آج کا سب سے زیادہ فیشن ایبل سیاسی نظریہ سیکولر جمہوریت ہے، اس وقت دنیا میں یہ کہا اور سمجھا جارہا ہے کہ دنیا کے مختلف نظاموں کے تجربات کرنے کے بعد آخر میں میں سیکولر جمہوریت ہی سب سے بہتر نظام حکومت ہے۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اب اس سے بہتر نظام حکومت وجود میں نہیں آسکتا۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کی وزارت خارجہ کے ایک بڑے افسر کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام “The End of the History and the Last Man” ’’تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی‘‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو ارتقاء ہوتا رہا ہے اس کے بعد اب تاریخ اپنی انتہا پر جا پہنچی ہے۔ سیکولر جمہوریت دریافت کرنے کے بعد لبرل جمہوریت تیار کرنے کے بعد اب کوئی اچھا نظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ باقائدہ اسی طرح کی پیش گوئی ہے جیسے کسی زمانے میں کارل مارکس کہا کرتا تھا کہ اشتراکی نظام ہی دنیا کا آخری نظام ہے اور اس کے بعد کوئی اور بہتر نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ اسی طرح سیکولر جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بھی یہ بات کہی جارہی ہے۔ بالخصوص روس کی سوویت یونے کے سقوط کے بعد یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ سیاست میں سیکولر جمہوریت اور معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام کو عملا ایسی فتح حاصل ہوگئی ہے کہ اب کوئی دوسرا نظام اس کی ہم سری نہیں کرسکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نظام جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے یہ کس قدر پختہ او رمعقول نظام ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے تحت ایسے اصول دنیا میں پھیلے جنہوں نے بحیثیت مجموعی فرد کی آزادی کو فائدہ پہنچایا اس سے پہلے مطلق العنان حکومتیں اور بادشاہتیں تھیں یا ڈکٹیٹر شپ تھی، ان میں جو جبر تشدد ہوتا تھا یا فرد پر جونارواپابندیاں عائد ہوتی تھیں، اس نظام میں ان کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا اور یہ بھی درست ہے کہ لوگوں ک یاظہار رائے پر جو قدغن تھی وہ جمہوریت نے دور کی اور مطلق االعنان بادشاہوں میں جو گھٹن کی فضا پائی جاتی تھی اس کو جمہوریت نے بڑی حد تک رفع کیا، لیکن اگر اس کے بنیادی تصور کے لحاظ سے دیکھئے تو یہ نظام در حقیقت کسی سنجیدہ فکر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں کے ان نظاموں کا رد عمل ہے جو خود ساختہ تصورات کے تحت لوگوں پر جابرانہ حکومت کررہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ یورپ کی تاریخ کے بیشتر حصے میں مطلق العنان بادشاہتیں رہیں، اگر کہیں مذہب کا درمیان میں ذکر آیا یا مذہب کو بنیاد بنایا گیا بھی تو تھیوکریسی کی ان خرابیوں کے ساتھ سلطنت روما کی تھیوکریسی میں درحقیقت کوئی روحانی بنیاد موجود نہیں تھی محض پوپ کے ذاتی تصورات کو معصوم قرار دے کر ان کو مذہبی حکمت کے طور پر نفاذ کیا جاتا تھا اور اس سے لوگوں کے حقوق پا مال ہوتے تھے۔ اس کا رد عمل ے ہوا کہ جمہوریت والوں نے مذہب کا جوا بالکل اتا رپھینکا، اور تصور یہ قائم ہوا کہ حاکمیت اعلیٰ خود عوام کو حاصل ہے۔
