اسلام کی صنفی تھیوری (Gender Theory) اور مسائل کا حل – خلاصہ

۔

٭اسلام کی صنفی تھیوری (Gender Theory) کیا ہے؟ کیا اسلام تخلیقی، دنیاوی وآخرت کے حوالے سے عورت کو مرد سے کمتر مخلوق گردانتا ہے؟
مرد اپنی فطرت میں خداوند کی حکمت کے موافق جس زور بازو کو لے کر پیدا کیا گیا ہے، ظاہر ہے وہ قوتِ بازو عورت کو عطا نہیں کیا گیا۔ مرد کے کاندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ اس کی اس فطری بخشش کردہ قدرت کے پیش نظر ڈالی گئیں، جبکہ عورت کی نزاکت کے پیش نظر اس کو اس کی صنف کے مطابق کام کاج کا ذمہ دار ٹھہرایاگیا۔ اس امتیاز کو ناانصافی کی ٹوکری میں ڈال کر مذکورہ امتیازی خصوصیات کی اس تقسیم کو ظلم ٹھہرانا فطرت کے خلاف جنگ ہے اور فطرت کے خلاف جنگ میں تاریخ شاہد ہے کہ فطرت کو ہی جیت ہوتی ہے۔ فطرت نے جو خصلت اور صفت دے کر کسی شخص کو اس سر زمین پر وجود عطا کیا ہے، اس خصلت کو بدلنا پہاڑ کو اپنے مقام اور محل وقوع سے ہٹانے سے بھی زیادہ مشکل ہے، بالفاظ دیگر یہ محال الوجود کو وجود بخشنے کی سعی ہے، جس میں کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔
تخلیق کی کمزوری کا مطلب یہ نہیں کہ عورت مرد سے کمتر ہے، سوسائٹی میں اس کی عزت نہیں کی جائے گی، بلکہ تخلیق کی کمزوری اور نزاکت ہی تو وہ دلچسپ پہلو ہے، جس کے نتیجہ میں وجودِ زن سے کائنات کو رنگ بخشا گیا ہے۔ مرد کی فطرت میں جنسی کشش کا میلان نزاکت ہی کی طرف گرتا ہے اور عورت کی نزاکت اور کمزوری کا جنسی میلان قوت اور طاقت کی طرف گرتا ہے اور اس طرح سارے عالم کی اکائیوں میں پیدا کردہ اس ازدواج سے ایک حسین کائنات کو وجود ملتاہے اور ساری رنگینی اس حسین امتزاج کی گود میں سمٹ کر ماتھا ٹیک دیتی ہے۔
زرگر کا کام نزاکت کا خواہاں ہے، وہاں سنگ تراش کا کام نہیں، اسی طرح زرگر سنگ تراشی نہیں کرسکتا۔ یہاں عدم مساوات کا نعرہ لگاکر کوئی ہوش مند یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ زرگر کے حقوق میں کوتاہی برتی جارہی ہے۔
کاشتکار کو ہل جوتنے کے لئے خوب طاقت اور ہمت کی ضرورت ہے، جبکہ موتیوں کی مالابنانے کے لئے ذہنی کاوش چاہیئے۔ کوئی عقلمند یہ کہہ کر زبان طعن دراز کرے کہ موتیوں کی مالا جڑنے والوں کو کاشتکاری کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، ظاہر ہے دونوں کی معاشرہ کو ضرورت ہے۔ کاشتکار ہل جوت کر گندم اور خوراک فراہم کرے گا، تب ہی تو زرگر کا کشیدہ کردہ زیور اور موتیوں کی مالا اس کے گھر کی زینت بن سکے گی۔
بعینہٖ اسی طرح عورت کا معاشرہ کی تشکیل میں اسی قدر حصہ ہے، جس قدر مرد کا ہے۔ مرد کی طاقت ہے تو یہ طاقت اپنے اپنے موقع کے لئے ضروری ہے، عورت میں فطری نزاکت اور خلقی کمزوری ہے تو وہ اپنے دائرۂ کار میں مفید بلکہ ناگزیر ہے، البتہ دنیوی اور اخروی اعتبار سے حقوق کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مرد کو عورتوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اور عورت پر مردوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔ قصاص میں عورت مرد برابر ہیں، جنگ کے موقع پر کسی کو سیاسی پناہ دینے میں عورت مرد برابر ہیں، اعمال صالحہ کے کرنے اور اس پر ملنے والے ثواب وجزاء میں دونوں برابر ہیں۔ اس برابری کے بعد اگر مردوں کو فطری برتری کسی درجہ میں حاصل ہے تو اس کو ظلم کے بجائے عین انصاف کہا جانا چاہئے، اس برتری کے بے جا استعمال پر شریعت نے مرد کو سخت مجرم بھی ٹھہرایا ہے، آخر یہ پہلو کیوں مہمل رہ جاتا ہے یا مہمل کردیا جاتا ہے؟
