۔
پچھلی کئی ایک صدیاں یہاں __ زوال کے کئی دیگر مظاہر کی طرح __ معاشرے کے اندر عورت کا کردار نہ صرف فراموش کیا گیا بلکہ متعدد انتظامات بالاہتمام ایسے عمل میں لائے گئے کہ معاشرے کے اندر ایک صحت مند انداز میں عورت کا نہ تو کوئی “دینی” کردار رہے اور نہ “دنیاوی”۔ الا ماشاءاللہ۔ یہاں تک کہ صنفِ نسواں کی بابت اس انداز میں سوچنا گویا “عقائد” کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے!
پس یہ ضروری ہے کہ عقیدہ کی ایک اصیل دعوت اس انداز کے معاشرتی رویوں کے معاملے میں اپنا ایک جداگانہ تاثر بنائے.. اور ایسا ہم بوجوہ ضروری سمجھتے ہیں۔
بیشتر مساجد ہمارے بر صغیر میں اس بات کی روادار نہیں کہ عورت جمعہ و جماعت کے اندر کبھی شریک تک ہو اور دین کی روز مرہ سرگرمیاں جس کا مرکز “مسجد” ہی کو ہونا چاہیئے، اور جو کہ سنت سے ثابت اور واضح ہے، اس میں صنف ِ نسواں کو بھی افادہ و استفادہ کا _ حدودِ شریعت کے اندر رہتے ہوئے _ موقعہ حاصل ہو۔ ’فتنہ پھیل جانے‘ کی دلیل ایسی زبر دست حجت رہی کہ صدیوں “عورت” یہاں “مسجد” کی شکل نہ دیکھ پائی اور یہ بات ہرگز کوئی ’’فتنہ‘‘ نہ جانی گئی!
جبکہ نہ صرف یہ کہ اپنے یہاں پائی جانے والی یہ صورت سلف سے ماخوذ نہیں در اصل “عورت” کے کردار کو __ دوسری طرف __ عین ہماری ان صدیوں میں ہی ہماری مدِمقابل اقوام کے اندر آخری حد تک لے کر جایا گیا جو اگر بنیادی طور پر “تخریب” کےلیے تھا، اور بلا شبہہ تخریب کےلیے تھا، تو اس کے بالمقابل ہمارے یہاں “تعمیر” کےلیے اس کو آخری حد تک لے جایا جانا ضروری تھا.. اور عورت کے ایک زور دار دینی و سماجی کردار کی ایک درست مگر بھر پور تصویر پیش کی جانا ہم سے مطلوب تھا۔ تاکہ “تہذیبوں کے اس ٹکراؤ” میں برابر کی چوٹ ہوتی اور “عورت” کے حوالے سے مغرب نے اور یہاں اس کے لاؤڈ سپیکروں نے جو گمراہ کن انداز اپنایا اس کے مقابلے میں پس یہ ضروری ہے کہ عقیدہ کی ایک اصیل دعوت اس انداز کے معاشرتی رویوں کے معاملے میں اپنا ایک جداگانہ تاثر بنائے.. اور ایسا ہم بوجوہ ضروری سمجھتے ہیں۔
بیشتر مساجد ہمارے بر صغیر میں اس بات کی روادار نہیں کہ عورت جمعہ و جماعت کے اندر کبھی شریک تک ہو اور دین کی روز مرہ سرگرمیاں جس کا مرکز “مسجد” ہی کو ہونا چاہیئے، اور جو کہ سنت سے ثابت اور واضح ہے، اس میں صنف ِ نسواں کو بھی افادہ و استفادہ کا _ حدودِ شریعت کے اندر رہتے ہوئے _ موقعہ حاصل ہو۔ ’فتنہ پھیل جانے‘ کی دلیل ایسی زبر دست حجت رہی کہ صدیوں “عورت” یہاں “مسجد” کی شکل نہ دیکھ پائی اور یہ بات ہرگز کوئی ’’فتنہ‘‘ نہ جانی گئی!
جبکہ نہ صرف یہ کہ اپنے یہاں پائی جانے والی یہ صورت سلف سے ماخوذ نہیں در اصل “عورت” کے کردار کو __ دوسری طرف __ عین ہماری ان صدیوں میں ہی ہماری مدِمقابل اقوام کے اندر آخری حد تک لے کر جایا گیا جو اگر بنیادی طور پر “تخریب” کےلیے تھا، اور بلا شبہہ تخریب کےلیے تھا، تو اس کے بالمقابل ہمارے یہاں “تعمیر” کےلیے اس کو آخری حد تک لے جایا جانا ضروری تھا.. اور عورت کے ایک زور دار دینی و سماجی کردار کی ایک درست مگر بھر پور تصویر پیش کی جانا ہم سے مطلوب تھا۔ تاکہ “تہذیبوں کے اس ٹکراؤ” میں برابر کی چوٹ ہوتی اور “عورت” کے حوالے سے مغرب نے اور یہاں اس کے لاؤڈ سپیکروں نے جو گمراہ کن انداز اپنایا اس کے مقابلے میں ہماری “عورت” فکری اور تہذیبی اور معاشرتی فاعلیت کے اس مقام پر ہوتی کہ “عورت کے حقوق” پر اسلام کا مقدمہ آج کی اس جدید جاہلیت کے خلاف ہماری جانب سے بڑی حد تک وہ خود لڑتی۔ مگر ایسا بہت کم ہو پایا۔
مغرب کے اسلامی مراکز کے اندر ایک “عصری” اسلامی عمل کا جو ایک واقعہ بڑی محدود سی سطح پر سہی ہماری اس صدی میں سامنے آیا ہے، کئی ایک خطرناک غلطیوں اور تجاوزات کو اس سے منہا کرتے ہوئے، وہ یقیناً دیکھے اور پڑھے جانے کے لائق ہے۔ خصوصاً اسلام کی عصری تہذیبی جہتوں کے حوالے سے اور ان میں بطورِ خاص اسلامی ماحول کے اندر اور اسلام کے اجتماعی و معاشرتی عمل میں عورت کا تعمیری حصہ۔
ہمارے بر صغیر کے اطراف و اکناف میں البتہ عورت کا معاشرے کے اندر ایک مؤثر “دینی کردار” رکھنے کی کسی ایک انداز سے حوصلہ شکنی ضروری جانی گئی __ اِس کو باقاعدہ “دین” کا تقاضا جانتے ہوئے __ تو “دنیوی کردار” کے معاملہ میں کسی دوسرے انداز سے اس کو معطل کر کے رکھا جانا۔ الا ما شاءاللہ۔ یہاں تک کہ ایک خاص ٹھیٹ اندازِ دینداری کی اس کو باقاعدہ پہچان اور علامت بھی بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ اگر آج کوئی دین سے شدید تمسک کی بات کرے تو اس کو خودبخود اسی سوچ کا حامل سمجھا جائے!
بلکہ بوجوہ اسے ایک ایسا رخنہ بنا کر چھوڑ دیا گیا جسے پُر کرنے کو یہاں کے بےدین اور لادین ہی رہ جائیں!
بلا شبہہ عورت کے دینی و دنیوی کردار کے موضوع پر اسلام اپنی خاص متعین “حدود” رکھتا ہے اور پھر اپنی خاص متعین “ترجیحات”۔ مرد و زن کا آزادانہ گھلنا ملنا اسلامی معاشروں کے اندر ممنوع ہی رہنا ہے۔ “پردہ” کا ادارہ مضبوط ہی کیا جانا ہے۔ محکمۂ جنگلات کی اوور-سیری یا نہروں کی کھدائی کی انجنیئری ایسی نوکریاں بھی مسلمان عورت کی ضرورت ہیں اور نہ مرد و زن کی مساوات کو مغربی انداز میں حماقت بننے دینے کی یہاں ایسی کوئی گنجائش۔ مگر وہ بہت سے دینی و معاشرتی احاطے جہاں ہمیں “نساءٌ مؤمنات” کا کردار پھر سے زندہ کرنا ہے.. آئندہ کی وہ سماجی تبدیلی جو کہ ان شاءاللہ اسلام کے نقشے پر ہونے والی ہے اُس کا یہ ایک اہم حصہ ہوگی۔
(’’موحد تحریک‘‘ از شیخ حامد کمال الدین کی فصل ’’الحنیفیۃ السمحۃ‘‘ سے اقتباس)