جمہوریت در اصل انگریزی لفظ ڈیموکریسی (Democracy) کا ترجمہ ہے۔ جس کے معنی ہیں عوام کی حاکمیت۔ اس طرح نظریہ یہ وجود میں آیا کہ عوام خود حاکم ہیں۔ پھر عوام کے خود حاکم ہونے کے تصور کوسیکولرازم کے ساتھ وابستہ کرنا پڑا جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے معاملات میں کسی دین اور مذہب کی پابندی نہیں ہے۔ مذہب انسانوں کا ذاتی معاملہ ہے جو ان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے، لیکن سرکار کے معاملات سے اس کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ کیونکہ عوام جب خود حاکم ہیں، اور کسی دوسری اتھارٹی کے پابند نہیں ہیں تو اس کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ وہ حکومت کے معاملات میں کسی الٰہی قانون کے بھی پابند نہیں بلکہ وہ خود فیصلہ کریں گے کہ کیا چیز اچھی اور کیا چیز بُری ہے؟ لہٰذا آزاد جمہوریت یا لبرل ڈیموکریسی سیکولرازم کے بغیر نہیں چل سکتی۔ حاکمیت کے معنی خود علم سیاست کے ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص کا کسی دوسرے کا پابند ہوئے بغیر خود اپنی مرضی سے حاکمانہ اختیارات استعمال کرنا یا دوسرے پر احکام جاری کرنا۔ خود علم سیاست کی رو سے یہ حاکمیت کے معنی قرار دیتے جاتے ہیں۔ لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ عوام حاکم ہیں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی دوسری اتھارٹی کے پابند نہیں ہیں حالانکہ عوام کی اکثریت اپنے بنائے ہوئے نمائندوں کی اتھارٹی کے پابند ہوتے ہیں، پھر وہ حاکمیت کہاں رہی؟ دوسرے عوام کو بے مہار طریقے پر حاکم ماننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ اس جمہوری حکومت کا مقصد کیا ہے؟ یہ کس مقصد کے تحت وجود میں لائی جائیگی؟
اس سوال پر علم سیاست کے ماہرین نے گفتگو کی ہے کہ جمہوریت کا کیا مقصد ہے؟ جب کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آیا تو کسی نے عاجز آکر کہا کہ حکومت بذات خود مقصد ہے۔ یہ ایک تھیوری ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ اس حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوشی فراہم کرنا ہے، اور عوام جو کچھ بھی احکام جاری کریں گے خوشی فراہم کرنے کیلئے کریں گے۔ لیکن خوشی تو ایک اضافی چیز ہے، ایک شخص کو ایک کام میں خوشی ہوتی ہے اور دوسرے شخص کو دوسرے کام میں خوشی ہوتی ہے، اب کون سی خوشی کو مقدم رکھا جائے؟ اس کا کوئی اطمینان بخش خواب سوائے اس کے نہیں ہے کہ جس کام میں اکثریت کو خوشی حاصل ہو وہی خوشی برحق ہے لیکن سارے عوام کو تو خوشی حاصل نہ ہوئی، اس کے علاوہ اگر عوام کی اکثریت کو کسی بداخلاقی میں خوشی حاصل ہوجائے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس بد اخلاقی کا رواج بھی جمہوریت کے مقاصد میں شامل ہوگیا۔آخری تھیوری جو سب سے زیادہ مقبول سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کا مقصد ہے عوام کے حقوق کا تحفظ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے جن حقوق کا تحفظ مقصود ہے وہ حقوق کون متعین کرے گا؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ بھی خود عوام ہی کرینگے۔ لیکن عوام کا حال یہ ہے کہ وہ آج ایک چیز کو حق قرار دیتے ہیں اور کل اس کے حق ہونے سے منکر ہوجاتے ہیں اس لئے حقوق کا کوئی مطلق یا دائمی تصور موجود نہیں ہے بلکہ حقوق سارے کے سارے اضافی ہیں۔بہرحال! جمہوریت مبینہ مقاصد میں کہیں بھی آپ یہ نہیں پائیں گے کہ خیر کو پھیلایا جائے گا اور شرکو روکا جائے گا اچھائی کو فروغ دیا جائے گا اور برائی کو روکا جائے گا یہ اس لئے نہیں کہتے کہ اول تو اچھائی اور بُرائی کا کوئی اَبدی دائمی معیار ان کے پاس نہیں ہے کہ فلاں چیز اچھی اور فلاں چیز بُری ہے۔ بلکہ اب تازہ ترین فلسفہ یہ ہے کہ خیر اور شر کوئی چیز نہیں ہے دنیا میں ساری چیزی اضافی ہیں، ایک زمانے میں ایک چیز خیر ہے اور دوسرے زمانے میں وہ شر ہے ایک زمانے میں ایک چیز شر ہے اور دوسرے زمانے میں وہ خیر ہے، اور ایک ملک میں خیر ہے دوسرے ملک میں شر ہے ایک ماحول میں خیر ہے اور دوسرے ماحول میں شر ہے یہ اضافی چیزیں ہیں ان کا کوئی اپنا حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ خیر و شر کے پیمانے ماحول کے زیر اثر متعین ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ جب سیکولر جمہوریت کا رواج ہوا ہے اسی وقت سے مغرب میں اخلاقی بے راہ روی جنسی بے راہ روی کا طوفان اٹھا ہے کیونکہ جمہوریت نہ کسی اخلاقی قدر کی یا پابند ہے نہ کسی آسمانی ہدایت سے فیض یاب ہے، بلکہ عوام کی اپنی مرضی اور خواہش پرسارا دارومدار ہے ۔