اسلام جو نظام حیات پیش کرتا ہے، اس میں کسی فطری اور خلقی جذبہ کے ازالہ (بالکلیہ ناپیدکرنے) کے بجائے اس فطری جذبہ اور خمیرۂ انسان میں رچے بسے ہوئے خصائل اور عادات کو اس کی درست سمت اور جہت کی طرف موڑ دیا ہے۔خواہشاتِ انسانی کی تکمیل کے لئے مرد وزن کو جب بغیر نکاح کے ناپاک ملاپ سے منع کردیا اور اس پر وعیدات وارد کردیں تو ان خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح کا پاکیزہ اور صاف ستھرا رشتہ بطور نعمت مرحمت کردیا، تاکہ کسی کو اپنی بے راہ روی اور آوارگی کے جواز کے لئے ناحق ہتھیار نہ مل جائے۔ مرد وزن کے باہمی پاکیزہ رشتہ نکاح کو سنوارنے کے لئے ہرایک کے لئے کچھ فرائض مقرر کردیے اور جو فرائض مرد کے اوپر لازم ہیں، وہ ا س کی بیوی کے حقوق ہیں اور جو فرائض عورت کے اوپر لازم ہیں، وہ اس کے شوہر کے حقوق ہیں، اگر ہرایک اپنے فرائض کو صحیح طور پر بجالائے تو آج گھروں کے سارے جھگڑے ہی ختم ہوجائیں، اپنے فرائض میں کوتاہی ہی سے دوسرے کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور بدمزگی کی فضا پیدا ہوکر خاندان کو تباہ کردیتی ہے۔ قرآن کریم نے مرد وعورت، ہر دو کے حقوق کو ایک جامع انداز میں صرف ایک سطر میں اس طرح سمودیا کہ فصاحت وبلاغت کی ساری رعنائیاں بیک وقت سمٹ کر اس اجمال میں جھلکنے لگتی ہیں:وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ :ترجمہ:۔’’اور عورتوں کا بھی حق ہے، جیساکہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق۔
٭مغربی تصورِ صنفی انصاف (Gender Justice)اور اسلامی تصور صنفی انصاف کا مختصر تقابلی جائزہ :
جس طرح حقوق کو دبانے سے ایک شدت اور جذبات کی کیفیت ابھرتی ہے اور نرم خوئی ، تشدد پسندی کی جانب بڑھتی ہے، اسی طرح حقوق میں حدود کی رعایت رکھے بغیر آزادی سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں، وہ آج کی مغربی تہذیب کے آئینے میں عیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مغرب نے عورت کو ایک ناپاک حیوان کی حیثیت دے رکھی تھی، انہیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر لب کشائی کی جرأت کو قومی جرم سمجھا جاتا تھا۔ یونان وانگلستان کی تاریخ میں گذرے ادوار عورتوں کے معاشرتی کردارکا تاریک زمانہ ہے۔ پھر جدید زمانہ آیا ، تہذیبِ نو کی تجدید کے علمبرداروں نے عورتوں کی مساوات کے لئے یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ عورت کو مرد بنادیا جائے اور مردوں کے وظائف بھی عورتوں کو دے دیے جائیں ۔
اسلام نے جو جاہلیت کے ظلم کو ختم کیا، اس میں عورت کو کسی دوسری جنس کے قالب میں پگھلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسکو عورت ہی رہنے دیتے ہوئے اسے اسکے فطری حقوق دیے گئے ۔ اورعورت کی فطری ضروریات کو فطری نوامیس کے مطابق پورا کرنے کی استعداد، ایمان والوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عورت کو کہیں ماں کے روپ میں دکھلاکر اس کی عزت واحترام کو جنت کے حصول کا آسان ذریعہ قرار دیاگیا اور کبھی بیٹی اور بہن دکھلاکر اس کی عصمت کی حفاظت کا ذمہ دار اس کے باپ اور بھائی کو قرار دیا۔ یہ اسلام کا وہ غیر معمولی پیمانۂ عدل ہے، جس میں افراط کی خوشنما رنگینیاں نہیں اور نہ ہی تفریط کی تاریکیاں ہیں۔ عورت کی فطری نزاکت کے پیش نظراسے صرف اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داری دے گئی ۔ مردوں کو معاش اور گھر سے باہر کے بندوبست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے آوٹ ڈور سختیوں ، پریشانیوں کی دھوپ سے محفوظ کردیاگیا ۔

