۔
مرد عورت سے ایک درجہ افضل ہے، یہ کیا بات ہوئی بابا؟
میری فیمنسٹ بیٹی نے انتہائی افسوس سے مجھے مخاطب کیا۔
کیا ہوا؟ میں نے جان بوجھ کر پوچھا، حالانکہ میں جانتا تھا آج پھر اسکی اپنے کلاس فیلوز سے بحث ہوئی ہوگی۔
بابا! اب وہ مذہبی حوالے دیں گے تو میں کیا کروں؟
اچھا آؤ بیٹھو کچھ بات کرتے ہیں۔ ۔ ۔
یہ بتاؤ، آپ کی کلاس میں کتنے بچے ہیں؟
تیس کے قریب ہونگے بابا۔
اوکے، اب ان تیس میں سے کچھ ایسے ہونگے، جو دن رات پڑھ کر بھی اچھے گریڈز نہیں لے سکے ہونگے؟ ہیں ناں؟
ہاں بابا، مگر اس بات کا ۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے بولی۔
بیٹا، پہلے میری بات تو پوری کر دو ، میں نے التجا کی۔
اچھا، ۔ ۔۔ وہ گہرا سانس لے کر بولی ، ہیں کچھ بچے جو بیچارے پڑھتے تو بہت ہیں مگر انکے گریڈز کم آتے ہیں۔
کیوں، کبھی تم نے سوچا، ایسا کیوں ہے؟
ظاہر ہے بابا، انکا آئی کیو لیول کم ہے ۔ ۔ انکا دماغ اتنا تیز نہیں ہے۔ ۔ انکی میموری اتنی اچھی نہیں ہے۔ کئی فیکٹرز ہیں۔
اور تمہارے وہ فیکٹرز اچھے ہیں؟ ہیں ناں؟
ہاں تو ؟ وہ کنفیوز سا مسکرائی۔
تو بیٹا، یہ ان ایکویلٹی کس نے بنائی؟ آپ کو ذہین بنا دیا، انکو ڈمب کر دیا؟
وہ تو ۔ ۔ ۔ وہ تو ۔ ۔ وہ گڑبڑانے لگی، ذہین ہے اس لیے سمجھ گئی کہ باپ کس طرف کو لے جا رہا ہے۔
اچھا، آپ نے اس کو ناانصافی کیوں نہیں سمجھا؟ کہ خدا آپ کو تو اچھا آئی کیو دے دے، اور کئی اور کو برا آئی کیو؟
بابا ! ، اس نے تنگ آنے والے انداز میں کہا، آپ میری ہیلپ نہیں کر رہے ۔
اچھا، اب ایک اور مثال لو، آپ کی کلاس میں کئی لڑکیاں ہیں جنکے چہرے پر دانے نکل رہے ہیں۔ ہیں ناں؟ آپ ہی نے بتایا تھا باقی بچیاں آپ کی صاف اسکن پر بڑی جیلس ہوتی ہیں؟
جی بابا، وہ سر جھکا کر ناخن کھانے لگی۔
تو آپ کو یہ اسکن تو وراثت میں ملی، آپ کا کوئی کمال نہیں، پھر آپ نے اسکو ناانصافی کیوں نہیں سمجھا؟ ان بچیوں کے حق میں جن کو ایسے مسائل ہیں؟
وہ اب خاموش تھی، اس لیے نہیں کہ میرا کوئی رعب تھا، میرے ساتھ ایسی بحث سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ باپ بیٹی کا رشتہ اپنی جگہ، اسکو اپنا فیمنزم زندہ رکھنے اور پریکٹس کرنے کی آزادی ہے، اور اس پر بات کرنے کی بھی۔
وہ خاموشی سے سوچ رہی تھی، مجھے پتہ تھا وہ قائل نہیں ہوگی۔
آپ کی ایک سہیلی کو ایک سیریس بیماری ہے، آپ نے بتایا تھا؟
جی۔
اور وہ مسلسل ہسپتال اور اسکول کے درمیان زندگی گذار رہی ہے؟
جی۔
تو کیا کبھی آپ کے دل میں خیال آیا کہ وہ کیوں؟
بابا، آپ میری سیدھی بات کا جواب تو دے نہیں رہے کہ خدا نے مرد کو ایک درجہ زیادہ کیوں دیا؟ اور ادھر ادھر کی مثالیں دیے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ وہ اب باقاعدہ خفا ہو رہی تھی۔
دیکھو بیٹا، اس دنیا میں بہت سی نابرابری ہے۔ تقسیم ہے۔ وہ انصاف پر مبنی ہے یا نہیں، یہ تو مجھے آپ کو بنانے والا جانتا ہے۔
مگر اگر آپ سمجھتی ہو کہ بحیثیت انسان خالق نے آپ سے کچھ زیادتی کی ہے تو آپ کو اپنی حیثیت اور نعمتوں کا حساب و شمار کرنے کے بعد اس خالق سے ضرور سوال کرنا چاہیے ۔
اب اگر آپ حساب لگاؤ، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ اس دنیا کی نوے فیصد آبادی سے کئی درجے افضل ہو۔ دنیا کے سات ارب لوگوں مٰیں سے پونے دو ارب لوگ گھر کے بغیر رہتے ہیں، آپ ان سے افضل ہو گھر کے لحاظ سے۔
اسی دنیا میں ساڑھے اٹھائیس کروڑ لوگوں کی آنکھیں نہیں ہیں، دیکھنے کے لحاظ سے آپ ان سے افضل ہو۔
انیس کروڑ لوگ جو معذور ہیں، آپ ان سے کئی درجے افضل ہو، معذوری کے لحاظ سے۔
اور اگر آپ کے پاس اپنا گھر ہے، اور آپ غریب نہیں ہو تو دنیا کے تین ارب لوگوں سے آپ ایک درجہ افضل ہو، وسائل کے لحاظ سے، جینے کے لحاظ سے، غربت کے لحاظ سے۔
اور اگر آپ کے پاس، گھر، گاڑی، اور اچھا کاروبار ہے تو آپ دنیا کے پونے سات ارب سے ایک درجہ افضل ہو۔
تو بیٹا! میرے کہنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ اگر خالق کی کتاب میں کسی طبقے کو ایک درجہ افضل کہا گیا ہے تو اس پر اعتراض کرنے سے پہلے اسی خالق کے دیے گئے باقی درجوں میں نابرابری کو بھی جان لو کہ اس نے آپ کو کن کن درجوں میں رکھا ہے۔ پھر ناانصافی کا اعتراض کر لینا۔ ۔ ۔ مگر یہ میرے خیال میں زیادتی ہوگی کہ آپ ایک مخصوص بات کو لے کر تو ناانصافی پر اپنے خالق سے مایوسی کا اظہار کرو، ۔ ۔ ۔ اور دیگر دس باتوں میں جہاں اس نے آپ کو باقیوں پر فضیلت دی ہے، وہ چپ چاپ، اپنا حق سمجھ کر رکھ لو۔ ۔ ۔ کیا سمجھیں ؟
بابا!، وہ ناں ۔ ۔ ۔ میرے ٹیوٹر کے آنے کا وقت ہو گیا ہے، میں جاؤں ؟
محمودفیاض