جمہوریت میں خیر و شر کا تعین :
حال ہی میں برطانیہ کی پارلیمنٹ نے جنس پرستی کو سندِ جواز دی، اور اس کے جواز کا قانون تالیوں کی گونج میں منظور کیا اور اس کے بعد یورپ کے بعض ممالک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جارہا ہے، جس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں یہ بل پیش ہوا تو سب لوگ تو اسکے حامی نہیں تھے اختلاف رائے موجود تھا، اس اختلاف رائے کو دور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی اس کمیٹی کو “Wolfendern Committee” کہا جاتا ہے۔ وہ کمیٹی اس لئے بنائی گئی تھی کہ وہ اس معاملے میں رائے عامہ کااندازہ لگائے اور جو مفکرین اور دانشور ہیں، ان سے تبادلہ خیال کرے اور بالآخر یہ رپورٹ پیش کرے کہ ایوان رائے عامہ کا جائزہ لینے کے بعد اور تمام متعلقہ حلقوں سے گفتگو کرنے کے بعد کس نتیجے پر پہنچے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ بڑی عبرت ناک ہے۔ اس رپورٹ میں کمیٹی نے جو باتیں کہی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستی ایک بُرائی ہے لیکن ہماری دشواری یہ ہے کہ ہم نے اپنے پروگرام کو اچھائی یا بُرائی پر تعمیر نہیں کیا ہے بلکہ اس بنیاد پر تعمیر کیا ہے کہ افراد اپنے لئے قانون طے کرنے کے لئے آزاد ہیں اور جب ہم نے یہ اصول تسلیم کرلیا تو قانون کا دائرہ کار اخلاق کے دائرہ کار سے بالکل الگ ہوگیا ہے قانون اور چیز ہے اور اخلاق اور چیز ہے اخلاق انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور قانون رائے عامہ کا مظہر ہے۔
لہٰذا جب تک معاشرے میں کوئی ایسی کوشش نہیں کی جو بد اخلاقی یا گناہ کو جرم کے مساوی قرار دے دے، تو اخلاق اور قانون کا دائرہ کار الگ رہے گا اور یہ قانو ن کاکام نہیں ہے کہ وہ خیر اور شر کا فیصلہ کرے کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بُری ہے لہٰذا ہم اس قانون کی حمایت میں رائے دینے پر مجور ہیں جب رائے عامہ اس کے جواز کی طرف جاری ہے تو ہم اس پر یہ رائے دیں گے کہ یہ قانون بنادیا جائے۔ چنانچہ اس کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر برطانیہ کے دارالعوام نے یہ فیصلہ کردیا کہ ہم جنس پرستی قانوناً جائز ہے اور جب برطانیہ پر یہ قانو ن بنایا تو امریکہ نے بھی بنایا اور اب یورپ ار امریکہ میں ان کی باقاعدہ جماعتیں قائم ہیں جن کو ہم جن پرست کہتے ہیں برسرعام یہ لوگ اپنے آپ کو Gay کہتے ہیں اس کے لفظی معنی ہیں مگن، یعنی خوشی میں مگن، ان کی جماعتیں ہیں اور ان کی تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے وہ اس نقطہ نظر کا پرچار کرتے ہیں، نہ صرف پرچار کرتے ہیں مرد gay کہلاتے ہیں او رعورتیں Lesbian کہلاتی ہیں۔
ایک اور تنظیم چلی ہے جو Swap Union کہلاتی ہے، اس کے معینی تبادلہ ہے اور اس سے مراد بیویوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس کے کلب قائم ہیں، چونکہ ابھی تک یہ قانون نافذ ہے کہ غیر شادی شدہ عورت کو اجازت ہے کہ وہ جوچاہے کرے لیکن ایک شادی شدہ عورت کسی دوسرے مرد کے ساتھ زنا نہیں کرسکتی کیونکہ اس سے شوہر کا حق پامال ہوتا ہے لیکن Swap union کی تنظیم کی طرف سے اب یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ یہ پابندی ختم ہونی چاہئے اب شادی شدہ عورت کو بھی اجازت ملنی چاہئے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں لوگوں کی اکثریت یا کم از کم بہت بڑی تعداد غیر ثابت النسب ہے، بعض ریاستوں کے اعداد وشمار شائع ہوچکے ہیں، اور بعض کے نہیں ہوئے ہیں، ابھی کچھ عرصے قبل “Time” رسالے میں ایک مضمون آیا تھا کہ امریکہ میں غیر ثابت النسب افراد کی تعدا بڑھتی جارہی ہے افسوس اس بات کا نہیں تھا کہ یہ کیسی قوم پیدا ہورہی ہے جو ثابت النسب نہیں ہے اس بات پر اخلاقی اعتبار سے کوئی تشویش نہیں تھی، تشویش صرف یہ تھی کہ جو بچے غیر ثابت النسب ہوئے ہیں، ان کا معاشی طور پر دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ارو اس سے معاشی مسائل پیدا ہورہے ہیں، معاشی مسائل کی وجہ سے وہ یہ مسئلہ قابل غور تھا، فی نفسہ غیر اخلاقی ہونے کی وجہ نہیں، اور اب عورتوں نے یہ مطالبہ شروع کردیا ہے اور بعض ریاستوں میں منظوری بھی ہوگئی ہے کہ اسقاط حمل کی قانونی اجازت ہونی چاہیے اور اس کے حق میں بہت بڑی قضا بن رہی ہے جس رفتار سے یہ بات چل رہی ہے اس سے اندازہ یہی ہے کہ اسقاط حمل کی اجازت ہوجائیگی،
ایک زمانہ تھا کہ عریانی قانوناً منع تھی۔ لیکن اب رفتہ رفتہ ساری قیدیں ختم ہوگئی ہیں، اب کوئی قید برقرار نہیں ہے اس وقت عریاں فلموں اور تصاویر کا جو سیلاب ہے وہ ہمارے ملک میں بھی آرہا ہے اٹھتا وہاں سے ہے اور پہنچتا یہاں بھی ہے اس کے اوپر کوئی روک عائد نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بناء پر روکا جائے کیونکہ جب عوام کی حاکمیت ٹھہری اور وہ اس کو پسند کرتے ہیں تو اسے ناجائز کہنے کی کویء معقول دلیل نہیں ہے غرض کوئی بد سے بدتر کام ایسا نہیں ہے جو جمہوریت کے سائے میں جائز قرار نہ دیا جارہا ہو اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے یعنی خاندان کے جو رشتے ختم ہوچکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے طور پر ایڈز کی بیماری مسلط کردی ہے یہ بیماری پیدا کیسے ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ بیماری دو چیزوں سے پیدا ہوئی ہے ایک ہم جنس پرستی دوسرے ایک شخص کا کئی عورتوں سے یا ایک عورت کا کئی مردوں سے جنسی تعلق قائم کرنا۔ لیکن بیماری کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ فحاشی میں اور اضافہ ہوگیا اس لئے کہ ایڈز کی بیماری کو روکنے کے لئے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ناجائز جنسی تعلق قائم نہ کرو، لہٰذا یہ کہتے ہیں کہ ان حفاظتی تدابیر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو اور ان تدابیر کے لئے باقاعدہ تعلیمی کورس منعقد ہوتے ہیں، ٹیلی ویژن پر عملی تربیت دی جاتی ہے اور کوئی تعلیم گاہ ایسی نہیں ہے جس میں جنسی تعلیم کا انتظام نہ کیا گیا ہو، بات کہتے ہوئے بھی ایک حجاب معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت حال بتانے کے لئے عرض کردیتا ہوں کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہاں غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے ہیں وہاں ایڈز کی روک تھام کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے غسل خانے میں وہ خود کار مشینیں لگائی ہوئی ہیں جن کے اندر پیسے ڈال کر کنڈوم نکل آتا ہے تاکہ بوقت ضرورت ہر آدمی وہ کنڈوم استعمال کرسکے، اس طرح جو بیماری درحقیقت اس جنسی بے راہروی سے پیدا ہوئی تھی اس کی روک تھام کی جو تدابیر اختیار کی گئیں ان سے جنسی بے راہ روی کو اور فروغ ملا، غرض کوئی اخلاقی قدر سالم نہیں رہی اور کمال کی بات یہ ہے کہ جو انتہائی حیرت ناک اور عبرت ناک بھی ہے کہ جس معاشرے میں زنا ارو بدکاری اتنی سستی ارو آسان ہے ، کسی بھی عورت کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، برسر عام طوائفوں کا سلسلہ بے روک ٹوک جاری ہے، بعض ملکوں میں قانوناً عصمت فروشی کی اجازت ہے، عصمت فروشی کی باقاعدہ کمپنیاں بنی ہوئی ہیں اس کے باوجود امریکہ میں زنا بالجبر کے جتنے واقعات ہوتے ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ہوتے، جہاں رضا مندی کے ساتھ یہ عمل کرنا اتنا آسن ہے، وہاں زنا بالجبر کی شرح تمام دنیا سے زیادہ ہے، تعداد ازواج منع ہے، جسے ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ ایک سے زیادہ شادی کرلیں تو قید ہوجائیں، اور دس فحاش عورتوں کے ساتھ تعلق قائم کرلیں تو اجازت ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ سارا نتیجہ عوام کی بے لگام حاکمیت کے اس تصور کا ہے جو سیکولر جمہوریت نے پیدا کیا ہے۔
