خلافت کی ناگزیریت: فطری تقاضوں اور استطاعت کا مغالطہ
ہماری تحریر “خلافت ناگزیر ہے” کے جواب میں احباب نے دلائل کی جو عمارت قائم کی ہے اس کا ایک ستون یہ ہے:
“فطری تقاضوں (بشمول اجتماعی نظام کے قیام) کو فطرت تک ہی رکھنا چاھئے۔ فطری اور عقلی تقاضے بدیہات ہوتے ہیں۔ ان پر انسانوں نے ہر حال میں عمل کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں شرعی احکامات بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ دین اس سے اگلے مرحلے میں انسان سے مخاطب ہوتا ہے”۔
یقین مانئے یہ دعوی ایک نہیں کم از کم آدھ درجن غلط مفروضوں پر قائم ہے اور جب بنیادی دعوی ہی غلط در غلط ہو تو اس پر مبنی فہم دین کیسے درست ہوسکتا ہے؟ فطرت بذات خود کسی بھی دائرے میں حجت نہیں، یہ لوگوں کا قائم کردہ ایک غلط اصول ہے کہ فطرت کی بنیاد پر کسی خیر کا تعین کرنا ممکن ہے نیز دین کی دعوت ان “فطری حقائق کے بعد” شروع ہوتی ہے۔ اسی غلط دلیل کی بنا پر یہ سوال قائم کیا گیا ہے کہ کیا کپڑے و خوراک وغیرہ کا حصول بھی دین کا تقاضا ہے؟ جی ہاں جناب یہ ایک دینی تقاضا ہے۔ دو طرح سے۔ اولا یہ کہ مسلسل بلاوجہ کھانا نہ کھانا جان بوجھ کر جان تلف کرنا ہے اور وہ حرام ہے اور حرام سے بچنا دینی طور پر لازم ہے۔ لہذا حسب استطاعت خوراک کا حصول ایک دینی معاملہ ہے نہ کہ فطری۔ دوئم اس طرح کہ حصول خوراک پر دین کے بہت سے احکامات پر عمل منحصر ہے۔ اسی طرح لباس کے معاملے کو دین یوں نہیں دیکھتا کہ انسان نے لباس تو فطرتا پہننا ہی ہے، بس خدا اسکی حدود مقرر کرتا ہے۔ ھرگز بھی نہیں، معاملہ یوں ہے کہ لباس کا پہننا ایک شرعی حکم و معاملہ ہے نہ کہ کوئی فطری یا عقلی چیز۔ چنانچہ لباس کے حکم اور لباس کے لازمی یا اخلاقی امر ہونے کو دیکھنے کا یہ تناظر ہی اصولا باطل ہے کہ یہ اصلا کوئی فطری چیز ہے نہ کہ دینی۔ چنانچہ دلیل کی اس ٹیڑھی بنیاد کو سیدھا کرلیجئے، ان شاء اللہ بہت سارے مسائل سیدھے ہوجائیں گے۔ اس غلط اصول پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اس پر غور کرنا چاہئے۔
ہمارے یہاں خلافت کو دینی تصور اور دین میں مطلوب نہ ماننے والوں کے دلائل کی کل کائنات مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتاب میں چند غلط مثالوں سے اخذ کردہ استدلال ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں خاں صاحب کا مضبوط ترین استدلال یہ ہے کہ “حج کرنا تو دینی فرض ہے مگر حج کی صلاحیت پیدا کرنا کوئی دینی فرض نہیں (کہ ہر شخص ضرور حج کرنے جتنی دولت کمائے)”۔ اس دلیل سے وہ یہ بات نکالتے ہیں کہ دین میں اگرچہ اجتماعی احکامات دئیے گئے ہیں مگر ان احکامات پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا (یعنی قیام ریاست کی جدوجہد) مسلمانوں سے کوئی دینی مطالبہ نہیں۔
یہ استدلال “فرض عین” کو “فرض کفایہ” سے خلط ملط کرنے کا شاہکار ہے۔ جس قضیے (قیام ریاست کی جدوجہد) کو رد کرنے کے لئے وہ یہ مثال لا رہے ہیں اس میں متعلقہ سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض خدانخواستہ مسلمانوں پر یہ عالم آجائے کہ دنیا میں حج کی ادائیگی ہی بند ہوجائے اور کوئی بھی مسلمان حج ادا نہ کرپائے (مثلا کفار مکہ پر قابض آکر حج کی ادائیگی بند کردیں) تو اس صورت میں اللہ کا مسلمانوں سے کوئی تقاضا ہے یا نہیں؟ کیا اس صورت میں بھی وہ یہی استدلال لائیں گے کہ “دیکھو بھائی حج کرنا تو فرض ہے مگر اس کی صلاحیت پیدا کرنا کوئی فرض نہیں، لہذا آرام سے بیٹھو”؟ اب اگر کسی کا کہنا ہے کہ نہیں ایسی حالت میں امت پر یوں بیٹھے رہنا درست نہیں، تو ہم پوچھتے ہیں کہ بتائیے وہ آیت کہاں ہے جس میں شارع کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ “مسلمانوں تم ضرور کعبہ قائم کرنا اور قائم رکھنا اور حج کرنے کا بندوبست برقرار رکھنا”؟
“خلافت ناگزیر ہے” کے خلاف مدعا ثابت کرنے کے لئے دوسرا ستون اسی پرانے مقدمے پر قائم کیا گیا ہے جس کا بارہا جواب دیا گیا، یعنی یہ کہ “شریعت نے صاحب مال پر زکوۃ کو فرض کی ہے مگر زکوۃ کی ادائیگی کے لئے صاحب مال بننا کوئی فرض نہیں”۔مناسب محسوس ہوتا ہے کہ پہلے اس دلیل کی غلطی کے مختلف پہلووں کو واضح کیا جائے، نظم اجتماعی کے ساتھ اس کے تعلق کو ذرا موخر کیا جائے۔
دلیل کی غلطی کا پہلا پہلو یہ ہے کہ اس میں فرض عین و کفایہ کو خلط ملط کردیا گیا ہے۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ “دنیاوی وسائل کا حصول مسلمانوں کے لئے کس درجے میں ہے؟” اس کا جواب دینے میں فرد اور اجتماع کو مکس کردیا گیا ہے، یعنی ایک فرد کے لئے صاحب مال ہونا ایک اتفاقی چیز ہوسکتی ہے نیز یہ بھی ممکن ہے کہ سب مسلمان صاحب نصاب نہ ہوں، مگر کیا مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی فقیر ہونا دین کو مطلوب ہے؟ کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ اگر سب مسلمان فقیر ہوں تو دین کا ان سے معاش کے متعلق کوئی مطالبہ نہیں؟ چنانچہ دنیوی وسائل اور اتنی مقدار میں مال کا حصول امت کے لیے من حیث المجموع “فرض کفایہ” ہے کہ زکوۃ فرض ہو نیز مسلمان فقیر بن کر کفار کے زیر نگر نہ رہیں۔ اگرچہ عام حالات میں یہ کسی شخص پر “فرض عین نہ ہو”۔
اس معاملے میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ دلیل دینے والے حضرات گویا ہر چیز کو فرض کے درجے میں ہی دین سمجھتے ہیں جبکہ دین کو ہر شے فرض کے درجے میں تو مطلوب نہیں ہوتی۔ کیا جو حکم فرض نہ ہو وہ دین نہیں ہوتا؟ کیا دین صرف فرائض کا نام ہے؟
اس معاملے کو تیسری طرح یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اتنے مال کا حصول تو ہر فرد پر حسب استطاعت و مواقع لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرسکے کیونکہ خودکشی حرام ہے اور ان وسائل کے بغیر جینا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایک شخص صلاحیت و امکان ہونے کے باوجود بھی معاش کا بندوبست نہ کرے تو دین کی نظر میں وہ گنہگار ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو پھر یہ کیسے کہا جارہا ہے کہ کسب معاش دین کا مطالبہ نہیں؟ تو جناب اصول یہ ہے کہ جس واجب کی ادائیگی کے لئے کسی شے کا حصول لازم ہو وہ شے بھی لازم ہوتی ہے اور یہ بات استخراجی منطق سے واقف ہر شخص جانتا ہے، یہی معمولی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