٭یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں تعدادِ ازواج (Polygamy)قانونِ وراثت،عورت کی آدھی گواہی ، بیوی کو مارنے کی اجازت اور حجاب کے متعلق آیات نسوانی کمتری اور جنسی امتیاز کا نظام قائم کرتے ہیں۔ ایک اسلامی مفکر کے مطابق قرآن وہ واحد صحیفہٴ آسمانی ہے، جو ایک شادی (Monogamy)کی سفارش کرتا ہے اور عدل کے پیمانے کی سختی، اسی طرف اشارہ ہے۔

جنسی امتیاز کو جنسی کمتری سمجھ لینے والی اس غیر معقولی منطق کا کیا کیجئے ۔ مغربی تہذیب سے احساس کمتری میں اپنی سوچ کے مطابق اسلامی تہذیب کو بھی مغربی تہذیب سے ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کر نے والوں کو کون پوچھے کہ دو چیزوں میں فطرت نے امتیاز رکھا ہے تو اس سے کسی چیز کو کمتر اور برترقرار دینا کس معیار کے مطابق ہے؟ یہ تقسیم کس طرح عمل میں لائی گئی ہے؟
گل لالہ اور چنبیلی میں خصوصیات کے مختلف ہونے کی بناء پر چنبیلی کی قدر کو گھٹانا اور گل لالہ کی قدر کو بڑھانا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟حالانکہ چنبیلی کی بہت سی خصوصیات سے گل لالہ عاری ہے اور چنبیلی گل لالہ کی کئی خصوصیات پر رشک کرتی ہے، دونوں پھول ہیں اور دونوں کی قدر کے اپنے پیمانے ہیں، جس طرح گل لالہ چمن کی زینت میں حصہ رکھتا ہے، بعینہٖ اسی طرح چنبیلی کی خوشبو، گلزار کو مہکاتی ہے۔ عورت اور مرد میں خصوصیات کے فطری فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے لئے الگ الگ قوانین وضع کرنا کہاں کا ظلم ہے؟ اور کس طرح عورت کو کمتر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر عورت میں بعض مردانہ خصوصیات نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کمتر ہے تو مرد کا بعض زنانہ خصوصیات سے عاری ہونا اس بات کو مستلزم ہوگا کہ مرد بھی کمتر ہے۔ ہرایک کو الگ الگ فضیلت بخش دی گئی ہے۔
تعدد ازواج کی اگر شوہر کو کسی حکمت کیوجہ سے اجازت ہے تو کیا ظلم کی بھی اجازت ہے؟ اسلام شادی کے معاملہ میں آزاد مرد کو چار تک بیویاں بیک وقت عقد نکاح میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے اس کے ساتھ عدل کو مضبوط تھامنے کا حکم بھی دیتا ہے، نیز عدل کا مفہوم جب ہی واضح ہوسکتا ہے، جب ایک سے زائد بیویاں اس کے نکاح میں ہوں: عدل پر سختی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ مرد کے لئے ایک سے زائد شادی ممنوع اور حرام ہوگئی ہے۔ ہاں اگر معاشی مجبوریاں کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیتی ہوں، وہ معاملات میں طاقت کے باوجود عدل وانصاف نہ کرسکتا ہو تو پھر اس کو ایک ہی شادی کرنا مناسب ہوگا۔