عوام کی حاکمیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ درحقیقت یہ لفظ بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اس لفظ کے ذریعے عوام کو خوش کردیا گیا ہے کہ تم حاکم بن گئے لیکن حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ حکومت میں عوام کی شرکت محض ایک تخیلاتی اور تصوراتی حیثیت رکھتی ہے، عملاً اکثر جگہوں پر عوام کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ حکومت کیا کررہی ہے؟ اس لئے جو لوگ جمہوریت کے حامی ہیں، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب عوام میں تعلیم کا معیار بلندہو، ان میں سیاسی شعور ہو، اور وہ اپنے لئے بہترحکمرانوں اور بہتر نظام کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، لیکن اگر تعلیم کا معیار گرا ہوا ہے تواس وقت عوام کی حکومت میں شرکت حقیقت میں نہیں ہوتی بلکہ لیڈران کو گمراہ کرتے ہیں جو نعرہ لیڈروں نے لگادیا اس پر چل پڑے، لہٰذا جن ملکوں میں تعلیم کا معیار بلند ہے، وہاں پر جمہوریت نسبتاً زیادہ مستحکم ہے اور جن ملکوں میں تعلیم کا معیار گرا ہوا ہے وہاں جمہوریت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے مثلاً ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے اور پارلیمانی نظام کا اصل تصور یہ ہے کہ پہلے منشور کی بنیاد پر پارٹیاں بنیں، ان پارٹیوں کے منشور کی بنیاد پر لوگ ان کو ووٹ دیں اور ووٹ دینے کے نتیجے میں جو پارٹی اکثریت میں آجائے وہ حکومت بنائے، اب ہمارے ہاں خواندگی کی شرح تو بمشکل 22 فیصد ہے اور آبادی کے اضافے کی وجہ سے بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے زیادہ تر آبادی دیہاتی اور ان پڑھ ہے، ان اُن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ پہلے وہ سیاسی جماعتوں کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ کریں کہ پیپلز پارٹی کا منشور کیا اور مسلم لیگ کا منشور کیا ہے؟ اور ان منشوروں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے ملک کے حالات میں کونسا منشور زیادہ بہتر ہے؟ اور اس فیصلے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو یا مسلم لیگ کو ووٹ دیں، ظاہر ہے کہ ناخواندہ عوام سے یہ مطالبہ کرنا حماقت ہی کہلا سکتا ہے۔ لہٰذا عملاً اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ لیڈ رایک نعرہ دے گا جس میں ہزار فریب ہونگے اور اس نعرے کی بنیاد پر عوام کے جذبات کو بھڑکا کر ان کا ووٹ اپنے حق میں استعمال کرے گا۔
پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو صحیح معنی میں سیاسی ذوق رکھتے ہوں اور اس سیاسی ذوق کے مطابق دیکھ بھال کر سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہوں۔ چنانچہ جہاں جہاں انتخابات ہوتے ہیں ان میں اگر اوسط نکالا جائے تو 45 فیصد سے زیادہ لوگ ووٹ نہیں ڈالتے۔
اب آپ دیکھئے کہ اس معاشرے میں جہاں تعلیم کا اوسط 100 فیصد کے قریب ہے، وہاں سیاسی دلچسپی کا یہ حال ہے لہٰذا حقیقی معنی میں عوام یا ان کی اکثریت کے حکومت میں شریک ہونے کا دعویٰ ایک تخیلاتی دعویٰ ہے جس کاعمل میں کوئی وجود نہیں ہے۔ پھر لٹریسی ریٹ کا ہائی ہونا بھی اس بات کی گارنٹی نہیں کہ ملک و قوم کے لیے ایک بہتر شخصیت کا انتخاب ہوگا امریکہ میں ٹرمپ کے صدر بننے کی مثال سب کے سامنے ہے
استفادہ تحریر: اسلام اور جدید سیاسی نظریات از مفتی تقی عثمانی