چلیں آپ کی آسانی کے لئے آپ کی زبان میں گفتگو کئے لیتے ہیں۔ آپ حضرات کے یہاں جس شے کی طرف عقل و فطرت کے محکم اصول راہنمائی کریں وہ دین کے بنیادی اساسیات ہیں، اسی وجہ سے تو ان امور میں آپ حضرات وحی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ کم از کم اصلاحی و غامدی صاحبان تو فطرت کے ان حقائق کو دین کا اولین ماخذ مانتے ہیں (اگرچہ وہ انہیں شریعت کا حصہ نہیں مانتے اور اس کی وجہ انکے خیال میں یہ ہے کہ شریعت کی یہاں ضرورت ہی نہیں تھی، مگر انکی خلاف ورزی کرنے والے کو وہ شریعت کی خلاف ورزی سے بھی زیادہ سخت سمجھتے ہیں)۔ تو جناب آپ حضرات کی زبان میں یوں کہا جائے گا کہ کسب معاش وغیرہ تو امت کے حق میں وحی میں بیان شدہ فرائض سے بھی زیادہ قطعی اور واضح فرض ہے۔
ایک اہم فرق : بدیہی بطور “فطرت کے حقائق اور “واجب کا مقدمہ”
مناسب محسوس ہوتا ہے کہ لفظ لازمی یا بدیہی (self evident) کے اصول فقہ اور جدید دینی سکالرز کے تصور کا فرق واضح کردیا جائے۔ کسی شے کے بدیہی ہونے کا ایک معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دلیل میں کسی معلوم مقدمے (premise) سے اخذ ہونے والا ایک لازمی نتیجہ (conclusion) ہے۔ بدیہی کا یہ تصور اپنی وضع میں منطقی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے بدیہی دعوی استخراجی دلیل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بدیہی کا ایک تصور یہ ہے کہ ایک شے از خود اس قدر واضح ہے کہ اسے ثابت کرنے کے لئے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس معنی میں بدیہی دعوی کسی دلیل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا مقدمہ بننے کا مدعی ہوتا ہے۔ بدیہی کا یہ تصور منطقی نہیں بلکہ ماقبل منطق ہے۔
فقہاء بہت سے ایسے “نتائج” کو لازم قرار دیتے ہیں جو یا تو “دین کے ثابت شدہ احکامات” کا نتیجہ ہوں اور یا پھر ان پر عمل کے لئے لازم ہوں (مثلا خود کشی سے بچنے کے لئے کھانا یا ستر کے لئے لباس کا معاملہ)۔ فقہاء اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ “ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب” (یعنی جس شے کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے)۔
اس کے مقابلے میں جدید سکالرز جن بہت سی چیزوں کو بدیہی کہتے ہیں وہ درج بالا معنی میں بدیہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں “فطری حقائق” فرض کر کے بدیہی مانا جارہا ہوتا ہے۔ یعنی یہ حضرات ان امور کو شرع سے ماوراء و ماقبل نیز “دلیل کے مقدمے” کی حیثیت میں بدیہی مانتے ہیں نہ کہ دین کے ثابت شدہ احکامات کے نتیجے یا لوازمات کے طور پر۔ ان حضرات کا مفروضہ یہ ہے کہ چند حقائق کی اخلاقی و لازمی حیثیت کا علم شرع کے بغیر بھی معلوم کرنا ممکن ہے نیز ان کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ پوزیشن نہ صرف یہ کہ نہایت کمزور بنیادوں پر قائم ہے بلکہ یہ خطرناک بھی ہے اور جس کے لوازمات کا جدید سکالرز کو علم بھی نہیں (اسی غلط مفروضے کی وجہ سے یہ حضرات بہت سے شرعی احکامات کو شریعت سے ماوراء فرض کرلیتے ہیں حالانکہ اصلا وہ دینی معاملات ہوتے ہیں)۔
بدیہی کے اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو جدید سکالرز کی بہت سی غلط فہمیوں کو سمجھنا آسان ہوجائے گا نیز فقہاء کے احکامات اخذ کرنے کا فریم ورک بھی سمجھ آسکے گا۔ چنانچہ ہم جب کہتے ہیں کہ “خلافت ناگزیر ہے” تو وہ دوسرے نہیں بلکہ پہلے معنی میں کہتے ہیں اور اس معنی میں یہ ایک خالصتا دینی چیز ہے، یعنی ثابت شدہ احکامات کا لازمی نتیجہ۔