قانون وراثت میں اگر عورت کو مرد سے ایک گنا کم حصہ ملتا ہے تو یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ عورت پر سوائے چند ناگزیر حالات کے خرچہ کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، اس کی ذمہ داری کبھی باپ اٹھاتا ہے، کبھی بھائی اور پھر شوہر اور آخر کار اولاد کو اٹھانی ہے۔
عورت کی آدھی گواہی سے عورت کی قدر ومنزلت گھٹانے کو کیا نسبت ہے؟ عورت کو ایسی جگہوں پر جانے سے بچا لیا گیا جہاں مرد بھی نہیں جانا چاہتے ، عدالتیں ، کچہریاں کے کام عورتوں سے نسبت نہیں رکھتے۔ اسے لوگوں کے لئے آلۂ کار بننے سے محفوظ کردیا گیا۔ عقلی طور پر اس حیا کی چادر کا تقاضا بھی یہی تھاکہ وہ قاضی کی مجلس میں کھل کر بولنے سے بھی اس ’’حیاء‘‘ کی پاکیزہ پوشاک کو اتارنے کے لئے تیار نہ ہو اور مخالفین سے ہیبت زدہ ہوکر گواہی سے ہی دستبردار ہوجائے اور حقوق تلف ہونے لگیں تو اس کی ہمت بڑھانے کے لئے اس کے ساتھ ایک عورت کا اضافہ کردینا کیا ظلم ہے؟
مرد کو اگر بیوی کومارنے کی اجازت ہے تو اس کے مراتب ودرجات کا مفہوم اور ان کی تشریح اس قدر ہے کہ اس کے پیش نظر اس حکم کو ظلم کہنے والے خود ظالم ہیں۔ یہ تو وہ مقام ہے جہاں مسئلہ خاندان کے ٹوٹنے ، بچوں کے دربدر ہونے کا درپیش ہے اور طلاق یا اس محدود جسمانی سز اکے علاو ہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ ۔
’’ پھر حجاب‘‘ کو کمتری کی دلیل بتلانا ۔ کسی شئ کی حفاظت کے لئے اس کو لوگوں سے چھپا کر رکھنا، یہ اس شئ کی عظمت کی دلیل ہے یا کمتری کی؟ کتاب کی جلد بندی کو آج تک کسی نے کتاب کی بے حرمتی نہیں کہا، گندم کے خوشوں پر چڑھے پردے کو کسی نے گندم کی کوتاہی شمار نہیں کیا، مغزیات کے خول میں بند ہونے کی بناء پر کسی نے ان کی قدر کو گھٹا ہوا نہیں پایا، پھر حجاب کو( جو کہ عورت کے قیمتی ہونے کی علامت ہے) اس کی کمتری کی دلیل کیوں اور کس منہ سے قرار دی جارہی ہے؟ اسلام عورت کے احترام اور عظمت کو گندی نگاہوں سے پوشیدہ کرنے میں مضمر سمجھتا ہے۔ ’’نمائشی عورت‘‘ کی طرح صرف جنسی جذبات کی تکمیل کے لئے بازار میں نکلنے کا اسلام ہرگز حامی نہیں اور اس طرح زرمبادلہ کی طرح استعمال کو عورت کی حقیقی قدر کو بے قیمت کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ اگر کسی کوڑھ مغز کو ’’حجاب‘‘ کی تہہ میں چھپی حیا اور پاکیزگی کی پوشاک بری لگتی ہو تو وہ اپنا سردھنتا رہے اور اپنی اس جہالت کے گن گاتا رہے، اہل عقل اور ہوشمند شخص کو ’’حجاب‘‘ کی خوبیوں پر کسی دلیل کی حاجت نہیں۔

٭کیا عورت کو شادی میں حق انتخاب حاصل ہے؟
عورت کو شادی میں انتخاب کا بہرحال حق حاصل ہے، عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن آوارگی کا اسلام نہ حامی ہے اور نہ اس کی اجازت فطرتِ سلیمہ پر مبنی عقل دے سکتی ہے۔

٭طلاق میں شوہر وبیوی (مطلقہ) کے کیا حقوق وذمہ داریاں ہیں اور اس ضمن میں اسلام نے طلاق کی اقسام کے پیش نظر کیا اصول مساوات وضع کیے ہیں؟ کیا قرآن مرد کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی مطلقہ بیوی کو متاعِ حیات دو؟ خاندان اسلامی معاشرے کا ستون ہے، جبکہ مرد اس کو طلاق بدعت کے ذریعے چشم زدن میں توڑ سکتا ہے۔ جبکہ عورت کو ظالم شوہر سے خلع حاصل کرنے کے لئے حق مہر ومال سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر کیا مرد کے حق طلاق کو بھی اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے کسی قانونی دائرہ کار میں لانا چاہئے؟
