات ،اخلاقیات ،وغیرہم، اصولی طور پر قابل رد[falsifiable] ہیں۔یہ اسلیے ضروری ہے کیونکہ فی زمانہ مروج سائنسی معیار علم کے مطابق صرف وہی باتیں اور مفروضات علم کہلانے کے مستحق ہیں جنہیں تجربے اور مشاہدے میں لاکر رد کرنا ممکن ہو [اس کی تفصیل پچھلے مضمون میں’’سائنس کا نظریہ تردیدیت ‘‘کے تحت پیش کی گئی تھی ]۔ جو مفروضات تجربے کی روشنی میں ناقابل رد ہوں وہ قطعاً سائنسی علم نہیں ہوسکتے۔چنانچہ سائنس اور غیر سائنس میں تمیز کرنے والی شے یہ ’امکان تردید‘ ہی ہے ۔اب دیکھئے کہ اس بات کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے ۔قرآن مجید سورہ بقرہ کے بالکل ابتدائی کلمات میں اپنا تعارف ہی ان الفاظ سے کراتا ہے کہ ذالک الکتاب لاریب فیہ یعنی اس میں بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے یا ان میں شک کرنے کا کوئی امکان ہے ہی نہیں ۔ایک شخص کا ایمان اس وقت تک معتبر ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اس بات پر کامل ایمان نہ رکھتا ہو کہ اسلام کے بیان کردہ حقائق نا قابل رد ہیں۔اب علماء خود پڑتال کرسکتے ہیں کہ کیاایسے شخص کا ایمان کوئی حیثیت رکھتا ہے جو اس بات کے امکان کو بھی مانتا ہو کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق تجربے وغیرہ کی روشنی میں غلط ثابت کیے جاسکتے ہیں؟ لہذایہ کہنا کہ ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ ایک مومن کے ایمان پر نقب لگانے کے مترادف ہے۔
اسلامی تعلیمات حتمی اور دائمی نہیں:
دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ کرنا لازم ہے وہ یہ کہ کسی علم کے سائنس کہلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کبھی حتمی اورقطعی نہ ہو۔ سائنسی علم وہی ہوتا ہے کہ جس میں ارتقاء [progress]کا عمل اور امکان ہمیشہ جاری رہے۔سائنس میں کوئی بھی حقیقت حتمی نہیں ہوتی۔اس کے تمام تر حقائق عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی جسے تجربے کی روشنی میں آج حقیقت سمجھ کر مان لیا گیا ہے،ہو سکتا ہے کل کوئی نیا تجربہ اس کی تردید کردے اور وہ بات جسے اب تک حقیقت سمجھا جاتا تھا بدل کر ماضی کی حکایت اور آج کی گمراہی بن جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں دریافت شدہ حقائق اس وقت تک کی میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی روشنی میں ہوتے ہیں اور چونکہ مشاہدات و مدرکات میں تنوع اور وسعت کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اسلیے سائنس کے ہر اصول وقاعدے میں تبدیلی و تغیر کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کی دریافت کردہ کسی بھی حقیقت کو حتمی اور قطعی قرا رنہیں دیا جاتا۔
چنانچہ وہ علم جو اس بات کا دعوی کرے کہ اس میں جو بات کہہ دی گئی ہے وہ حتمی ،قطعی اور زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے ہرگز سائنس نہیں ہوسکتا۔ لہٰذایہ کہنا کہ ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ اس بات کے اعتراف کے مترادف ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام حقائق آفاقی اور ابدی نہیں بلکہ عارضی ہیں ۔نیز وقت اور حالات کے تبدیل ہونے سے انکی حقانیت بدل سکتی ہے۔ اب علما ء کرام اس بات سے خوب واقف ہیں کہ جو شخص ایسا ایمان رکھتا ہو اس کے ایمان کی حیثیت کیا ہے۔اس قسم کے عقیدے کے بعد ان دعووں میں آخر کیا معنویت رہ جاتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور محمد ﷺ ساری نوع انسانی کے ہر ہر فرد ،وقت اور مقام کے لیے راہ ہدایت متعین کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟
اسلام کو سائنسی علم کی کسوٹی کو پرپرکھنے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہر سو دو سو سال کے بعد بنیادی عقائداور احکامات میں تبدیلی لائی جائے اور ہر صدی کے بعد احکام و قوانین از سر نو مرتب کیے جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے متجددین حضرات آئے دن اجتہاد کے نام پردین اسلام کی نئی تعبیروتشریحات پیش کرتے رہتے ہیں اور انہیں علما ء کرام سے بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ انھوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کیوں کردیا ہے۔ان متجددین کو دراصل یہی غم کھا ئے جاتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو سائنسی علوم [چاہے وہ نیچرل ہوں یا سوشل سائنسز] کے عین مطابق ثابت کردکھائیں ۔لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اسلام کو جس معیار علم پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس علم میں بذات خودکسی بات کے حق اورباطل پر ہونے کی جانچ کرنے کا کوئی قطعی معیار موجودنہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سوا سو سال کے عرصے میں بلامبالغہ اسلام کی درجنوں تعبیرات پیش کی جا چکی ہیں اور ہر نئی تعبیر پیش کرنے والے مفکر کا یہی دعوی ہے کہ ’اصل اسلام ‘ توبس یہی ہے۔ پس سائنس کی اتنی حقیقت جان لینا ہی ایک ہوش مند شخص کی آنکھیں کھولنے دینے کے لیے کافی ، مگر چونکہ ذہن سائنس کے سحر اور کفر سے مغلوب ہوچکے ہیں تو اس غلبے کو رفع کرنے کی خاطر ان دلائل کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جس کے سہارے جدید سائنس کواسلام کے مساوی یا متبادل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
چند غور طلب سوالات:
آخر میں ان حضرات سے جو سائنس کو اسلامیانے کے حق میں دلائل فراہم کرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں ہم چند سوالات پوچھنا چاہتے ہیں۔
۱] کیا ابتدائی تیرہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کسی معتبر مفسر ،فقیہ یا عالم نے قرآن اور سائنس کے تعلق پر کوئی بحث کی ہے؟ اگر نہیں ،تو اس کی وجہ کیا ہے کہ کسی بھی معتبر شخص کوآپ کے بقول سائنس جیسی عظیم الشان علمیت کی ہوا بھی نہ لگی؟
۲] کیا ابتدائی تیرہ سو سالہ اسلامی نظام تعلیم میں سائنسی مضامین کو وہ اہمیت حاصل تھی جو اب ہمارے معاشروں میں ہے؟ کیا مسلمانوں نے کبھی تسخیر کائنات اور سرمائے کے مسلسل اضافے کو اپنے نظام تعلیم کی بنیاد اور مقصد بنایا؟
۳] اگر نہیں ، تو مسلمانوں کے نظام تعلیم کا مقصد کس قسم کی شخصیت اور معاشرت کی تعمیر کرنا تھا؟ کیا اس شخصیت کی تعمیر کے لیے تسخیر کائنات کو بطور مقصد حیات کے قبول کرنا ضروری امر ہے؟
۴] اگر سائنس حقیقت کے ادراک کا ایسا ہی ذریعہ علم ہے جس کے نتائج بعینہ وحی سے مطابقت رکھتے ہیں تو آج تک لاکھوں سائنس دانوں میں سے کتنے ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے؟ کیا مغرب نے سائنسی علم کی بنیاد پر جو معاشرہ قائم کیا ہے وہ آہستہ آہستہ مذہبی اقدار سے قریب تر ہو رہاہے یا دور؟
۵] کیا تسخیر کائنات کو بطور مقصد حیات کے قبول کیے بغیر بھی سائنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ عروج ممکن ہے؟کیا ماضی میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟اگر جدید سائنس کا سرمایہ داری سے تعلق ختم کر دیا جائے تو کیا یہ سائنس ایک دن بھی زندہ رہ سکتی ہے کیا جدید سائنس اور سرمایہ داری لازم و ملزوم ہیں یا نہیں؟ کیا اربوں کھربوں روپے کا یہ سرمایہ یورپی ممالک نے خود پیدا کیا یا نوآبادیات سے لوٹ کر سائنسی انقلاب برپا کیا گیا؟ کیا خطیر سرمایہ کے بغیر کسی ایک سائنسی ایجاد کا امکان ہے؟ اگر نہیں تو یہ کھربوں روپے کہاں سے آئیں گے؟
یہ ان اہم سوالات میں سے چند ایک ہیں جنکا جواب دئیے بغیر سائنس کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا بے شک ایک سہل طریقہ ء تحقیق اوراپنے نفس کو خوش کرنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے مگر اس طریقہ ء تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج تخیلاتی اور مہمل قسم کے دعوں پر ہی مبنی ہونگے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اصل حقیقت [معرفت الہی]سے روشناس کرائے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل
مغربی فکروفلسفہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
December 7, 2019 at 10:27 am[…] قرآن کی سائنسی تفاسیر […]