نکاح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے وہ عظیم نعمت ہے، جس کے ضمن میں اور کئی نعمتیں انسان کو بیک وقت حاصل ہوجاتی ہیں: اس نکاح کے ذریعہ توالد وتناسل کا مقصد حاصل ہوتا ہے اور فطرت کی پیدا کردہ انسانی خواہش کی تسکین کے لئے پاکیزہ راہ فراہم کی جاتی ہے۔ اس نکاح سے جہاں مرد گھریلو ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتا ہے ،وہاں عورت کو اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کا سامان بہم میسر آجاتا ہے اور آپس کے اس امدادِ باہمی اور تعاونِ جانبین سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود پاتا ہے۔
نکاح کے اس عظیم تحفہ کو ختم کرنے کا اختیار اگرچہ مرد کو حاصل ہے، تاہم طلاق کو ’’ابغض المباحات‘‘(مباح امور میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ) قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے صرف دوزندگیاں ہی نہیں، دو خاندان باہم دست وگریبان ہوجاتے ہیں اور سوسائٹی اعلیٰ اقدار سے پستی کی طرف جانے لگتی ہے، جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا، البتہ طبائع کے فطری اختلاف کی بناء پر اگر میاں بیوی کا آپس میں رہنا قطعاً دشوار ہو اور اس اختلاف کی وجہ سے جھگڑا اور فساد ہوتا رہے تو معاشرتی اور انسانی نجی زندگی کو ایسی بے اطمینانی کی کیفیت سے نکالنے کے لئے شریعت نے طلاق اور خلع کا آپشن رکھا ہے۔طلاق کے متعلق مرد کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس سنگین اور خطرناک اقدام کی طرف بڑھنے سے پہلے بہتری ، صلح کے آپشن رکھے گئے ہیں ، آخری درجہ میں جب سمجھانے کے طریقے ختم ہوجائیں اور نباہ بالکل مشکل ہوجائے تو ایسی پاکی کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی ہو، ایک طلاق دے کر عورت کو عدت گذارنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ ایک طلاق اس لئے تاکہ بعد ازاں اگر اللہ تعالیٰ موافقت پیدا کردیں تو پشیمان نہ ہونا پڑے اور بآسانی رجوع کیا جاسکے۔ اور پاکی کی حالت میں اس لئے تاکہ عورت کے لئے تین ماہواریاں جلد گذارنا آسان ہوجائیں، ورنہ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جاتی تو اس حیض کے گزارنے کے بعد علیحدہ تین حیض گذارنے پڑتے اور عدت لمبی ہوجاتی۔ عدت گذرجانے کے بعد عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
پھر مطلقہ بیوی کے لئے کچھ سامان، لباس، وغیرہ دینے کا حکم فرمایا گیا ہے، یہ پہناوے، اوڑھنے کا لباس اس لئے کہ عورت کو طلاق کے ذریعہ شوہر نے جو ایک وحشت میں مبتلا کردیا ہے، اس کا کچھ ازالہ ہوسکے اور بہرحال شوہر اور بیوی کے خاندانی ربط وتعلق پر کوئی اثر نہ پڑے، ورنہ دیکھا گیا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ طلاق کے بعد دو طرفہ خاندان منہ دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اسلام اس لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے مربوط ہوکر معاشرتی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ ’’طلاقِ بدعت‘‘ یعنی اوپر نیچے تین طلاقیں دینے کا اقدام، جہاں خود ایک سنگین معاملہ ہے، وہاں مرد کے لئے یہ اقدام گناہ بھی ہے، جس نے اس خطرناک معاملہ کو کھیل سمجھ کر کھیل دیا، دنیا میں بھی ایسا شخص معاشرتی ملامت اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اس اخلاقی شعور کا فقدان، جس کی بناء پر مرد اپنے اس اختیار کو غلط استعمال کرتا ہے، اسلامی تعلیمات اور احکام کا نقص نہیں، بلکہ اس اخلاقی شعور کے اپنے ضمیر میں اجاگر کرنے کے لئے درست روی اختیار نہ کرنا اور نہ کروانا ایک جرم ہے۔ اسلام نے ان اختیارات کو قانونی حدود مہیا کردی ہیں اور ان حدود کی پاسداری میں کسی طرف اعتراض کی مجال نہیں، لیکن جب ان حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو اسلام اگرچہ دنیوی اعتبار سے اس اختیار کو نافذ قرار دیتا ہے، لیکن اخروی سزا کا ضرور مستحق ٹھہراتا ہے ۔
اگر عورت اور مرد کے درمیان پیچیدگیاں بڑھ جائیں اور نباہ کی صورت بظاہر مشکل نظر آتی ہو تو خاندان کے بڑے افراد کے ذریعہ صلح صفائی کی کوشش اس ناہمواری کا اولین نسخہ ہے، جو شریعت نے ہمیں مرحمت فرمایا ہے۔ اگر شوہر ظلم کو روارکھے اور بیوی واقعۃً مظلوم ہو تو خلع کی صورت میں مرد کے لئے عورت سے مال یا حق مہر کی رقم لینا اخلاقی طور پر ہرگز مناسب نہیں، لیکن کیا کیجئے کہ غفلت میں شریعت کے یہ عادلانہ احکام پسِ پشت ڈال کر شریعت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
جہاں تک عدالتی پیچیدگیوں کی بات ہے تو یہ موجودہ عدالت کے دستور کا نقص ہے، نہ کہ شریعت کا۔ علمائے کرام ان عدالتی پیچیدگیوں اور انصاف کی بآسانی رسائی کے لئے کئی مرتبہ گشتی عدالتوں کے لئے حکومت سے درخواست کرچکے ہیں، لیکن یہ درخواست، نقار خانے میں طوطی کی پکار سے زیادہ وقعت حاصل نہ کر سکی۔

٭کیا اگر کوئی مسلمان چاہے تو بیٹی کے حالات کی تنگی کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اسے بیٹے کے برابر حصہ دے سکتا ہے؟ (وراثت موت کے بعد لاگوہوتی ہے
اگر زندگی میں باپ اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو چونکہ وراثت کا حکم موت کے بعد لاگو ہوتا ہے، اس لئے زندگی میں یہ تقسیمِ املاک عطیہ، ہبہ اور گفٹ ہے۔اپنی اولاد کے درمیان زندگی میں معاشرتی سلوک کے متعلق اسلامی ہدایت یہ ہے کہ ان میں مکمل برابری کی جائے، اگر کچھ دیا جائے تو برابر برابر دیا جائے، کسی کونقصان پہنچانے کے لئے کم اور کسی کو زیادہ دینا ، شرعی ہدایت کے مطابق جرم ہے۔
زندگی میں تقسیمِ املاک کا اصول یہ ہے کہ اس میں بیٹا اور بیٹی کے حصے میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہوگی، دونوں کو برابر برابر دینا واجب ہوگا، بلکہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو نقصان پہنچانے کی نیت کے بغیر کسی بیٹے یا بیٹی کی خانگی مجبوریوں کے پیش نظر یا اس کی دینی فضیلت کی بنا پر یا اس کے خدمت گذار ہونے کی وجہ سے زیادہ دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔ البتہ زندگی میں عطیہ کردہ املاک کے متعلق یہ ضروری ہے کہ اس مال واسباب سے اپنا مکمل مالکانہ تصرف ختم کردے اور اس طور پر مکمل اختیار دیدے کہ وہ جس طرح اس مال کو چاہے، جائز مصارف میں استعمال کرے۔ صرف نام کردینے سے کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، صرف نام کردینا قانونی اعتبار سے اگرچہ ملکیت کا سبب قرار دیا گیا ہے، لیکن شرعی اعتبار سے صرف نام کردینے کے بجائے مکمل مالکانہ تصرف دے کر ہی اس چیز کو اس کے بیٹے اور بیٹی کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔

٭آج پاکستان میں خواتین کو خاص طور پر دیہات میں یہ کہہ کر ان کی اسلامی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے کہ انہیں جہیز دیاگیا تھا؟ اس سلسلے میں علماء کرام خاص طور پر دیہاتی مساجد کے مولوی کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟۔ کیا اسلام میں وٹہ سٹہ (شغار شادی) اور قرآن سے شادی کی اجازت ہے؟
عورتوں کو وراثت سے محروم کردینا، یہ شرعی جرم ہے اور اس کی سزا دنیا وآخرت دونوں میں ملے گی ۔ حدیث شریف میں میراث کی تقسیم کو اس قدر ضروری قرار دیاگیا ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والے کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے اور اخلاقی وجذباتی طور پرمیراث کی شرعی تقسیم پر زور دیا گیا ہے۔ میراث کے معاشی اور اقتصادی کیا فوائد ہیں اور اس کی شرعی تقسیم سے کس قدر خوشحالی حاصل ہو سکتی ہے ؟ علماء معیشت اور ماہرین اقتصادیات کی نظروں سے ہرگز پوشیدہ نہیں، لہذا میراث کی تقسیم میں کوتاہی کرنا صرف افراد واشخاص کی حق تلفی نہیں ہوگی، بلکہ ایک گھناؤنا معاشرتی جرم ہوگا، جس کی پاداش میں ریاست کی اسلامی معاشی پالیسی پر بڑا اثر پڑسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کرام تحریر وتقریر کے ذریعہ اور جہاں بااختیار ہوں، وہاں عملی طور پر اس رسم بد کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور ریاست سے اپنے اختیارات بروئے کارلاکر اس رسمِ بد کو بدلنے کی درخواست پیش کرتے رہے ہیں۔
’’وٹہ سٹہ‘‘ کی شادی میں اگر دونوں طرف مہر پورے طور پر ادا کیا جائے تو جائز ہے۔تاہم چونکہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑے اور فساد کی وجہ سے نادرستی کا شکار رہتی ہیں، اس لئے اس طرح کی شادی سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہئے ۔ قرآن سے شادی ہرگز جائز نہیں، ایسے افراد اسلام کے ساتھ مذاق کرتے ہیں، ملکی قانون بھی اسکی اجازت نہیں دیتا ، ریاست کی طرف سے ان کو سخت تعزیری سزا دے کر اس جرم کا سدِّباب کیا جانا چاہئے۔

٭اسلام صنفی تشدد (غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، ونی سورہ (دیت میں عورت کو مقتول کے خاندان کے حوالے کرنا) عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، تیزاب پھینکنا، ناک کان کاٹنا، چھیڑنا اور آوازیں کسنا) کے متعلق کیا سخت رویہ اختیار کرتا ہے؟
سوال میں پیش کردہ رائج الوقت تمام صورتیں اسلامی تعلیمات اور احکام کے منافی ہیں، اگر عورت یا مرد بدکاری کا فعل کرتے ہیں ان پر حدود نافد ہوتی ہیں جنسی ہراسانی کی نوعیت کے مطابق تعزیری سزائیں ہیں ۔ ان پر عمل درآمد ریاستی ذمہ داری ہے، افراد کو اس ذمہ داری میں بے جا مداخلت کا حق نہیں۔ اسلامی حکومت کو چاہئے کہ ’’حدود اللہ‘‘ کے نفاذ میں کسی طرح کی نرمی سے باز رہے ۔
٭پاکستان میں عورتوں کی خاص طور پر اور غریبوں (مرد وعورت دونوں) کی زبوں حالی میں،(الف)جاگیردارانہ نظام، (ب)سرداری نظام، (ج)ہندوانہ رسم ورواج، (د)انگریزی استمراری نظام (Colonization)کا کیا حصہ ہے؟ (جسے آج اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے کا حصہ بنادیا گیاہے)
اسلام عدل وانصاف کا علمبردار ہے اور دنیا کے ہرگوشہ میں عدل وانصاف کی حکمرانی اور برتری کا خواستگار ہے، ظلم اور زیادتی کے خلاف (اسلامی احکام چاہے معاشرتی ہوں، معاشی ہوں، سماجی ہوں یا ثقافتی ہوں) اتنے مضبوط بند باندھتا ہے کہ ظلم کسی صورت انسانیت میں راہ نہ پاسکے، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب اسلام کے نام لیوا اس کے احکام کو صحیح صورت میں نافذ بھی کردیں۔ جاگیردارانہ نظام، سرداری نظام، استعماری نظام میں اصولی وفروعی مظالم کی روک تھام کے لئے قوانین طے کردیئے جائیں تو وہی اسلامی نظامِ عدل قائم ہوجائے گا۔ ظلم پر مبنی جن قوانین کو ان نظامہائے مروّجہ میں جگہ دی گئی ہے، اس نے ساری انسانیت کو جس میں غریب کے ساتھ ساتھ امراء واغنیاء کا طبقہ بھی ہے، کرب اور پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔ اگرچہ امراء کا طبقہ ظاہر بین نگاہوں میں ترقی پذیر اور آسودہ حال ہے، لیکن معاشرتی ناہمواری کا بلاواسطہ وہ بھی شکار ہیں، ایسی صورت میں ان خودساختہ ناانصافی پر مبنی قوانین میں ریاستی طور پر تبدیلی ناگزیر ہے، ورنہ ساری انسانیت اس ناپاک رو میں بہہ جائے گی۔
اسلام کا Socio-Humanitarian Ethical Framework(تمدنی انسانی حق وانصاف کا دائرہ کار) کیا ہے؟ اسلام کے تمدنی انصاف (Social Justice)کے پیش نظر پاکستان میں موجودہ رائج صنفی ناانصافی، جیسے کہ: لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح، بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ، خواتین کی زائد شرح اموات(بوجہ Negligence) خواتین کی بنیادی انسانی حقوق وضروریات میں پسماندگی جیسے کہ: تعلیمی ، سیاسی، معاشی، مذہبی پسماندگی کو دور کرنے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
انسانی حقوق کی ہمہ گیریت کے متعلق خطبۂ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ا کی طرف سے پیش کردہ ایک جامع جملہ ہی کافی ہے اوروہ یہ ہے کہ: کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سب برابر ہیں۔ فضیلت تقویٰ سے ہے اور تقویٰ کا فیصلہ آخرت میں ہوگا، لہذا دنیا میں جس طرح عربی کے حقوق کی پاسداری اسلام کا محکم حکم ہے، اسی طرح عجمی کے حقوق کی پاسداری بھی اسلام کا محکم حکم ہے۔ جس طرح مرد کے حقوق بجا لائے جائیں گے ،اسی طرح عورت کے حقوق میں کوتاہی جرم شمار ہوگا۔ عورتوں پر کچھ فرائض لاگو ہیں، وہی مردوں کے حقوق ہیں اور مردوں پر کچھ ذمہ داریاں ہیں، وہی عورتوں کے حقوق ہیں۔ ’’صنفی نا انصافی‘‘ جاہلیت کا مرض تھا، جس کو اسلام نے عورتوں کے حقوق بیان کرکے ختم فرمایا تھا۔ جاہلیت سے اپنی جہالت کی بناء پر غیر معمولی طور پر متاثر افراد نے وہی روش اختیار کر رکھی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی جاتی ہے، بیٹی کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے۔ یہ بعینہٖ جاہلیت کے امراض ہیں، جنہیں ختم کیا جانا اسلام کا عظیم ترین مقصد ہے۔ علماء کرام اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اورادا کررہے ہیں؟
جوابات بتغیر قلیل :محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف شعیب عالم محمد بلال بربری،متخصص فقہ اسلامی،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

(ہر اعتراض کے الگ سے تفصیلی جوابات کے لیے  کلک کیجیے)

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password